... loading ...
محمد منصور آفاق شاعر ، ادیب، ڈراما نگار اور کالم نگار کی حیثیت سے ہمہ جہت شخصیت کا مالک ہے ۔ وہ اپنی ہر غزل، نظم ،شعر ، مصرعے، ڈرامے اور کالم سے پہچانا جاتا ہے ۔ میں محمد منصور آفاق کو اُس وقت سے جانتا ہوں جب وہ تخلیقی عمل میں پوری طرح گرفتار ہونے کے لئے ’’قلبی وارداتیں ‘‘ کرنے کی بجائے ادبی معرکہ آرائیوں کی سالاری میں مگن پایا جاتا تھا۔میری اُس سے شناسائی دوچار برس کی بات نہیں بلکہ تین دہائیوں کی کہانی ہے اُس کی شخصیت کے کچھ ایسے پہلوؤں کی یادوں کی ہوائیں اکثر یادداشت کے شہر سے سرسراہٹ کے ساتھ گزرتی ہیں جن کی خوشبوؤں کو سرِ عام مہکایا نہیں جا سکتا ۔ اس میں ’’ ہم چُپ ہیں منظور ہے پردہ تیرا ‘‘ والی کوئی بات نہیں ہے ۔
محمد منصور آفاق کی شخصیت کے کئی رنگ اور رُوپ ہیں ۔یہی رَنگ اور رُوپ اُسے ایک سرُوپ عطا کرتے ہیں ۔ میری دانست میں ہر شاعر ، ادیب ، کالم نگار اور ڈراما نگار منصور آفاق نہیں بن سکتا ۔اس لیے محمد منصور آفاق کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے میں انصاف سے کام لینے کی ہر ممکن کوشش کروں گا ۔ اور ’’ڈنڈی ‘‘ مارنے کی معمولی سی کوشش اس لئے بھی نہیں کر سکتا کہ میں پہلے ہی کہہ چُکا ہوں کہ ’’ ادب سے وابستہ ہر کوئی محمد منصور آفاق نہیں بن سکتا ‘‘ ۔
میں فرسٹ ایئر کا طالب علم تھا ۔میں محمد منصور آفاق، جناب شرر صہبائی مرحوم اور سید انجم جعفری مرحوم نے میانوالی کی ادبی دنیا میں ’’معرکہ حق وباطل‘‘ برپا کیا ہواتھا ۔ اُردو اور سرائیکی کے شعراء کے درمیان گھمسان کے رن کی سی کیفیت تھی ۔ اُس وقت کے تمام متحارب ادبی دھڑوں اور گروپوں میں ’’ اچھے اور بُرے طالبان ‘‘ کی شناخت کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور تھا ۔
محمد منصور آفاق اردو میں شاعری کرنے کے باوجود ’’ نیٹوافواج ‘‘ کی طرح سرائیکی شعراء کی جنگ لڑنے میں مصروف تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ جج اپنے فیصلوں اور قلمکار اپنی تحریر میں بولتا ہے ۔ لیکن اُس دور میں منصور آفاق اپنی تخلیقی سر گرمیوں کی بجائے ادب کا ’’مُلا راکٹی ‘‘ سمجھا جاتا تھا ۔ وہ صرف اپنے قریبی دوستوں اور ساتھیوں کو شاعر سمجھتا اور تسلیم کرتا تھا۔ پنجابی ، پوٹھوہاری ، ہندکواور سرائیکی زبان کے خوبصورت مرکب ’’ میانوالی کی مقامی زبان ‘‘ کو سرائیکی قرار دینے کا فیصلہ اُس نے پہلے صادر کیا اور اُس کے خلاف دلائل بعد میں سُنے ۔ وہ میانوالی میں جتنا عرصہ رہا ’’ فنون ‘‘ تک کامل دسترس رکھنے کے باوجود ’’اوراق ‘‘ بن کر’’ انور سدیدوں‘‘ میں گھرا رہا ۔
میانوالی سے ہجرت نے محمد منصور آفاق کو ایک نیا جنم دیا ۔ ڈراما نگاری میں اُس نے اپنی پہچان مستحکم کی ۔ شاعری میں وہ معصوم آواز کبھی نہیں رہا۔ لیکن بڑی معصومیت کے ساتھ سادگی میں پُرکاری کا فن دکھانے کا ماہر ہے۔ ارود ادب اور شاعری کی دنیا میں اُس نے اپنا مقام بہت جلد منوا کر خو د کو میانوالی کا ’’ شولڈر کراؤن ‘‘ بنا لیا ہے ۔
محمد منصور آفاق ایسا شاعر ہے جو تحریکوں اور ادبی لابیوں سے وابستہ ہونے کے باوجود شعر کہنے کے لئے شعر کہتا ہے ،اور خوب کہتا ہے ۔ اس کی شاعری میں سب سے اہم چیز متنوع موضوعات ہیں۔ یہاں آپ کو والدین کی یادیں ، میانوالی کی باتیں اور سوغاتیں ، محبوب کے ہجر و وصال کے لمحات کے ساتھ ساتھ قوی احساسات و خیالات بھی جھلکتے اور چھلکتے نظر آتے ہیں ۔ اس کی شاعری میں کہیں نغمگی ہے تو کہیں فلسفہ کی آمیزش اور کہیں خو شگوار سے بوجھل پن کا ادراک بھی ملتا ہے۔ محمد منصور آفاق نے شاعری میں الفاظ اور خیالات کو کمال خوبصورتی سے برتا ہے ۔ میں نے پہلے پہل محمد منصور آفاق کے نعتیہ اشعار سُنے تھے ۔ اس کی نعت کسی بھی طور پر رسمی نہیں۔ باہر سے منصور آفاق جیسا بھی نظر آتا ہو لیکن اس کی نعت ہمیشہ اپنی خلوتوں میں شہ دو سریٰ سے عقیدت و وارفتگی کو اپنے باطن کی گہرائی میں محسوس کرتی نظر آتی ہے۔ نثر اور
اور شاعری پر اُس کی کئی کتابیں منظر عام پر آچُکی ہیں۔ ’’ دیوانِ منصور‘‘ حال ہی میں شائع ہوئی ہے ۔
میانوالی باکمال لوگوں کی سر زمین ہے ۔کالم نگاری کے شعبے میں بھی میانوالی شہرت سے محروم نہیں رہا ۔پاکستان کے معتبر روزناموں میں میانوالی سے تعلق رکھنے والے کالم نگاروں کی تحریریں باقاعدگی سے شائع ہوتی رہتی ہیں۔ میانوالی سے تعلق رکھنے والے ایک کالم نگار نے ایک ہی موضوع پر مسلسل تین سال تک کالم لکھ کر جہاں گھسیار نویس کا ایک منفرد ریکارڈ قائم کیا ہے وہاں محمد منصور آفاق کے کالموں نے اپنے موضوعات کے اچھوتے پن اور تحریر پر اپنی گرفت کے باعث اس میدان میں بھی اپنا منفرد مقام بنانے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔ آج کل محمد منصور آفاق کا پڑاؤ بر منگھم ( برطانیا ) میں ہے ۔ لیکن پاکستان اور میانوالی سے محبت اس کے دل و دماغ کا اظہاریہ ہے ۔ وہ اپنی تمام تر ’’حشر سامانیوں ‘‘ کے باوجود ایک بھاری بھرکم شخصیت کا مالک اور ادب کا قیمتی اثاثہ ہے ۔ دعا ہے کہ اُس کی کامرانیوں کا سفر جاری و ساری رہے ۔ وہ اپنے قاری کو خوشبوؤں کے تازہ مشامِ جاں منظروں میں لے جاتا رہے ۔ اس کی تخلیقات رنگ و نور و نکہت کے جلوۂ جاوداں کی امین بنی رہیں۔
راولپنڈی کی لال حویلی کے مکین شیخ رشید احمد نے جب سے’’ اپنی ‘‘ سیاست شروع کی ہے۔ اُس وقت سے لے کر اب تک انہوں نے خود کو سیاست میں ’’ اِن ‘‘ رکھا ہوا ہے۔ اُن کی سیاسی کہانی مدو جذر اور پلٹنے جھپٹنے سے عبارت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی سیاسی جماعت کے سربراہ ہونے کے باوجود راولپنڈی کے...
میں جب بھی یہ نعرہ سنتا ہوں ’’ دیکھو دیکھو کون آیا ۔ شیر کا شکاری آیا ‘‘ تو مجھے قیامِ پاکستان سے پہلے ’’کپتان ‘‘ کے خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک بزرگ کی ایک خونخوار شیر سے ’’ ہاتھا پائی ‘‘ کا واقعہ یاد آ جاتا ہے ۔ تاریخی حوالوں کے مطابق پاکستان بننے سے پہلے ضلع میانوالی اور ...
