وجود

... loading ...

وجود

اقبالؒ

بدھ 11 نومبر 2015 اقبالؒ

iqbal

زوال اور پست فکری کی سب سے برُی علامت یہ ہے کہ انسان اپنے حال کے بجائے ماضی کو بدلنے کی کوشش کرتا ہے۔ میاں نوازشریف اُن میں سے ایک ثابت ہوئے۔ نوازشریف کا فکری (؟) رتھ شاید تاریخ سے زیادہ تیز چلتا ہو۔شاید ان کی نفرت میں محبت سے زیادہ طاقت ہو۔ ہوسکتا ہے کہ دولت سے تیار کیا گیا ان کا سورج غروب نہ ہوتا ہو۔ مگر اقبال ایک مختلف حوالہ ہے۔ ایک مختلف سورج ۔ اپنے عشاق کے آسمانوں پر دائم چمکتا سورج ، جسے زوال نہیں۔

علامہ اقبالؒ نے وقت کے بہاؤ میں بہنے سے روکتے ہوئے تعلیم کیا تھا کہ

یہ بندگی خدائی ، وہ بندگی گدائی
یا بندۂ خدا بن ، یا بندۂ زمانہ

یہ دو مختلف انسانوں کا مسئلہ ہے۔ اس لئے دونوں کا طرزِ فکر کبھی یکساں نہیں ہو سکتا۔ یوم ِ اقبال کی تعطیل کو ختم کرنے کی مخالفت کوئی جذباتی مسئلہ نہیں ۔ ایک طرزِ فکر کا آئینہ دار ہے۔ اور اس تعطیل کو ختم کرنے والے بھی ایک فکری نمائندگی رکھتے ہیں ۔اب یہ تعین کرنے کا وقت آگیا کہ ذہنی اور قلبی طور پر کون کہاں کھڑا ہے؟ زمانے کے بندوں اور وقت کے بیٹوں کو وقت کے بہاؤ میں امریکی سپردگی کے ساتھ خوشحالی کے پرفریب جزیرے مبارک ہو!

مفلوج ہاتھوں سے حرفِ غلط کی طرح مٹائے گئے بے آبرو زندگی کے رائیگاں الفاظ کی قے سے میاں نوازشریف کےاس اقدام کی تائید ممکن ہے ۔ مگراس کے لئے ایک مختلف انسان درکار ہے۔ جس کے وجود کو لبرل ازم کی تاریکی نے مکروہ بنایا ہواور جس کی ولادت کا جشن مینڈکوں نے ٹرا ٹرا کر منایا ہو، اور جسے پہلی لوری تمسخر نے دی ہو

وزیراعظم میاں نوازشریف وہی وزیراعظم ہیں جنہوں نے ۱۹۹۷ء میں جمعہ کی تعطیل ختم کی تھی۔ تب بھی اُن کے دستر خوانی قبیلے کے دانشوروں نے معیشت کے فروغ کا منجن بیچا تھا۔ منجن تو خوب بکا مگر معیشت فروغ نہ پاسکی۔ ہفتے میں گاہے دو اور اکثر تین دن رائیونڈ کے محل میں گزرانے والے میاں نوازشریف اب قومی تعطیلات کو قومی معیشت پر بوجھ قرار دیتے ہیں۔اُمید کی جانی چاہئے کہ اس نقطہ نظر کا اطلاق صرف یوم ِ اقبال تک محدود نہیں رہے گا بلکہ یہ باقی قومی تعطیلات پر بھی اثر انداز ہوگا۔ اور یوں قائدِ اعظم کے دن سے لے کر یومِ پاکستان تک اور ربیع الاول سے لے کر یوم عاشور تک کوئی چھٹی سلامت نہ رہے گی۔ اور قومی ترقی کے امکانات کو وسیع کرنے کے یہ سارے مواقع بھی خوب خوب استعمال کئے جائیں گے۔ مگر ایسا نہیں ہوگاکیونکہ لبرل ازم کی چھری صرف یومِ اقبال کی تعطیل پر ہی گرنی تھی۔ وزیراعظم میاں نوازشریف دورۂ امریکا سے جب لوٹے ہیں تو ایک ترتیب سے وہ کچھ اقدامات کے مرتکب ہوئے ہیں۔ وزیراعظم ہاؤس کی خصوصی ہدایت پر پیمرا نے حافظ سعید کی جماعت کی کسی بھی نوع کی خبرکو ذرائع ابلاغ پر نشر کرنے سے روک دیا۔ امریکا پاکستان اعلامئے میں خصوصی طور پر حقانی گروپ کے ساتھ حافظ سعید کی جماعت کا ذکر کیا گیا تھا۔ اطلاعات یہ بھی ہے کہ میاں نوازشریف اور اُن کی ٹیم حقانی گروپ کے حوالے سے بھی ایک ذہن بنا چکی ہے مگر اس راہ میں جو رکاوٹیں حائل ہیں اُس کاذکر قومی مفادات کے باعث مناسب نہیں۔ میاں نوازشریف کے لیے یہ ایک ٹیڑھی کھیر ہی ثابت ہوگا۔ یہ بھی امریکی یاترا کی برکت ہے کہ میاں نوازشریف کے میانِ لب ’’لبرل ازم‘‘ کا’’ ذکرِ خیر‘‘ رہنے لگا ہے۔ اور یہ لبرل ازم کے مذہب پر میاں نوازشریف کا اعتقاد ہی ہے کہ اُنہوں نے لبرل ازم کے سب سے بڑے ناقد علامہ اقبالؒ کے حوالے سے قومی تعطیل کو ختم کر دیا ہے۔ اگر علامہ اقبالؒ کے حوالے سے قومی تعطیل کے خاتمے کا مقصد کسی بھی طرح قومی معیشت سے وابستہ ہوتا تو وزیرِاعلیٰ پنجاب شہبازشریف کم از کم ۹؍ نومبر کو علامہ کے مرقد پر حسبِ معمول حاضری لگانے ضرور جاتے۔ لہذا کسی بھی ابہام کے بغیر امریکا میں ہم جو کچھ کر کے آئے، فکرِ اقبال کے آئینے میں اس کا چہرہ دیکھا جاسکتا ہے کہ

