... loading ...
دعوے کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر ثابت ہو گیا تو دعویٰ کرنے والا معتبر اور اگر بد قسمتی سے دعوے دار اپنا دعویٰ ثابت کرنے میں ناکام ہو جائے تو نہ صرف اس کی مشکلات بڑھ جاتی ہیں بلکہ لوگ اس پر اعتماد کرنا چھوڑ دیتے ہیں ۔اسے صدیوں تک اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات تو اس کا نہ پورا ہونے والا دعویٰ ہمیشہ کے لیے اس کا دردِ سر بن جاتا ہے۔عہدِ حاضر خوابوں کی دنیا سے باہر کے جہانوں میں سفر کر رہا ہے۔آج کے اسٹیج پر پرفارمنس جلد پرکھ لی جاتی ہے۔تو صاحب !یہ سب جانتے مانتے ہوئے بھی عوام کے جمِ غفیر کو تگنی کا ناچ نچایا جا رہا ہوتا ہے۔مکار اور عیار مگر مچھ زمینی حقائق کے سرا سر اُلٹ کہانی پیش کر کے لوگوں کی حمایت حاصل کر لیتے ہیں اور جز وقتی لالی پاپ معصوم لوگوں کے منہ میں دے کر خاموش کروا دیتے ہیں ۔
سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۴۲ میں ہے کہ:
’’باطل کا رنگ چڑھا کرحق کو مشتبہ نہ بناؤ اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو‘‘
ہمارے اسلامی ملک ہونے کے باوجود اس کے کرتا دھرتا اس آیت سے صریحاً انکار و انحراف کے مرتکب ہوتے ہیں مگر مصلحت کے پردوں میں سچائی کو لپیٹ کر، کیا سے کیا تاویلیں پیش کر کے بات کو الجھا دیا جاتا ہے۔جن معصوموں کو پچھلی تقریباً آدھی صدی سے حیلوں بہانوں سے بیوقوف بنایا جارہا ہے وہ ان مگر مچھوں کے چنگل سے تو نہیں نکل پا رہے مگر لگتا یوں ہے کہ انہیں کچھ کچھ ادراک ہو گیا ہے کہ ان کی محنت پر پلنے والے کس بے دردی سے ان کا حق کھا رہے ہیں ۔مفاد پرست عناصر کے گھسے پٹے دعوؤں اور جھوٹے نعروں سے خلاصی ضروری ہو گئی ہے۔بے یارو مدد گار عوام کو کھوکھلے نعروں کی نہیں تن ڈھانپنے کے لیے کپڑوں اور پیٹ کے ایندھن کی ضرورت ہے۔موجودہ حالات اس ڈگرپر چل رہے ہیں کہ جس میں ایک نظام مسلط ہے ۔اس نظام میں لوگ اپنے جائز مطالبات اور حقوق کے لیے سفارش رشوت اور وزیروں مشیروں اور اراکین اسمبلی کے محتاج ہوتے ہیں ۔وہ عدل وانصاف جو عوام کی دہلیز پر موجود ہونا تھا وہ کہیں وڈیروں کی حویلیوں کے کباڑ خانوں میں دفن ہو چکا لگتا ہے۔
اس نظام کے مسلط کرنے والوں کا بظاہر کوئی نام نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک کردار ہوتا ہے ۔ملکِ پاکستان میں زندگی سے رشتہ جوڑے رکھنے والے غریبوں کو بلٹ پروف گاڑیوں میں پلنے والے گلیمر کی نہیں مخلص اور اہل حکمرانوں کی ضرورت ہے۔اب سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ وہ مخلص اور اہل حکمران آئیں گے کہاں سے؟ زمین کے پاس جو کچھ تھا اس نے پیش کر دیا ۔ویسے بھی نیچر کا قاعدہ یہی ہے کہ جیسے عوام ہوتے ہیں ویسے ہی حکمران ان پر مسلط ہوتے ہیں ۔ظاہر ہے عوامی نمائندے کوئی آسمانی مخلوق تو نہیں ہوتے زمین کی ہی پیدا وار ہوتے ہیں۔مجھے تو ڈر ہے کہ آنے والے وقتوں میں لوگ ہمیں ان لفظوں میں یاد نہ کریں کہ یہاں ایک ایسی قوم بھی بستی تھی جو پچاس روپے پر جیب کترے کو مار مار کر لہو لہان کر دیتی تھی مگر پچاس ارب روپے کرپشن کرنے والے کو حکمران منتخب کر لیتی تھی۔۔۔۔۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم صرف لوگوں پر تنقید کرتے ہیں جو کہ کمزور دماغوں کے افکار ہوتے ہیں ۔ہمارے دانشور اور لکھنے پڑھنے والے تقاریب پر الزامات لگانے اور منفی تنقید پر جُت گئے ہیں جو کہ درمیانے درجے کے دماغوں کا کام ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں شاید اچھے دماغوں کے لوگ نہ ہونے کے برابر ہیں جو خیالات پر تنقید کرتے ہیں۔خیالات پر تبادلۂ خیالات کرنا اچھی اور صحتمندانہ سرگرمی ہے۔ تنقید اور تنقیص دو الگ الگ لفظ اور الگ الگ معنی رکھتے ہیں ۔لفظوں اور ان کے معانی کو سمجھنا ہی دانشوری ہے ۔ دانش ، حکمت اور علم انبیاء کی میراث ہے۔ اس میراث کو سید ضمیر جعفری زندگی کہتے ہیں۔ اس زندگی کوہم نے بڑی چابک دستی سے جھوٹے اور جعلی معیاراتِ حیات میں تبدیل کر دیا ہے۔ضمیر جعفری دردِ دل رکھنے والے شاعر تھے ، اُن کے کتھارسس کا اپنا انداز تھا :
معیار زندگی بھی تو امیروں کے چونچلے ہیں ۔غریب کی ڈکشنری میں آپ کو اس کی جگہ بصیرت تو مل سکتی ہے مگر زندگی کرنے میں ہزار ہا مقاماتِ آہ و فغاں پاؤں کی زنجیربنے ہوتے ہیں۔ ہر حوصلے اور تسلی پر پھر سے اعتماد کر لیا جاتا ہے ۔پچھلے غم غلط کرنے کو نئے الیکشن کا شور شرابا جعلی مرہم بناتا اور بانٹتا ہے۔
پھر بلدیاتی الیکشن ہو جاتے ہیں۔کچھ نئے اور کچھ پرانے چہرے سامنے آ جاتے ہیں ۔انتظامی اختیارات اور پالیسی سازی کا انجن افسرِ شاہی کے ہاتھ میں ہوتا ہے اورباقی ٹرین کے ڈبے عوام کے۔جب کہ دیکھا جائے تو آئین کی رو سے صوبے مقامی حکومتوں کو مضبوط کرنے کے پابند ہیں۔لوکل گورنمنٹ ایکٹ ۲۰۱۳ کے تحت یونین کونسل،ضلع و تحصیل کی سطح پر چیئر مین اور وائس چیئرمین ہوں گے جب کہ میٹرو پولیٹن شہروں میں میئر ہو گا۔۔۔۔۔۔۔کون کس سے کیا پوچھے ۔۔۔۔۔کسی کو کچھ نہیں پتہ۔۔۔۔۔ نہ ہی یہاں کوئی کسی کو کچھ بتانے کا مجاز سمجھتا ہے۔۔۔۔۔
وہ اکثر محافل میں زیادہ بات چیت نہیں کرتا ۔ہاں البتہ اپنے بے تکلف دوستوں اور اپنے والد مبارک احمد مرحوم کے بزرگ دوستوں کی منڈلیوں میں خوب چہکتا اور محفل میں رنگ جماتا ہے۔ اس نے کہا کہ مجھے پھر ایک سرکاری ادارے سے فون آیا کہ اپ اپنا بائیو ڈیٹا ، شناختی کارڈاورایک عدد تصویر بھیج...
ہم روز رونا روتے ہیں کہ فلاں جگہ اتنے بے گناہ مارے گیے ۔ فلاں جگہ ڈاکو اتنی نقدی اور طلائی زیورات لے کر گھر والوں کوایک کمرے میں بند کر کے چلے گیے ۔ محلے داروں نے گھر والوں کی چیخ و پکار سن کر دروازہ توڑااور لٹیروں کے ہاتھوں برباد ہونے والے یر غمالیوں کو رہائی دلوائی۔چھوٹے بچوں ک...
دوزخ نامہ بنگالی زبان میں لکھا جانے والا شاہ کار ناول ہے جس میں پہلی بار منٹو بہ مکالمہ غالب دکھایا گیا ہے۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ نام دوزخ نامہ اور گفتگو منٹو اور غالب کی۔۔۔جی ہاں! تو جنابِ والایہ دونوں کردار اس ناول میں جہنم میں محو کلام ہیں ۔اس سے قبل بھی اس عظیم ناول نگا ر،ربی س...