... loading ...
علامہ اقبال جنہیں مردِ کامل کہتے ہیں، وہ اُن میں سے ایک تھا ۔ شاید وہی ایک!اقبال ؒ سال ۱۹۲۹ء میں ایک روز شہید کی قبر پر حاضر ہوئے اور تین گھنٹے وہی رہے، جب باہر آئے تو شدتِ جذبات سے اُن کی آنکھیں سرخ تھیں۔ فرمایا:
’’ٹیپو کی عظمت کو تاریخ کبھی فراموش نہ کرسکے گی۔‘‘
تاریخ میں دائم وہ ایک لہکتے استعارے کی طرح زندہ رہے گا۔ جس نے زندگی جینے کا ہنر مرتے ہوئے بھی سکھایا۔ یہی عروجِ آدمِ خاکی تھا جس سے انجم سہمے جاتے ہیں۔ جب ٹوٹا ہوا تارہ مہ ِ کامل بنتا ہے۔ ٹیپو برصغیر کے ٹوٹے ہوئے تاروں میں سے ایک تھا جو مہ کامل بن کر اُبھرا ۔ انسانیت کے لئے چودہویں کا چاند بن کر چمکا۔اُس کی زندگی میں کہاں ممکن تھا کہ انگریز اپنا حقِ اقتدار برصغیر پر جتلاتے۔ تاریخ میں انگریز استعمار کے مقابل سب سے پہلی توانا آواز ٹیپو سلطان کی تھی کہ
’’ہندوستان ، ہندوستانیوں کے لئے ہے۔ ‘‘
انگریز جانتے تھے کہ ٹیپو کے اِ ن الفاظ کا مطلب کیا ہے؟ چنانچہ اُن کی زندگی میں وہ ہندوستان پر قبضے کا خواب لئے پھرتے رہے۔یہ شہید کی لاش تھی جس پر فرطِ مسرت سے جنرل ہارس اِٹھلایا تھا:
’’آج ہندوستان ہمارا ہے۔‘‘
شہید کی زندگی میں یہ ممکن نہ تھا، ممکن ہی نہ تھا۔تب ہی تو کلکتہ میں ہی انگریزوں نے جشن مسرت کا اہتمام نہ کیا تھا، بلکہ انگلستان بھر میں اس کی خوشیاں منائی گئی۔ کلکتہ کے انگریز منصفِ اعلیٰ (؟) سر جان اینس ٹروتھر کے الفاظ تاریخ نے محفوظ کر لئے:
’’ٹیپو کی طاقت ہی ہماری فوجوں کو شکست دینے کے لئے کافی تھی۔اس کے مرتے ہی ہندوستان میں ہمارا
قبضہ ہمیشہ کے لئے ہوگیا ‘‘
کیا ایک شخص کی زندگی تاریخ پر اتنا فرق ڈالتی ہے کہ پوری تاریخ اُس کے رحم وکرم پر ہو۔ زمانے کی پوری روح اس میں بولتی ہو، وقت کا پورا بہاؤ وہ تھامے رکھتا ہو؟افسوس اس شخص کا کبھی پورا مطالعہ نہیں کیا گیا جسے رہتی دنیا تک تاریخ کے رومان میں زندہ رہنا ہے۔ سلطان نے صرف اڑتالیس برس کی عمر پائی۔ اور سلطنت ِ میسور پر سترہ بر س حکمرانی کی۔اُنہیں سلطنت کی ذمہ داری ۷؍ دسمبر ۱۷۸۲ء کو حیدر علی کی موت کے بعد اُٹھانا پریں۔ اور وہ ۴؍ مئی ۱۷۹۹ء کو شہید کئے گئے۔ ان سترہ برسوں میں انگریز اُن سے مسلسل نبرد آزما رہے۔وہ ان جنگوں میں دادِ شجاعت دیتے دیتے سلطنت میسور کو ایک ریاستی آہنگ دینے میں مصروف رہے۔ چنانچہ وہ جنگ کی جاں لیوا مصروفیات میں بھی ملکی صنعت وحرفت پر توجہ دیتے رہے۔ سلطان سمجھتے تھے کہ اگر ہندوستان محتاج بنا تو پھر وہ غیر ملکیوں کی تحویل میں چلا جائے گا۔ جعلی شیروں کی پر فریب او ردست ِ نگر معیشت کا ڈھنڈورا پیٹنے والے نہیں جانتے کہ شیر میسور نے راز پالیا تھا کہ ’’محتاجوں کا اقتدارِ اعلیٰ بھی اُن کی معیشت کی طرح پرفریب ہوتا ہے۔ ‘‘ سلطان نے بین المذاہب ہی نہیں بین الاقوام ہم آہنگی کی بھی کوششیں کی ۔ مگر انگریز سلطان کو گوارا کرنے کے لئے تیار نہ تھے۔ وہ ہندوستان پر اپنے مکمل قبضے کے لئے سلطان کو رکاوٹ سمجھتے تھے۔ اگر تاریخ اس کردار کی حفاظت کرتی اور اُنہیں غداروں کا سامنا نہ کرنا پڑتا تو آج برصغیر کا دھار ا مختلف رخ پر بہہ رہا ہوتا۔ سلطان کی زندگی کو دیکھ کر یہ بات جتنے اعتماد سے ان کے لئے کہی جاسکتی ہے اور کسی کے لئے نہیں کہی جا سکتی۔
سلطان کا یوم وفات برصغیر کی مسلم تاریخ کا حقیقی روزِ ماتم ہے۔ ۴؍ مئی کو جب سلطان کو اطلاع ملی کہ شاہی توپ خانے کا سردار سید غفار شہید ہوگئے تو اُنہوں نے کہا :
