... loading ...
وقت کی جادو نگری کو اپنے اِذن سے تھامے رکھنے والا رب انسانوں کوجھنجوڑتا ہے، مگر بے خبر انسان خبردار نہیں ہوتے ۔ کیا دنیا کے کارخانے دائم غفلت کی کَل سے چلتے چلے آئے ہیں؟
۸؍اکتو بر ۲۰۰۵ء کو اب دس برس اوپر اٹھار ہ دن بیتے ہیں۔ یہی ماہ تھا، کائنات کے رب نے اپنی ایک نشانی پوری کی ، تب دھرتی نے کروٹ بدلی تھی۔ رمضان المبارک کی تیسری تاریخ میں صرف چھ منٹ اور آٹھ سیکنڈ میں زمین ذراسی لرزش کی شکار ہوئی۔ اور زمین پر اِترا کر چلنے والے انسان آخری کتاب ہدایت کے الفاظ میں چیخ اُٹھے کہ
وَقَالَ الانسَانُ مَالَھَا
انسان کہنے لگے کہ اِسے (زمین کو) کیا ہو گیا (سورہ الزِلزَال۔۔ آیت ، ۳)
پاکستان میں ۲۶؍اکتوبر کو دوپہر دوبج کر نومنٹ پر ایک زلزلہ پھر آیا۔ اب اس کادورانیہ صرف ایک منٹ ہی تھا۔مگر پورا پاکستان اس سے لرز گیا۔نقصانات کا ابھی تک پوری طرح اندازا نہیں ہو پایا۔ اس زلزلے میں کتنی انسانی جانوں کو قزاقِ اجل اُچک کر لے گیا ، ابھی خبریں ہیں کہ مسلسل چلی آتی ہیں۔ ۸؍ اکتوبر اور ۲۶؍ اکتوبر میں فرق کیا ہے؟ تب یہاں ایک ایسے شخص کی حکمرانی تھی جو امریکا کی ہیبت میں دم بخود اور اپنی سرگرمیوں میں بیخود رہتا تھا۔ آخری کتاب ِ ہدا یت نے کوئی ابہام نہیں چھوڑا کہ زمین اپنے بھونچالوں میں کس کے حکم کی پیروی کرتی ہے؟ فرمایا کہ
’’اس دن زمین اپنی سب خبریں بیان کردے گی ۔ اس لیے کہ تیرے رب نے اسے حکم دیا ہوگا۔‘‘ (آیات ۔۴ تا۵)
مگر پرویز مشرف نے ٹیلی ویژن کی چکاچوند دنیا میں اُبھرتے میزبانوں کو پیغام پہنچایا کہ خبر دار زلزلے کی مذہبی وجوہات کا تذکرہ کرنے سے گریز کیا جائے۔ بے حس جرنیلی حکومت نے زلزلے سے مرنے والے انسانوں کے اصل اعدادوشمار تک چھپائے۔ عالمی امدادی اداروں کے مطابق اس عظیم انسانی المیے نے اندازاً ۸۶ ہزار انسانوں کی جانیں نگل لی تھیں ۔ آزاد اعداد وشمار کے مطابق یہ تعداد ڈیڑھ لاکھ سے بھی متجاوز تھی۔ یہ پہلو دراصل حکمرانوں کی اس سفاکی کو اجاگر کرتا ہے جو عبرت پکڑنے کے قیمتی اور دلسوز لمحات میں بھی اقتدار کے تقاضوں سے آلودہ رہتا ہے۔ دس برس اٹھارہ دن بعد پاکستان میں حکومت تو جمہوری ہے مگر طرزِ حکومت میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا۔ وزیر اعظم میاں نوازشریف اپنے امریکی دورے کے بعد برطانیا میں قیام فرما تھے جب اُنہیں اس زلزلے کی اطلاع ملی اُنہوں نے کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ خبر جاری کرنا ضروری سمجھا کہ وہ اپنا دورہ مختصر کرکے پاکستان تشریف لارہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ برطانیا میں ٹہرے ہوئے ہی کیوں تھے؟ کیا حکمرانوں کے غیر ملکی دوروں کے لیے کوئی معیار وضع کرنے کی ضرورت نہیں؟ کیا یہ تعین صرف وزیر خزانہ کے پاس ہوگا کہ وہ مسلم لیگ نون کے جماعتی اجلاسوں میں شرکت کرنے والے صدر اور وزیراعظم کے دوروں کے لیے سال بھر میں جتنی رقم مختص کر دیں بس اُسے صرف کرنے کے لیے یہ دورے کرتے پھریں ۔آخر یہ دورے مملکت کے شفاف مقاصد اور اہداف کے ساتھ یافت کے کسی اُصول سے منسلک کیوں نہیں؟مگر پھر بھی وزیراعظم کا بے حد شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ اُنہوں نے اپنی رعایا سے کمال ترحمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے برطانیامیں اپنے قیام کو مختصر فرمایا۔ اگرچہ ملک سے باہر دیگر سیاسی رہنماوؤں کے بارے میں قوم تاحال کچھ نہیں جانتی کہ وہ اقتدار ہاتھوں سے نکل جانے کے بعد مصیبت کے ان لمحات میں ملک میں کیوں نہیں ہوتے؟ ۸؍ اکتو بر کے زلزلے کے بعدتب آزاد کشمیر کے وزیراعظم سردار سکندر حیات نے کہا تھا کہ ـ’’میں ایک قبرستان کا حکمران بن چکا ہوں۔‘‘ جمہوری دور میں فرق یہ پڑتا ہے کہ انسانوں پر قبریں یا’’ مُردے‘‘ حکومت کرتے ہیں۔
