... loading ...
زمین پر پیدا ہونے والے حالات کے اسباب ’’آسمان‘‘ پر ہمیشہ مختلف ہوتے ہیں یعنی قدرت جس وقت زمین پر قوموں اور ملکوں کے درمیان حالات کو منطقی نکتے کی جانب دھکیلتی ہے تو اسباب کا کارخانہ بھی زمین پر ہی قائم کرتی ہے۔ اس وقت دنیا جس بڑے تغیر کی زد میں ہے آسمان پر اسباب جو کچھ بھی ہوں لیکن زمینی عوامل اب شفاف نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔
عالمی تغیرات کے اس دور میں وقت تیزی کے ساتھ ہاتھوں سے نکل رہا ہے ، مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا میں کھیل ایک ہی سمت میں جاتا ہوا محسوس ہورہا ہے۔ حالات نے امریکا اور اس کے صیہونی عسکری اتحاد نیٹو کو ایک بڑی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ پاکستان میں اگر کوئی محب وطن اور دوراندیش سیاسی قیادت ہوتی تو یقینا امریکا اور نیٹو کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھاکر کم از کم جنوبی ایشیا میں اپنا وزن بڑھا لیتی ۔ کیونکہ اب اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں رہی کہ مشرق وسطی میں امریکا اور روس آمنے سامنے آچکے ہیں۔ عراق اور لیبیا میں نیٹوکی مداخلت کے بعد جس وقت معاملہ شام تک پہنچا تو امریکا اور اس کے صہیونی صلیبی اتحادیوں نے گویا کہ ’’ریڈ لائن‘‘ عبور کرلی تھی جس کے جواب میں اب روس نے شام میں اپنی فوج بھیج کر اس چیلنج کو گویا قبول کرلیاجبکہ ایرانی افواج اور حزب اﷲ پہلے ہی شامی حکومت کی جانب سے یہاں نبرد آزما ہیں۔یہی بات امریکا اور اسرائیل بھی چاہتے تھے تاکہ شام میں روس کا حشر افغانستان والا کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی تجزیہ نگاروں کے علاوہ اب عرب صحافتی ذرائع بھی اس بات پر قائل نظر آتے ہیں کہ شام کا موجودہ قضیہ درحقیقت امریکا اور روس کی جنگ اختیار کرگیا ہے۔ جبکہ یہ دونوں قوتیں سلامتی کونسل کی مستقل رکن بھی ہیں۔روس اور چین اس بات پر قائم ہیں کہ سلامتی کونسل کے باقی تین اراکین یعنی امریکا، برطانیا اور فرانس سابق بش انتظامیہ کے دور میں جس ’’گریٹر مڈل ایسٹ‘‘ کے منصوبے پر کام کررہے تھے ۔اس کا اصل مقصد اس خطے کو 56ریاستوں میں تقسیم کرکے انہیں عالمی صیہونی قوتوں کے زیر اثر لانا تھا تاکہ تیل سمیت یہاں پائی جانے والی معدنی دولت پر یہ قوتیں مکمل طور پر آسانی کے ساتھ تصرف حاصل کرسکیں۔یاد رہے کہ اس ’’گریٹر مڈل ایسٹ ‘‘ کے منصوبے میں افغانستان اور پاکستان تک کا علاقہ شامل تھا۔ اس لئے ماضی میں امریکی کانگریس میں بلوچستان کی آزادی سے متعلق شرمناک قرارداد پیش کئے جانے کا پس منظر سمجھ جانا چاہے۔