’’مجاہد موت سے نہیں ڈرتے، سید غفار بھی کبھی موت سے نہیں ڈرا۔‘‘
پھر سچے مجاہد نے نوالہ وہیں چھوڑا اور کھڑے ہوگئے۔ تب سلطان نے غدار امرا ء ووزراء پر ایک نگاہ ڈالی اور کہا کہ
’’اس غداری کا نتیجہ تمہیں اس وقت معلوم ہوگا جب تم اور تمہاری آئندہ نسلیں اس ملک میں
محتاج اور ذلیل ہو کر ایک ایک دانہ چاول اور پیاز کی ایک ایک گھٹی کو ترسے گی۔‘‘
پھرمجاہد سلطان نے تلوار سنبھالی اور آگے بڑھ گئے۔ننگ ملت ، ننگِ دیں ، ننگ وطن میر صادق نے تب قلعے کا دروازہ بند کردیا کہ مبادا مجاہد سلطان واپس محفوظ قلعے کی طرف پلٹ نہ آئیں۔وہ ایک ہاتھ سے مجاہد سلطان کے آگے آداب بجا لاتا رہا اور دوسرے ہاتھ سے انگریزوں کو اشارے کرکے ایک ایک جگہہ اُن کے حوالے کرتا رہا۔سلطان کی شہادت کے بعد اُن کی تدفین کا منظر بھی تاریخ نے محفوظ رکھا ہے۔ بجلیوں کی کڑک اور بارش میں جب اُنہیں قبر میں اُتارا جارہا تھا تو مسلمان زاروقطار روتے رہے۔ اُن کے آنسو بارش کے صاف پانی میں ملتے رہے ،انگریز ابوالفتح ٹیپوسلطان کی شہادت پر اپنا سرفخر سے بلند کئے ہوئے تھے مگر تب وہ آنسو ایک تاریخی حقیقت کو ظاہر کرتے تھے کہ’’ اِس شیر کو ہم نے مارا ہے ، اِسے تم کہاں مارسکتے تھے۔ ‘‘مگر یہ آواز بجلی کی کڑک میں کہیں گم رہی ۔ آنسوؤ ں میں بھیگی بھیگی رہی۔
میر صادق کے اہداف کچھ اور رہے ہوں گے، مگر تب ہندو انگریزوں کا ساتھ اس لئے دے رہے تھے کہ وہ سلطنت کا خاتمہ کر کے یہاں ایک بار پھر ہندو راج کی راہ ہموار کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ ہندوؤ ں نے سلطان سے قبل حیدر علی کی موت سے بھی پہلے ۲۸؍ اکتوبر ۱۷۸۲ء کو میسور میں ہندوراج قائم کرنے کے لئے انگریزوں سے ایک تحریری معاہد ہ کیا تھا۔ ہندوراج کی دیرینہ خواہش میں تب وہ ہندو جو سلطنت میں حسنِ سلوک کے ساتھ اعلیٰ مناصب پر فائز کئے گئے، غداری کے مرتکب ہوئے۔ ایک طرف میر صادق ، معین الدین اور میر قاسم علی جیسے کردار تھے تو دوسری طرف پورنیا نامی مخلوق بھی تھی۔ یہ وہی صاحب ہیں جنہوں نے عین جنگ کے موقع پر سپاہیوں کو پیغام بھیجا کہ وہ آکر اپنی تنخواہیں لے لیں ۔ اس طرح سپاہیوں سے چوکیاں خالی کراکے انگریزوں کو تھما دی گئیں ۔ ہندوراج کی دیرینہ خواہش نے ان انتہا پسند ہندوؤں کو ہندوستان کے مفادات کے خلاف انگریزوں کا طفیلی بنا کررکھ دیا۔ مگر یہ انتہا پسند صرف مسلمانوں کے خلاف اپنی نفرت پالتے رہے۔
گزشتہ روز یوم ٹیپو سلطان پر جب کرناٹک میں سرکاری جشن منایا جارہا تھا تو ہندو انتہا پسند ایک بار پھر باہر نکلے۔ اور مسلمانوں کی ریلی پر حملہ کردیا۔ بی جے پی اور وشواہندو پریشد کے انتہا پسندوں نے ٹیپو سلطان کے یوم ولادت کو سرکاری طور پر منانے کی مخالفت کی مگر ریاست کے وزیراعلیٰ سدارامیا نے کہا کہ تاریخ میں ایسی کوئی شہادت نہیں ملتی کہ ٹیپو سلطان ہندوؤں کے مخالف تھے۔ اُنہوں نے اپنے پورے دورِ حکومت میں مندروں کی حفاظت کی۔ نریندر مودی کو شاید معلوم نہ ہو کہ جب سلطان شہید کی لاش کو اُٹھایا جارہا تھا تو اُن کے لئے جان دینے والوں میں ایک ہندو لڑکی بھی تھی۔ جو اُنہیں اپنی زندگی کا بہتر محافظ سمجھتی تھی۔
چودہویں کے اس چمکتے چاندکو ہماری نحوستوں کی تاریکیوں نے چاٹ لیا۔ اقبالؒ اُن کی قبر پر روئے تھے۔ تاریخ بھی اُن کے لئے دائم گریہ کرے گی۔
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...
کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...
[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...