... loading ...
عدالتِ عظمیٰ کے حکم پر آئین کے مطابق قومی زبان اردو کو اس کا جائز مقام دینے کی کوششیں شروع ہوگئی ہیں۔ 1973ء کے آئین میں اردو کو سرکاری زبان بنانے کے لیے غالباً 10 سال کی مدت طے ہوئی تھی۔ ایسے کئی دس سال گزر گئے۔ لیکن اب عدالت نے نہ صرف حکم جاری کیا ہے بلکہ نئے منصفِ اعلیٰ نے اپنا حلف بھی اردو میں لیا ہے۔ سرکاری سطح پر قومی زبان اردو کی جب اہمیت مسلّم ہوجائے گی تو اردو بولنے، لکھنے میں بھی بہتری آئے گی۔ چین سے تعلقات کے پیش نظر چینی زبان سکھانے کا سرکاری اہتمام کیا جارہا ہے تو کیا عجب کہ صحیح اردو سکھانے پر بھی توجہ دی جائے اور ٹی وی چینل والوں کا تلفظ بھی درست ہوجائے جو ہمارے بچوں کا تلفظ خراب کررہے ہیں۔ مہربخاری صِفَتْ کو صِفْت بروزن گفٹ (Gift) کہیں گی تو سننے والے اسے ہی سند سمجھیں گے۔ مہر سے یاد آیا کہ کچھ لوگ سردمِہری کو بھی سرد مُہری کہتے ہیں۔
اردو کو فروغ دینے کے لیے پہلے اپنے اداروں کے نام اردو میں لکھے جائیں۔ کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا اچھا بھلا نام ’ادارۂ ترقیات کراچی‘ ہے مگر کتنے لوگ، اخبارات اور ٹی وی چینلز پر یہ نام لیتے ہیں! بلکہ اس کا مخفف کے ڈی اے ہی رائج ہے۔ اب یہ بھی ایک مسئلہ ہے کہ اردو میں نام رکھیں تو مخفف کیا ہو، کیا ’ا۔ ت۔ ک۔‘
بلدیہ کراچی بھی آسانی سے کے ایم سی ہوگیا۔ غور کریں تو ہمارے تمام ادارے اور محکمے انگریزی زدہ اور غیر ملکی ہیں۔ مثلاً ایف آئی اے، سی آئی ڈی، واٹراینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی، واٹر اینڈ سیوریج، کراچی اسٹاک ایکسچینج وغیرہ۔ بیشتر سیاسی جماعتوں کے نام میں انگریزی شامل ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی، نیشنل عوامی پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، بلوچستان نیشنل پارٹی وغیرہ وغیرہ۔
کسی ایک دن کے اردو اخبارات اٹھاکر دیکھ لیں، سرخیوں اور متن میں انگریزی الفاظ کی بھرمار ہوگی۔ مثال کے طور پر ڈکٹیشن، نیشنل ایکشن پلان، مارکیٹ کریش، یوٹرن، ٹارگٹڈ آپریشن، بریک تھرو، پی۔ اے۔ سی، کرپشن، پارکنگ فیس، ایس بی سی اے (سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی)، کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر، پنشنرز اسکینڈل، فیکٹ ایگزیبیشنز، ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم، سول ایوی ایشن اتھارٹی (محکمہ شہری ہوا بازی)، نوٹی فکیشن وغیرہ۔ یہ صرف ایک اخبار (25 اگست) سے ’’مشتے از خروارے‘‘ ہے۔ دوسرے اخبارت میں بھی یہی صورت حال ہے۔ ان میں کئی الفاظ ایسے ہیں جن کا اردو میں عام فہم متبادل موجود ہے۔ اور جن کا مناسب اور عام فہم متبادل موجود نہیں ان کا ترجمہ متواتر شائع ہو تو عام فہم ہوجائے گا، جیسے انگریزی کے مذکورہ الفاظ۔ ایک کم تعلیم یافتہ شخص تو ان بھاری بھرکم انگریزی الفاظ سے پہلے ہی مانوس نہیں ہے۔ معاملات ’’الارمنگ‘‘ ہیں۔ اس سے مشکل ہے ’’نیشنل انرجی ایفی شئنسی۔ خدا جانے یہ کیا ہے!