5فروری 2012ء کو سابق صیہونی امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے لکھاتھا کہ ’’تیسری عالمی جنگ شروع ہوچکی۔ اس جنگ میں ایک طرف امریکا اور اس کے اتحادی ہیں جبکہ دوسری جانب روس اور چین ہیں‘‘۔ امریکی اخبار’’ ڈیلی ا سکیپ‘‘ میں ایک انٹرویو کے دوران امریکی لومڑی کے نام سے معروف ہنری کسنجر کا کہنا تھا کہ ’’اس وقت عالمی منظر نامے میں جو کچھ ہورہا ہے، وہ محض بڑی اور شدید جنگ کی ایک تمہید ہے جس میں سے صرف ایک فریق ہی کامیابی حاصل کرسکے گا‘‘ ہنری کسنجر کے خیال میں وہ فریق امریکا ہوگا۔۔۔!! 92 سالہ ’’صیہونی دانشور‘‘ کا خیال ہے کہ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد امریکا نے روس اور چین کو عسکری لحاظ سے مضبوط ہوتے دیکھا ہے لیکن ان دونوں ممالک کی یہ قوت ہی ان کے زوال کا سبب بن جائے گی کیونکہ یورپ کو روس اور چین سے درپیش خطرات کا ادراک ہوچکا ہے اور یہی ایک خطرہ امریکا اور یورپ کو ان دونوں قوتوں کے خلاف ایک مرتبہ پھر متحد کردے گا۔ ہنری کسنجر کا کہنا تھا کہ واشنگٹن نے تیل اور گیس سمیت قدرتی وسائل پر مکمل تصرف حاصل کرنے کے لئے سات عرب ممالک پر قبضے کا منصوبہ بنایا تھاکیونکہ تیل پر قبضہ ملکوں پر قبضے کے مترادف ہے۔ جبکہ غذائی ذخائر پر قبضہ درحقیقت قوموں پر قبضے کی علامت ہے۔ ہنری کسنجر کا کہنا ہے کہ امریکی عسکری ادارے بڑی حد تک یہ اہداف حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں اور جو اہداف باقی رہ گئے ہیں ان تک پہنچا جارہا ہے۔ اس صورتحال نے روس اور چین کو بے چین کردیا ہے خصوصا اس ادراک نے کہ اسرائیل جلد اپنے مقابل ملکوں کے خلاف ایک بڑی جنگ کا آغاز کرنے والا ہے اور اس جنگ کے نتیجے میں نصف سے زیادہ مشرق وسطی اسرائیل کے قبضے میں آجائے گا۔اس لئے میں امریکا اور یورپی ممالک کو مشورہ دوں گا کہ وہ اپنی فوجوں کو اس تیسری عالمی جنگ میں شمولیت کے لئے تیار رکھیں جس میں ان کا سامنا روس اور چین سے ہونے والا ہے کیونکہ اس جنگ میں جو کامیاب ہوگا وہی تمام دنیا پر حکومت کرے گا۔ ہنری کسنجر کا کہنا تھا کہ اس بات کو فراموش نہ کیا جائے کہ امریکا کے پاس مہلک ہتھیاروں کا ایک ایسا وسیع ذخیرہ ہے جو دنیا میں کسی کے علم میں نہیں اور اسے مناسب وقت پر ہی منکشف کیا جائے گا۔۔۔‘‘
ہنری کسنجر کا شمار امریکا کے ان سفارتکاروں اور سیاستدانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے ساٹھ کی دہائی میں اہم عہدوں پر کام کیا ہے ۔1969ء سے 1975ء تک وہ امریکی صدر کا مشیر برائے قومی سلامتی رہا۔1973ء سے 1977ء تک وہ امریکی وزیر خارجہ کے منصب پر کام کرتا رہا ہے۔ ستر کی دہائی میں اسے امریکا اور سابق سوویت یونین کے درمیان رابطے کا ایک بڑا پل تصور کیا جاتا تھا۔ویت نام کی جنگ کے خاتمے میں وہ امریکی مذاکراتی ٹیم کا رکن رہا۔ مصر اور اسرائیل کے درمیان ’’کیمپ ڈیوڈ‘‘ معاہدہ کرانے میں اس کی ’’شٹل ڈپلومیسی‘‘ کا چرچا رہااور بعد میں انہی سرگرمیوں کے عوض اسے ’’امن کے نوبل انعام‘‘ سے بھی نوازا گیا۔بہت سے مغربی اور عرب تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہ ایک بوڑھے صیہونی ’’دانشور‘‘ کا ہذیان ہے جبکہ اس کے علاوہ دیگر ذرائع کا خیال ہے کہ ہنری کسنجر کے ان خیالات کو آسانی کے ساتھ رد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس قسم کے بیان سے پہلے یعنی جنوری 2012ء میں اس نے متعلقہ ممالک کا دورہ کیا تھا خصوصا چین اور روس کے دورے کے دوران اس نے وہاں کی پالیسی ساز شخصیات سے خصوصی ملاقاتیں کی تھیں۔عالمی امور پر نظر رکھنے والے اہم ذرائع کا کہنا ہے کہ ہنری کسنجر درحقیقت اس دورے کے دوران روس اور چین کے لئے امریکا کا اہم پیغام لے کر گیا تھا جس میں اس نے ان دونوں اہم ممالک کی پالیسی سازشخصیات کے سامنے یہ تجویز رکھی تھی کہ ’’دنیا کو امن اور سلامتی کا گہوارہ بنانے کے لئے ایک بین الاقوامی نظام متعارف کرایا جائے جو امریکی شرائط پر مبنی ہو لیکن روس اور چین کے لئے ان شرائط کو تسلیم کرنا امریکا کی اپنے اوپر عالمی سیادت مسلط کرنے کے مترادف تھا۔ اس لئے وہاں سے انکار کے بعد صورتحال تیسری عالمی جنگ کی جانب تیزی سے بڑھ رہی ہے‘‘۔
تین برس قبل جس وقت روس اور چین نے سلامتی کونسل میں شامی حکومت کے خلاف قرارداد کو ویٹو کیا تھا تو ان کا خیال تھا کہ اس طرح شام میں نیٹو کی مداخلت کی راہ ہموار کی جارہی ہے اور اس کے ایک ہفتے بعد ہی روس نے مغربی ممالک اور شامی حزب اختلاف پر الزام عائد کردیا کہ وہ شام کے موجودہ بحران کو پرامن طور پر حل کرنے میں رکاوٹ ہیں۔روسی خبررساں ایجنسی ’’ایتار تاس‘‘ نے روس کے نائب وزیر خارجہ سرگی ریابکوف کا یہ بیان شائع کیاتھا کہ شامی حزب اختلاف اور اس کے حمایتی شام میں بدترین خون ریزی کے ذمہ دار ہیں۔ اس کے ساتھ روسی وزیرخارجہ سرگی لافروف نے شامی حکومت اور حزب اختلاف کے رہنماؤں کو ماسکو میں مذاکرات کرنے کی دعوت دی تھی ان کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک شامی حزب اختلاف کو اسلحہ اوررقم فراہم کررہے ہیں جبکہ ان کا میڈیا عالم عرب میں یہ جھوٹ پھیلا رہا ہے کہ روس نے شامی حکومت کے خلاف قرارداد کو ویٹو کرکے خونریزی کو ہوا دی ہے۔
حالات کی سنگینی کا اندازااس ایک بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ دو سال قبل روسی وزیر خارجہ سرگی لافروف اور روسی خارجی انٹیلی جنس کے سربراہ میخائیل فرادکوف نے دمشق کا دورہ کرکے غیر ملکی مداخلت کے حوالے سے شامی حکام سے مذاکرات کئے تھے کیونکہ اکتوبر2011ء میں ہی روسی ذرائع نے اس قسم کی خبریں دینا شروع کردی تھیں کہ امریکا، برطانیااور فرانس کے خصوصی دستے اور ان کے ساتھ دہشت گردی کی خاطر تشکیل دی جانے والی مغرب کی پرائیویٹ سیکورٹی ایجنسیاں مثلا ’’بلیک واٹر‘‘ وغیرہ شامی حکومتی فوج کے خلاف خفیہ جنگ لڑ رہی ہیں۔ روسی ذرائع کا کہنا تھا کہ یہ بالکل ایسے ہی ہے جس طرح ان ممالک نے لیبیا میں بغاوت کے شروع میں کارروائی کی تھی اور آخری وقت تک نیٹو حکام مداخلت کے حوالے سے انکار کرتے رہے اور جس وقت قذافی کو قتل کردیا گیا تو نیٹو نے اعلانیہ اس بات کا اعتراف کیا کہ اس کے فوجی زمینی دستے بھی اس لڑای میں لیبیا کے ’’انقلابیوں‘‘ کا ساتھ دے رہے تھے۔۔۔!
گزشتہ چالیس برسوں سے شام پر مسلط لادین بعث پارٹی کا ظالم نظام شامی مسلمانوں پر مسلط رہا ہے۔ حافظ الاسد اور اس کے بیٹے بشار الاسد نے جو شامی مسلمانوں پر ظلم توڑے ہیں اس کی مثال تاریخ میں ملنا مشکل ہے۔ شام کے حماہ شہر کو شامی فضایہ نے سابقہ دور میں کھنڈر بنا دیا تھا اور ہزاروں شامی مسلمان شہید کردیئے گئے تھے لیکن اس وقت صہیونی مغرب خاموش رہا اور نہ ان کے کارپوریٹیڈ صہیونی میڈیا میں اس قسم کی خبریں دی جاتیں تھی لیکن اچانک یہ کیا ہوگیا اور اسرائیل نواز صیہونی مغرب اچانک پہلے لیبیا اور بعد میں شامی مسلمانوں کا ہمدرد کیسے بن گیا؟ یہ ہیں وہ اہم نکات جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کہ جنگ درحقیقت امریکا اور روس کی جنگ ہے۔ امریکا سے مراد امریکا یورپ اور اس پر حاکم عالمی صیہونیت جبکہ دوسری جانب روس اور چین ہیں۔ شام مشرق وسطی میں روس کے قریب تصور کیا جانے والا ملک ہے۔ اس کے علاوہ ماسکو نے گزشتہ شام کی خانہ جنگی سے پہلے دمشق کو چار بلین ڈالر کے جدید جنگی طیارے اور میزائل فروخت کئے تھے، روس کی شام میں مجموعی سرمایہ کاری کا حجم 20بلین ڈالر تھا۔ شام کے شہر حمص کے مشرق میں 200کلو میٹر کے فاصلے پر شام کے قدرتی گیس کے سب سے بڑے ذخیرے کو قابل استعمال بنانے میں بھی روسی سرمایہ کاری شامل ہوچکی تھی۔ بحیرہ روم کی جانب شام کی بندرگاہ طرطوس کو روسی جنگی بحری بیڑے کے قیام اور یہاں ایندھن کی فراہمی کے لئے جدید بنایا گیا۔ اس کے علاوہ روسی ایٹمی آبدوزوں کے قیام کو ممکن بنانے کے لئے جدید ترین شپ یارڈ بنانے کا منصوبہ ہے۔روس کے اس منصوبے سے روس کے ساتھ ساتھ چین کو بھی بحیرہ روم تک رسائی آسان ہوجاتی۔اس کے علاوہ روس خود تیل پیدا کرنے والا بڑا ملک ہے۔ اس لئے وہ خلیجی تیل کا محتاج نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عرب لیگ اسے کسی طور بھی چیلنج نہیں کرسکتی۔مختصراًیہ ان حالات کا ایک خلاصہ ہے جو اس وقت مشرق وسطی میں جنگ وجدل کا سبب بنے ہوئے ہیں اور یہ شعلے جلد تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ ہم شروع میں کہہ چکے ہیں کہ اسباب اور عوامل واضح ہوچکے ہیں۔ بہت پہلے صیہونی دنیا کے بڑے ترجمان ہنری کسنجر نے تیسری عالمی جنگ کا بگل بجا دیا تھا۔ اس تناظر میں ہمیں معلوم کرنے کی کوشش کرنا ہوگی کہ جو منصوبہ لیبیا میں لاگو کیا گیا اور جو اس وقت شام میں کارفرما ہے۔ بعینہ ایسا منصوبہ پاکستان کے خلاف بھی وضع کیا گیا تھا۔۔۔!! سب جانتے ہیں جس طرح تیونس کی زمین اور بحیرہ روم میں موجودہ نیٹو کے بحری بیڑے کو لیبیا کے خلاف استعمال کیا گیا۔ اسی طرح شام میں روس کی ناک رگڑنے کے لئے ترکی اور عراق میں نیٹو کے اڈے استعمال کرنے کا منصوبہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ عراق میں موجود مغرب کی دہشت گرد تنظیمیں جنہیں سیکورٹی فورسز کمپنیاں کہا جاتا ہے، استعمال میں لایا جارہا ہے۔ بلکہ اسی طرح افغانستان میں نیٹو فورسز کو اور افغانستان میں موجود مغرب کی نجی دہشت گرد تنظیموں کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا گیاتھا۔ عالمی صیہونیت کا منصوبہ تھا کہ پاکستانی قوم اور فوج کو الگ کردیا جائے ۔