... loading ...
آخری حصہ
پاکستان میں نوجوانوں کی اکثریت کا جائزہ لیں تو آپ کو ان کی پژمردہ ارواح میں بے یقینی ، مایوسی، بے نظمی اور بے سمتی نابیناؤں کی طرح ہر سو بھٹکتی دکھائی دے گی ۔ان کی زندگی کی ترجیحات میں:
پہلی سرکاری ملازمت کا حصول ہے اس لیے کہ اس میں جواب دہی کم، آمدنی خطیر ، اور آرام بہت ہے۔ دوسری مذہب کا ایک ایسا دکھاوا اور پہناوا جومحض حلیے کی تبدیلی تک محدود ہے۔ایسا ہی کچھ معاملہ تھا کہ علامہ اقبال کوان کشتگان تقلید و بچگان عقیدت میں نہ زور حیدری دکھائی دیتا تھا نہ استغنائے سلیما نی! یا پھر احتساب سے بے خوف اپنے بڑوں کی نقالی میں جلد مالدار بن جانے کی تگ و دو۔یوں انفرادی مثالوں سے صرف نظر کرتے ہوئے پاکستانی نوجوانوں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ ضائع ہورہے ہیں۔
نوجوانوں کی یہ تعداد ملک کی آبادی کا تیس سے چالیس فیصد ہے۔پاکستان کا Active Border دنیا کا طویل ترین سرگرم علاقۂ حرب ساڑھے تین ہزار میل پر محیط ہے ۔ ان سرحدوں کے اس پار اور ا ن سے دور پار بھی بظاہر جو ہمارے دوست ہیں وہ دوست بن کر بھی نہیں ساتھ نبھانے والے۔
اس بات کا غوغا کہ پاکستان اس وقت حالت ِ جنگ میں ہے ، محض ایک ایسا بیانیہ ہوگا جو آشکار ہے۔ بہتر ہوگا کہ ہم اپنے بیان سے غیر ضروری جذباتیت اور ہمارے سیاست دان اور کھلاڑی ٹی وی پر بیان دیتے ہوئے اپنی گفتگو سے بروقت مناسب الفاظ نہ ملنے پر آ ، آ کی بھیانک آوازیں نکالنا چھوڑدیں۔ یہ اب کہنے کی بات نہیں کہ پاکستان میں جرم بمعنی دہشت گردی اور سیاست بمعنی لوٹ مار ایسے جڑواں بچے بن گئے ہیں جن کا دھڑ ایک جبکہ چہرہ اور منہ دو ہوتے ہیں اور جنہیں تھائی لینڈ کے پرانے نام پر Siamese Twins کہا جاتا ہے۔
ہماری فوج اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی بہتات اور یلغار میں جس طرح پھیل کر الجھ رہی ہے۔ یہ حکمت ِعملی سر دست تو تسلی بخش نتائج فراہم کررہی ہے مگر اس سے ادارہ جاتی اصلاحات یعنیInstitutional Reforms نہیں ہوپارہی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اگر بالفرض محال قانون کی کچھ کتابوں کو چھیڑ چھاڑ کر ان میں وقتی طور پر دُرستی کر بھی لی جائے تو ہمارے حساب سے زمینی امداد جو ایک تربیت یافتہ اور منظم افرادی قوت کی شکل میں ایسے بڑے اور دور رس اقدامات کے لیے موجود ہونی چاہئے وہ سرے سے تشکیل ہی نہیں ہوپارہی، یہ پولیس ، یہ سویلین انتظامیہ جو اوپر سے نیچے تک 1970 ء سے مسلسل سیاسی کیچڑ میں کاشت ہورہی ہے اور ہمارے قومی نظام سے ایسے چمٹی ہے جیسے ویلکرو کا جوڑ ۔
اس علّتِ عظیم کا علاج صرف یہ ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں پر توجہ دیں اور ان کی ایک بڑی تعداد کو قومی زندگی کے ہر شعبے چاہے وہ ہسپتال ہو یا اسکول، عبادت گا ہ ہو کہ فائر بریگیڈ کا ڈرائیور ، کارخانے کا فورمین ہو کہ شہری ہوابازی کا پائلٹ ، کوئی نرس ہو کہ ہوٹل کی افسر مہمان داری، صوبے کا آئی جی یا چیف سیکرٹری اسے لازمی فوجی تربیت کے مراحل سے گزار کرایک ایسے نظام سے جوڑ دیں جو جاری نظام پر کڑی نظر رکھنے کے علاوہ نئے نظام کی بتدریج تشکیل میں افواجِ پاکستان کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہو۔حیرت کی بات یہ ہے کہ لازمی فوجی تربیت کا آغاز پاکستان میں ایک سویلین صدر ذوالفقار علی بھٹو نے کیا۔ یہ نیشنل کیڈٹ کور اسکیم کہلاتی تھی ۔ اس میں دو سال کی تربیت کے بعد سالانہ نتائج میں پانچ فیصد نمبر ملنے کی وجہ سے طالب علم انہیں سرکاری میڈیکل اور انجینئرنگ کالجوں میں داخلے کے حصول میں ایک معاون سمجھتے تھے۔ اور ضیا الحق نے ایک دفعہ اس پر اتنی مہربانی ضرور کی کہ وہ بطور آرمی چیف اس کی سلامی لینے ایف جی کالج راولپنڈی پہنچ گئے۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ سر پرستی پدرانہ شفقت سے لتھڑی ہوئی ایک ایسی عیاری تھی جس میں پیشہ ورانہ ملکیت کا کوئی دخل نہ تھا ۔کیوں کہ ان کا چھوٹا صاحبزادہ انوار الحق بھی مارچ پاسٹ کا حصہ تھا۔
2002 ء میں صدر مشرف نے اس نظام تربیت کو ختم کردیا ۔یوں بھی اب میڈیکل کالج پرائیوٹ شعبے میں قائم ہوگئے تھے اور بزنس کالج ،کارپوریشنوں کے لیے غلاموں کی نئی کھیپ تیار کرنے کے لیے جابجا پھیل چکے تھے۔
جس طرح پے در پے ہم پر جنگیں مسلط ہوتی رہتی ہیں ، ہم پر لازم ہے کہ اسیجتنا جلدی ہم یہ جان لیں ہمارے حق میں بہتر ہوگا کہ ممالک کے درمیان دوستیاں نہیں ہوتیں، مفادات ہوتے ہیں، مذہب کی بنیاد پر اگر لوگ ایک دوسرے کو پیار کرتے تو ہٹلر اور چرچل کا دین ایک تھا، شامی عراقی پناہ گزین ،عرب ممالک کو جرمنی سے زیادہ اچھے لگتے، مصر کے جمال عبدالناصر، شام کے حافظ الاسد ،ایران کے رفسنجانی اور افغانستان کے کرزئی اور عبداﷲ عبداﷲ کو پاکستان ، بھارت سے زیادہ عزیز ہوتا۔آج کی دنیا مارکیٹ کی دنیا ہے اور عالمی مارکیٹ کو بیس بینک اور پچاس بڑی کارپویشنوں نے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے ۔ ایپل، گوگل اور مائیکروسوٖفٹ کی سالانہ آمدنی کئی افریقی اور ایشیائی ممالک بشمول پاکستان سے بڑی ہے۔یوں جنگ بھی کارپویشن وسائل کی تقسیم اور آمدنی میں اضافے کے لیے لڑواتی ہیں اور ان اداروں کو ہمہ وقت تیزی سے بدلتے ہوئے جدید رجحانات کے حامل تربیت یافتہ نظم و ضبط کے حامل نوجوانوں کی ضرورت ہے۔
ہم اپنی نوجوان نسل جس کی عمر اٹھارہ سے پچیس برس ہے اس کے لیے لازمی فوجی تربیت کا قانون نافذ کردیں۔ یہ ایک مرحلہ وار پروگرام ہو جس میں تناسب یہ ہو کہ بیس فیصد لڑکیاں اور اسی فیصد لڑکے ہوں۔سرکاری ملازمت میں صرف اسی نوجوان کو ترجیح دی جائے جو اس لازمی فوجی تربیت کے مرحلے سے گزرے ہوں۔جسے ـــــ’’ قومی تشکیلِ نو پروگرام‘‘کا نام دیا جاسکتا ہے۔
اس وقت دنیا میں کل 64ممالک ایسے ہیں۔ جہاں فوجی تربیت لازم ہے ۔اگر آپ کی جوابی دلیل یہ ہے کہ دنیا میں 88 ممالک ایسے بھی ہیں جو اس تربیت کے بغیر بھی ترقی کی راہ پرگامزن ہیں تو یہ بھی جان لیں کہ اسی کرہ ارض پر 21 ملک ایسے بھی ہیں جہاں سرے سے فوج کا کوئی وجود ہی نہیں۔کیوں نہ ہم ان 64 ممالک کی مثال اپنائیں جہاں اس پروگرام پر سختی سے عمل درآمد ہورہا ہے۔
دنیا میں سب سے چھوٹا ایک ملک ایسا بھی ہے جس کا سربراہ دنیا کا سب سے طاقت ور عہدہ رکھتا ہے اور پوپ کہلاتا ہے اگر آپ پوپ کے اثر و رسوخ ، طاقت اور دولت سے بے خبر ہیں تو یقین جانیں آپ ان معصوم اور بے خبر مسلمانوں میں سے ہیں جو چرچ کی طاقت کا کوئی اندازا نہیں رکھتے۔پوپ کا درجہ عیسائیوں میں امام الزماں کا ہے۔دوسو کروڑ کیتھولک عیسائیوں کے لیے وہ دین کے معاملے میں حرف آخرہیں۔دنیا میں بھی ان کی مداخلت کچھ کم نہیں۔مارکوس انہیں ناراض کر بیٹھا تھا۔ بہت طاقت ور ڈکٹیٹر تھا لیکن فلپائن میں اس کی مخالفت کا آغاز سڑکوں پر کیتھولک راہبوں نے کیا جو بعد میں اقتدار کے خاتمے کا باعث بنا۔شیخ احمد دیدات محافل میں ایک دل چسپ بات کہتے تھے کہ پوپ اگر مسلمان ہوجائے تو عیسائیت کا خاتمہ ہوجائے گا۔پوپ کے دو میل سے بھی کم رقبے کے ملک ویٹیکین کی بھی اپنی ایک فوج ہے اسے سوئس گارڈز کہتے ہیں۔ یہ دنیا کی قدیم ترین مستقل فوج شمار کی جاتی ہے۔ جس کی یونی فارم دنیا کے مشہور آرٹسٹ مائیکل اینجلو نے ڈیزائن کی تھی ۔اس سے پرانی بس ایک اور فوج ہے جس کا نام Spain’s 1st King’s Immemorial Infantry Regiment, ہے۔
یہ سن 1248 ء سے مستقلاً ہسپانوی فوج کا حصہ ہے ۔
وہ مسلمان ممالک جہاں لازمی فوجی تربیت کی وجہ سے آپ کو ایک بہتر اور مربوط سوسائٹی دکھائی دیتی ہے ان میں ترکی ،مراکش، ایران ، وسط ایشیا کی تمام ریاستیں، کویت، شام،ماریطانیہ شامل ہیں۔لازمی فوجی تربیت سے گو فوجی بجٹ میں اضافہ ہوتا ہے لیکن یہ اضافہ دراصل فوجی بجٹ کی بجائے تعلیم کے بجٹ کا حصہ ہے۔ کیوں کہ فرسودہ ڈگریوں جو سیاسیات، معاشیات ،عمرانیات، شماریات، جغرافیہ، بین الاقوامی تعلقات، تاریخ اور کامرس جیسے Theoritical مضامین میں بانٹی جاتی ہیں، ان سے بہتر ہے کہ ہم ایک لازمی فوجی تربیت کا ایسا نظام بنائیں جو ہماری نوجوان نسل کو بہتر جسم ، بہتر دماغ ، بہتر تربیت کے ساتھ ایسی باقاعدہ اور باعمل زندگی سے متعارف کرادے جہاں وہ ٹیکنالوجی، طب ، شہری دفاع، پولیس،کھیل،زراعت کے تمام شعبے،انجینئرنگ اور سیکورٹی جیسے مضامین میں ابتدائی شُد بُدحاصل کرلیں۔سرکاری ملازمتوں میں ان نوجوانوں کا کوٹہ پچاس فیصد ہونا چاہیے ۔یوں یہ تربیت انہیں ابتدائی سے اعلیٰ مدارج تک پہنچنے میں مدد کرے گی۔
آپ نے دیکھا ہوگا کہ وہ ریٹائرڈ فوجی ملازمین جو سرکار اور نجی ملازمت کے متلاشی ہوتے ہیں انہیں نہ صرف ترجیح دی جاتی ہے بلکہ ان کی تنخواہ بھی اسی زمرے میں عام ملازمین سے پچیس فیصد زیادہ ہوتی ہے۔
اس فوجی تربیت کا ایک اور بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ عصبیت ، لسانیت، فرقہ واریت، امارت پسندی ,امیر ،غریب کی ہولناک تفریق کے جو آسیب ہمارے معاشرے کو گھیرے ہوئے ہیں ان سے بتدریج چھٹکارا مل جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ جو قدرتی آفات میں ہمارے پاس تربیت یافتہ افرادی قوت کا فقدان دکھائی دیتا ہے وہ بھی کسی حد تک دور ہوجائے گا۔
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...
[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...
پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...
[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...
[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...
معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...
میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...