چلیے، اس کام میں تو وقت لگے گا لیکن اخبارات میں جو نثر لکھی جارہی ہے وہ تو ذمہ داران کی ذرا سی توجہ سے درست ہوسکتی ہے۔ ایک کثیرالاشاعت اخبار میں آدھے صفحہ پر میجر جنرل ضیاء الدین مرحوم کے بارے میں تفصیلی مضمون شائع ہوا ہے جو ریٹائرڈ کرنل اعظم قادری نے لکھا ہے۔ اس میں ’’کھوج‘‘ کو مونث لکھا ہے، جب کہ خواہ کتنی ہی پرانی تہذیبوں کا کھوج لگایا جائے، یہ مذکر ہی رہے گا۔ حیرت ہے کہ اسی مضمون میں کرنل صاحب نے ’’کیڈٹ کور‘‘ کو کورپس لکھا ہے، جب کہ CORPS کا تلفظ ’کور‘ ہے۔ لغت میں اس تلفظ کی وضاحت ’’KOHR‘‘ سے کی گئی ہے۔ یہ ایسا تلفظ ہے جس سے ہر فوجی واقف ہے۔ اور جہاں تک کورپس(CORPSE) کا تعلق ہے تو اس کا مطلب لاش ہے۔ ذمہ داران کو تصحیح کردینی چاہیے تھی۔ لیکن منگل 25 اگست کے اسی شمارے میں کالم نگار علی معین نوازش جنرل ضیاء الحق کو 14اگست 1989ء کی تقریب میں موجود دکھا رہے ہیں۔ ہمیں یاد پڑتا ہے کہ وہ اگست 1988ء میں شہید ہوگئے تھے۔ کسی کا یہ کہنا بھی صحیح ہے کہ شہید مرتے نہیں، زندہ ہوتے ہیں۔ چنانچہ ممکن ہے کہ شہید ضیاء الحق اگلے سال کی تقریب دیکھنے آگئے ہوں اور صرف علی معین کو نظر آئے ہوں۔
لاہور سے ہمارے ’’نادیدہ‘‘ کرم فرما جناب افتخار مجاز نے ایک اور کالم نگار جناب صالح ظافر کی ڈائری کی طرف توجہ دلائی ہے، جنہوں نے میاں نوازشریف کے کراچی میں خطاب کے بارے میں لکھا کہ ’’ان کی حس ظرافت زیادہ ہی پھڑک اٹھا‘‘۔ ہمیں تو اس میں اعتراض کا کوئی پہلو نظر نہیں آیا سوائے اس کے کہ ’’حس‘‘ مذکر ہوگئی۔ اب یہ وزیراعظم کی حس تھی، اسے تو مذکر ہی ہونا چاہیے تھا۔ لیکن اس کو مذکر بنانے کے لیے ’’ان کا‘‘ لکھنا زیادہ بہتر ہوتا۔ اور اگر حسِ ظرافت کے پھڑکنے پر اعتراض ہے تو بھائی اگر ’’رگِ ظرافت‘‘ پھڑک سکتی ہے تو حس بھی پھڑک سکتی ہے۔ کسی کا مصرع ہے ’’پسلی پھڑک اٹھی ہے نگہِ انتخاب کی‘‘۔ یعنی نگاہ کی پسلی بھی ہے اور پھڑکتی بھی ہے۔میرا نیس تو یہ بھی کہہ گئے کہ ’’پڑ جائیں لاکھ آبلے پائے نگاہ میں‘‘۔ گویا نگاہ کی صرف پسلیاں ہی نہیں، پیر بھی ہوتے ہیں۔ پھر ہاتھ بھی ہوتے ہوں گے۔ چنانچہ حس اگر ’بے حس‘ نہ ہو تو پھڑک بھی سکتی ہے اور بھڑک بھی۔ یہ چھوٹی موٹی کوتاہیاں یا سہوِ قلم ہے جسے مدیران خود ٹھیک کرسکتے ہیں بشرطیکہ انہیں صحیح، غلط کا علم ہو۔ ایک کالم نگار نے جسارت میں لکھا ہے ’’احساس محرومی بڑھتی ہے‘‘۔ انہوں نے مذکر، مونث کا تعین محرومی سے کیا ہے۔ جسارت ہی میں ایک فاضل سب ایڈیٹر اب بھی عوام کو مونث واحد لکھنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ممکن ہے وہ بھی ٹی وی پروگرام زیادہ دیکھتے ہوں۔
ایک لفظ ہے نقض امن۔ اس کے آخر میں ’ص‘ نہیں ’ض‘ ہے لیکن اس کو عموماً نقص امن لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ ایک ٹی وی اینکر نے تو ’ن‘ پر پیش بھی لگا دیا۔ غالباً انہوں نے اس کا تعلق نقصان سے جوڑا۔ اب کہیں نقض امن لکھیں تو پروف ریڈر ٹھیک کردیتے ہیں، اور کسی کے سامنے بولو تو پوچھا جاتا ہے کہ یہ کیا ہے؟ یہ بات اپنی جگہ کہ نقص کہنا زبان پر آسان ہے۔ لیکن یہ لفظ ہے نقض ہی۔ اس سے اور بھی مشتقات ہیں مثلاً ’’متناقض، تناقض، نقیض وغیرہ۔ متناقض کا مطلب ہے: مخالف، برعکس، الٹا، خلاف۔ اور نقض کا مطلب ہے: جھگڑا، فساد، امن شکنی۔ نقض اور امن دونوں الفاظ عربی کے ہیں، مگر یہ ترکیب فارسی ہے۔ نقض عہد کا مطلب ہوگا: وعدہ خلافی، عہد شکنی۔ اور نقص (ن پر زبر) کا مطلب ہے: کم کرنا، کم ہونا، کجی، کوتاہی، کسر، عیب، برائی، کھوٹ وغیرہ۔
ماہنامہ ’قومی زبان‘ کے شمارہ اگست میں ڈاکٹر رؤف پاریکھ کا مضمون ’’ذرائع ابلاغ اور املائی مسائل‘‘شائع ہوا ہے۔ یہ پورا مضمون ایسا ہے جسے پورے کا پورا اور بار بار شائع کیا جائے۔ ہم اس کا ایک اقتباس پیش کیے دیتے ہیں:
’’ٹی وی کے بیشتر چینل لفظ ’’عوام‘‘ کو مذکر اور جمع کی بجائے (کے بجائے) مونث اور واحد بولتے ہیں یعنی ’’عوام سوچ رہی ہے‘‘۔ ان کی دیکھا دیکھی اب اخبارات بھی اسی طرح لکھنے لگے ہیں …… املا کی بھی عجیب غلطیاں دکھائی دینے لگی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل اردو کے ایک بہت بڑے اخبار میں خانہ پُری کو خانہ پوری لکھا ہوا دیکھا۔ یہی اخبار دکھانا کو دیکھانا لکھنے لگا ہے۔ ایم فل کا ایک مقالہ راقم کے پاس تنقیح کے لیے بھیجا گیا۔ اس مقالہ نگار نے بٹھانا کا املا بیٹھانا اور دکھانا کا املا دیکھانا کیا تھا۔ اب تو ایک بڑا اخبار بالکل کوبلکل لکھنے لگا ہے۔‘‘
امید ہے کہ مذکورہ طالب علم نے ایم فل کرلیا ہوگا اور اب پی ایچ ڈی کی تیاری کررہے ہوں گے۔ ایک جماعت نے یوم اردو منانے کا اعلان کیا ہے اور اس کی طرف سے جاری خبر میں لکھا ہے کہ ’’اسمبلی حال سے ریلی نکالی جائے گی‘‘۔
زندہ قومیں اپنی زبان کو قومی وقار اور خودداری کی علامت سمجھا کرتی ہیں اور اسی طرح قومی لباس کے معاملے میں بھی نہایت حساسیت کا مظاہرہ کرتی ہیں ۔ روس‘ جرمنی‘ فرانس اور چینی رہنما کسی بھی عالمی فورم پر بدیسی زبان کو اپنے خیالات کے اظہار کا ذریعہ نہیں بناتے، بلکہ اپنی ہی زبان میں...
وزیر اعظم نواز شریف کے مشیر عرفان صدیقی نے قومی زبان اردو کے سرکاری زبان کے طور پر نفاذ کے حوالے یہ اعتراف کیا ہے کہ اس میں صرف بیورو کریسی ہی رکاوٹ نہیں بلکہ اس سلسلے میں عدالتی فیصلے کے نفاذ کے خلاف مختلف وزراء بھی ہیں۔ان خیالات کا اظہار اُنہوں نے پاکستان قومی زبان تحریک کے زیر...
مجاہد بک اسٹال، کراچی کے راشد رحمانی نے لکھا ہے کہ آپ کو پڑھ کر ہم نے اپنی اردو درست کی ہے لیکن 11 اپریل کے اخبار میں مشتاق احمد خان کے کالم نقارہ کا عنوان ’’لمحہ فکریہ‘‘ ہے۔ ہے نا فکر کی بات! صحیح ’لمحہ فکریہ‘ ہے یا ’لمحہ فکر‘؟ عزیزم راشد رحمانی، جن لوگوں نے سید مودودیؒ کو ن...
پنجاب میں زراعت کے تعلق سے ایک اصطلاح نظر سے گزری جو ہمارے لیے نئی ہے اور ممکن ہے بہت سے لوگوں کے لیے بھی نئی ہو۔ یہ ہے ’’برداشت‘‘ کا استعمال۔ ویسے تو عوام ہی بہت کچھ برداشت کررہے ہیں اور صورتِ حال پر برداشتہ خاطر (بیزار، اداس، آزردہ) بھی ہیں۔ لیکن ایوب زرعی تحقیقاتی ادارے، فیصل ...
فارسی کی ایک مثل ہے ’’خودرا فضیحت دیگراں را نصیحت‘‘۔ یعنی خود تو غلط کام کرنا، دوسروں کو نصیحت کرنا۔ فضیحت کا مطلب رسوائی، ذلت، بدنامی بھی ہے۔ یہ محاورہ یوں یاد آیا کہ کچھ قارئین غلطیوں کی نشاندہی کرکے یہی مثل سنا دیتے ہیں۔ اب ہم کیا کریں کہ اپنے جن صحافی ساتھیوں کی زبان درست کرن...
ایک ہفت روزہ کے سرورق پر سرخی ہے ’’پیپلزپارٹی تتّر بتّر ہوسکتی ہے‘‘۔ یعنی دونوں جگہ ’ت‘ پر تشدید ہے۔ پڑھ کر خوشگوار حیرت ہوئی، کیونکہ عموماً لوگ بغیر تشدید کے تتربتر کردیتے ہیں جب کہ تشدید کے ساتھ ہی صحیح ہے۔ فرہنگ آصفیہ، فیروزاللغات وغیرہ میں بھی اسی طرح ہے، اور اردو کی کلاسیکی ...
گزشتہ تحریر میں ہم نے ’دارو‘ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’یاد رہے دارو گیر میں بھی دارو موجود ہے لیکن یہ ایک الگ لفظ ہے۔ دارو گیر کا دارو سے کیا تعلق ہے، یہ ماہرین ہی بتاسکتے ہیں‘‘۔ یہ معاملہ ازراہِ تفنن ہم نے ماہرین پر چھوڑ دیا تھا۔ چنانچہ سب سے پہلے تو جسارت کے پروف ریڈر گزجن...
علامہ طاہر اشرفی علماء کے سرخیل ہیں۔ انہوں نے غالباً عربی بھی پڑھی ہوگی، ورنہ اردو تو ضرور پڑھی ہوگی۔ اب اگر اتنے کلّے‘ ٹھلے کے اور جسیم عالم بھی ملک کو ’’مولک‘‘ کہیں تو تھوڑی سی حیرت تو ہوگی۔ اگر پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اﷲ علم کو ’’ایلم‘‘کہیں تو یہ اُن کو زیب دیتا ہے بلکہ ا...
آج بہت دنوں بعد کسی کو خط لکھنے کے لئے قلم اٹھایا، تو خیال آیا کہ ہمیں دوست کا پتہ ہی معلوم نہیں ۔ سستی، بے پروائی اور وقت کی کمی کے بہانے تو پہلے بھی تھے، پھر بھی ہم طوعاً وکرہاً خط لکھ ہی لیا کرتے تھے۔ برق گرے اس ای میل پر جب سے ہم اپنے کمپیوٹر کے ذریعے انٹرنیٹ سے متصل ہوئے ہیں...
ایک دوست کی فرمائش پر اردوڈائجسٹ خریدنے اسلام آبادکے ایک کتاب گھر جانا ہوا۔ غیر ارادی طور پرمالک سے گپ شپ شروع ہوگئی۔ کہنے لگا کہ ابھی بھی اردو ڈائجسٹ کے کافی قارئین ہیں لیکن سب معمر افراد ہیں۔ نوجوانوں میں خال خال ہی کوئی ڈائجسٹ خریدتا ہے حتیٰ کہ سب رنگ اور خواتین ڈائجسٹ کے ب...
جناب پرویز رشید وفاقی وزیر اطلاعات ہیں اور اس لحاظ سے تمام صحافیوں کے سرخیل ہیں۔ ان کا فرمانا ہمارے لیے سند ہے۔ لاہور کا معرکہ جیتنے پر وہ فرما رہے تھے کہ فلاں کی تو ضمانت تک ضَبَطْ (بروزن قلق‘ شفق‘ نفخ وغیرہ یعنی ضَ۔بَط) ہوگئی۔ اب جو مثالیں ہم نے دی ہیں نجانے ان کا تلفظ وہ کیا ک...
ہمارے وفاقی وزیر چودھری نثار تو ذمہ داری کو ذمہ واری کہتے رہیں گے، انہیں ان کی ذمہ واری پر چھوڑتے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب جناب شہبازشریف شمسی توانائی کی کارکردگی پر وضاحت پیش کرتے ہوئے ’’اوسط‘‘ کو بروزن دوست‘ گوشت وغیرہ کہتے رہے اور بار بار کہتے رہے۔ لیکن یہ تو حکمران طبقہ ہے۔ اسے ز...