اسی مقصد کے لئے نام نہاداور فراڈ جمہوریت پیدا کی گئی جس نے کرپشن کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے اور قوم مہنگائی کے نہ نکلنے والے عذاب میں پھنس گئی اس سارے گندے کھیل میں کس سیاستدان اور کس ادارے کا کیا کردار رہا اس بحث میں اب جانے کا کوئی فائدہ نہیں پوری قوم اس سے آگاہ ہوچکی ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت دنیا زبردست تبدیلی کی زد میں آچکی ہے اور اس تبدیلی کی دستک شاید ہمارے دروازے پر اسی سال کے آخر میں ہوجائے ،ہمیں کیا کرنا ہوگا؟ آگے چل کر مشکل ایران کے لئے پیدا ہوگی کہ وہ امریکا اور روس کے تنازع میں خود کو کہاں کھڑا کرتا ہے۔ امریکا نے ایران کو روس سے الگ کرنے اور مشرق وسطی میں جنگی آگ پر مزید تیل ڈالنے کے لئے ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کرکے اس کے سامنے مفادات کا دانہ ڈالا ہے۔یہ ’’دانہ‘‘ ایران کے حلق میں بھی پھنس سکتا ہے ۔
روس اور چین نے صیہونی عسکری اتحاد نیٹو کو اپنے پہلو افغانستان میں صرف اس لئے برداشت کیا کہ انہیں معلوم تھا کہ اس صیہونی اتحاد کا حشر افغانوں کے ہاتھوں کیا ہوگا۔ روس اور چین نے عراق اور لیبیا میں ہونے والی کارروائی دور سے بیٹھ کر محض اس لئے دیکھی کہ وہ جانتے تھے کہ عراق اور لیبیا ایک ایسی دلدل ہیں جہاں سے نیٹو عسکری اتحاد بچ کر نہیں نکلے گا۔ عراق میں جو حشر ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ لیبیا میں جو ہورہا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔۔۔ شام میں روس اور چین آرام سے نیٹو کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے کیونکہ شام بحیرہ روم اور یورپ کی جانب ان کا سب سے بڑا ’’لانچنگ پیڈ‘‘ ہے۔اسی نیت کو بھانپتے ہوئے ہنری کسنجر نے امریکا اور یورپ کی مشترکہ صیہونی فوجی اتحاد نیٹو کو خطے میں بڑی مداخلت کے لئے تیار رہنے کا مشورہ دے دیا تھا۔اس میں شک نہیں کہ پاکستان نے ہمیشہ چین کو اپنے لئے ’’لائف انشورنش‘‘ سمجھا ہے اور یہ بات بڑی حد تک ٹھیک بھی ہے لیکن ’’بڑے تغیر ‘‘ کے وقت جس وقت کریملن اور بیجنگ خود ایک بڑے فریق کی طرح نبرد آزما ہوں گے اس وقت پاکستان کہاں کھڑا ہوگا؟ دنیا کا دستور ہے کہ جو اپنی جنگ آپ نہیں لڑ سکتا تواس کی جنگ کوئی بھی نہیں لڑتا۔ ہمارے لئے ’’سقوط ڈھاکا‘‘ اس کی ایک بڑی مثال ہے۔ امریکا افغانستان سے جانے کے بعد علاقے میں اپنا قائم مقام بھارت کو بنانا چاہتا تھا۔پاکستان کے تحفظ کے ضامن اداروں کو چاہئے کہ چین کی طرح روس کو بھی اپنے قریب کریں۔مشرق وسطی کے بدلتے ہوئے حالات پر گہری نگاہ رکھی جائے کیونکہ ہم خود اس خطے کا ایک حصہ قرار دے دیئے گئے ہیں۔ایسے لوگوں کو اہم ذمہ داریاں سونپی جائیں جو زمین کے ساتھ ساتھ آسمانی عوامل کا بھی ادراک رکھتے ہیں۔
سلطنت عمان نے اسرائیلی سویلین طیاروں کو دنیا کے مشرقی حصے تک پہنچنے کے لیے اپنی فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔عبرانی اخبار نے اسرائیلی سول ایوی ایشن کمپنی کے اگلے دو ماہ میں ہندوستان کے لیے اپنی پروازیں منسوخ کرنے کے فیصلے کا حوالہ دیا ہے۔ اس کی وجہ سلطنت ع...
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ایک رپورٹ میں مطالبہ کیا ہے کہ فلسطینیوں کو نسلی امتیاز کا نشانہ بنانے پر اسرائیل کو جوابدہ ہونا چاہیئے۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایمنسٹی انٹرنیشنل نے فلسطین کی صورت حال پر ایک 35 صفحات پر مشتمل رپورٹ شائع کی جس میں اسرائیل کے وحشیانہ جبر اور غیر قان...
مشرق وسطی کی صورتحال میں نیا موڑ آگیا، سعودی عرب اور ایران سفارتی تعلقات بحال کرنے پر رضامند ہو گئے۔ایرانی میڈیا کے مطابق سعودی عرب اور ایران اپنے سفارتخانے کھولنے کی تیاری کررہے ہیں، رکن ایرانی پارلیمنٹ جلیل رحمانی نے گفتگو میں سفارتی تعلقات بحالی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ دونو...
برطانوی اداکارہ ایما واٹسن نے فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کی جس پر اسرائیلی حکام اور حمایت یافتہ افراد آگ بگولا ہوگئے۔برطانوی اداکارہ نے ایک روز قبل سماجی رابطے کی ویب سائٹ اور فوٹو ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم انسٹاگرام پر فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے ایک تصویر پوسٹ کی جو گزشتہ...
اسرائیل میں ماہرین آثار قدیمہ نے 900 سال پرانی صلیبی جنگوں کے دور کی ایک بڑی تلوار دریافت کی ہے۔غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق آثار قدیمہ محکمے کے ایک افسر نے بتایا کہ کو چند روز قبل ایک شخص کو تیراکی کرتے ہوئے تلوار ملی ہے۔ انہوں بتایا کہ ایک شوقیہ غوطہ خور کچھ دن پہلے اسرائیلی ب...
آئرش مصنفہ سیلی رونی کی پہلی دو کتابوں کے عبرانی پبلشر مودان پبلشنگ کے ترجمے کے بعد کہا ہے کہ مصنفہ نے اپنی نئی کتاب کے عبرانی میں ترجمے سے روک دیا ہے۔ اس کی وجہ آئرلینڈ کی مصنفہ کی طرف سے اسرائیل کا ثقافتی بائیکاٹ ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق آئرش مصنفہ کی نئی کتاب خوبصورت دنیا ، آپ ...
اسرائیلی وزارت خارجہ نے وزیر خارجہ یسرایل کاٹز کے ایما پر''مقبوضہ بیت المقدس''میں ترک حکومت کی سرگرمیوں اور ترکی کے تعاون سے چلنے والے منصوبوں پر پابندی لگانے کا منصوبہ تیار کر لیا۔اسرائیلی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس میں ترکی کی سماجی اور ترقیاتی سرگر...
ایران کے پاسداران انقلاب کے کمانڈر انچیف میجر جنرل حسین سلامی نے اسرائیل کو غیرقانونی ریاست قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ روایتی حریف کی تباہی قابل حصول ہدف بن گیا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق میجرجنرل حسین سلامی نے کہا کہ یہ ناجائز ریاست کو نقشے سے ضرور ختم کردیا جائے گا اور یہ دور نہیں، ...
غزہ میں اسرائیل نے 2014 کے بعد فلسطینیوں کے 2ہزار مکانات مسمار کر دیئے ۔فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی پر اسرائیلی ریاست کی طرف سے مسلط کردہ محاصرے کے خلاف سرگرم کمیٹی کے سربراہ جمال الخضری غزہ میں ایک پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی فوج نے 2014 کے بعد مختلف کارروائیو...
فلسطین کے صدر محمود عباس نے اعلان کیا ہے کہ وہ اسرائیل کی تخلیق اور فلسطین پر غیر قانونی قبضے اور ظلم و ستم پر برطانیہ کی حکومت کے خلاف دعویٰ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ خلیجی اخبار "گلف نیوز" کے مطابق محمود عباس کہتے ہیں کہ وہ 1917ء کے اعلان بالفور پر برطانیہ کے خلاف مقدمہ کریں...
سرجن کاشف مصطفیٰ کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے۔ وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں۔ انگلستان سے اعلیٰ تعلیم کے بعد وہ اپنے گرو ڈاکٹر حسنات احمد کے مشورے پر جنوبی افریقا چلے گئے وہیں ملازمت اور سکونت اختیار کرکے ایسا نام کمایا کہ جنوبی افریقا کے مشہور عالَم لیڈر نیلسن...
اس بات میں اب کسی شک کی گنجائش نہیں رہی کہ آپریشن ضرب عضب کی صورت میں پاک فوج اور دیگر ملکی سلامتی کے ضامن اداروں نے جس انداز میں وطن عزیز سے عسکری دہشت گردی کے ساتھ ساتھ معاشی دہشت گردی کے گند کو صاف کرنے کا عزم کررکھا ہے اسے پاکستان میں بلا کسی تفریق کے عوامی سطح پر بہت سراہا ج...