وجود

... loading ...

وجود

لبرل پاکستان !

منگل 10 نومبر 2015 لبرل پاکستان !

اباما اہل خانہ کے ساتھ

اوباما اہل خانہ کے ساتھ

انگریزی کہاوت ہے کہ

“fools rush in where angels fear to tread”

(بے وقوف لوگ وہاں جا گھستے ہیں، جہاں فرشتے بھی قدم رکھنے سے گھبراتے ہیں)

مگریہ پھر بھی بے وقوف لوگ نہیں ۔ ہم پر ایک دباؤ یہ بھی ہے کہ میاں نوازشریف کو اب اس ملک کے سیاست دانوں میں نہیں مدّبروں میں شمار کیا جانے چاہئے! جی ہاں ! مدبر وزیراعظم کا یہ ارشاد اب اپنے کاندھوں پر ایک صلیب کی طرح اُٹھائے اُٹھائے پھرنا ہے کہ اس ملک کے عوام کا مستقبل لبرل پاکستان سے وابستہ ہے۔ معلوم نہیں مدبر کے کُنجِ دَہن سے پھوٹنے والی یہ مبارک اصطلاح اپنی تاریخ وتفہیم میں اُن کے نہاں خانۂ ذہن وقلب پر کیا وارداتیں کر چکی ہیں مگر اس اصطلاح کا بوجھ بہت بڑا ہے، اسے سیاست دان تو کجا مدّبر بھی اُٹھانے کی کم کم ہی جسارت کرتے ہیں۔

ادھورے دانشوروں ، ناپختہ تجزیہ کاروں کی طرح جب ہمارے سیاست دان لبرل ازم کی بات کرتے ہیں تو وہ اس کی علمیات اور مابعدالطبیعات(عقائد) سے کماحقہ آگاہ نہیں ہوتے۔ وہ اِسے ایک تاثراتی سطح پر رکھ کر دیکھتے ہیں۔ یا پھر مضبوط عالمی سیاسی نظام کی تحویل میں خود کو فدویانہ یا غلامانہ حیثیت میں خود ہی پہنچا کر دیکھتے ہیں۔ لبرل ازم کا انسان اپنا خدا بھی خود ہی ہے۔ وہ اپنی الوہیت کے اظہار کا آپ ہی ذمہ دار ہوتا ہے۔ جدیدیت اس نظام فکر کے تصورِ انسان ، تصورِ خیر اور تصور و محورِ حیات کو کسی بھی ’’دوسرے ‘‘کی چھیڑ چھاڑ سے مکمل آزاد اور ہر انسان کی اپنی کامل آزادی کے مرہونِ منت رکھتی ہے ۔ پھر یہ ’’دوسرا‘‘ چاہے خدا ہی کیوں نہ ہو۔ جدید علمیات کی رو سے یہ لبرل ازم ہے۔ سولہویں صدی میں اپنے آغاز سے انقلابِ فرانس میں اپنے فروغ کے بعد یہ آج کے مغرب پر اپنا غلبہ مکمل کر چکا ہے۔ اور امریکا کو اس عقیدے کی پرستش کا اصل مندر سمجھا جاتا ہے۔ اس بحث کو ابھی چھوڑ دیجیے کہ آج کا مغرب لبرل ازم کی وحشت سے بیزار ہوکر اس کی علمی وعملی بنیادوں کو اب کہاں کہاں سے چیلنج کر رہا ہے۔ یہاں تو صرف اس کے عملی نتائج کا ذکر کرنا مقصود ہے کہ ایک لبرل ملک کا عملی مطلب کیا ہوتا ہے؟

ایک لبرل ملک کے طور پر ذہنوں میں موجود آدرش امریکا میں کیا ہوتا ہے؟ کسی ملک کے لبرل ہونے کا مطلب ریاست کی سطح پر ایک ذمہ دار ی اور معیار سازی بھی ہے۔ جس کا اشارہ امریکی مورخ جیرڈ ڈائمند(Jared Diamond)نے اپنی اہم ترین کتاب
’’Collapse: How Societies Choose to Fail or Succeed‘‘ میں کیا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ لبرل امریکا میں ریاست ایک اوسط عمر جینے والے ہر امریکی پر پانچ ملین ڈالر خرچ کرتی ہے۔ میاں نوازشریف کا ممکنہ لبرل پاکستان چار ہزارروپے سالانہ بھی خرچ نہیں کرتا ۔ سرکاری کاغذوں میں موجود چند ہزار روپے بھی ان ہی سیاست دانوں اور مدبروں کی جیبوں میں کسی نہ کسی طرح چلے جاتے ہیں۔ میاں صاحب کے لبرل پاکستان میں ۳۶ فیصد افراد پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھاتے۔ زلزلے سے متاثرہ لوگوں کی تازہ تصویریں مدبر کے لبرل پاکستان کا نقشہ کھینچتی ہے جن کے پاس تن ڈھانپنے کے لیے پورے کپڑے تک نہیں۔ منصفِ اعلی نے سینیٹ سے اپنے حالیہ خطاب میں ارشاد کیا ہے کہ ۸۰ فیصد مقدمات کے فیصلے جرگوں میں طے ہوتے ہیں۔ اور بیس فیصد مقدمات عدالتوں میں آتے ہیں۔ مملکت کے اداروں پر عوام کے اعتما دکا یہ حال ہے۔

nwaz sharif

میاں نوازشریف نے عوام کا مستقبل جس لبرل پاکستان سے وابستہ کیا ہے۔ اس کی قیمت لبرل ملک کے طور پر پانچ ملین ڈالر ایک شہر ی پر خرچ کرنے والاامریکا پھر کیا ادا کرتا ہے؟ اس کا ایک جائزہ صورتِ حال کی اصل وضاحت کرتا ہے۔