کراچی کے نو منتخب میئر وسیم اختر نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں ـ’’ جئے بھٹو ‘‘ اور ’’ جئے عمران خان ‘‘ کے نعرے لگائے تو ماضی کے دھندلکوں سے 12 ستمبر2007 ء کا منظر میری آنکھوں کے سامنے آگیا۔ مری یادوں کے خزانے چٹیل ویرانوں اور کچلے ہوئے خوابوں کے ریزوں جیسے ہیں۔ تپاں جذبوں سے ...
پروفیسر منور علی ملک میرے انگزیری کے اُستاد اور عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی کے دوست ہیں ۔ اپنی کتاب ’’ درد کا سفیر ‘‘ میں لکھتے ہیں ’’ اُونچے سُروں کی شاخوں میں اُلجھ کر جب یہ آواز کسی زخمی پرندے کی طرح پھڑپھٹراتی ہے تو روح کا شجر جڑوں تک لرز اُٹھتا ہے ۔ اور پھر جب اس بلندی سے کسی ...
جیل یا عقوبت خانے کا تصور یا تاثر کبھی خوشگوار نہیں ہوتا۔۔۔ پھانسی گھاٹ تو ہوتا ہی خوف اور دہشت کی علامت ہے۔انسان کو اپنا سکون اور جان بہت عزیز ہوتی ہے۔ اس لئے جیل جانا کسی کو بھی پسندیا قبول نہیں ہوتا۔۔ 31 ؍ اکتوبر غازی علم دین شہید کی برسی کے موقع پر سینٹرل جیل میانوالی کے دورے...
نیازی قبائل کی برصغیر میں آمد کا سلسلہ ہندستان پر سلطان محمود غزنوی کی ’’ دستک ‘‘ سے شروع ہوتا ہے۔لیکن ان قبائل کی باقاعدہ منظم شکل میں اس علاقے میں آمد بہت بعد کی بات ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ نیازیوں کی اکثریت اوائل میں غزنی کے جنوبی علاقے میں آباد تھی ۔ اس علاقے پر انڈروں اور خلجیو...
پاکستان کے انحطاط پزیر معاشرے کی صحافت کے رنگ نرالے ہی نہیں مایوس کُن بھی ہیں۔ ہمارے الیکٹرانک میڈیا کے غیر تربیت یافتہ اینکرز کی صحافت ایک ایسی موج کی طرح رقص کناں ہے جسے ہر دم یہ گماں رہتا ہے کہ اُس کا عین اگلا اُچھال اُسے ساحلِ مراد سے ہمکنار کر دے گا۔ لیکن حقائق کی منہ زور ہو...
کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ عمران خان اپنی اہلیہ ریحام خان کے ہمراہ’’نمل شہر علم ‘‘ میں موجود تھے۔ عمران خان نے شوکت خانم جیسا سماجی خدمت کا ادارہ قائم کیا ۔ کراچی اور پشاور کے شوکت خانم ہسپتال بھی تکمیل کے مراحل کے قریب ہیں ۔میں نے ان عظیم الشان اداروں کے حوالے سے عمران خان کو کبھی...
دریائے سندھ کے شمالی کنارے اور سلاگر پہاڑ کی ڈھلوان پر آباد سینکڑوں سال پرانے شہر کالاباغ کامحنت کش اکیسویں صدی کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی اپنے اور اپنے اہلِ خانہ کا پیٹ بھرنے کے لئے ’’ سائیکل رکشہ‘‘ کے ذریعے جانوروں کی طرح انسان کا بوجھ کھینچنے پر مجبور ہے۔عظیم مسلمان فاتح سلط...
سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جناب جسٹس جوادایس خواجہ بطور چیف جسٹس اپنی بائیس روزہ تعیناتی مکمل کرکے ریٹائر ہو گئے ہیں ۔ 18 ؍ اگست 2015 ء کو اپنا منصب سنبھالتے ہوئے اُنہوں نے قوم کے ماضی کے حسین البم سے نغمہ عشق و محبت کی کہانی کے طور پر اردو زبان کو نطق و تکلم کے جواں عالم ...
قدرت نے ’’ کپتان‘‘ کی زندگی کو نعمتوں کا موسمِ بہار بنایا ہوا ہے ۔ یونیورسٹی آف بریڈ فورڈ برطانیہ کے وائس چانسلر ’’ مارک کلیری‘‘ کا کہنا ہے کہ عمران خان نے انسانیت کی خدمت کی بدولت دنیا بھر میں اپنے لئے احترام حاصل کیا ہے۔ بڑے اور لیجنڈ عمران خان کو اپنا قائد تسلیم کرتے ہیں۔ کچھ ...