... loading ...
زوال اور پست فکری کی سب سے برُی علامت یہ ہے کہ انسان اپنے حال کے بجائے ماضی کو بدلنے کی کوشش کرتا ہے۔ میاں نوازشریف اُن میں سے ایک ثابت ہوئے۔ نوازشریف کا فکری (؟) رتھ شاید تاریخ سے زیادہ تیز چلتا ہو۔شاید ان کی نفرت میں محبت سے زیادہ طاقت ہو۔ ہوسکتا ہے کہ دولت سے تیار کیا گیا ان کا سورج غروب نہ ہوتا ہو۔ مگر اقبال ایک مختلف حوالہ ہے۔ ایک مختلف سورج ۔ اپنے عشاق کے آسمانوں پر دائم چمکتا سورج ، جسے زوال نہیں۔
علامہ اقبالؒ نے وقت کے بہاؤ میں بہنے سے روکتے ہوئے تعلیم کیا تھا کہ
یہ دو مختلف انسانوں کا مسئلہ ہے۔ اس لئے دونوں کا طرزِ فکر کبھی یکساں نہیں ہو سکتا۔ یوم ِ اقبال کی تعطیل کو ختم کرنے کی مخالفت کوئی جذباتی مسئلہ نہیں ۔ ایک طرزِ فکر کا آئینہ دار ہے۔ اور اس تعطیل کو ختم کرنے والے بھی ایک فکری نمائندگی رکھتے ہیں ۔اب یہ تعین کرنے کا وقت آگیا کہ ذہنی اور قلبی طور پر کون کہاں کھڑا ہے؟ زمانے کے بندوں اور وقت کے بیٹوں کو وقت کے بہاؤ میں امریکی سپردگی کے ساتھ خوشحالی کے پرفریب جزیرے مبارک ہو!
وزیراعظم میاں نوازشریف وہی وزیراعظم ہیں جنہوں نے ۱۹۹۷ء میں جمعہ کی تعطیل ختم کی تھی۔ تب بھی اُن کے دستر خوانی قبیلے کے دانشوروں نے معیشت کے فروغ کا منجن بیچا تھا۔ منجن تو خوب بکا مگر معیشت فروغ نہ پاسکی۔ ہفتے میں گاہے دو اور اکثر تین دن رائیونڈ کے محل میں گزرانے والے میاں نوازشریف اب قومی تعطیلات کو قومی معیشت پر بوجھ قرار دیتے ہیں۔اُمید کی جانی چاہئے کہ اس نقطہ نظر کا اطلاق صرف یوم ِ اقبال تک محدود نہیں رہے گا بلکہ یہ باقی قومی تعطیلات پر بھی اثر انداز ہوگا۔ اور یوں قائدِ اعظم کے دن سے لے کر یومِ پاکستان تک اور ربیع الاول سے لے کر یوم عاشور تک کوئی چھٹی سلامت نہ رہے گی۔ اور قومی ترقی کے امکانات کو وسیع کرنے کے یہ سارے مواقع بھی خوب خوب استعمال کئے جائیں گے۔ مگر ایسا نہیں ہوگاکیونکہ لبرل ازم کی چھری صرف یومِ اقبال کی تعطیل پر ہی گرنی تھی۔ وزیراعظم میاں نوازشریف دورۂ امریکا سے جب لوٹے ہیں تو ایک ترتیب سے وہ کچھ اقدامات کے مرتکب ہوئے ہیں۔ وزیراعظم ہاؤس کی خصوصی ہدایت پر پیمرا نے حافظ سعید کی جماعت کی کسی بھی نوع کی خبرکو ذرائع ابلاغ پر نشر کرنے سے روک دیا۔ امریکا پاکستان اعلامئے میں خصوصی طور پر حقانی گروپ کے ساتھ حافظ سعید کی جماعت کا ذکر کیا گیا تھا۔ اطلاعات یہ بھی ہے کہ میاں نوازشریف اور اُن کی ٹیم حقانی گروپ کے حوالے سے بھی ایک ذہن بنا چکی ہے مگر اس راہ میں جو رکاوٹیں حائل ہیں اُس کاذکر قومی مفادات کے باعث مناسب نہیں۔ میاں نوازشریف کے لیے یہ ایک ٹیڑھی کھیر ہی ثابت ہوگا۔ یہ بھی امریکی یاترا کی برکت ہے کہ میاں نوازشریف کے میانِ لب ’’لبرل ازم‘‘ کا’’ ذکرِ خیر‘‘ رہنے لگا ہے۔ اور یہ لبرل ازم کے مذہب پر میاں نوازشریف کا اعتقاد ہی ہے کہ اُنہوں نے لبرل ازم کے سب سے بڑے ناقد علامہ اقبالؒ کے حوالے سے قومی تعطیل کو ختم کر دیا ہے۔ اگر علامہ اقبالؒ کے حوالے سے قومی تعطیل کے خاتمے کا مقصد کسی بھی طرح قومی معیشت سے وابستہ ہوتا تو وزیرِاعلیٰ پنجاب شہبازشریف کم از کم ۹؍ نومبر کو علامہ کے مرقد پر حسبِ معمول حاضری لگانے ضرور جاتے۔ لہذا کسی بھی ابہام کے بغیر امریکا میں ہم جو کچھ کر کے آئے، فکرِ اقبال کے آئینے میں اس کا چہرہ دیکھا جاسکتا ہے کہ