یہ کافری تو نہیں ، کافری سے کم بھی نہیں
کہ مردِ حق ہو گرفتارِ حاضر و موجود

یہ غلامی کی لعنت کا سب سے منحوس گِرداب ہے کہ اپنے تابعِ مہمل اقدامات کی تائید سیاسی اور اقتصادی تناظر سے کرنے کی کوشش کی جائے۔یہ ذہن غلامی کی لعنت کا عطا کردہ ہے۔چنانچہ یومِ اقبال کی تعطیل کو ختم کرنے کا معاملہ بھی اقتصادی پسِ منظر سے مکروہ طور پر نتھی کر دیا گیا۔ مسلم تہذیب نے دوصدیوں میں جو عالی دماغ پیدا کئے ، اقبالؒ اُن میں سب سے چمکتے کردار تھے جنہوں نے غلامی کے اس طرزِ فکر سے نبردآزما ہونے کے لیے اعتمادِ ذات بھی فراہم کیا اور شعورِ ممکنات بھی دیا۔ اقتصادی اغراض سے لتھڑے اس طرزِ فکر کے خلاف علامہ کے مضامین سے ہی رہنمائی لیتے ہیں۔اقبالؒ فرماتے ہیں کہ

’’ہماری قومی سرگرمیوں کی متحرک اقتصادی اغراض ہی نہیں ہونی چاہئیں ۔ قوم کی وحدت کی بقا اور اس کی زندگی کا تسلسل، قومی آرزوؤں کا ایک ایسا نصب العین ہے جو فوری اغراض کی تکمیل کے مقابلے میں زیادہ اشرف وا علیٰ ہے۔۔‘‘

مہمل ہواؤں سے اقبال کے آتشِ اصیل کا شعلہ بجھانے والی مخلوق سنتی ہے یا نہیں ، اقبالؒ کیا فرماتے ہیں۔ یہ ایک مختلف انسان کے تقاضے ہیں۔جو مردہ زبان کے حروف سے بیان نہیں کئے گئے۔ مفلوج ہاتھوں سے حرفِ غلط کی طرح مٹائے گئے بے آبرو زندگی کے رائیگاں الفاظ کی قے سے میاں نوازشریف کے اس اقدام کی تائید ممکن ہے ۔ مگراس کے لئے ایک مختلف انسان درکار ہے۔ جس کے وجود کو لبرل ازم کی تاریکی نے مکروہ بنایا ہواور جس کی ولادت کا جشن مینڈکوں نے ٹرا ٹرا کر منایا ہو، اور جسے پہلی لوری تمسخر نے دی ہو۔ اقبال کا مردِ کامل ایک مختلف انسان ہے ۔ کسی دوسرے کی نہیں، اقبال کی فکر ہمارے تہذیبی مستقبل کا سراغ دیتی ہے۔

علامہ اقبالؒ اپنی قبر میں آسودہ اُترے، جو اﷲ کے نور سے دائم روشن رہے گی۔ وہی تھے، بخدا وہی تھے ، جنہوں نے لبرل ازم کے خلاف ایک عظیم مورچہ برپا کیا ،میاں نوازشریف نے اب اُن کے نام پر قومی تعطیل ختم کی ہے تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ یوم ِ اقبال ختم کرنے کا ترقی و خوشحالی سے کوئی نامیاتی رشتہ ہو یا نہ ہو، مگر اس کا لبرل ازم سے ایک تاریخی رشتہ ہے اور وہ ثابت شدہ ہے۔


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

رفیق اور فریق کون کہاں؟ وجود - منگل 23 اگست 2022

پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...

رفیق اور فریق کون کہاں؟

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں وجود - پیر 14 فروری 2022

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں

خطابت روح کا آئینہ ہے !
(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)
وجود - پیر 30 ستمبر 2019

کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...

خطابت روح کا آئینہ ہے ! <br>(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)

گفتار میں کردار میں اللہ کی بُرہان وجود - بدھ 09 نومبر 2016

یہ آج سے تقریباً دو سو ٗ سوا دو سو سال قبل انیسویں صدی کے اواخر یا بیسویں صدی کے اوائل کی بات ہے کہ کشمیری برہمنوں کے ایک خاندان نے اسلام قبول کر لیا تھا جس کی وجہ سے اسی وقت سے اس خاندان میں تقویٰ و طہارت اور خشیت و للہیت کا رنگ غالب ہوگیا تھا۔اسلام قبول کرنے کے بعد کشمیری بر ہم...

گفتار میں کردار میں اللہ کی بُرہان

خاتمہ وجود - جمعرات 29 ستمبر 2016

کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...

خاتمہ

مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر