... loading ...
ہمارے لڑکپن کے ا یک جاننے والے بنک میں ملازم تھے، جب بھی کالج کے دوستوں کی محفل جمتی، تو وہ بھی آ دھمکتے اور محفل کے آخر میں آنے والا بل ادا کیا کرتے اور اگر کوئی دوسرا ایسا کرنے کی جسارت کرتا تو وہ باقاعدہ مرنے مارنے پر اتر آتے۔ کچھ سال تو ہم نے اس صورتِ حال سے خوب مزہ لیا لیکن پھر ضمیر کی ملامت کے باعث ایک مشترکہ دوست سے اس صورتِ حال کی بابت پوچھ ہی لیا۔ ان مشترکہ دوست نے بتایا کہ موصوف کا بچپن بہت عسرت میں گزرا ہے وہ ایک بہت ہی غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے بچپن میں ان کے ماں باپ کے ہاں اس قدر غربت تھی کہ کئی کئی دن فاقے تو معمول کی بات تھی۔ خاندانی حمیت اور غیرت یہ گوارا نہ کرتی تھی کہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلایا جائے۔ اسی غربت کے ہاتھوں تنگ ہو کر موصوف کو ان کے والد نے بچپن میں ہی ایک اعلیٰ بینکار کے ہاں گھریلو کام کاج کے لئے ملازم رکھوا دیا۔ اچھے زمانے تھے، ان بینکار صاحب نے بچے کو پڑھنے کی طرف مائل کیا اور اس کے بعد جہاں صاحب کے بچے بڑے اور مہنگے اسکول میں جاتے تھے ان کو سرکاری اسکول میں داخل کروا دیا گیا۔ جب ہمارے دوست نے میٹرک کیا تو چونکہ بھٹو صاحب کا دور دورہ تھا اس لئے میٹرک کرتے ہی کلریکل اسٹاف میں بھرتی ہو کر زینہ بہ زینہ وہ تعلیم بڑھاتے اور ترقی کرتے کرتے بنک کے افسر بن گئے۔ آج کل وہ ملک کے ایک بہت بڑے بنک میں انتظامی نائب صد ر کے عہدے پر براجمان ہیں۔ اب چونکہ بچپن میں یہ حسرت رہا کرتی تھی کہ وہ بھی پڑھے لکھے احباب میں بیٹھیں ، لوگوں کو کھانے کی دعوت دیں ، جو اُس وقت قلیل آمدنی کے باعث ممکن نہیں تھی تو یہ صاحب اب ہر محفل کے زبردستی میزبان بن کر اپنے بچپن کا احساسِ کمتری دور کیا کرتے تھے۔
ہم نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں داخلے کے بعد اس پیمانے پر بہت سے لوگوں کو جانچا ۔ ہمارے ایک عزیز دوست جب تک اس شہر کے سب سے بڑے ڈرائی کلینر کا استری کیا ہوا کپڑا زیبِ تن نہ کر لیں تو گھر سے باہر نہیں نکلتے ،بھلے انہوں نے گلی کے نکڑ سے سگریٹ ہی کیوں نہ لینے جانا ہوں۔ وجہ یہی تھی کہ بچپن میں ان کواپنی امی کے بیمار ہونے اور کسی بہن کے نہ ہونے کی وجہ سے اپنے کپڑے خود دھونے پڑا کرتے تھے اور والد صاحب کی قلیل آمدن کے باعث نہ تو کپڑے دھونے والی رکھی جا سکتی تھی اور دھوبی کا تو تصور ہی ناممکن تھا۔ شہر کی ایک بہت بڑی انشورنس کمپنی کے مدارالمہام ہونے کے باعث اب خوشحالی بہت زیادہ ہو گئی ہے۔
اسی طرح ایک تیسرے دوست ہیں جن کے کالے رنگ کے باعث ان کو دوست ـ’’کلموہا‘‘ کہا کرتے۔ صوبے کے بہت بڑے بیوروکریٹ رہے ، آج کل وفاق میں ہوتے ہیں ۔لیکن دفتر جانے سے پہلے وہ پورا میک اپ کر کے جاتے ہیں۔ رنگ گورا کرنے والی پتہ نہیں کون کون سی کریمیں لگا کر انہوں نے اپنا منہ تو قدرے بہتر کر لیا ہے لیکن ساتھ ہی ہم جیسے کلموہا کہنے والے دوستوں سے بھی پردہ کر لیا ہے۔ کئی سال ہو گئے ہیں انہیں ملے ہوئے کبھی سوشل میڈیا پر نظر آئیں تو لگتا ہے کہ خاصے گورے ہو گئے ہیں۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بچپن کے بہت سے احساس کمتری باقی پوری زندگی کو متاثر کرتے ہیں، اور یہ بعض روّیوں کی صورت میں پوری پوری عمر پیچھا نہیں چھوڑتے۔ میاں محمد نواز شریف کا بچپن اس طرح کے احساس کمتری سے بھرا ہوا لگتا ہے کیوں کہ ان کی آنکھوں کے بالکل سامنے انکے خاندان نے زیرو سے ہیرو تک کا سفر طے کیا۔ کبھی وہ احساسِ کمتری قیمتی گھڑیاں باندھ کر، کبھی انتہائی قیمتی لباس پہن کر، کبھی مری کی لمبی لمبی اور بے مقصد سیر کی صورت میں ، کبھی قومی سطح کے کرکٹ ہیرو کے ساتھ کرکٹ کھیل کراور کبھی ’’بھولی جوس‘‘والے سے رات کے اندھیرے میں گاڑی میں جا کر جوس پی کر آنے کی صورت میں ظاہر ہوتا رہتا ہے۔ وجہ یہی ہے کہ ان کے بچپن کے وقت اُس وقت کے متوسط طبقے کے کاروباری شرفا کے ہاں قیمتی لباس ، قیمتی گھڑیاں، کرکٹ کھیلنا، مری کی سیر وغیرہ وغیرہ، سب فارغ لوگوں کے مشغلے ہوا کرتے تھے۔ اس لئے ابا جی کی طرف سے سخت پابندی تھی اور چونکہ رات کے اندھیرے میں باہر نہیں رہا جا سکتا تھا اس لئے بھولی کے پاس جوس پینے جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
کچھ ان ہی احساسات کے زیرِ اثر جب میاں صاحب پہلی دفعہ وزیرِاعظم بنے تو جیم خانہ میں ان کو سہگلوں اور چنیوٹی شیخوں کے ہم مرتبہ نہ بیٹھ سکنے کے بچپن کے احساسِ کمتری نے آن لیا۔ اس احساسِ کمتری کو دور کرنے کے لئے آپ نے اپنی پہلی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں جتنے بھی سیمنٹ اور گھی کے اداروں کی نجکاری کی۔ اُن میں سے بیشتر سہگلوں یا ان کے داماد وں کے حوالے کئے اور تو اور مسلم کمرشل بنک بھی سہگلوں کے داماد کو بخش دیا۔ میاں صاحب کا یہ جرم کراچی کے صنعت کاروں نے آج تک معاف نہیں کیا لیکن شاید اُن کو میاں صاحب کے اس احساسِ کمتری کا پتہ نہیں تھا ۔ اگر آپ میاں شہباز شریف کی کثیرالازدواجیت کو بھی اسی احساس سے جوڑنا چاہیں تو یہ آپ کی ستم ظریفی ہو گی۔ کیونکہ ہمارا آج کا موضوعِ سخن نہ تو چھوٹے میاں صاحب ہیں اور نہ ہی حافظ اسحاق ڈار جو نواز شریف کے دوسرے دور ِوزارتِ عظمیٰ میں وزارتِ خزانہ کا حلف اٹھانے کے بعد سیدھے لاہور آئے اور میاں منشا صاحب کے درِ دولت پر داتا دربار سے بھی پہلے حاضری دی تھی۔
