وجود

... loading ...

وجود

نصف مشرق وسطی پر قبضے کی اسرائیلی تیاریاں!

منگل 10 نومبر 2015 نصف مشرق وسطی پر قبضے کی اسرائیلی تیاریاں!

bush

زمین پر پیدا ہونے والے حالات کے اسباب ’’آسمان‘‘ پر ہمیشہ مختلف ہوتے ہیں یعنی قدرت جس وقت زمین پر قوموں اور ملکوں کے درمیان حالات کو منطقی نکتے کی جانب دھکیلتی ہے تو اسباب کا کارخانہ بھی زمین پر ہی قائم کرتی ہے۔ اس وقت دنیا جس بڑے تغیر کی زد میں ہے آسمان پر اسباب جو کچھ بھی ہوں لیکن زمینی عوامل اب شفاف نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔

عالمی تغیرات کے اس دور میں وقت تیزی کے ساتھ ہاتھوں سے نکل رہا ہے ، مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا میں کھیل ایک ہی سمت میں جاتا ہوا محسوس ہورہا ہے۔ حالات نے امریکا اور اس کے صیہونی عسکری اتحاد نیٹو کو ایک بڑی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ پاکستان میں اگر کوئی محب وطن اور دوراندیش سیاسی قیادت ہوتی تو یقینا امریکا اور نیٹو کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھاکر کم از کم جنوبی ایشیا میں اپنا وزن بڑھا لیتی ۔ کیونکہ اب اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں رہی کہ مشرق وسطی میں امریکا اور روس آمنے سامنے آچکے ہیں۔ عراق اور لیبیا میں نیٹوکی مداخلت کے بعد جس وقت معاملہ شام تک پہنچا تو امریکا اور اس کے صہیونی صلیبی اتحادیوں نے گویا کہ ’’ریڈ لائن‘‘ عبور کرلی تھی جس کے جواب میں اب روس نے شام میں اپنی فوج بھیج کر اس چیلنج کو گویا قبول کرلیاجبکہ ایرانی افواج اور حزب اﷲ پہلے ہی شامی حکومت کی جانب سے یہاں نبرد آزما ہیں۔یہی بات امریکا اور اسرائیل بھی چاہتے تھے تاکہ شام میں روس کا حشر افغانستان والا کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی تجزیہ نگاروں کے علاوہ اب عرب صحافتی ذرائع بھی اس بات پر قائل نظر آتے ہیں کہ شام کا موجودہ قضیہ درحقیقت امریکا اور روس کی جنگ اختیار کرگیا ہے۔ جبکہ یہ دونوں قوتیں سلامتی کونسل کی مستقل رکن بھی ہیں۔روس اور چین اس بات پر قائم ہیں کہ سلامتی کونسل کے باقی تین اراکین یعنی امریکا، برطانیا اور فرانس سابق بش انتظامیہ کے دور میں جس ’’گریٹر مڈل ایسٹ‘‘ کے منصوبے پر کام کررہے تھے ۔اس کا اصل مقصد اس خطے کو 56ریاستوں میں تقسیم کرکے انہیں عالمی صیہونی قوتوں کے زیر اثر لانا تھا تاکہ تیل سمیت یہاں پائی جانے والی معدنی دولت پر یہ قوتیں مکمل طور پر آسانی کے ساتھ تصرف حاصل کرسکیں۔یاد رہے کہ اس ’’گریٹر مڈل ایسٹ ‘‘ کے منصوبے میں افغانستان اور پاکستان تک کا علاقہ شامل تھا۔ اس لئے ماضی میں امریکی کانگریس میں بلوچستان کی آزادی سے متعلق شرمناک قرارداد پیش کئے جانے کا پس منظر سمجھ جانا چاہے۔

