... loading ...
آج پاکستان کا اقتصادی محاذ پر سب سے بڑا مسئلہ اس کے سکے (کرنسی) ’روپے ‘کی قدرمیں توازن کوبرقرار رکھنا ہے۔ہمارے ہاں انسان کے بنائے ہوئے مروج نظام میں موجود سقم کے باعث آئی آئی چندریگر روڈ کی آسمان کو چھوتی عمارتوں میں بیٹھے ، کچھ کلرک نما بابو حضرات اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ اُس مخصوص دن پاکستانی روپے کی شرح تبادلہ کیا ہوگی۔ملکی اور بین الاقوامی اداروں سے کمپیوٹر چلانے اور چند سافٹ وئیر کھاتوں کا حساب کتاب رکھنے کی تربیت لے کر آنے والوں کو آپ زیادہ سے زیادہ کیا کہیں گے؟ شاندار کلرک ( Glorified Clerk?)۔ کرنسی کی قدر طے کرنے کی یقینا ان کے پاس کوئی دلیل ، کوئی طریقہ کار یا پھر کوئی ایسا فارمولا ہو گا، جس کی مدد سے وہ یہ جمع تفریق کرتے ہوں گے ۔ لیکن ہماری مبلغ معلومات کے مطابق شرحِ تبادلہ کے تعین کرنے کا تعلق معیشت کی مبادیات یا اتار چڑھاو سے ’’زیادہ سبز پشت ‘‘ یا امریکی ڈالر (ہم گرین بیک کا ترجمہ سبز پشت ہی کریں گے) کی مسلسل فراہمی سے زیادہ ہوتا ہے۔ یعنی بیرونِ ملک پاکستانی کتنا زرمبادلہ بھیج رہے ہیں اور ہمارے برآمد کنندگان کتنا زرِ مبادلہ کما کر دے رہے ہیں۔ ہمارے برآمدکنندگان دن رات محنت کرتے ہیں ، دن رات ایک کر کے معیاری مال بناتے ہیں، اور دنیا کا سب سے بڑا غنڈہ ملک ، کاغذ پر چند تصویریں اور پشت پر ایک آنکھ والے دجال کی تصویر چھاپ کر تیسری دنیا کے تمام ممالک کے عوام کی کی دن رات کی پیداوار سمیٹ کرلے جاتاہے۔ پھر یہ تو غلامی کی جدید شکل ہوئی ناں؟جس کا مطلب ہے ، مکمل غلامی ، ذہنی غلامی ، جس کی کوئی حد نہیں ہوتی۔اور ادھر ہماری یہ حالت کہ
اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے اپنے قوانین کے تحت چونکہ وہ پاکستان میں کوئی آزاد ادارہ نہیں رہا بلکہ آئی ایم ایف کے نمائندہ کے طور پر رو بہ عمل ہے۔ ہر دوسرے دن امریکا اور آئی ایم ایف کے ذریعے یہ جو مطالبہ آتا ہے کہ اسٹیٹ بنک کی آزادی کو یقینی بنایا جائے یعنی مقامی حکومت مرکزی بنک کے معاملات میں مداخلت نہ کرے ، یعنی اسے ایمانداری سے غیر ملکی آقاوں کورپورٹ کرنے دے۔
تاریخ کے جھروکوں میں جھانکیں تو دنیا کی کوئی تہذیب یا نظریہ ایسی جاندار اور بارعب شخصیت پیدا نہیں کر سکا ، جیسی ہم نے کی تھی۔ کیوں کہ انہیں ایسی صحبت میسر تھی جس صحبت کے تصور سے ہی آج عاصی اور گناہ گار مسلمان کی آنکھیں بھی جگمگانے لگتی ہیں۔