یہ غلامی کی لعنت کا سب سے منحوس گِرداب ہے کہ اپنے تابعِ مہمل اقدامات کی تائید سیاسی اور اقتصادی تناظر سے کرنے کی کوشش کی جائے۔یہ ذہن غلامی کی لعنت کا عطا کردہ ہے۔چنانچہ یومِ اقبال کی تعطیل کو ختم کرنے کا معاملہ بھی اقتصادی پسِ منظر سے مکروہ طور پر نتھی کر دیا گیا۔ مسلم تہذیب نے دوصدیوں میں جو عالی دماغ پیدا کئے ، اقبالؒ اُن میں سب سے چمکتے کردار تھے جنہوں نے غلامی کے اس طرزِ فکر سے نبردآزما ہونے کے لیے اعتمادِ ذات بھی فراہم کیا اور شعورِ ممکنات بھی دیا۔ اقتصادی اغراض سے لتھڑے اس طرزِ فکر کے خلاف علامہ کے مضامین سے ہی رہنمائی لیتے ہیں۔اقبالؒ فرماتے ہیں کہ
’’ہماری قومی سرگرمیوں کی متحرک اقتصادی اغراض ہی نہیں ہونی چاہئیں ۔ قوم کی وحدت کی بقا اور اس کی زندگی کا تسلسل، قومی آرزوؤں کا ایک ایسا نصب العین ہے جو فوری اغراض کی تکمیل کے مقابلے میں زیادہ اشرف وا علیٰ ہے۔۔‘‘
مہمل ہواؤں سے اقبال کے آتشِ اصیل کا شعلہ بجھانے والی مخلوق سنتی ہے یا نہیں ، اقبالؒ کیا فرماتے ہیں۔ یہ ایک مختلف انسان کے تقاضے ہیں۔جو مردہ زبان کے حروف سے بیان نہیں کئے گئے۔ مفلوج ہاتھوں سے حرفِ غلط کی طرح مٹائے گئے بے آبرو زندگی کے رائیگاں الفاظ کی قے سے میاں نوازشریف کے اس اقدام کی تائید ممکن ہے ۔ مگراس کے لئے ایک مختلف انسان درکار ہے۔ جس کے وجود کو لبرل ازم کی تاریکی نے مکروہ بنایا ہواور جس کی ولادت کا جشن مینڈکوں نے ٹرا ٹرا کر منایا ہو، اور جسے پہلی لوری تمسخر نے دی ہو۔ اقبال کا مردِ کامل ایک مختلف انسان ہے ۔ کسی دوسرے کی نہیں، اقبال کی فکر ہمارے تہذیبی مستقبل کا سراغ دیتی ہے۔
علامہ اقبالؒ اپنی قبر میں آسودہ اُترے، جو اﷲ کے نور سے دائم روشن رہے گی۔ وہی تھے، بخدا وہی تھے ، جنہوں نے لبرل ازم کے خلاف ایک عظیم مورچہ برپا کیا ،میاں نوازشریف نے اب اُن کے نام پر قومی تعطیل ختم کی ہے تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ یوم ِ اقبال ختم کرنے کا ترقی و خوشحالی سے کوئی نامیاتی رشتہ ہو یا نہ ہو، مگر اس کا لبرل ازم سے ایک تاریخی رشتہ ہے اور وہ ثابت شدہ ہے۔
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...
یہ آج سے تقریباً دو سو ٗ سوا دو سو سال قبل انیسویں صدی کے اواخر یا بیسویں صدی کے اوائل کی بات ہے کہ کشمیری برہمنوں کے ایک خاندان نے اسلام قبول کر لیا تھا جس کی وجہ سے اسی وقت سے اس خاندان میں تقویٰ و طہارت اور خشیت و للہیت کا رنگ غالب ہوگیا تھا۔اسلام قبول کرنے کے بعد کشمیری بر ہم...
کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...