لبرل ازم کا انسان اپنا خدا بھی خود ہی ہے۔ وہ اپنی الوہیت کے اظہار کا آپ ہی ذمہ دار ہوتا ہے۔ جدیدیت اس نظام فکر کے تصورِ انسان ، تصورِ خیر اور تصور و محورِ حیات کو کسی بھی ’’دوسرے ‘‘کی چھیڑ چھاڑ سے مکمل آزاد اور ہر انسان کی اپنی کامل آزادی کے مرہونِ منت رکھتی ہے ۔ پھر یہ ’’دوسرا‘‘ چاہے خدا ہی کیوں نہ ہو۔

امریکا میں کسی بھی جگہ پر پولیس کو پہنچنے میں صرف تین منٹ لگتے ہیں ۔اس کے باوجود امریکا میں دنیا کے سب سے زیادہ مجرم جیلوں میں ہیں۔ ستمبر 2014ء میں یہ تعداد چوبیس لاکھ تھی جو اب نومبر 2015ء تک بڑھتے بڑھتے چھبیس لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔اگر سترہ بڑی انٹلیجنس ایجنسیوں کو شامل کرکے امریکا میں مجموعی طور پر ایجنسیوں کی تعداد پر تو جہ کی جائے تو یہ 2212 بنتی ہے ۔(مدبر وزیراعظم سے اپنے لبرل پاکستان میں’’انگلی والی سرکار نامی‘‘ ایک ایجنسی بھی برداشت نہیں ہورہی۔)سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لبرل ملک کے طور پر آدرش امریکا میں جب اتنی ساری ایجنسیاں ہیں، جب پولیس کسی بھی جرم کے ارتکاب کے صرف تین منٹ پر موقع پر پہنچ جاتی ہے، جہاں قوانین کی بھرمار ہے اور ریاست بھی ایک شہری پر اوسطاً پانچ ملین ڈالر کی خطیر رقم خرچ کردیتی ہے تو پھر دنیا کے سب سے زیادہ مجرم امریکی جیلوں میں کیوں ہیں؟اس لیے کہ لبرل ازم دنیا کی ہر چیز انسان کو دیتا ہے مگر اُسے انسان نہیں رہنے دیتا۔ وہ تربیت کو آزادی میں مداخلت سمجھتا ہے۔ اس مذہب میں نفس کو ہر طرح کی آزادی حاصل ہے مگر اس کی اصلاح پر اُس کا کوئی یقین نہیں ۔ چنانچہ جب ایک نفس دوسرے نفس کی آزادی پر حملہ آور ہوتا ہے تو یہ اُس کاعلاج قانون سے کرتا ہے۔ چنانچہ امریکا وہ ملک ہے جہاں قوانین بھی ڈھیڑوں ہیں۔ مگر جرائم بھی ان گنت ہیں۔ کیونکہ لبرل ازم کے فلسفے کے تحت نفس کی مکمل آزادی قانون توڑنے کا جو فطری رجحان پیدا کرتی ہے ، اُسے روکنا اس قانون کے بس کی بات ہی نہیں۔ آدمی حیران ہو جاتا ہے کہ امریکا میں کتے کے بھونکنے پر بھی قوانین ہیں۔ اور شادی شدہ مرد کے اپنی ہی بیوی سے آداب تعلقات میں بھی حد بندیاں قائم کر دی گئی ہیں۔ اگر آپ کو ہنسی آئے تو براہِ کرم روک لیجیے ، یہ مزاق نہیں کہ امریکا میں سالانہ پانچ لاکھ طلاقیں ہوتی ہیں ۔ ان طلاقوں کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب سوتے ہوئے میاں بیوی کے خراٹے بھی ہیں۔ دونوں کو صبح کام کرنے کے لئے مشین کی طرح جاگنا ہے اور دونوں ہی یہ چاہتے ہیں کہ اُن کی نیند میں کسی نوع کی مداخلت نہ ہو۔ چنانچہ عورت مرد سے اور مرد عورت سے اس بناء پر طلاق لے لیتے ہیں کہ اس کے خراٹے میرے آرام میں مداخلت کرتے ہیں۔ یہ لبرل ازم ہے۔