ایمان کی آخری حدوں کو چھوتا ہوا کیسا حکم ہے؟ اے نیل،اگر تو اس دنیا میں کسی اور کے حکم سے بہتا ہے تو اپنا پانی اپنے پاس رکھ ، ہمیں اس کو کی کوئی ضرورت نہیں ، اور اگر تو میرے رب کے حکم سے بہتا ہے ، تو میں عمر بن خطاب، اس کے خلیفہ کی حیثیت سے حکم دیتا ہوں کہ بہنا شروع کردے۔ اور دریائے نیل نے چودہ سو سال سے اس حکم سے اب تک سرتابی نہیں کی۔ اپنی راہ میں آنے والے کئی ممالک کو سیراب کرتا ہوا بے چون و چراں بہتا ہی چلا جا رہا ہے۔ جب عمر بن خطاب ؓ خلیفہ بنے تو اُس وقت تک درہم و دینار کی قدر اُس وقت کے دارلحکومت ، مدینہ النبی کے گردو نواح میں کسی ’آئی آئی چندریگر روڈ ‘ یا پھرکسی ’ وال سٹریٹ ‘ پر بیٹھے کچھ مالدار سنار طے کیا کرتے تھے اور اتفاق سے یہ سارے کے سارے یہودی ہو اکرتے تھے۔ کچھ عرصہ کے بعد ان میں سے کوئی نہ کوئی دیوالیہ ہو کر غائب ہو جاتا یا اس کے ہاں ڈاکہ پڑ جاتا اور یہ ربی صاحب یہاں سے کاروبار سمیٹ کر کہیں اور جا کر بنک کھول لیتے۔ خلیفہ دوم نے فرمایا کہ سکے کی قدر کا تعین کسی بھی ریاست کی خودمختاری کا مظہر ہوتا ہے، اس لئے کسی بھی سکے کی قوتِ خرید اور قوتِ فروخت طے کرنا ریاست کا حق اور ذمہ داری ہے، اسے چند نجی ہاتھوں میں نہیں دیا جا سکتا۔ اس لئے درہم و دینار کی قوت خرید اور قوتِ فروخت کیا ہوگی یہ ریاست طے کرے گی۔نبی آخرالزمان ﷺ سود کی حرمت کے بارے میں جو عملی احکامات لے کر آئے تھے ، ان کے اطلاق کے لئے عملی اقدامات عمر بن خطاب کے ذریعے سرانجام پارہے تھے، اور طریقہ کار کی باریکیاں شائد اذنِ الٰہی سے ہی طے ہو رہی تھیں۔
یوں انسانی تاریخ میں پہلی (اور شائد آخری مرتبہ) یہودیوں کی صدیوں سے رائج کرنسی کی قدرکے تعین پر قائم اجارہ داری ختم ہو گئی ۔یہ انسانی تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ کسی حکمران نے ان مالدار سنار یہودیوں کی اجارہ داری کو یوں ہوا میں اڑایا ہو۔ ان یہودیوں اور اُن کے ایجنٹوں کو آج تک اس کا بہت شدید رنج ہے، اس لئے کوئی بھی یہودی یا ان کا ایجنٹ ہو، اس چوٹ کو محسوس کیے بغیر نہ رہ سکا۔ ظاہر ہے چوٹ بہت کاری تھی جس کی تکلیف آپ کو ہر گلی محلے میں آج بھی نظر آئے گی۔یہ بھی فرمایا کہ ریاست کی حدود کے اندر آنکھ کھولنے والے ہر بچے کی کفالت کی ذمہ داری ریاست کی ہے ۔ اس طرح آپ نے غریب ماں باپ کو ان امیر سونے کے تاجروں سے سود پر قرض لینے سے بھی جان چھڑا دی۔ پھر فرمایا کہ ریاست کے اندر ہر نئی فصل کی پیداوار کے آنے پر ریاست ایک خریدار کے طور پر منڈی میں موجود ہو گی تا کہ پیدا ہونے والی ہر فصل کے کسان کو مناسب نرخوں پرخریداری کو یقینی بنایا جا سکے۔ پھر یہ بھی قرار دیا کہ ریاست کا فرض ہے کہ وہ اس خرید کردہ اناج کو ذخیرے کے طور پر محفوظ رکھے اور قحط کے دنوں میں استعمال کرے۔پھر فرمایا کہ اگر کسان کی فصل تباہ ہو جائے تو ریاست اس کو زرعی مداخل کے علاوہ گذارے کے طور پر بھی کچھ بلاسود قرض اور امداد بھی دے گی۔مقصد اس کا یہ تھا کہ کوئی بھی کسان ، بھلے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، اپنی فصل تباہ ہو جانے کی صورت میں ، ان سودخوروں کے ہتھے نہ چڑھے۔
علمِ معیشت کے ماہرین کو تو کہیں بیسویں صدی عیسوی میں آ کرپتہ چلا کہ اگر کسی فصل کی کل پیداوار کا دس فی صد ریاست کے پاس ذخیرہ ہو تو وہ کھلی منڈی کی قوتوں کو قیمتوں کے مصنوعی اتار چڑھاو سے روک سکتی ہے۔ لیکن سیدنا عمرؓ بن خطاب نے یہ پیمانہ چودہ سو سال پہلے مقرر کردیا تھا اور ریاست کی ذمہ داری قرار دے دیا تھا جس کو بعد میں آنے والے حکمران چالیس فی صد تک لے گئے۔
انسانی تاریخ میں اس قدر دور رس اور انسانیت نواز اقتصادی فیصلے شاید ہی کسی ایک شخصیت نے کبھی کیے ہوں۔ انسانی تاریخ میں یہ پہلا اور آخری موقع تھا کہ سودخور یہودیوں کی معیشت پر صدیوں سے قائم اجارہ داری ختم ہوئی۔لیکن سودخورویہودیوں نے اس کو یاد رکھا۔ یہودیوں نے اپنے معاشرے میں تو ان اقدامات کو رواج دیا کیوں کہ ان ہی اقدامات سے قومی خوشحالی کے دروازے کھولے جا سکتے تھے لیکن دوسری قوموں کے استحصال کے لئے ان کو سود کے جال میں الجھا لیا ہے ۔
انٹر بینک میں ڈالر 1.29روپے سستا ہو گیا۔فاریکس ڈیلرزایسوسی ایشن کے مطابق 1.29روپے قیمت کم ہونے کے بعد انٹربینک میں ڈالر170 روپے29 پیسے کا ہو گیا ۔26 اکتوبرکوڈالرکی قیمت نے تاریخی بلندی 175 روپے27 پیسوں کوچھولیا تھا۔26 اکتوبرسے تک ڈالرکی قیمت میں 4 روپے98 پیسوں کی کمی ریکارڈ کی گئ...
انٹربینک میں ڈالر 173.24 روپے کا ہو گیا۔ ڈالر کی بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ، خام تیل کی عالمی قیمت میں اضافے سے درآمدی بل اور مہنگائی میں مزید اضافے جیسے عوامل کے باعث انٹربینک مارکیٹ میں کاروباری ہفتے کے پہلے روز ڈالر کی اونچی اڑان کے نتیجے میں انٹربینک نرخ 173 روپے سے بھی تجاوز کرگئے او...
شوکت ترین کو ایک مرتبہ پھر مشیر خزانہ وریونیو تعینات کردیا گیا۔ شوکت ترین کی تقرری کے حوالے سے باقاعدہ نوٹیفکیشن کابینہ ڈویژن کی جانب سے جاری کردیا گیا ۔صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وزیر اعظم عمران خان کی ایڈوائس پر شوکت ترین کی تقرری کی منظوری دی ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق شوکت ترین...
ملک کے تیل کی درآمد کا بل رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں 97 فیصد سے بڑھ کر 4.59 ارب ڈالر ہو گیا جو گزشتہ سال کے اسی عرصے میں 2.32 ارب ڈالر تھا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمتوں میں اضافے اور روپے کی قدر میں کمی اضافے کی وجہ بنی ہے۔تیل کے درآمدی بل میں مسلسل ...
