... loading ...
وزیراعظم نواز شریف کے دورۂ امریکا کا سرسری سا جائزہ بھی لیا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ ان کی اکثر ملاقاتوں اور بالخصوص امریکی صدر بارک اوباما کے ساتھ ملاقات میں سلامتی کے موضوعات چھائے رہے۔معاشی تعاون ہو یا سائنس اور ٹیکنالوجی میں پاکستان کے لیے راہیں کشادہ کرنے جیسی تجاویز کم ہی زیر بحث آسکی ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف کی کوشش رہی کہ امریکی انتظامیہ اور رائے عامہ کو قائل کیا جائے کہ پاکستان میں جاری دہشت گردی کا اصل محرک بھارتی اور افغان خفیہ ایجنسیوں کا گٹھ جوڑ ہے جو خطے کی سلامتی ہی کے لیے خطرناک نہیں بلکہ یہ پاکستان مخالف محاذ اسے طالبان کے ساتھ مفاہمت کی راہ پرآمادہ کرنے سے روکتاہے اور جوابی خفیہ جنگ کی طرف مائل کرتاہے۔
صدر بارک اوباما کی دقت یہ ہے کہ انہوں نے افغانستان سے افواج کے مکمل انخلاء کا اعلان کیا لیکن قندوز پر حملے اور قبضے کے بعد یہ انخلاء روک دیا گیا۔افغانستان کے دیگر شہروں میں طالبان کی اس کامیابی سے سراسیمگی پھیلی۔امریکاسے مطالبہ کیاجانے لگا کہ و ہ خطے میں غیر معین مدت کے لیے قیام کرے۔
نائن الیون کے مابعدپاکستان کے تزویراتی امور کے ماہرین کا یہ نقطہ نظر رہاہے کہ امریکیوں کو افغانستان سے مکمل انخلاء نہیں کرنے دیاجانا چاہیے۔اسلام آباد کی ہیئت مقتدرہ کو نوے کی دہائی کی یاد یں ابھی تک ہیبت زدہ کیے دیتی ہیں جب امریکا نے افغانستان سے نکلتے ہی نہ صرف آنکھیں پھیر لی تھیں بلکہ جوہری پروگرام کے خلاف عالمی سطح پر یکطرفہ مہم شروع کرکے پاکستان کے ناک میں دم کردیا تھا۔ مالی امداد ہی معطل نہیں کی بلکہ تعلیمی اورتربیتی پروگرام بھی بند کردیئے تھے۔اس زمانے کی تلخ یادوں کے اثرات ا بھی تک اسلام آباد اور واشنگٹن میں محسوس کیے جاسکتے ہیں۔قندوز پر قبضہ ہوا تو بھارتی و افغان میڈیا اور دشنام طرازیوں کے ماہرین نے پروپیگنڈاکیا کہ اس حملے میں پاکستان کا ہاتھ کارفرماہے۔قندوز پر طالبان نے پندرہ دن تک قبضہ کیے رکھا۔سات ہزار افغان فوجیوں کو محض سات سو کے لگ بھگ طالبان نے نہ صرف محاصرے میں لے لیا بلکہ ان سے شہر ہی چھن لیا۔اگرچہ طالبان دوہفتوں میں ہی پسپا ہوگئے لیکن انہوں نے یہ تلخ حقیقت آشکار کردی کہ وہ اب شہری علاقوں میں جنگ لڑنے اور شہروں پر قبضہ کرنے کے بھی قابل ہوچکے ہیں۔علاوہ ازیں ان کی حربی استعداد میں ا س قدر اضافہ ہوچکا ہے کہ وہ تربیت یافتہ فوج کو بھی شکست دے سکتے ہیں۔
دو برس قبل اس طالب علم کو کابل میں صحافیوں کے ایک اجلاس میں نیٹو کے ترجمان کی گفتگو سننے کا موقع ملا۔ترجمان نے بڑے فخر سے بتایا کہ افغان فورسز کسی بھی ناگہانی کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔انہیں ایسی تربیت دی گئی کہ وہ خطے کی دوسری افواج کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتی ہیں۔افسوس!امتحان اور آزمائش کی گھڑی میں وہ دُم دبا کر بھاگ گئی اور امریکیوں کو مدد کے لیے پکارنے لگیں جووہاں جنگ لڑنے نہیں افغان فوج کو تربیت دینے کی خاطر مقیم ہیں۔
قدیم محاورہ ہے کہ کامیابی کے ہزار باپ اور ناکامی یتیم ہوتی ہے۔کچھ ایسا ہی حال صدر اشرف غنی کی حکومت کا ہے۔وہ اپنی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈال کر بڑی آسانی سے اپنادامن چھڑا لیتے ہیں۔قندوز میں بھی یہی ہوا۔افغان حکام نے پاکستانی فورسز پرا لزام لگادیا کہ انہوں نے قندوز پر قبضہ کرایا،ورنہ طالبان میں اتنا دم خم کہاں؟دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکا نے کہا کہ ایران حملہ آوروں کی مالی مدد کررہاتھا۔حالانکہ دنیاجانتی ہے کہ افغانستان کے معاملات میں پاکستان اور ایران کبھی بھی ایک صفحے پر نہیں رہے بلکہ اکثر دونوں مخالف سمتوں کے مسافر رہے۔اس کشمکش میں جہاں دونوں نے نقصان اٹھایا وہاں افغان عوام کے دکھوں اور مصائب میں بہت اضافہ ہوا۔
اب ایک نیا منصوبہ پک کر تیار ہوچکا ہے جس کے خدوخال یہ ہیں کہ پاکستان کو ایک بار پھر امریکا کے سامنے کٹہرے میں کھڑا کردیا جائے۔ طالبان کے ساتھ مذکرات کا جو سلسلہ شروع کرا یاگیا تھا اسے بڑی خوبصورتی سے سبوتاژ کرادیاگیا۔امریکا کے تعلقات میں جو اعتماد پیداہواتھا وہ بھی ڈانواں ڈول ہے۔صدر اوباما کی مدتِ صدارت اختتام کے قریب ہے لہٰذا وہ ناکامی کا منہ دیکھنے کے روادار نہیں۔ نون لیگ کی حکومت کی زنبیل میں ترپ کا کوئی ایسا پتہ نہیں جو مخالفین کی چالیں الٹ دے اور انہیں خاک چاٹنے پر مجبورکردے۔
اس پس منظر میں پاکستانیوں نے پہل قدمی کی اور اپنا مقدمہ اس طرح مرتب کیا کہ وہ وہ ملزم بن کر امریکی صدر کی عدالت میں پیش ہونے کے بجائے خود مدعی بن گئے۔ٹھوس خفیہ اطلاعات، ٹیلی فون ریکارڈنگ، سیٹلائٹ تصویروں اور خفیہ بینک کھاتوں پر مشتمل سینکڑوں صفحات پر مشتمل ایک جامع دستاویز امریکیوں کو پیش کی گئی جو یہ باورکرانے کے لیے کافی ہے کہ کراچی، بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں ہمسایہ ممالک کی خفیہ ایجنسیاں متحرک ہی نہیں بلکہ امن کے قیام کی ہر کوشش کو سبوتاژ کردیتی ہیں۔مطالبہ یہ ہے کہ دباؤ پاکستان پر نہیں بلکہ مودی اور اشرف غنی پر ڈالا جائے تاکہ وہ پاکستان غیر مستحکم نہ کریں۔
امریکیوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ طویل المعیاد تعلقات کی باتیں تو بہت شوق سے کرتے ہیں لیکن ان کی فوج اور سفارت کارقلیل المدت اہداف کے حصول میں ہی سرگرم رہتے ہیں۔اس وقت وہ افغانستان کو پرامن رکھنا چاہتے ہیں۔انخلاء کے راستے میں کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کرنا چاہتے۔ خواہ اس کے لیے انہیں کوئی بھی قیمت اداکرنا پڑے۔لہٰذا پاکستان کی مشکلات میں اضافے کا امکان ہے کیونکہ افغانستان کے ساتھ باہمی اعتماد کا بحران کم نہیں ہورہا۔بھارت بھی مسلسل جلتی پر تیل چھڑکتاہے۔
گزشتہ ہفتے آئی ایس آئی کے سربراہ رضوان اختر نے واشنگٹن کا دورہ کیا۔اب وزیراعظم کے بعد جنرل راحیل شریف بھی روانہ ہونے والے ہیں۔اس سفارت کاری کا مقصد یہ ہے کہ امریکیوں کو پاکستان کے خلاف بھارتیوں اور افغانیوں کے ہاتھوں استعمال ہونے سے روکا جائے۔پاکستان کا مفاد اسی میں ہے کہ امریکاکو بھارت اور افغانستان کے ساتھ ایک صفحے پر نہ ہونے دے۔اس نکتے کو اجاگر کیا جانا چاہیے کہ طالبان کو کنٹرول کرنا محض پاکستان کی ہی ذمہ داری نہیں‘افغانستان کی حکومت کو بھی اپنی استعداد بڑھانے کی فکر کرنا ہوگی تاکہ وہ بڑے بڑے چیلنجوں کا خود مقابلہ کرسکے۔
(رانا خالد قمر)گزشتہ ایک ہفتے سے لندن میں جاری سیاسی سرگرمیوں اور نون لیگی کے طویل مشاورتی عمل کے بعد نیا لندن پلان سامنے آگیا ہے۔ لندن پلان پر عمل درآمد کا مکمل دارومدار نواز شریف سے معاملات کو حتمی شکل دینے کے لیے ایک اہم ترین شخصیت کی ایک اور ملاقات ہے۔ اگر مذکورہ اہم شخصیت نو...
سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا ایم شمیم نے انکشاف کیا ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت پر رہائی نہ ہونے کے لیے اُس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے ہائیکورٹ کے ایک جج کو خصوصی حکم دیا تھا۔ انصاف کے تقاضوں کے منافی اس مشکوک طرزِ عمل کے انکشاف نے پاکستان کے سیاسی ، صحافتی اور عد...
2013 میں نواز شریف کے دورِ حکومت میں تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے والی حکومتی کمیٹی کے سربراہ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ اس وقت طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوران عسکری قیادت کی جانب سے حکومت کو تعاون نہیں ملا تھا۔ایک انٹرویو میں سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ حکومت بننے کے ...
سابق وزیراعظم نوازشریف کی نااہلیت کے بعد اب اُن کا نام تمام قومی اور سرکاری جگہوں سے بتدریج ہٹایا جانے لگا ہے۔ تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کی ویب سائٹ سے رکن اسمبلی کے طور پر اُن کا نام ہٹا دیا گیا ہے۔ اسی طرح کراچی ائیرپورٹ پر قائداعظم اور صدرِ مملکت ممنون حسین کے ساتھ اُن کی ...
٭3 اپریل 2016۔پاناما پیپرز (گیارہ اعشاریہ پانچ ملین دستاویزات پر مبنی ) کے انکشافات میں پہلی مرتبہ وزیراعظم نوازشریف اور اْن کا خاندان منظر عام پر آیا۔ ٭5 اپریل 2016۔وزیراعظم نوازشریف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپنے خاندان کے حوالے سے ایک جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا عندیہ دیاتاکہ وہ...
عدالت ِ عظمیٰ کے لارجر بنچ کی جانب سے میاں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ سے نااہلی کے فیصلے نے پاکستان تحریک انصاف اور اُس کی قیادت کی اُس جدو جہد کو ثمر بار کیا ہے جو 2013 ء کے عام انتخابات کے فوری بعد سے چار حلقے کھولنے کے مطالبے سے شروع ہوئی تھی۔ عمران خان کی جانب سے انتخابات میں د...
پاناما کیس کا فیصلہ آنے کے بعدعمومی طور پر پنجاب اور خاص طور پر لاہور میں شدید رد عمل سامنے آیا ہے جیسے ہی سپریم کورٹ آف پاکستان میں5رکنی بینچ نے اپنا فیصلہ سنایا اور میڈیا کے ذریعے اس فیصلے کی خبر عوام تک پہنچی تو ان کا پہلا رد عمل وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کے سات...
افغان نیشنل آرمی کے کمانڈرز اور ارکان پارلیمنٹ طالبان اور داعش کے جنگجوؤں کو پرتعیش گاڑیوں میں بٹھاکر ان کے مطلوبہ مقام تک پہنچاتے ہیں موجودہ افغان حکومت کے ساتھ پاکستان، افغانستان اور بھارت کے درمیان انٹیلی جنس شیئرنگ کا معاہدہ ہواتھا،جس سے پاکستان کو اب تک کوئی فائدہ نہیں ہوسک...
کوئٹہ پولیس ٹریننگ مرکز پر حملے کی نگرانی افغانستان سے کی گئی، مقامی نیٹ ورک کو استعمال کیا گیا حساس اداروں نے تفصیلات جمع کرنا شروع کردیں ، افغانستان سے دہشت گردوں کی حوالگی کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے بھاری ہتھیاروں کے ساتھ کوئٹہ پولیس کے تربیتی مرکز پر ہونے والے خود کش حم...
پارلیمان میں نمائندگی رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے قائدین کے ساتھ وزیراعظم نواز شریف کے اہم مشاورتی اجلاس میں پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، جمعیت العلمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے...
وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 71ویں اجلاس سے خطاب کو جو پذیرائی کشمیر میں حاصل ہوئی ہے ماضی میں شاید ہی کسی پاکستانی حاکم یا لیڈر کی تقریر کو ایسی اہمیت حاصل ہوئی ہو۔ کشمیر کے لیڈر، دانشور، صحافی، تجزیہ نگار، علماء، طلباء اور عوام کو اس تقریر کا...
اسپین میں ایک کہاوت ہے ‘ کسی کو دو مشورے کبھی نہیں دینے چاہئیں ایک شادی کرنے کا اور دوسرا جنگ پر جانے کا۔ یہ محاورہ غالباً دوسری جنگ عظیم کے بعد ایجاد ہوااس کا پس ِ منظر یہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں یورپ میں مردوں کی تعداد نہایت کم ہو گئی تھی اور عورتیں آبادی کا بڑا حصہ بن گئی تھی...