... loading ...
طویل ترین انتظار کے بعد بالآخر وہ دن آ ہی گیا، 21 اکتوبر 2015ء۔ وہی تاریخ جب 1989ء میں جاری ہونے والی مشہور فلم “بیک ٹو دی فیوچر II” کا ہیرو مارٹی میک فلائی مستقبل میں آتا ہے۔ بدقسمتی سے فلم میں دکھائی گئی دنیا آج کی دنیا سے کافی مختلف ہے اور اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کہ ہم توقعات پر کافی حد تک پورے نہیں اترے۔ نہ اڑتی ہوئی کاریں ہیں اور نہ ہی ہوور بورڈ (hover board) ابھی تک عام ہو سکے ہیں۔ اس کے باوجود چند پہلو ایسے ضرور ہیں جن میں 2015ء نہ صرف توقعات کے مطابق بلکہ اس سے بھی آگے نکل گیا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں:
بیک ٹو دی فیوچر II میں مستقبل کے مارٹی کو اس کی ملازمت سے نکال دیا جاتا ہے، صرف ایک وڈیو کال کے ذریعے۔ آج حقیقی دنیا میں ہم وڈیو رابطوں میں بڑے ماہر ہوگئے ہیں بلکہ فلم سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ ہمارے پاس ہے گفتگو کو فوری طور پر ترجمہ کرنے کی سہولت بھی ہے، جو مختلف زبانوں میں وڈیو رابطے آسان بنا رہی ہے۔
ٹیکنالوجی سے لیس گھڑیاں، چشمے اور پہننے کے قابل ایسی ہی چیزیں جنہیں “ویئرایبلز” کہتے ہیں، بیک ٹو دی فیوچر میں اتنے خوبصورت نہیں تھے جتنے کہ آج حقیقی دنیا میں ہیں۔ ایک منظر میں ڈوک کو گاڑی میں ایک چشمہ پہنے ہوئے دکھایا جا تا ہے، جو گاڑی کے گرد لگے مختلف کیمروں سے منسلک ہوتا ہے اور اردگرد کی فوری معلومات دیتا ہے۔ پھر ہم ڈوک کو ایک اور ڈیوائس استعمال کرتے دیکھتے ہیں جس کے ذریعے وہ مختلف چیزوں کے بارے میں اضافی معلومات حاصل کرتے ہیں۔ آج ہم اس ٹیکنالوجی میں بھی کافی آگے دکھائی دیتے ہیں۔ گوگل گلاس اور اوکولس رفٹ (Oculus Rift) جدید دور کے چشمے ہیں جبکہ موبائل فون نے ہماری معلومات تک رسائی کو بہت آسان بنا دیا ہے۔
فلم کی کہانی لکھنے والے شریک-پروڈیوسر باب گیل کہتے ہیں کہ اس وقت ہمارے ذہن میں یہ تصور بھی نہیں تھا کہ مستقبل میں ہر کسی کے پاس ایسی ڈیوائس ہوگی جو بیک وقت کمپیوٹر بھی ہوگی، کیمرہ بھی، ریکارڈنگ ڈیوائس بھی اور کیلکولٹیٹر بھی۔
موودی کے ایک منظر میں ہم نے دیکھا کہ بف صرف انگوٹھے کا نشان لگا کر ٹیکسی کا کرایہ دے دیتے ہیں۔ ویسے آج ہم اس مقام تک تو نہیں پہنچے لیکن ایپل پے (Apple Pay) کے حامل صارفین اپنے انگلیوں کے نشانات سے ایکٹو کیے گئے آئی فونز کے ذریعے ادائیگی کر سکتے ہیں۔ سوئیڈن تو مکمل طور پر نقد رقم سے جان چھڑانے کی تیاری کررہا ہے۔ ویسے ہوائی اڈوں اور دیگر مقامات پر حفاظتی نقطہ نظر سے انگلیوں کے نشانات اسکین کرنا معمول ہے۔
فلم کے مطابق کتے کی طرح ساتھ ساتھ چلنے والے ڈرون تو ابھی تک مارکیٹ میں نہیں آئے لیکن ہمارے پاس اڑتے ہوئے روبوٹ ضرور ہیں۔ یہ تصاویر لینے کے معمولی کاموں سے لے کر فوجی کارروائیوں تک میں کامیابی سے استعمال ہو رہے ہیں۔
بیک ٹو دی فیوچر II میں دکھائی گئی ٹی وی اسکرینیں تقریباً ویسی ہی ہیں جیسی کہ آج پائی جاتی ہیں، سپاٹ اور بڑی۔ لیکن فلم بنانے والوں کو اندازہ نہیں تھا کہ 2015ء میں ایسی اسکرینیں بھی ہوں گی جنہیں موڑ کر اور تہہ کرکے رکھا جا سکے گا۔ یعنی اس معاملے میں بھی ہم سوچ سے آگے نکل گئے۔ اس کے علاوہ فلم میں 3 ڈی ہولوگرام بھی دکھایا گیا ہے جو ایک سینما کے اوپر نصب ہوتا ہے۔ آج کی 3ڈی ٹیکنالوجی ٹی وی کے ذریعے گھر گھر میں موجود ہے۔
جی ہاں، فلم بیک ٹو دی فیوچر II کے مستقبل میں خلا میں دریافت کا کوئی موضوع نہیں ہے لیکن 1989ء سے آج تک ہم نے کتنی ترقی کی ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے اس موضوع کو بھی سامنے رکھنا ہوگا۔ تو اس دوران ہم نے مارس پر روبوٹ بھیجے، اور اگلی دو دہائیوں میں وہاں انسان بھی بھیجنے کی تیاری کررہے ہیں۔ ہم نے ایک لاکھ 35 ہزار کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے سفر کرنے والے دم دار ستارے پر اپنا آلہ اتارا۔ ہم نے شمسی نظام سے باہر دیگر سیاروں کے بارے میں جانا اور بھی بہت کچھ۔
حقیقت یہ ہے کہ بیک ٹو دی فیوچر II کے مقابلے میں آج ہم کافی آگے ہیں۔ اس لیے صرف ہوور بورڈ (hover board) اور اڑن گاڑیاں نہ ہونے کا غم نہ کھائیں اور اپنے “حال” کا لطف اٹھائیں۔
گوگل اور ایمیزن نے اپنے آرڈرز کی تکمیل کے لیے ڈرونز کے استعمال میں زیادہ تاخیر نہیں دکھائی لیکن نئی تحقیق بتاتی ہے کہ سامان کی ڈلیوری محض ایک چھوٹا سا کام ہے جو انسانوں کی جگہ ڈرونز کر سکتے ہیں۔ یہ ننھے طیارے بہت جلد بلند عمارات کی کھڑکیاں صاف کریں گے، انشورنس کے دعووں کی تصدیق ک...