یہی احساسِ کمتری تھا جس کے باعث میاں صاحب نے اپنے دوسرے دور میں جمعتہ المبارک کی چھٹی ختم کی جس نے اس ملک میں ورکنگ کلچر کو بالکل ختم کر دیا۔ ہمارے ہاں اب حقیقتاً ہفتے میں چار دن کام یعنی پیر تا جمعرات کام ہوتا ہے۔ جمعۃ المبارک کے دن تو ہمارے بابو حضرات ویسے ہی منہ دکھانے جاتے ہیں۔ ساڑھے گیارہ بجے جمعہ کی نماز کا وقت ہوجاتا ہے اور اس کے بعد ان کا دفتر میں ورود پیر کے دن ہی ہوتا ہے۔ بھلا دنیا میں وہ کون سا ملک ہے جو ہفتے میں چار دن کام کر کے ترقی کے بارے میں سوچ بھی سکے۔
میاں صاحب نے یہ جو پاکستان کو لبرل بنانے کا خواب دیکھا ہے تواس کے پس منظر میں بھی کوئی احساسِ کمتری ہوسکتا ہے۔ لیکن نہیں ! خود کو لبرل کہلوانا ان کا بچپن کا احساسِ کمتری ہی محسوس ہوتا ہے جس کو وہ کسی نہ کسی صورت دور کر کے رہیں گے اور یہ جو وہ گھومتے پھرتے سیفما کے اجلاسوں میں پہنچ جاتے ہیں اور پھر پاکستان کے دورے پر آئے سکھوں کو رام اور رحیم کی یکسانیت کا درس دیتے پائے جاتے ہیں تو یہ ان کے تقریر نویسوں کی ذہنی خباثت سے زیادہ ان کے اپنے بچپن کا احساسِ کمتری محسوس ہوتا ہے، جس کو انہوں نے بہرحال دور کرنا ہے بھلے اس کی ان کو جتنی مرضی قیمت ادا کرنا پڑے۔
ہمیں ترس مگر اُن احباب پر آ رہا ہے جنہوں نے پورے مشرف مارشل لاء کے دوران مشرف صاحب کے لبرل ازم کی اینٹ سے اینٹ بجائے رکھی اور حریتِ فکر کے (نام نہاد) مجاہد بنے رہے۔ ان بے چاروں کی حالت بہت پتلی لگ رہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مشرف کے لبرلزم پر دن رات تبریٰ کرنے والے وزیراعظم میاں نواز شریف کا یہ ’’چموٹا برداردسترخوانی ٹولہ ‘‘ اس لبرل ازم کو کون سی ٹوپی پہنا کر اس کا کون سا جواز تراشتا ہے؟
مسلم لیگ (ن) کے قائد و سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہم الیکشن کیلئے تیار ہیں اور کب سے تیاری مکمل کر رکھی ہے، عمران خان نے پاکستان کی جو بربادی کی ہے، ملکی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی اور شاید آئندہ بھی نہ ملے۔میڈیا سے گفتگو میں نواز شریف نے کہا کہ عمران خان نے پا...
قائد محمد نوازشریف کی زیرصدارت پارٹی قیادت کے اہم مشاورتی اجلاس کی پہلی نشست ہوئی، موجودہ حکومت کو ورثے میں ملنے والے سنگین معاشی، آئینی اور انتظامی بحرانوں پرقائد محمد نوازشریف کوتفصیلی بریفنگ دی گئی، مریم اورنگزیب نے موجودہ معاشی حقائق سے قائد محمد نوازشریف کو آگاہ کیا، وزیراطل...
سابق وزیراعظم نواز شریف (آج) جمعرات کو اہم پریس کانفرنس کرینگے، پریس کانفرنس میں وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی کابینہ کے ارکان بھی موجود ہونگے۔نجی ٹی وی کے مطابق توقع کی جارہی ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف عمران خان کو ہٹانے کی وجوہات بتائیں گے جبکہ آئندہ عام انتخابات سے متعلق بھ...