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے قرض پروگرام بحال کرنے کیلئے پاکستان کے سامنے نئی شرط رکھ دی ہے۔ آئی ایم ایف نے قرض پروگرام کی بحالی کے لیے سخت شرط رکھی ہے جس کے تحت حکومت نے جن اشیا پر ٹیکس چھوٹ دے رکھی ہے ، ان پر بھی 17 فیصد سیلز ٹیکس لگانا ہوگا۔آئی ایم ایف کی نئی شرط کے تحت ...
عرب دنیا کے پیرس کہلانے والے لبنان میں گزشتہ کچھ عرصے سے معاشی حالات اس تیزی کے ساتھ ابتر ہوئے ہیں کہ ملک قحط کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔ عوام کی زندگی مشکلات سے دوچار ہوگئی ہے اور سنہ 2019 کے اختتام کے بعد سے معاشی حالات تیزی سے بگڑ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کوروز مرہ ایندھن ، ادویات ...
مرکزی بینک آف انڈیا اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا 45 کروڑ 60 لاکھ کا مقروض نکلا۔ تفصیلات کے مطابق اسٹیٹ بینک آف انڈیا کا اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مقروض ہونے کا انکشاف ہوا ہے، ممبر قومی اسمبلی رانا تنویر حسین کی زیر صدارت پبلک اکاونٹس کمیٹی کا اجلاس ہوا، قیام پاکستان کے وقت پاکستان چھو...
ڈائریکٹر ایف آئی اے ناصر محمود ستی نے انکشاف کیا ہے کہ ڈالر مافیا کے 54 افراد میں سے 37 کا تعلق خیبر پختون خوا سے ہے۔ تفصیلات کے مطابق ہنڈی اور کرنسی کاروبار میں گرفتار ملزمان کے کیس کی پشاور ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران ڈی جی ایف آئی ے نے عدالت کو بتایا کہ ملک بھر میں 54 افراد ا...
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ لیکس میں 700 پاکستانیوں کے نام آئے، 2016میں پاناما پیپرزمیں 4500 پاکستانیوں کے نام آئے تھے۔سپریم کورٹ میں پاناما لیکس سے متعلق پٹشنز دائر ہوئیں،ایس ای سی پی ،اسٹیٹ بینک ،ایف بی آر اور ایف آئی اے نے تحقیقات کیں، عدالت ...
حکومت نے شوکت ترین سے وزارت خزانہ واپس لے کر انہیں مشیرخزانہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ذرائع کے مطابق 16 اکتوبرکوشوکت ترین سے وفاقی وزیرکا عہدہ واپس وزیراعظم کے پاس چلا جائیگا۔ آئین کے تحت وزیراعظم کسی غیرمنتخب شخص کو 6 ماہ کے لیے وفاقی وزیر بنا سکتے ہیں۔ذرائع کے مطابق شوکت ترین بطور...
ڈیجیٹل ادائیگیوں، ای کامرس اور آن لائن بینکاری کی سہولت کے استعمال کے ساتھ بینک صارفین کی بینکوں کی خدمات سے متعلق شکایات میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔بینکنگ محتسب کو گزشتہ سال جنوری تا دسمبر 2020کے دوران بینکوں سے متعلق صارفین کی 24750شکایات موصول ہوئی تھیں تاہم رواں سال پہلے ...
کوئلہ مہنگا، اضافی کرایہ اور روپے کی گرتی قدر نے سیمنٹ کی پیداواری لاگت بڑھا اور کھپت 12 فیصد گھٹا دی۔آل پاکستان سیمنٹ مینوفیکچرز ایسوسی ایشن کے مطابق رواں سال ستمبر میں سیمنٹ کی کھپت 45 لاکھ 89 ہزار ٹن رہی، جو ستمبر 2020 کے مقابلے میں 12 فیصد کم ہے۔رواں سال ستمبر میں سیمنٹ کی مق...