putin

5فروری 2012ء کو سابق صیہونی امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے لکھاتھا کہ ’’تیسری عالمی جنگ شروع ہوچکی۔ اس جنگ میں ایک طرف امریکا اور اس کے اتحادی ہیں جبکہ دوسری جانب روس اور چین ہیں‘‘۔ امریکی اخبار’’ ڈیلی ا سکیپ‘‘ میں ایک انٹرویو کے دوران امریکی لومڑی کے نام سے معروف ہنری کسنجر کا کہنا تھا کہ ’’اس وقت عالمی منظر نامے میں جو کچھ ہورہا ہے، وہ محض بڑی اور شدید جنگ کی ایک تمہید ہے جس میں سے صرف ایک فریق ہی کامیابی حاصل کرسکے گا‘‘ ہنری کسنجر کے خیال میں وہ فریق امریکا ہوگا۔۔۔!! 92 سالہ ’’صیہونی دانشور‘‘ کا خیال ہے کہ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد امریکا نے روس اور چین کو عسکری لحاظ سے مضبوط ہوتے دیکھا ہے لیکن ان دونوں ممالک کی یہ قوت ہی ان کے زوال کا سبب بن جائے گی کیونکہ یورپ کو روس اور چین سے درپیش خطرات کا ادراک ہوچکا ہے اور یہی ایک خطرہ امریکا اور یورپ کو ان دونوں قوتوں کے خلاف ایک مرتبہ پھر متحد کردے گا۔ ہنری کسنجر کا کہنا تھا کہ واشنگٹن نے تیل اور گیس سمیت قدرتی وسائل پر مکمل تصرف حاصل کرنے کے لئے سات عرب ممالک پر قبضے کا منصوبہ بنایا تھاکیونکہ تیل پر قبضہ ملکوں پر قبضے کے مترادف ہے۔ جبکہ غذائی ذخائر پر قبضہ درحقیقت قوموں پر قبضے کی علامت ہے۔ ہنری کسنجر کا کہنا ہے کہ امریکی عسکری ادارے بڑی حد تک یہ اہداف حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں اور جو اہداف باقی رہ گئے ہیں ان تک پہنچا جارہا ہے۔ اس صورتحال نے روس اور چین کو بے چین کردیا ہے خصوصا اس ادراک نے کہ اسرائیل جلد اپنے مقابل ملکوں کے خلاف ایک بڑی جنگ کا آغاز کرنے والا ہے اور اس جنگ کے نتیجے میں نصف سے زیادہ مشرق وسطی اسرائیل کے قبضے میں آجائے گا۔اس لئے میں امریکا اور یورپی ممالک کو مشورہ دوں گا کہ وہ اپنی فوجوں کو اس تیسری عالمی جنگ میں شمولیت کے لئے تیار رکھیں جس میں ان کا سامنا روس اور چین سے ہونے والا ہے کیونکہ اس جنگ میں جو کامیاب ہوگا وہی تمام دنیا پر حکومت کرے گا۔ ہنری کسنجر کا کہنا تھا کہ اس بات کو فراموش نہ کیا جائے کہ امریکا کے پاس مہلک ہتھیاروں کا ایک ایسا وسیع ذخیرہ ہے جو دنیا میں کسی کے علم میں نہیں اور اسے مناسب وقت پر ہی منکشف کیا جائے گا۔۔۔‘‘

روس اور چین نے صیہونی عسکری اتحاد نیٹو کو اپنے پہلو افغانستان میں صرف اس لئے برداشت کیا کہ انہیں معلوم تھا کہ اس صیہونی اتحاد کا حشر افغانوں کے ہاتھوں کیا ہوگا۔

ہنری کسنجر کا شمار امریکا کے ان سفارتکاروں اور سیاستدانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے ساٹھ کی دہائی میں اہم عہدوں پر کام کیا ہے ۔1969ء سے 1975ء تک وہ امریکی صدر کا مشیر برائے قومی سلامتی رہا۔1973ء سے 1977ء تک وہ امریکی وزیر خارجہ کے منصب پر کام کرتا رہا ہے۔ ستر کی دہائی میں اسے امریکا اور سابق سوویت یونین کے درمیان رابطے کا ایک بڑا پل تصور کیا جاتا تھا۔ویت نام کی جنگ کے خاتمے میں وہ امریکی مذاکراتی ٹیم کا رکن رہا۔ مصر اور اسرائیل کے درمیان ’’کیمپ ڈیوڈ‘‘ معاہدہ کرانے میں اس کی ’’شٹل ڈپلومیسی‘‘ کا چرچا رہااور بعد میں انہی سرگرمیوں کے عوض اسے ’’امن کے نوبل انعام‘‘ سے بھی نوازا گیا۔بہت سے مغربی اور عرب تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہ ایک بوڑھے صیہونی ’’دانشور‘‘ کا ہذیان ہے جبکہ اس کے علاوہ دیگر ذرائع کا خیال ہے کہ ہنری کسنجر کے ان خیالات کو آسانی کے ساتھ رد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس قسم کے بیان سے پہلے یعنی جنوری 2012ء میں اس نے متعلقہ ممالک کا دورہ کیا تھا خصوصا چین اور روس کے دورے کے دوران اس نے وہاں کی پالیسی ساز شخصیات سے خصوصی ملاقاتیں کی تھیں۔عالمی امور پر نظر رکھنے والے اہم ذرائع کا کہنا ہے کہ ہنری کسنجر درحقیقت اس دورے کے دوران روس اور چین کے لئے امریکا کا اہم پیغام لے کر گیا تھا جس میں اس نے ان دونوں اہم ممالک کی پالیسی سازشخصیات کے سامنے یہ تجویز رکھی تھی کہ ’’دنیا کو امن اور سلامتی کا گہوارہ بنانے کے لئے ایک بین الاقوامی نظام متعارف کرایا جائے جو امریکی شرائط پر مبنی ہو لیکن روس اور چین کے لئے ان شرائط کو تسلیم کرنا امریکا کی اپنے اوپر عالمی سیادت مسلط کرنے کے مترادف تھا۔ اس لئے وہاں سے انکار کے بعد صورتحال تیسری عالمی جنگ کی جانب تیزی سے بڑھ رہی ہے‘‘۔

Bashar_al_Assad

تین برس قبل جس وقت روس اور چین نے سلامتی کونسل میں شامی حکومت کے خلاف قرارداد کو ویٹو کیا تھا تو ان کا خیال تھا کہ اس طرح شام میں نیٹو کی مداخلت کی راہ ہموار کی جارہی ہے اور اس کے ایک ہفتے بعد ہی روس نے مغربی ممالک اور شامی حزب اختلاف پر الزام عائد کردیا کہ وہ شام کے موجودہ بحران کو پرامن طور پر حل کرنے میں رکاوٹ ہیں۔روسی خبررساں ایجنسی ’’ایتار تاس‘‘ نے روس کے نائب وزیر خارجہ سرگی ریابکوف کا یہ بیان شائع کیاتھا کہ شامی حزب اختلاف اور اس کے حمایتی شام میں بدترین خون ریزی کے ذمہ دار ہیں۔ اس کے ساتھ روسی وزیرخارجہ سرگی لافروف نے شامی حکومت اور حزب اختلاف کے رہنماؤں کو ماسکو میں مذاکرات کرنے کی دعوت دی تھی ان کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک شامی حزب اختلاف کو اسلحہ اوررقم فراہم کررہے ہیں جبکہ ان کا میڈیا عالم عرب میں یہ جھوٹ پھیلا رہا ہے کہ روس نے شامی حکومت کے خلاف قرارداد کو ویٹو کرکے خونریزی کو ہوا دی ہے۔

حالات کی سنگینی کا اندازااس ایک بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ دو سال قبل روسی وزیر خارجہ سرگی لافروف اور روسی خارجی انٹیلی جنس کے سربراہ میخائیل فرادکوف نے دمشق کا دورہ کرکے غیر ملکی مداخلت کے حوالے سے شامی حکام سے مذاکرات کئے تھے کیونکہ اکتوبر2011ء میں ہی روسی ذرائع نے اس قسم کی خبریں دینا شروع کردی تھیں کہ امریکا، برطانیااور فرانس کے خصوصی دستے اور ان کے ساتھ دہشت گردی کی خاطر تشکیل دی جانے والی مغرب کی پرائیویٹ سیکورٹی ایجنسیاں مثلا ’’بلیک واٹر‘‘ وغیرہ شامی حکومتی فوج کے خلاف خفیہ جنگ لڑ رہی ہیں۔ روسی ذرائع کا کہنا تھا کہ یہ بالکل ایسے ہی ہے جس طرح ان ممالک نے لیبیا میں بغاوت کے شروع میں کارروائی کی تھی اور آخری وقت تک نیٹو حکام مداخلت کے حوالے سے انکار کرتے رہے اور جس وقت قذافی کو قتل کردیا گیا تو نیٹو نے اعلانیہ اس بات کا اعتراف کیا کہ اس کے فوجی زمینی دستے بھی اس لڑای میں لیبیا کے ’’انقلابیوں‘‘ کا ساتھ دے رہے تھے۔۔۔!

شام میں روس اور چین آرام سے نیٹو کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے کیونکہ شام بحیرہ روم اور یورپ کی جانب ان کا سب سے بڑا ’’لانچنگ پیڈ‘‘ ہے۔

گزشتہ چالیس برسوں سے شام پر مسلط لادین بعث پارٹی کا ظالم نظام شامی مسلمانوں پر مسلط رہا ہے۔ حافظ الاسد اور اس کے بیٹے بشار الاسد نے جو شامی مسلمانوں پر ظلم توڑے ہیں اس کی مثال تاریخ میں ملنا مشکل ہے۔ شام کے حماہ شہر کو شامی فضایہ نے سابقہ دور میں کھنڈر بنا دیا تھا اور ہزاروں شامی مسلمان شہید کردیئے گئے تھے لیکن اس وقت صہیونی مغرب خاموش رہا اور نہ ان کے کارپوریٹیڈ صہیونی میڈیا میں اس قسم کی خبریں دی جاتیں تھی لیکن اچانک یہ کیا ہوگیا اور اسرائیل نواز صیہونی مغرب اچانک پہلے لیبیا اور بعد میں شامی مسلمانوں کا ہمدرد کیسے بن گیا؟ یہ ہیں وہ اہم نکات جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کہ جنگ درحقیقت امریکا اور روس کی جنگ ہے۔ امریکا سے مراد امریکا یورپ اور اس پر حاکم عالمی صیہونیت جبکہ دوسری جانب روس اور چین ہیں۔ شام مشرق وسطی میں روس کے قریب تصور کیا جانے والا ملک ہے۔ اس کے علاوہ ماسکو نے گزشتہ شام کی خانہ جنگی سے پہلے دمشق کو چار بلین ڈالر کے جدید جنگی طیارے اور میزائل فروخت کئے تھے، روس کی شام میں مجموعی سرمایہ کاری کا حجم 20بلین ڈالر تھا۔ شام کے شہر حمص کے مشرق میں 200کلو میٹر کے فاصلے پر شام کے قدرتی گیس کے سب سے بڑے ذخیرے کو قابل استعمال بنانے میں بھی روسی سرمایہ کاری شامل ہوچکی تھی۔ بحیرہ روم کی جانب شام کی بندرگاہ طرطوس کو روسی جنگی بحری بیڑے کے قیام اور یہاں ایندھن کی فراہمی کے لئے جدید بنایا گیا۔ اس کے علاوہ روسی ایٹمی آبدوزوں کے قیام کو ممکن بنانے کے لئے جدید ترین شپ یارڈ بنانے کا منصوبہ ہے۔روس کے اس منصوبے سے روس کے ساتھ ساتھ چین کو بھی بحیرہ روم تک رسائی آسان ہوجاتی۔اس کے علاوہ روس خود تیل پیدا کرنے والا بڑا ملک ہے۔ اس لئے وہ خلیجی تیل کا محتاج نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عرب لیگ اسے کسی طور بھی چیلنج نہیں کرسکتی۔مختصراًیہ ان حالات کا ایک خلاصہ ہے جو اس وقت مشرق وسطی میں جنگ وجدل کا سبب بنے ہوئے ہیں اور یہ شعلے جلد تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ ہم شروع میں کہہ چکے ہیں کہ اسباب اور عوامل واضح ہوچکے ہیں۔ بہت پہلے صیہونی دنیا کے بڑے ترجمان ہنری کسنجر نے تیسری عالمی جنگ کا بگل بجا دیا تھا۔ اس تناظر میں ہمیں معلوم کرنے کی کوشش کرنا ہوگی کہ جو منصوبہ لیبیا میں لاگو کیا گیا اور جو اس وقت شام میں کارفرما ہے۔ بعینہ ایسا منصوبہ پاکستان کے خلاف بھی وضع کیا گیا تھا۔۔۔!! سب جانتے ہیں جس طرح تیونس کی زمین اور بحیرہ روم میں موجودہ نیٹو کے بحری بیڑے کو لیبیا کے خلاف استعمال کیا گیا۔ اسی طرح شام میں روس کی ناک رگڑنے کے لئے ترکی اور عراق میں نیٹو کے اڈے استعمال کرنے کا منصوبہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ عراق میں موجود مغرب کی دہشت گرد تنظیمیں جنہیں سیکورٹی فورسز کمپنیاں کہا جاتا ہے، استعمال میں لایا جارہا ہے۔ بلکہ اسی طرح افغانستان میں نیٹو فورسز کو اور افغانستان میں موجود مغرب کی نجی دہشت گرد تنظیموں کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا گیاتھا۔ عالمی صیہونیت کا منصوبہ تھا کہ پاکستانی قوم اور فوج کو الگ کردیا جائے ۔اسی مقصد کے لئے نام نہاداور فراڈ جمہوریت پیدا کی گئی جس نے کرپشن کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے اور قوم مہنگائی کے نہ نکلنے والے عذاب میں پھنس گئی اس سارے گندے کھیل میں کس سیاستدان اور کس ادارے کا کیا کردار رہا اس بحث میں اب جانے کا کوئی فائدہ نہیں پوری قوم اس سے آگاہ ہوچکی ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت دنیا زبردست تبدیلی کی زد میں آچکی ہے اور اس تبدیلی کی دستک شاید ہمارے دروازے پر اسی سال کے آخر میں ہوجائے ،ہمیں کیا کرنا ہوگا؟ آگے چل کر مشکل ایران کے لئے پیدا ہوگی کہ وہ امریکا اور روس کے تنازع میں خود کو کہاں کھڑا کرتا ہے۔ امریکا نے ایران کو روس سے الگ کرنے اور مشرق وسطی میں جنگی آگ پر مزید تیل ڈالنے کے لئے ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کرکے اس کے سامنے مفادات کا دانہ ڈالا ہے۔یہ ’’دانہ‘‘ ایران کے حلق میں بھی پھنس سکتا ہے ۔

china1

روس اور چین نے صیہونی عسکری اتحاد نیٹو کو اپنے پہلو افغانستان میں صرف اس لئے برداشت کیا کہ انہیں معلوم تھا کہ اس صیہونی اتحاد کا حشر افغانوں کے ہاتھوں کیا ہوگا۔ روس اور چین نے عراق اور لیبیا میں ہونے والی کارروائی دور سے بیٹھ کر محض اس لئے دیکھی کہ وہ جانتے تھے کہ عراق اور لیبیا ایک ایسی دلدل ہیں جہاں سے نیٹو عسکری اتحاد بچ کر نہیں نکلے گا۔ عراق میں جو حشر ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ لیبیا میں جو ہورہا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔۔۔ شام میں روس اور چین آرام سے نیٹو کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے کیونکہ شام بحیرہ روم اور یورپ کی جانب ان کا سب سے بڑا ’’لانچنگ پیڈ‘‘ ہے۔اسی نیت کو بھانپتے ہوئے ہنری کسنجر نے امریکا اور یورپ کی مشترکہ صیہونی فوجی اتحاد نیٹو کو خطے میں بڑی مداخلت کے لئے تیار رہنے کا مشورہ دے دیا تھا۔اس میں شک نہیں کہ پاکستان نے ہمیشہ چین کو اپنے لئے ’’لائف انشورنش‘‘ سمجھا ہے اور یہ بات بڑی حد تک ٹھیک بھی ہے لیکن ’’بڑے تغیر ‘‘ کے وقت جس وقت کریملن اور بیجنگ خود ایک بڑے فریق کی طرح نبرد آزما ہوں گے اس وقت پاکستان کہاں کھڑا ہوگا؟ دنیا کا دستور ہے کہ جو اپنی جنگ آپ نہیں لڑ سکتا تواس کی جنگ کوئی بھی نہیں لڑتا۔ ہمارے لئے ’’سقوط ڈھاکا‘‘ اس کی ایک بڑی مثال ہے۔ امریکا افغانستان سے جانے کے بعد علاقے میں اپنا قائم مقام بھارت کو بنانا چاہتا تھا۔پاکستان کے تحفظ کے ضامن اداروں کو چاہئے کہ چین کی طرح روس کو بھی اپنے قریب کریں۔مشرق وسطی کے بدلتے ہوئے حالات پر گہری نگاہ رکھی جائے کیونکہ ہم خود اس خطے کا ایک حصہ قرار دے دیئے گئے ہیں۔ایسے لوگوں کو اہم ذمہ داریاں سونپی جائیں جو زمین کے ساتھ ساتھ آسمانی عوامل کا بھی ادراک رکھتے ہیں۔


متعلقہ خبریں


عمان کا اپنی فضاء اسرائیلی طیاروں کے لیے کھولنے سے انکار وجود - هفته 22 اکتوبر 2022

سلطنت عمان نے اسرائیلی سویلین طیاروں کو دنیا کے مشرقی حصے تک پہنچنے کے لیے اپنی فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔عبرانی اخبار نے اسرائیلی سول ایوی ایشن کمپنی کے اگلے دو ماہ میں ہندوستان کے لیے اپنی پروازیں منسوخ کرنے کے فیصلے کا حوالہ دیا ہے۔ اس کی وجہ سلطنت ع...

عمان کا اپنی فضاء اسرائیلی طیاروں کے لیے کھولنے سے انکار

اسرائیل یہودی اکثریت قائم کرنے کیلیے فلسطینیوں کو نشانہ بنارہا ہے، ایمنسٹی وجود - بدھ 02 فروری 2022

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ایک رپورٹ میں مطالبہ کیا ہے کہ فلسطینیوں کو نسلی امتیاز کا نشانہ بنانے پر اسرائیل کو جوابدہ ہونا چاہیئے۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایمنسٹی انٹرنیشنل نے فلسطین کی صورت حال پر ایک 35 صفحات پر مشتمل رپورٹ شائع کی جس میں اسرائیل کے وحشیانہ جبر اور غیر قان...

اسرائیل یہودی اکثریت قائم کرنے کیلیے فلسطینیوں کو نشانہ بنارہا ہے، ایمنسٹی

سعودی عرب اورایران سفارتی تعلقات بحال کرنے پر رضامند وجود - اتوار 16 جنوری 2022

مشرق وسطی کی صورتحال میں نیا موڑ آگیا، سعودی عرب اور ایران سفارتی تعلقات بحال کرنے پر رضامند ہو گئے۔ایرانی میڈیا کے مطابق سعودی عرب اور ایران اپنے سفارتخانے کھولنے کی تیاری کررہے ہیں، رکن ایرانی پارلیمنٹ جلیل رحمانی نے گفتگو میں سفارتی تعلقات بحالی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ دونو...

سعودی عرب اورایران سفارتی تعلقات بحال کرنے پر رضامند

اداکارہ ایما واٹسن کی فلسطینیوں سے حمایت پر اسرائیلی حکام آگ بگولا وجود - بدھ 05 جنوری 2022

برطانوی اداکارہ ایما واٹسن نے فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کی جس پر اسرائیلی حکام اور حمایت یافتہ افراد آگ بگولا ہوگئے۔برطانوی اداکارہ نے ایک روز قبل سماجی رابطے کی ویب سائٹ اور فوٹو ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم انسٹاگرام پر فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے ایک تصویر پوسٹ کی جو گزشتہ...

اداکارہ ایما واٹسن کی فلسطینیوں سے حمایت پر اسرائیلی حکام آگ بگولا

اسرائیل میں صلیبی جنگوں کے دور کی قدیم تلوار دریافت کرلی گئی وجود - جمعه 22 اکتوبر 2021

اسرائیل میں ماہرین آثار قدیمہ نے 900 سال پرانی صلیبی جنگوں کے دور کی ایک بڑی تلوار دریافت کی ہے۔غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق آثار قدیمہ محکمے کے ایک افسر نے بتایا کہ کو چند روز قبل ایک شخص کو تیراکی کرتے ہوئے تلوار ملی ہے۔ انہوں بتایا کہ ایک شوقیہ غوطہ خور کچھ دن پہلے اسرائیلی ب...

اسرائیل میں صلیبی جنگوں کے دور کی قدیم تلوار دریافت کرلی گئی

اسرائیل کا ثقافتی بائیکاٹ، آئرش مصنف نے اپنی کتاب کا عبرانی ترجمہ روک دیا وجود - بدھ 13 اکتوبر 2021

آئرش مصنفہ سیلی رونی کی پہلی دو کتابوں کے عبرانی پبلشر مودان پبلشنگ کے ترجمے کے بعد کہا ہے کہ مصنفہ نے اپنی نئی کتاب کے عبرانی میں ترجمے سے روک دیا ہے۔ اس کی وجہ آئرلینڈ کی مصنفہ کی طرف سے اسرائیل کا ثقافتی بائیکاٹ ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق آئرش مصنفہ کی نئی کتاب خوبصورت دنیا ، آپ ...

اسرائیل کا ثقافتی بائیکاٹ، آئرش مصنف نے اپنی کتاب کا عبرانی ترجمہ روک دیا

اسرائیل کا القدس میں ترکی کی سرگرمیوں پر پابندی لگانے کا منصوبہ وجود - جمعرات 10 اکتوبر 2019

اسرائیلی وزارت خارجہ نے وزیر خارجہ یسرایل کاٹز کے ایما پر''مقبوضہ بیت المقدس''میں ترک حکومت کی سرگرمیوں اور ترکی کے تعاون سے چلنے والے منصوبوں پر پابندی لگانے کا منصوبہ تیار کر لیا۔اسرائیلی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس میں ترکی کی سماجی اور ترقیاتی سرگر...

اسرائیل کا القدس میں ترکی کی سرگرمیوں پر پابندی لگانے کا منصوبہ

اسرائیل کی تباہی قابل حصول ہدف ہے، سربراہ ایرانی پاسداران انقلاب وجود - منگل 01 اکتوبر 2019

ایران کے پاسداران انقلاب کے کمانڈر انچیف میجر جنرل حسین سلامی نے اسرائیل کو غیرقانونی ریاست قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ روایتی حریف کی تباہی قابل حصول ہدف بن گیا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق میجرجنرل حسین سلامی نے کہا کہ یہ ناجائز ریاست کو نقشے سے ضرور ختم کردیا جائے گا اور یہ دور نہیں، ...

اسرائیل کی تباہی قابل حصول ہدف ہے، سربراہ ایرانی پاسداران انقلاب

اسرائیل نے فلسطینیوں کے 2ہزار مکانات مسمار کیے ،جمال الخضری وجود - جمعرات 26 ستمبر 2019

غزہ میں اسرائیل نے 2014 کے بعد فلسطینیوں کے 2ہزار مکانات مسمار کر دیئے ۔فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی پر اسرائیلی ریاست کی طرف سے مسلط کردہ محاصرے کے خلاف سرگرم کمیٹی کے سربراہ جمال الخضری غزہ میں ایک پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی فوج نے 2014 کے بعد مختلف کارروائیو...

اسرائیل نے فلسطینیوں کے 2ہزار مکانات مسمار کیے ،جمال الخضری

اسرائیل کی تخلیق میں مدد، فلسطین برطانیہ پر مقدمہ دائر کرے گا وجود - بدھ 27 جولائی 2016

فلسطین کے صدر محمود عباس نے اعلان کیا ہے کہ وہ اسرائیل کی تخلیق اور فلسطین پر غیر قانونی قبضے اور ظلم و ستم پر برطانیہ کی حکومت کے خلاف دعویٰ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ خلیجی اخبار "گلف نیوز" کے مطابق محمود عباس کہتے ہیں کہ وہ 1917ء کے اعلان بالفور پر برطانیہ کے خلاف مقدمہ کریں...

اسرائیل کی تخلیق میں مدد، فلسطین برطانیہ پر مقدمہ دائر کرے گا

دیوارِ گریہ کے آس پاس (۱) کاشف مصطفیٰ - جمعرات 28 اپریل 2016

سرجن کاشف مصطفیٰ کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے۔ وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں۔ انگلستان سے اعلیٰ تعلیم کے بعد وہ اپنے گرو ڈاکٹر حسنات احمد کے مشورے پر جنوبی افریقا چلے گئے وہیں ملازمت اور سکونت اختیار کرکے ایسا نام کمایا کہ جنوبی افریقا کے مشہور عالَم لیڈر نیلسن...

دیوارِ گریہ کے آس پاس (۱)

کیا ’’پیٹرو ڈالر‘‘ کا زوال قریب ہے؟ محمد انیس الرحمٰن - بدھ 09 مارچ 2016

اس بات میں اب کسی شک کی گنجائش نہیں رہی کہ آپریشن ضرب عضب کی صورت میں پاک فوج اور دیگر ملکی سلامتی کے ضامن اداروں نے جس انداز میں وطن عزیز سے عسکری دہشت گردی کے ساتھ ساتھ معاشی دہشت گردی کے گند کو صاف کرنے کا عزم کررکھا ہے اسے پاکستان میں بلا کسی تفریق کے عوامی سطح پر بہت سراہا ج...

کیا ’’پیٹرو ڈالر‘‘ کا زوال قریب ہے؟

مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر