... loading ...
کتنا اچھا ہوتا اگر ہر عورت دوسری عورت کو اپنی ہی جیسی سمجھتی۔ معاشرہ ترقی کرتا۔ معاشرے کی ترقی اس لیے بھی ہوتی کہ مردوں کی بڑی تعداد کامیاب کہلاتی۔ عام بات ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ یقینا یہ بات درست ہوگی۔ اگر درست ہے تو وہ مرد یقینا کامیاب ہونگے جو ایک سے زائد بیویاں رکھتے ہیں۔کاش یہ بات عورت سمجھ لے اور اپنے مرد کو خود سے دوسری شادی کی اجازت دیدیں۔
میں نے ایک عالم سے پوچھا کہ شرعی طور پر دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت ضروری ہے ؟ مولانا نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے مخصوص انداز میں کہا کہ ’’کیوں ـ، شادی آپ کررہے ہیں، بیوی کی اجازت کا سوال کیوں‘‘۔ مولانا نے ہمارے خاموش رہنے پر پھر کہا کہ ’’بھائی صاحب دوسری شادی کے لیے شرعی تقاضوں کی ضرورت ہے، بیوی کی اجازت کی نہیں‘‘۔
آج ایک ریٹائرڈ سرکاری افسر نے جو انتہائی نفیس شخصیت کے مالک اورمیرے اچھے دوست بھی ہیں نے یہ ایس ایم ایس بھیجاکہ ’’ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت (بیوی) کا ہاتھ ہوتا ہے، زیادہ کامیابیاں حاصل کرنے کی خواہش ہو تو تعداد بڑھائی جاسکتی ہے‘‘۔ یہ پیغام پڑھ کر اندازہ لگانا مشکل تھا کہ انہوں نے مجھ سے سوال کیا ہے یا اپنی ادھوری خواہش کا اظہار ؟ بہرحال یہ پیغام پڑھ کر انہوں نے میری سوئی ہوئی خواہش کو بیدار کردیا۔ نتیجہ میں ردعمل کا اظہار پورے جذبات سے باہر آیا۔ میں نے جواب دیا ’’سر خواہش تو کامیابیوں کی بہت ہے مگر کیا کریں ہم مشرقی مرد ہیں جن کی آنکھوں کے سامنے ایسی خواہشات کا تصور کرتے ہی اپنی بیوی کا چہرہ بالکل اسی طرح آجاتا ہے جیسے قربانی کے جانور کی آنکھوں کے سامنے چھریاں‘‘۔ ایسے میں کوئی پاگل ہی ہوگا جو اپنی خواہش کااظہار بھی کرسکے، خواہش پوری کرنا تو بہت ہمت کی بات ہے۔
میرے سمجھ میں نہیں آتا کہ ’’ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہونے کا‘‘ مقولہ کہاں سے اور کن حالات کو دیکھ کر تخلیق پایا۔ اس لیے یہ سوال تو مجھ جیسے چپکو انسان پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ ’’اس کامیاب مرد کے پیچھے جس عورت کا ہاتھ تھا وہ اس کی پیٹھ پر تھا یا سر پر ؟‘‘۔ سوال یہ بھی ہے کہ وہ مرد صاحب آخر کس حد تک اور کس مرحلے میں ناکام تھے کہ عورت آئی اور اسے کامیاب کردیا ؟
جدید حالات اور ہمارے ملک کی شخصیات کو دیکھ کر تو اندازہ ہوتا ہے کہ’’ہر مرد کی ناکامی کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا‘‘۔ یقین نہ آئے تو کپتان عمران خان اور الطاف بھائی کی زندگی کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔
کامیاب خوشحال اور آزاد زندگی گزارنے والوں کو دیکھنے سے پتا چلتا ہے کہ ان کی کامیابی تو اس وجہ سے ہوئی ہے کہ ان کی زندگی میں بیوی نام کی چیزآئی ہی نہیں ہے۔ تاہم عورت بلکہ عورتوں کاسلسلہ بھی رہا ہے۔اس بات کو سچ ثابت کرنے کے لیے شیخ رشید کا نام دیا جاسکتا ہے۔ ویسے ایک حقیقت اور اسٹڈی رپورٹ ہمارے معاشرے کی بھی ہے کہ ’’ایک سے زیادہ شادیاں کرنے والے مرد ان مردوں سے زیادہ کامیاب ہے جنہوں نے ایک ہی بیوی پر تکیہ کیا۔‘‘
الیکٹرونکس میڈیا سے تعلق رکھنے والے ایک بڑے ٹائیکون کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں جنہوں نے بچوں کی تعداد کے بجائے بیویوں کی تعداد بڑھانے پر توجہ دی۔ ان سے جب میں نے خود یہ بات پوچھی کہ ’’آپ نے بچے دو ہی اچھے اور بیویاں تین اچھی کے مقولہ کو کیوں پروان چڑھایا‘‘۔ جواب دیا ’’انور آج کے بچوں کا کوئی بھروسہ نہیں، بیویاں تو اپنی ہے کہاں جائیں گی‘‘۔
ان کا یقین ہے کہ دولت عورت نہیں بلکہ ’’عورتوں‘‘ کے نصیب سے آتی ہے۔ ان کے اس جواب سے دماغ عرب شیخوں کی جانب گیا اور ان کی بات پر یقین کرنا پڑا۔
چند روز قبل ٹی وی پر دیکھا جو چار بیویوں کے ساتھ لیڈی اینکر کے پروگرام میں بیٹھ کر جواب دے رہے تھے کہ یہ چاروں کو ہنستا کھیلتا زندگی گزارتے ہوئے دیکھ کر ان کی پانچویں ساتھی کو تلاش کرنے کا دل چاہتا ہے۔
پس پتا چلتا ہے کہ ہر مرد کی کامیابی کے پیچھے عورت نہیں بلکہ عورتوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔ لیکن ضروری ہے کہ یہ سب عورتیں بیویاں بن کر ساتھ ہی رہیں۔ یہ بات مردوں سے زیادہ عورتوں کے سوچنے کی ہے، اس لیے میرے بھائیوں کو تو کن سوچوں میں پڑ گئے ہو، انہیں سوچنے دو جو کچن میں آپ کو سوچوں میں مگن دیکھ کر بڑی ’’مفکر‘‘ بنی ہوئی ہیں۔
ہمارے معاشرے کی عورت بھی اپنے خاوند کی صرف اس لیے بہت عزت اور احترام کرتی ہے کہ وہ بہت محنتی ہوتے ہیں۔ انہیں اپنے اور بچوں کے لیے بھی وقت نہیں ملتا۔ یہ معاملہ فیس بک پر اٹھا تو جواب آیا کہ نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ ’’جو مرد دفتر میں وقت زیادہ دیتے ہیں وہ اپنی بیوی سے تنگ اور دفتر میں کسی کے سنگ ہوتے ہیں‘‘۔ کسی کا تعلق مرد سے تو ہونے سے رہا، ظاہر ہے وہ بھی عورت ہی ہوگی۔ جب عورت ہوگی تو پھر مرد کی کامیاب زندگی ہوگی اور اس کامیابی کے پیچھے دو عورتوں کا ہاتھ ہوا ناں !