... loading ...
پاکستان اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی قربتوں کو دیکھتے ہوئے بھارت پاکستان کے دیگر پڑوسی ممالک کے ساتھ پینگیں بڑھا رہا ہے۔ ایک طرف افغانستان میں سرمایہ کاری کے ذریعے وہاں پاکستان مخالف عناصر کو قوت بخش رہا ہے تو ایران میں بھی اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کررہا ہے۔ ہند-ایران تعلقات میں ایک نیا موڑ اب آنے والا ہے کیونکہ بھارت نے بندرگاہ چابہار میں دو لاکھ کروڑ روپے کی خطیر سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے لیکن ساتھ ہی بنیے والی فطرت سے بھی باز نہیں آیا۔ سرمایہ کاری کریں گے، لیکن مجوزہ گیس معاہدے میں نرخوں میں کمی کرنے پر۔
بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی رواں ماہ مختلف وزارتوں کی تجاویز پر غور کریں گے، جس کے نتیجے میں بھارت ایران کے ساتھ حتمی معاہدہ کر سکتا ہے۔ وزیر ٹرانسپورٹ و جہاز رانی نتن گڑکری کا کہنا ہے کہ سرمایہ کاری کا انحصار گیس کی قیمت پر ہوگا، جس کے لیے دونوں ملکوں میں مذاکرات جاری ہیں۔ ایران نے 2.95 امریکی ڈالرز فی ایم ایم بی ٹی یو کا نرخ دیا ہے جبکہ بھارت نرخ کم کروانا چاہتا ہے۔ “اگر ہمیں ایران سے گیس مناسب قیمت پر ملتی ہے تو پھر ہم چابہار کے معاملے پر لازماً عملدرآمد کریں گے۔” انہوں نے کہا۔
وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ بھارت کو دیگر ملکوں سے بھی گیس تجاویز موصول ہوئی ہیں اور وہ تمام متبادل منصوبوں پرغورکرے گا۔ لیکن انہوں نے کسی ملک کا نام نہیں لیا۔
بھارت نے چابہار میں سڑکوں، ریلویز اور بندرگاہ میں سرمایہ کاری کے ساتھ گیس سے چلنے والے ایک یوریا پلانٹ کی بھی تجویز دی ہے۔ اس وقت چین میں کوئلے سے چلنے والے کسی بھی کارخانے میں تیار ہونے والا یوریا 10 ہزار روپے فی ٹن پڑتا ہے اور گرکڑی کہتے ہیں کہ “100 کروڑ روپے کے یوریا منصوبے کے لیے ہم تمام متبادل راستوں پر بھی غور کریں گے۔”
بھارت سالانہ 8 سے 9 ملین ٹن نائٹروجن کھاد برآمد کرتا ہے اور وہ چاہ رہا ہے کہ ایران ڈیڑھ ڈالر کے نرخ پر گیس فروخت کرے۔اگر بھارت کی یہ کوشش کامیاب ہوگئی تو نہ صرف ملک میں کھاد کی قیمت میں بہت زیادہ کمی آئے گی بلکہ حکومت کو جاری کردہ سبسڈی کی بھی بچت ہوگی، وہ بھی پورے 80 ہزار کروڑ روپے کی۔
ایک ایسے وقت میں جب امریکا اور دیگر مغربی ممالک ایران پر پابندیوں میں نرمی کررہے ہیں، بھارت بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا چاہ رہا ہے۔ وہ چابہار میں 85 ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کا پہلے سے وعدہ کرچکا ہے تاکہ پاکستان کی محتاجی کے بغیر افغانستان تک زمینی رسائی حاصل کرسکے۔
پاکستان نے چین کے اشتراک سے گوادر کی بندرگاہ تیار کی ہے تو اس کے بالکل قریب ایرانی بندرگاہ چابہار کو بھاری سرمایہ کاری کے ذریعے فعال کرکے بھارت علاقے میں اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے، مالی بھی اور سیاسی بھی۔