... loading ...
چار برس پہلے باب وڈورڈنے ’’اوبامازوارز‘‘نامی تہلکہ خیز کتاب لکھی تو پاکستان سمیت دنیا بھر میں بھونچال سا آگیا کہ کیا کسی صحافی کو خفیہ معلومات تک اس قدر رسائی بھی حاصل ہوسکتی ہے ۔ کتا ب کو The Pulitzerانعام بھی ملا۔یہ ایوارڈ ایسے مصنفین کو ملتاہے جو کوئی غیر معمولی تحقیقی یا ادبی خدمت سرانجام دیتے ہیں۔
مصنف نے ایسے کتاب لکھی جیسے کہ وہ قعات کا چشم دید گواہ ہو۔وہ بتاتے ہیں کہ پالیسی سازافراد اور اداروں کے مابین کن امور پر اختلافات تھے ۔ کس طرح خفیہ ادارے اور دفتر خارجہ ایک دوسرے کی کاوشوں کو ناکام بنا تے۔کتاب پر دنیا بھر اور پاکستان میں بہت تبصرے ہوئے لہٰذا ایک اور تبصرے کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں۔کتاب کے جس پہلو نے میری توجہ خاص طور پراپنی جانب مبذول کرائی وہ ہے وڈورڈ کا کتاب لکھنے کا نسخہ اور پھر بلاجھجک قارئین کو اپنا رازداں بنانا ہے۔
چونکہ باب وڈورڑ1971ء سے واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ ہیں لہٰذا اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں کہ انہیں اقتدار کی راہداریوں میں رسائی حاصل رہی ہے۔ باب وڈورڈ کہتے ہیں کہ انہوں نے یہ کتاب تنہا نہیں لکھی بلکہ دوساتھیوں نے ان کی معاونت کی۔ بلکہ اگر ان دوافراد کی مدد میسرنہ ہوتی تو غالباًیہ کتاب منظرعام پر نہ آتی۔
سب دلچسپ پہلو یہ ہے کہ امریکی حکومت نے باب وڈورڈ سے کچھ بھی چھپایا نہیں ۔بلکہ اسے نیشنل سیکورٹی کونسل کی حساس دستاویزات ، امریکی پالیسی سازی کے امور میں شریک ایک سو اہم افراد کے سرکاری اور ذاتی نوٹس،سرکاری یادداشتوں،خطوط، ای میلز،ڈائریوں اورنقشوں تک رسائی فراہم کی، حتیٰ کہ حکومت نے اُنہیں آڈیوویڈیو ریکارڈ بھی فراہم کر دیا ۔یہ جان کرتو میں چونک گیا کہ کوئی حکومت کسی صحافی پر اتنا اندھا اعتماد بھی کرسکتی ہے۔ہمارے ہاں تو ریٹائرڈ سرکاری افسروں تک پر اعتماد نہیں کیاجاتا کہ مبادا وہ دشمن کے ہتھے نہ چڑھ جائیں یا حقیر مفادات کی خاطر بک نہ جائیں۔
کتاب کی تیاری کے دوران بے شمار سرکاری اور نیم سرکاری شخصیات سے انٹرویوز کیے گئے۔انہوں نے وڈورڈ کوکھلے دل سے اپنے تجربات اور مشاہدات میں شریک کیا۔البتہ شرط لگائی کہ وہ ان معلومات کو کسی سے منسوب کیے بغیر لکھ سکتے ہیں تاکہ سرکاری پوزیشن یا موقف متاثر نہ ہو۔وڈورڈ کہتے ہیں کہ میں نے بعض اعلیٰ شخصیات سے پانچ پانچ بار بھی انٹرویوز کیے ۔کیونکہ بعض نکات تشنہ رہ جاتے یا پھر مزید معلومات کی ضرورت پیش آجاتی۔سوائے چند افراد کے اکثر لوگوں نے انٹرویوز ریکارڈ کرنے کی اجازت دی۔ان انٹرویوز کو کمپیوٹرپراتارا گیا تو تین سو صفحات کی ضخیم جلد بن گئی۔وائٹ ہاؤس کے افسروں نے کشادہ دلی کا مظاہرہ کیا اور وڈورڈ کو بتایاکہ سرکاری اجلاسوں سے پہلے کیا تیاری کی جاتی تھی۔اجلاس سے قبل کیا سیاست چلتی اور بعدازاں کس طرح فالو اپ ہوتا۔بعض اوقات سرکاری افسر اور مختلف وزارتیں ایک دوسرے کو ناکام کرنے کے لیے کیا کیا حربے اختیار کرتیں۔کتاب کی منفرد بات یہ ہے کہ مصنف کوصدر اوباما نے ایک گھنٹے پندرہ منٹ تک انٹرویو بھی دیا۔