سابق وزیراعظم نواز شریف نے سینئر ن لیگی قیادت کو لندن بلا لیا۔ وزیراعظم شہباز شریف بھی لندن پہنچ گئے جبکہ سینئر قیادت آج بدھ کو لندن روانہ ہوگی۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف نے وزیراعظم شہباز شریف سمیت ن لیگی قیادت کو لندن طلب کرلیا۔ شہباز شریف، نواز شریف سے ملاقا...
پیپلزپارٹی صدر مملکت، چیئرمین سینیٹ اورگورنر پنجاب کے عہدے لینا چاہتی ہے۔ ذرائع کے مطابق اختلافی معاملات پر وزیراعظم شہباز شریف نے ہاتھ اٹھا لیے ہیں اور بلاول بھٹو زر داری کو نواز شریف سے براہ راست بات کرنیکا مشورہ دیا ہے۔ذرائع نے بتایا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری لندن میں قائد ن لیگ...
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں پارٹی کے قائد نوازشریف کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا گیا جبکہ حکومت کے خلاف تمام فیصلوں کا اختیار نواز شریف کو دے دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق مسلم لیگ ن کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کی صدارت پارٹی قائد نواز شریف ن...
سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم نوازشریف اورجہانگیرترین سمیت دیگر سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کے خلاف درخواست واپس کردی۔ سپریم کورٹ رجسٹرار آفس نے سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون کی جانب سے دائر کردہ درخواست پر اعتراضات لگا کر اسے واپس کرتے ہوئے کہا کہ تاحیات ن...
اٹارنی جنرل آفس نے نواز شریف کی واپسی کا بیان حلفی دینے پر شہباز شریف کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق خط میں لاہور ہائیکورٹ میں دی گئی گارنٹی کا حوالہ دیا جائے گا اور شہبازشریف کو لاہور ہائیکورٹ میں دیئے گئے بیان حلفی پر عمل درآمد کی تلقین کی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق ش...
مسلم لیگ(ن) کے صدر شہبازشریف نے کہا ہے کہ آصف زرداری کا نواز شریف کے بارے میں بیان افسوس ناک ہے۔اپنے بیان میں شہباز شریف نے کہاکہ زرداری صاحب آپ جانتے ہیں کہ نواز شریف کو کن حالات میں بیرون ملک جانا پڑا، ہمیں ایسے ریمارکس سے گریز کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف کی پاکستان کے...
انٹر بینک میں ڈالر 1.29روپے سستا ہو گیا۔فاریکس ڈیلرزایسوسی ایشن کے مطابق 1.29روپے قیمت کم ہونے کے بعد انٹربینک میں ڈالر170 روپے29 پیسے کا ہو گیا ۔26 اکتوبرکوڈالرکی قیمت نے تاریخی بلندی 175 روپے27 پیسوں کوچھولیا تھا۔26 اکتوبرسے تک ڈالرکی قیمت میں 4 روپے98 پیسوں کی کمی ریکارڈ کی گئ...
سابق وزیرمملکت چودھری عابد شیرعلی کی لندن میں موجودگی اور حکومت کے متوقع سیاسی انتقام کی وجہ سے تین سال تک خاموش رہنے کے بعداُن کے والد اوررانا ثنا اللہ خاں مخالف دھڑے کے سربراہ سابق میئروسابق رکن قومی اسمبلی چودھری شیرعلی سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی ہدایت پراپنے دھڑے کے کارکن...
انٹربینک میں ڈالر 173.24 روپے کا ہو گیا۔ ڈالر کی بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ، خام تیل کی عالمی قیمت میں اضافے سے درآمدی بل اور مہنگائی میں مزید اضافے جیسے عوامل کے باعث انٹربینک مارکیٹ میں کاروباری ہفتے کے پہلے روز ڈالر کی اونچی اڑان کے نتیجے میں انٹربینک نرخ 173 روپے سے بھی تجاوز کرگئے او...