زلزلے کے بعد حکومت کی کارکردگی جانچنے کا لمحہ نہیں آیا؟ ابھی سوال زلزلے سے پہلے کا ہے۔پاکستان کرۂ ارض پر ایک ایسے قطعہ اراضی پر قائم ہے جہاں زلزلوں کی ایک قدیم تاریخ ہے۔ قیام پاکستان سے قبل بلوچستان میں ۱۹۳۵ء میں آنے والے زلزلے سے ۵۰ ہزار افراد لقمہ ٔ اجل بن گیے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد شدت میں کم زیادہ بہت سے زلزلے یہاں آتے رہے ہیں۔ ۳؍ستمبر اور ۴؍ستمبر کے بعد ۱۰؍ ستمبر ۱۹۷۱ء کو آنے والے زلزلے نے سو سے زائد افراد کو اپنا شکار کیا تھا۔ صرف اسی سال چھ مرتبہ زلزلے آئے مگر ۱۰؍ستمبر کا زلزلہ نقصان دہ ثابت ہوا تھا ۔ اسی طرح ۱۹۷۲ء میں دو ، ۱۹۷۳ء میں ایک اور ۱۹۷۴ء میں زلزلے کے تین واقعات ہوئے۔ جن میں ۲۸؍دسمبر کا زلزلہ تباہ کن ثابت ہوا۔ جس نے ہزاہ ،ہنزہ، سوات اور خیبر پی کے تقریباً پانچ ہزار انسانوں کو جھپٹ لیاتھا۔ پھر ۱۹۷۵ ء میں دو ، ۱۹۷۸ء میں ایک، ۱۹۹۵ء میں ایک اور ۱۹۹۷ء میں دوزلزلے آئے۔ جس میں سے ۲۸ ؍فروری کے زلزلے نے ایک سوا فراد کی جانیں لیں۔ ۲۰۰۱ء کا ایک ، ۲۰۰۲ء کا ایک اور ۲۰۰۴ء کا بھی ایک زلزلہ کم جانی نقصانات کے ساتھ ٹل گیا۔ مگر پھر ۸؍ اکتوبر ۲۰۰۵ء کے زلزلے نے محتاط اعداد وشمار کے مطابق بھی کم ازکم چھیاسی ہزار جانیں نگل لیں۔اس زلزلے نے عظیم تر انسانی المیے کو جنم دیا ۔ ایسانہیں ہے کہ ۸؍ اکتوبر کے بعد اب ۲۶؍ اکتوبر تک ان آٹھ برسوں میں یہ زمین زلزلے کے خطرے سے محفوظ رہی۔ اس دوران میں بھی زلزلے کے واقعات مسلسل رونما ہوتے رہے۔ ۲۸؍ اکتوبر ۲۰۰۸ء کے زلزلے نے ایک سو ساٹھ افراد کو اپنا شکار بنایا۔ ۲۰۱۰ء میں بھی دوزلزلے آئے۔ ۲۰۱۱ء میں پانچ اور ۲۰۱۲ء میں بھی زلزلے کے چھ واقعات رونما ہوئے۔ اسی طرح ۲۰۱۳ء میں زلزلے کے چارواقعات ہوئے۔ جس میں سے ۲۴؍ستمبر کے زلزلے میں ۳۲۸ افراداپنی زندگیاں گنوا بیٹھے تھے۔ زلزلے کا یہ تسلسل ظاہر کرتا ہے کہ پاکستانی سرزمین شق الارض کے مستقل خطرے سے دوچار ہے۔ جس کی تائید ماہرینِ ارضیات و موسمیات بھی کرتے ہیں۔ماضی میں پاکستان تب بھی زلزلوں کا شکار ہوا جب اُسے ماحولیات کے اُن خطرات کا سامنا بھی نہیں تھا جس سے وطنِ عزیز آج دوچار ہے۔ اب دنیا بھر میں آنے والی موسمیاتی تبدیلیوں اور ماحولیاتی بدلاؤ نے اس خطرے کو دوچند کردیا ہے۔ پوری دنیا ماحولیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے اثرات پر فکر مند ہے مگر پاکستان نے چپ کا روزہ سادھ رکھا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ہمیں اس دنیا سے کوئی لینا دینا ہی نہیں ہے۔
دنیا بھر میں زلزلے اس سے کہیں زیادہ شدت سے واقع ہوتے ہیں مگر باشعور قوموں نے اس سے نمٹنے کے لیے قبل ازوقت اقدامات پر توجہ دی ہے اور زلزلے کے بعد اپنے نقصانات کو کم سے کم سطح پر لے آئے ہیں۔ مگر پاکستان ایسی کسی بھی منصوبہ بندی سے محروم ہے۔ اصل سوال یہ نہیں ہے کہ زلزلے کے بعد حکومت کیا کرتی ہے؟ اصل سوال یہ ہے کہ وہ زلزلے سے پہلے کیا کرتی ہے؟ کیا نوازشریف کی حکومت نے عمران خان کے طوفان سے بچنے کے لیے جتنی منصوبہ بندی کر رکھی ہے اُس کا دس فیصد بھی اُس نے زلزلے کے پیشگی اقدامات کی منصوبہ بندی پر صرف کیے ہیں۔ اس کو تو چھوڑئیے! حالیہ زلزلہ صرف ایک منٹ کے دورانیے پر محیط تھا ۔ وزیراعظم میاں نوازشریف نے اپنے ڈھائی سالہ اقتدار میں ایک ہی منٹ کبھی زلزلے پر غور کے لیے کسی اجلاس میں گزارا ہے۔ صرف ایک منٹ!
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...
کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...
[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...