سب سے مزیدار بات جو پاکستان کے سینئر صحافیوں اور ایڈیٹروں کی توجہ اور عمل کی متقاضی ہے کہ با ب وڈورڈ کس طرح اپنے ساتھ کام کرنے والے ساتھیوں کا تعارف کراتاہے اور ان کی دل کھول کرستائش کرتاہے۔وہ کہتاہے کہ یہ میری خو ش قسمتی تھی کہ جوزف بوہک جیسے شہ دماغ نوجوان کی خدمات مجھے میسر آئی۔یہ نوجوان بلاکا ذہین اور حافظے کا مالک ہے۔افغانستان کی جنگ کی تمام تر معلومات ہی نہیں بلکہ جزیات تک اسے ازبر ہیں حالانکہ سیاست یا حربی امور اس کا کبھی موضوع نہیں رہے۔وڈورڈ کہتے ہیں کہ وہ میرے دماغ کا ایک حصہ بن گیا بلکہ دماغ کا بہترین حصہ۔بسااوقات مجھے یقین ہوجاتاکہ وہ سب کچھ جانتاہے یاجو کچھ وہ نہیں جانتاوہ چند لمحات میں تلاش کرسکتاہے۔میں نے کتاب کی تیاری میں اس پر بہت انحصار کیا۔وہ مجھے کام پر اُکساتااور میں اُسے ۔ہم دونوں کے مابین اعتماد کا ایک اٹوٹ رشتہ قائم ہوگیا۔
وڈورڈ کے ساتھ ایک پچیس سالہ نوجوان خاتون ایونلی نے بھی کام کیا۔وڈورڈ اس خاتون کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اتنی کم عمر میں وہ جادہ گرنی کی طرح کام کرتی ۔علمی معاملات میں رہنمائی کرتی ۔انٹرویوز کو صفحہ قرطاس پر منتقل کرنے کا ادق کام سرانجام دیتی۔ صدر اوباما سے لے کر خفیہ اداروں کے حکام اور افغان گوریلاکمانڈروں تک کی شخصیت کی باریکیوں کے بارے میں معلومات کے بیان پر اسے ملکہ حاصل تھا۔قدرت نے اسے اعلیٰ پائے کی نثر لکھنے سے بھی مالامال کررکھا ہے۔
’’اوبامازوارز‘‘ پڑھ کر دوباتیں مجھے کھٹکیں۔پاکستان افغان جنگوں کا مرکز رہا لیکن ایک بھی ڈھنگ کی کتاب کوئی پاکستانی مصنف نہ لکھ سکاکیونکہ معلومات کے خزانے پر اسٹیبلشمنٹ سانپ بن کر بیٹھی ہوئی ہے۔وہ معلومات شیئر کرتی ہے اور نہ آزاد علمی کاموں کو پسند کرتی ہے ۔
دوسرانکتہ جو دل میں چبھا وہ ہے نوجوان لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کا ۔تین چار بڑے اردو اخبارات میں لکھنے والے اکثر کسی نہ کسی گروہ،جماعت یا پھر اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے تصورکیے جاتے ہیں۔رفتہ رفتہ اپنی مرضی اور دانش سے لکھنے والوں کے لیے جگہ بنانا مشکل کام بن گیا ۔ سینئر صحافی اورایڈیٹرز نے نوجوانوں کی تربیت اور حوصلہ افزائی کا سلسلہ عملاً ترک ہی کردیاہے بلکہ اکثر انہیں اپنی نوکری کے لالے پڑے رہتے ہیں۔
اس کے برعکس مغرب میں ہر ایڈیٹر اور لکھاری کے گرد شاگردوں کی ایک پوری ٹیم ہوتی ہے۔جن کی وہ سرپرستی کرتاہے اور ساتھ لے کر چلتاہے۔سرکاری ادارے انہیں معلومات میں شریک کرتے ہیں لیکن ایجنٹ نہیں بناتے۔نوجوان رپورٹنگ سے کام شروع کرتے ہیں۔چند برسوں بعدمصنف بن جاتے ہیں۔ پھر کسی بڑے پالیسی ساز ادارے میں ملازم ہوجاتے ہیں ۔تھنک ٹینکس میں خدمات سرانجام دینے والے سفارت کار بن جاتے ہیں یا بعض اوقات وہ حکومت میں بھی شریک ہوجاتے ہیں۔امریکا میں خاص طورپر حکومت بدلتی ہے تو سابق وزراء اور افسروں کی ایک پوری فوج ملازمت سے فارغ ہوجاتی ہے جو تعلیمی اورعلمی اداروں کا رخ کرتی ہے۔وہاں بیٹھ کرکتابیں لکھتی ہے۔لیکچرزدیتی ہے اور نوجوان طلبہ اور طالبات کو اپنے تجربات اورمشاہدات میں شریک کرتی ہے۔اس طرح مغرب علمی محاذ پر اپنی نئی نسل کی تیاری کا سلسلہ جاری رکھتاہے اور دنیا پر اپنی دھاک بیٹھتاہے۔
چند دن قبل دبئی میں ڈاکٹر عاصم سے ملاقات ہوئی۔تپاک سے ملے اور ہمدردی سے کہنے لگے کہ آپ کی تحریریں پڑھتے ہوئے زمانہ گزرگیا لیکن سمجھ نہیں آتی کہ آپ نون لیگ کے حامی ہیں یا تحریک انصاف کے۔کبھی آپ وزیراعظم نوازشریف کی مدح سرائی فرماتے ہیں اور کبھی عمران خان کے حق میں زمین وآسمان کے ق...
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا لاہور تشریف لانا غیر معمولی اہمیت کا حامل ہی نہیں بلکہ پا ک بھارت تعلقات میں نئے باب کا اضافہ بھی کرسکتا ہے اور لگ بھگ ستر برس تک تنازعات میں گھرا یہ خطہ امن اور علاقائی تعاون کی جانب گامزن ہوسکتا ہے۔ وزیر اعظم مودی نے سفارت کاری بالخصوص پاکستان کے...
رمضان کا تیسرا عشرہ تھا ۔ بھائی نزاکت محمود رات گئے گھر تشریف لائے۔سفر، تھکاوٹ اور کچھ کاہلی کے سبب گاڑی گیراج میں کھڑی کرنے کے بجائے گلی میں پارک کردی۔سحری کے وقت گاڑی موجود نہ پا کر سب کے ہاتھ پاؤں پھول گئے ۔ہمارا گھر ائیر پورٹ سے تین اورمقامی تھانہ سے دو کلو میٹر کی مسافت پر ہ...
اگرچہ مشیر خارجہ سرتاج عزیز کے بھارتی وزیرخارجہ سشماسوراج سے پرجوش مصافے نے دونوں ممالک کے درمیان تین سال سے جمی ہوئی برف کو پگھلا دیا ،لیکن ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔سشما سوراج اور ان کے پاکستانی ہم منصب سرتاج عزیز نے اتفاق کیا ہے کہ نہ صرف ماضی میں کئے جانے والے مذاکرات او...
چند دن قبل فرانس کے شمال مشرقی شہرا سٹراس برگ کے ایک وسیع وعریض ہال میں یورپی پارلیمنٹ کے چار ارکان سمیت کوئی ایک سو بیس کے لگ بھگ مندوبین جمع تھے۔ پاکستان میں ’’چین:انسانی حقوق کے حوالے سے بڑھتے ہوئے خدشات‘‘ موضوع سخن تھا ۔اس مجلس میں جاوید محمد خان نامی ایک شخص نے بلوچستان کا م...
پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کے واشنگٹن کے پے درپے دورے بے سبب نہیں۔گزشتہ کچھ عرصہ سے صدر بارک اوباما نے پاکستان کے حوالے سے لچک دار پالیسی اختیار کی۔افغانستان میں اس کے نقطہ نظر کو ایک حد تک قبول کیا۔اس کے خلاف عالمی بیان بازی جو معمول بن چکی تھی کو روکا گیا۔پاکستان کا جوہری پ...
اگرچہ حکمران نون لیگ کے امیدوار سردار ایاز صادق قومی اسمبلی کی نشست پر فتح یاب ہوچکے ہیں لیکن اس ضمنی الیکشن نے پارٹی کے اندر جاری انتشار اور پنجاب میں مسلسل حکمران رہنے کے باعث درآنے والی کمزوریوں کو طشت ازبام کردیا ہے۔پارٹی کے اند ر بالائی سطح پر پائی جانے والی کشمکش نے عوامی ف...