... loading ...
وہ نظام کبھی فلاح انسانیت کا مکمل ضامن نہیں ہو سکتا جو مختلف علاقوں میں جا کر اپنا بھیس بدل لیتا ہو، اپنے اطلاقی احکامات میں تبدیل ہو جاتا ہو، اور اپنے نتائج میں بالکل مختلف بن جاتا ہو۔ جمہوریت ایک ایسی ہی طرزِ حکومت ہے جو پہلی دوسری اور تیسری دنیا میں اپنے الگ الگ چہرے اور مختلف نتائج پیدا کرتا ہے۔ بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ اسی جعلی جمہوریت کو سمجھنے کا ایک بہترین موقع بن کر سامنے آیا ہے۔
پاکستانی سیاست و صحافت ناقابل عمل وعدوں کی ڈگڈی سے بجتی اور جعلی امیدوں پر زندگی کرتی ہے۔ بلدیاتی انتخابات سے پیدا ہونے والے اصل سوالات کو اہلِ سیاست وصحافت سلسلۂ عمل اور تدریج (پراسیس) کی بحثوں میں گم کردیتے ہیں۔ جمہوریت کے ساتھ ایک جعلی رومان ارتقا کی ایک ایسی آکاس بیل سے جڑا ہے جس کے پھلنے پھولنے کا کوئی بھی نتیجہ کسی پھل پھول سے وابستہ نہ ہونے کے باوجود ایک تکرار سے یقین میں فروغ پاچکا ہے۔صحافت بلدیاتی انتخابات میں اس یقین کی شہادتیں ڈھونڈنے میں مکمل ناکام ہے مگر وہ جعلی مباحث پیدا کرنے میں مکمل کامیاب ہے۔ اہلِ صحافت نے بلدیاتی انتخابات میں جس بحث کو سب سے زیادہ فروغ دیا ہے وہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے سندھ میں باقی جماعتوں کا صفایا کردیا ہے اور مسلم لیگ نون نے پنجاب میں تحریک انصاف پر ایک زبردست جھاڑو پھیر دی ہے۔ ہماری لفظیات ہماری اندرونی خواہشات سے جنم لیتی ہے جو معروضیت کے کسی صحافتی دعوے کو بطور دعویٰ بھی باقی نہیں رہنے دیتی۔ مگر اس سے قطع نظر کیا عملاً ہمارا قومی منظرنامہ بھی ایسا ہی ہے، کیا جن جماعتوں پر انتخابات میں جھاڑو پھر گئی ہے ،وہ قومی سیاست سے بھی صاف ہو چکی ہیں ، اور وہ اجتماعی زندگی پر کسی نوع کا اثر پیدا کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہو چکی ہیں؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ مگر جمہوری نظام میں انتخابات کو بنیادی پیمانہ سمجھ کر یہ قیاس کر لیا جاتا ہے۔ اور اس قیاس سے بھانت بھانت کے مفروضے بھی پیدا کر لیے جاتے ہیں۔ جمہوریت میں انتخابات کا مقیاس بجائے خود کوئی مکمل اور بے عیب نہیں سمجھا جاتا۔ بلکہ اسے مگرمغربی نظام میں اب تک کا ایک قابلِ انحصار ذریعہ سمجھا جاتا ہے، جسے عیب دار ہونے کے باوجود محض اس لیے گوارا کیا جاتا ہے کیونکہ اس کا کوئی بہتر متبادل انسانی ذہن کے رسا تصورات میں اب تک آ نہیں سکا۔ اسی لیے جمہوریت میں انتخابات کے ذریعے جیت کو اخلاقی فتح وشکست کے تصورات میں خود مغرب باندھ کر پیش کرتا ہے۔ پاکستان میں جو اہلِ سیاست و صحافت اس پر اُچھل کو د کر رہے ہیں ، وہ جمہوریت کے بارے میں اس حقیقی بحث کی ٹھوس علمی بنیادوں سے ذرا آگاہی پیدا کرنے کی زحمت اُٹھائیں۔
اب اس بحث کا ایک دوسرا مگر عملی پہلو بھی زیر بحث لاتے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات یا مقامی حکومتوں کا تصور جس بنیادی نکتے پر کھڑا ہے وہ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں طاقت کی پیاس اور تلاش ہر جگہ، ہر شعبے اور ہر شخص میں موجود ہے۔ صدیوں کی مختلف النوع غلامیوں اور برسوں کی ناکامیوں نے ہمارے اجتماعی رویوں کی ساخت اور نفسیاتی بناوٹ کچھ اس طرح کی ہے کہ طاقت کا ارتکاز ہمارے مزاج میں رچ بس چکا ہے۔ چنانچہ یہاں ایک فوجی آمر جتنا اختیارات کو اپنی ذات کے گرد رکھتا ہے ، اُس سے کہیں زیادہ ایک جمہوری حکمران بھی اختیارات کو اپنے گرد رکھنا چاہتا ہے۔اس باب میں طرزِ حکومت کے اختلاف کے باوجود حقیقت یکساں ہے۔ سیاسی جماعتیں ان کے گھر کی باندیاں ہوتی ہیں۔ ایک وزیراعظم اپنی کابینہ کو مکمل اختیارات نہیں دینا چاہتا ۔ اور ایک وزیر اپنی وزارت میں اختیارات میں شراکت دینے کو تیار نہیں ۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے تو حکمرانی کا جو معیار متعارف کرایا ہے، جعلی جائزوں کو ایک طرف رکھئے ، سیاسیات کے طالب علموں کے لیے یہ آمروں سے زیادہ آمر بننے کی حقیقی بحث کی ایک جامع مثال سے بھی بہت بڑھ کر ہے۔ اس صورت میں یہ کیسے ممکن ہے کہ بلدیاتی انتخابات اور مقامی حکومتوں کے ذریعے اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کا کوئی تسلی بخش عمل اس آمریت پسند جمہوری سیاسی کھیپ کی موجودگی میں ممکن ہے۔ چنانچہ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں ہی یہ حقیقت عریاں ہو کر سامنے آگئی کہ اس میں شرکت کرنے والے عناصر معاشرے کے کن طبقات سے تعلق رکھتے ہیں ؟ذرائع ابلاغ کے لیے تو یہ ایک گنتی کا موضوع ہے کہ مسلم لیگ نون نے کتنی نشستیں حاصل کیں اور پیپلز پارٹی نے کتنی نشستوں پر ہاتھ صاف کئے۔ مگر اصل موضوع یہ ہے کہ ان انتخابات میں کس طرح کے لوگ اوپر آئے؟ اور ان سیاسی جماعتوں نے کس طرح کے امیدواروں کو آگے بڑھایا؟ اگر اس سوال پر غور کیا جائے تو بلاامتیاز ہارنے اور جیتنے والی تمام جماعتیں ہار جیت کے بغیرایک ہی طرح کا ذہن رکھتی ہیں اور ایک ہی طرح بروئے کار آتی ہیں۔ ان کے نزدیک افراد کے انتخاب کا معیار یہ نہیں ہے کہ یہ معاشرے کے کتنے بہتر لوگ ہیں ، بلکہ یہ ہے کہ یہ کتنے بااثر ہیں۔ مسلم لیگ نون ان سب جماعتوں پر بازی لے گئی اُس نے ایک ایسے امیدا وار کو نامز دکیا جو انتخابی عمل کے دوران بھی جیل میں تھا۔ اُس سے زیادہ بااثر شخص کون ہو سکتا ہے جو جیل میں رہ کر بھی انتخاب جیت سکتا ہو؟ باقی رہے اخلاقی معیارات اورمعاشرے میں شرف کے طور پر اہلیت کے تعین کا کوئی ضابطہ ، قاعدہ ۔تو ان سب کو بھاڑ میں جھونکیں۔
بدقسمتی دیکھیے کہ جمہوریت کا سارا لین دین (ٹرانزیکشن) بلدیاتی کھاتے سے ہوتا ہے۔ مگر بلدیاتی انتخابات میں کس طرح کے لوگوں کو اُبھارا جارہا ہے؟ سروے کرنے والے ادارے اس طرف متوجہ نہیں ہوتے کہ وہ یہ جانچیں کہ امیدواروں کے انتخاب میں سیاسی جماعتوں نے اپنے پیش نظر اہلیت کے کیا معیار رکھے ؟ امیدوار زندگی کے کن شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں؟ ایک محتاط جائزے کے مطابق لاہور میں جو امید وار سب سے زیادہ اُبھر کر سامنے آئے، اُن میں زیادہ تر املاک وجائیداد (رئیل اسٹیٹ) کے کاروبار سے وابستگان کی ہیں۔ ان امیدواروں میں بیشتر صوبائی اور قومی سطح کی سیاست میں حصہ لینے والے خاندانوں کے ہی ’’معززین‘‘، متعلقین ، مقربین ، موافقین، معاونین اور مصاحبین پر مشتمل ہیں۔ اس طرح یہ سیاسی اشرافیہ کی اگلی منتظر نسل کا ہی انتخاب ہے۔ ان انتخابات سے یہ کیسے امید کی جاسکتی ہے کہ اختیارات کسی نچلی سطح پر منتقل ہو سکیں گے یا پھر ان اختیارات میں کسی طرح بھی ایک عام آدمی کی شراکت ہو سکتی ہے؟
یاد دکھنے والا نکتہ صرف ایک ہے ۔مسلم لیگ نون، تحریک انصاف ، پیپلز پارٹی یا کوئی بھی چوتھی پانچویں جماعت ہو، پاکستان کی سیاست و معیشت اشرافی (ایلیٹ کلاس) سیاست ومعیشت ہے۔ بارات ِ جمہوریت کی تمام مشقیں، منزلیں اور سوغاتیں ان کے لیے یا ان کے درمیان ہوتی ہیں۔ جس میں عوام شامل باجہ ہوتے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات بھی اِسی اشرافی درجے کے لوگوں کی ایک نچلی سطح کی عیاشی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے ،باقی سب تصورات ہیں۔ جس میں بلدیاتی انتخابات کو جمہوریت کی ڈگڈگی کے طور پر جتنا چاہیں بجا لیجیے!
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
معروف بھارتی مصنفہ ارون دھتی رائے نے کہا ہے کہ یوگو سلاویہ اور سوویت یونین کی طرح بھارت بھی ایک دن ٹوٹ جائے گا۔ کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق ارون دھتی رائے نے ایک انٹرویو میں بھارت کی موجودہ صورتحال کو انتہائی مایوس کن قرار دیتے ہوئے بھارت میں جمہوریت کو ایک دکھاوا قرار دیا۔انہوں نے ک...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
فرانسیسی مصنف کرسٹوف جیفرلاٹ نے انکشاف کیا ہے کہ ہندو انتہا پسند قوم پرست سیلف سنسر شپ کیلئے طرح طرح کے حربے استعمال کر رہے ہیں۔ بھارت میں ہندوتوا کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو مْلک و قوم دْشمنی اور غداری سے جوڑا جاتا ہے۔ مغربی دْنیا بھارت میں دم توڑتی جمہوریت پر خاموش کیوں؟ کنگز...
کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...