اباما جنسی تشدد کی رپورٹ پر دستخط کرتے ہوئے

اباما جنسی تشدد کی رپورٹ پر دستخط کرتے ہوئے

اسی لبرل ازم کی اصل تصویر دیکھئے۔ امریکا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ وائٹ ہاؤس کی ٹاسک فورس نے ایک رپورٹ اپریل 2014ء میں ’’Protect Students From Sexual Assault‘‘کے نام سے جاری کی جس پر خود امریکی صدر نے 22؍ جنوری 2014ء کو دستخط کئے۔ رپورٹ کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک لڑکی امریکی کالجوں میں نشانہ ٔ ہوس بنتی ہے۔ اس کی مختلف شکلوں پر رپورٹ میں کی گئی بحث چودہ طبق روشن کر دیتی ہے۔لبرل امریکا میں یہ رجحان اس قدر خطرناک ہے کہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے وائٹ ہاؤس کے متعلقہ سیکریٹری نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ اوباما یہ رپورٹ اس لیے جاری نہیں کررہے کہ وہ امریکی صدر ہیں بلکہ اس لئے بھی جاری کررہے ہیں کہ وہ دوبچیوں کے باپ بھی ہیں۔ اس سے بھی آگے سنئے جب امریکی صدر اپنی دوسری میعاد کے لئے منتخب ہوئے تو اُن سے پوچھا گیا کہ وہ امریکی صدر کے طور پر دوبارہ کیوں منتخب ہوئے، تو اُن کا ایک جواب یہ بھی تھا کہ میری بچیاں اب اگلے برسوں میں کالج جائیں گی۔ میں چاہتا ہوں کہ اُن کو مزید احساسِ تحفظ ملے۔ لبرل امریکا کے سب سے طاقتور صدر کا یہ حال ہے۔ مدبر وزیر اعظم کے نزدیک معلوم نہیں اس بات کی کیا اہمیت ہو؟

ہمارا واسطہ ایک ایسی حیا باختہ مخلوق سے ہے جنہیں دنیا کے ہر قسم کا جبر قبول ہے مگر مذہب کی پابندی قبول نہیں۔ جنہیں کتوں کے بھونکنے اور سوتے ہوئے خراٹوں کی مجبوری پر بھی پابندی قبول ہے، مگر اﷲ کی بنائی ہوئی حدودوقیود قبول نہیں۔جنہیں دنیا کی چکاچوندی کے عوض اپنے گھرانوں میں آتے ہوئے بے حیائی کے سیلاب بلا کی کوئی پروا نہیں مگر بینک کے باہر قطار میں کھڑے ہونے اور بچوں پر ڈانٹ ڈپٹ کے قوانین کا جبر قبول ہے۔ علامہ نے کہا تھا کہ

یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات

مدبر وزیراعظم نے عوام کے مستقبل کو لبرل پاکستان سے وابستہ قرار دے کر پہلا کام جب یہ کیا کہ علامہ اقبال کے حوالے سے قومی تعطیل ختم کر دی تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ مگر لبرل پاکستان کے کچھ تقاضے ہیں جو ریاست کی سطح پر افراد کی زندگیوں میں ایک خاص معیار سازی کرتے ہیں اور دوسری طرف اُن ہی افرادسے نفس کی پیروی میں قوانین شکنی کراتے ہیں۔ وزیراعظم اس کے لیے تیار رہیں،اور لبرل پاکستان میں ریاستی گرفت مضبوط کرنے کے لئے نئی نئی ایجنسیوں کے قیام کے لئے خود کو ابھی سے آمادہ کرلیں کیونکہ لبرل پاکستان کی ایک قیمت بھی ہے!!!


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

رفیق اور فریق کون کہاں؟ وجود - منگل 23 اگست 2022

پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...

رفیق اور فریق کون کہاں؟

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں وجود - پیر 14 فروری 2022

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں

خطابت روح کا آئینہ ہے !
(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)
وجود - پیر 30 ستمبر 2019

کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...

خطابت روح کا آئینہ ہے ! <br>(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)

معاشی ترقی کا اعتراف یا عوام کو ٹیکسوں میں جکڑنے پر شاباشی؟؟ صبا حیات - بدھ 26 اکتوبر 2016

یہ شاندار بات ہے کہ آپ نے مختصر سفر کے دوران مستحکم معاشی پوزیشن حاصل کرلی،کرسٹین لغرادکا وزیر اعظم سے مکالمہ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹرنے شرح نمو میں اگلے سال مزید کمی ہونے کے خدشات کابھی اظہار کردیا عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لغرادگزشت...

معاشی ترقی کا اعتراف یا عوام کو ٹیکسوں میں جکڑنے پر شاباشی؟؟

وزیراعظم تین سمتوں سے گھیرے میں آگئے! نجم انوار - جمعه 21 اکتوبر 2016

پانامالیکس کی عدالتی کارروائی میں پیش رفت کو حزب اختلاف کے تمام رہنماؤں نے بہت زیادہ اہمیت دی ہے،معاملہ معمول کی درخواستوں کی سماعت سے مختلف ثابت ہوسکتا ہے عمران خان دھرنے میں دائیں بازو کی جماعتوں کولانے میں کامیاب ہوگئے تو یہ دھڑن تختہ کاپیش خیمہ ہوسکتا ہے،متنازعخبر کے معاملے ...

وزیراعظم تین سمتوں سے گھیرے میں آگئے!

مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر