... loading ...
سابق آمر صدر ایوب کے دور میں پشاور میں بڈابیر کے ہوائی اڈے پر سرخ دائرہ لگانے سے لے کر گزشتہ دنوں اسلام آباد میں لاہور، کراچی گیس پائپ لائن بچھانے کے منصوبے پر ہونے والے دستخط تک، پاکستان او ر روس کے دو طرفہ تعلقات بہت سے نشیب و فراز کا شکار رہے ہیں۔ پاکستان بننے کے فوراً بعد پنڈی سازش کیس سے ہمیں پتہ چلا کہ روس پاکستان کو اپنا انقلاب برآمد کرنا چاہتا تھا۔ بالکل اُسی طرح جس طرح ایران ہمیں اپنا انقلاب برآمد کر رہا ہے اور ہر سال اس کی ٹیسٹنگ بھی کرتا رہتا ہے۔ روسی انقلاب کے معاملات بہت آگے بڑھ چکے تھے کہ کچھ انقلابیوں کا پیر بم پر آ گیا اور یوں معاملہ درمیان میں ہی رہ گیا۔پھر روس ہمیں یہ انقلاب عطا کرنے آمو پار کرکے طورخم تک آیا لیکن ہم نے برفانی ریچھ کے ساتھ جو کیا، اُسے انسانی تاریخ کا ایک موڑ ہی کہا جا سکتا ہے۔
دو ملکوں کے درمیان تعلقات ، دوافراد کے تعلقات سے مختلف ہوتے ہیں لیکن کچھ تبدیلیوں کے ساتھ ان پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔ روس کے ساتھ ہمارے تعلقات کی نوعیت استاد دامن کے اس شعر میں سمیٹی جا سکتی ہے کہ
(آپ کی آنکھوں کی سرخی بتا رہی ہے کہ اگر ہم روئے ہیں تو روئے آپ بھی ہیں)
ہماری تو حالت یہ ہے کہ قتیل شفائی مرحوم کے
روس نے ہمیں نام نہاد امریکی اتحادی ہونے کی سزا کچھ یوں دی کہ مشرقی پاکستان کو جدا کرنے کے لئے کی گئی ننگی فوجی جارحیت میں بھارت کی مکمل پشتیبانی کی۔ اس کے دس سال بعد جب ہمیں جب موقع ملا تو ہم نے بھی اپنا تن من دھن جھونک کر افغانستان میں اُس کے ساتھ وہ سلوک کیا کہ ’روس‘ نام کی وہ ریاست جس کی بنا پر وہ ریاست ہائے متحدہ روس کہلاتا تھا، اب وہ ریاست بھی بیلاروس کی صورت میں جغرافیائی لحاظ سے اس سے الگ تھلگ کھڑی ہے۔ مشرقی یورپ کے ممالک کے علاوہ پانچ وسط ایشیائی ریاستیں بھی اب ایک حقیقت کے طور پر عالمی نقشے پر عیاں ہیں۔
روس میں اس کا اپنا سرخ انقلاب ایک قصہ پارینہ ہو چکا ہے اور وہ انقلاب جو روس دنیا بھر کو برآمد کرتا پھر رہا تھا ، اس کو ماسکو میں بھی پناہ میسر نہیں۔ کیوبا کے امریکاکے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد پاکستان کے بے چارے سرخوں کی آخری امید اب ’’ہیوگو شاویز‘‘ ہی رہ گیا ہے۔
پاکستان اور روس کے درمیان کئی دفعہ تعلقات بحال ہوتے ہوتے رہ جاتے تھے۔ آخر کار بات یہاں تک پہنچی کہ جے ایف تھنڈر کے لئے چین نے جب روسی انجن خریدنے کی بات کی تو روسی قیادت پہلے تو اکڑی ، لیکن چین کے دونوں ممالک کوسمجھانے بجھانے کے بعد پاکستان اور روس کے درمیان تعلقات نے یوں جوش مارا کہ پہلے پاکستان میں مارے جانے والے ہر تخریب کار کو ازبک اور تاجک قرار دینا شروع کر دیا اور بعد ازاں روسی تیور دیکھتے ہوئے اسے داعش کا مقامی عہدیدار کہنا شروع کردیا۔
اس خیر سگالی کے جواب میں روسی صدر نے اپنے پاکستانی ہم منصب کو دورے کی دعوت دے ڈالی۔ لیکن پاکستان کے صدر زرداری نے جس روز روس کے دورے پر جانا تھا ، اُسی دن گیلانی صاحب کی وزارتِ عظمیٰ ، عدالت عظمیٰ کے ہاتھوں قصۂ ماضی ہو گئی اور یوں انہیں یہ دورہ ملتوی کر نا پڑا۔ ہمارے پیپلز پارٹی برانڈ دانشور یہ دور کی کوڑی لائے کہ امریکا ان تعلقات کی بحالی نہیں چاہتا اس لئے جسٹس افتخار چوہدری نے امریکیوں کے کہنے پر یہ سب کیا ہے۔ لیکن نواز شریف صاحب کے آتے ہی روسی ہیلی کاپٹروں کی دھمیال (اسلام آباد)کے مقام پر ایک عدد فیکٹری کا تحفہ مل چکا ہے اور اب دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے پائپ لائن کے معاہدے پر دستخط ہو گیے ہیں جو ۲۰۱۷ ء تک مکمل ہو گا۔
روس اور پاکستان کے درمیان لاہور سے کراچی تک دو ارب ڈالر مالیت کی گیس پائپ لائن بچھانے کے معاہدے کی تزویراتی اہمیت کچھ یوں بھی زیادہ ہو جاتی ہے کہ اس پر دستخط وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے دورہ امریکا پر روانہ ہونے سے کچھ دن پہلے کیے گیے۔ پاکستان اسٹیل مل ، اور دھمیال (اسلام آباد) میں ہیلی کاپٹروں کی ایک فیکٹری لگا کر دینے کے بعد روس کی طرف سے پاکستان میں ہونے والی یہ تیسری بڑی سرمایہ کاری ہے۔ اس کی سب سے اہم بات شعبے میں پاکستان کو ٹیکنالوجی کی منتقلی ہے۔ یہ دو ریاستوں کے درمیان ایک معاہدہ ہے جس کی حامی وزیرِ اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کے شنگھائی تعاون کونسل کے اوفا اجلاس کے دوران ، ایک غیر رسمی ملاقات میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے ان سے بھری تھی۔
اسلام آباد میں دستخط ہونے والے معاہدے کے نتیجے میں اس منصوبے کا پہلا مرحلہ طے ہو گیا جب کہ اس منصوبے کے لئے چونکہ فنانشل کلوز اور اس طرح کی دیگر قباحتوں کا تکلف نہیں کرنا پڑے گا اور سارا سرمایہ روسی حکومت فراہم کرے گی ، جسے اپنے گیس اور تیل سے کمائے گئے ڈالر خرچنے کے لئے کوئی جگہ نہیں مل رہی ، اس لئے اس کے پہلے مرحلے کی تکمیل کی تاریخ دسمبر۲۰۱۷ء طے کی گئی ہے جو یقیناً اپنے منطقی انجام تک پہنچ جائے گی۔
لیکن اس معاہدے کا ایک سادہ ساپیغام واشنگٹن میں بھی وصول ہو گیا ہے اور یہ کہ پاکستان کا ازلی دوست امریکا اب ہمیں ایران، پاکستان(آئی پی آئی) گیس پائپ لائن یا پھر ترکمانستان ،افغانستان ،پاکستان، بھارت (تاپی) اور وسط ایشیائی ممالک سے بجلی درآمد کے کاسال ۲۰۰۰جیسے منصوبوں کے بہلاؤں سے مطمئن نہیں کر سکتاکیوں کہ ایندھن کے بحران کا شکار پاکستان کے پاس اب مزید متبادل ذرائع بھی دستیاب ہو گیے ہیں اور کل کے دشمن آج کے دوست بن گیے ہیں۔
لیکن یہ بات طے ہے کہ ہم اسے کراچی لاہور پائپ لائن قرار دے کر دراصل دنیا کی آنکھوں سے بچانا چاہ رہے ہیں ، اصل میں یہ ایران ۔پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کا ایک حصہ ہے ، جس کا گوادر سے نوابشاہ تک کے حصے کے لئے ٹھیکہ اسی طرح کے ایک معاہدے کے تحت پہلے ہی چینی کمپنیوں کو دیا جا چکا ہے۔ یوں گوادر سے ایرانی سرحد تک کا چند کلومیٹر کا ’ٹوٹا‘ کسی بھی وقت مکمل کیا جا سکتا ہے اور وہ ہم خود بھی کر سکتے ہیں ۔اس طریقے سے ہم دراصل ایران پر عائد بین الاقوامی پابندیوں سے بچ بچا کر اس منصوبے پر عمل شروع کر رہے ہیں تا کہ اگر کوئی اعتراض کرے تو ہم کہہ سکیں کہ یہ تو قطر سے درآمدی ایل این جی کی ترسیل کے لیے ہے۔ اور جیسے ہی موقع آئے ، جو کہ شیطانِ بزرگ کے مہربانِ بزرگ ہوجانے کے بعد آیا ہی چاہتا ہے، ہم لیور نیچے کریں اور گیس پاکستان میں آنا شروع ہو جائے۔
لیکن روس اس منصوبے کے لئے دو ارب ڈالر ہماری محبت میں نہیں لگا رہا بلکہ وہ اس وقت یورپ کو گیس کی فراہمی پر اپنی اجاری داری ہونے کے باعث یورپی ممالک کے اوپر اپنی جو تزویراتی بڑھوتری ہے اس کو برقرا ر رکھنے کی قیمت ادا کر رہا ہے جس کو گزشتہ کچھ برسوں سے ایران کے پاس زیرِ سمندر موجود گیس سے خطرہ ہے۔ ایران ابھی تک اپنے اوپر لگنے والی اقتصادی پابندیوں کے باعث پارس گیس فیلڈ کی گیس کو برآمد نہیں کر پا رہا۔ یہاں سے اس وقت خلیج کی دوسری طرف بیٹھا قطر ،گیس نکال نکال کر اسے ٹھنڈا کر کے ایل این جی بنا کر پوری دنیا کو بیچتا ہے، اور دنیا میں ایل این جی کا سب سے بڑا برآمد کنندہ کہلاتا ہے ۔ ایران کی جانب سے خلیج کے مخالف کنارے سے اسی زیر آب گیس فیلڈ سے گیس نکال کر یورپ کو برآمد کرنا چاہتا ہے جس کے لئے اس نے ترکی تک پائپ لائن بچھابھی لی ہے۔ آگے یہ گیس ترکی کو پائپ لائن کا کرایہ ادا کر کے اس کی ایستادہ پائپ لائنز کے ذریعے یورپ تک پہنچائی جا سکتی ہے ۔
حالیہ دنوں میں شام میں ایرانی مخالفین کو نیست و نابود کرنے اور بعثی درندہ حکومت بچانے کے لئے فوجیں اتارنے کے بدلے روس نے ایران سے ایک وعدہ یہ بھی کیا ہے کہ وہ اس کی گیس یورپ تک پہنچا کر وہاں روس کی منڈی ’خراب ‘ نہ کرے اس کے بدلے وہ (روس) ایران کو متبادل منڈی فراہم کرے گا، ظاہر ہے کہ روس کی طرف سے ایران کی (متوقع ) گیس کومتبادل منڈی مہیا کی گئی ہے۔ یوں جب یہ گیس پاکستان اور اس سے آگے چین کو فراہم ہو نا شروع ہوجائے گی تو ایران یورپ کو منہ نہیں کرے گا۔ اور یوں روس جب جب چاہے گا یورپ کا ٹینٹوا دبانے کا حق اپنے پاس محفوظ رکھے گا۔
بھارت اس سے پہلے ہی امریکا سے چھ ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو پر ایل این جی درآمد کرنے کا معاہدہ کرکے ایران کی گیس پر سے اپنے انحصار کو ختم کر چکا ہے۔ ایسی صورت میں بارہ ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو پر خریدی جانے والی یہ ایرانی گیس ، پائپ لائن کے ذریعے پاکستان کے راستے چین تو جا سکتی ہے بھارت نہیں۔
دیکھنایہ ہے ہمارے وزیر اعظم اپنے متوقع دورہ امریکامیں یہ منصوبہ دکھا کر اپنے دورہ امریکہ میں صدر اوباما سے کیا کچھ رعایتیں لینے میں کامیاب ہوتے ہیں؟
یوکرینی حکومت نے شہریوں سے گوریلا جنگ کا آغاز کرنے کی اپیل کردی۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق یوکرینی حکومت نے شہریوں سے گوریلا جنگ کا آغاز کرنے کی اپیل کر دی ۔یوکرینی صدر کے مشیر نے لوگوں کو کہا ہے کہ روس کے پچھلے دستے کمزور ہیں، اگر ہم ان کو بلاک کر دیں تو یہ جنگ جیت سکتے ہیں...
روس نے کہا ہے کہ ماسکو یوکرین میں لڑائی کے خاتمے کے لیے بات چیت کررہا ہے تاہم یوکرین کے فوجی ڈھانچے کو مکمل تباہ کرنے کی کوشش جاری رہے گی۔ عالمی میڈیا کے مطابق روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا کہ روسی وفد نے اس ہفتے کے شروع میں یوکرینی مذاکرات کاروں کو اپنے مطالبات پیش کیے ہیں...
روس نے کہا ہے کہ یورپ کی جانب سے پابندیوں کے جواب میں وہ تخفیف اسلحہ معاہدوں سے علیحدہ ہوسکتے ہیں۔اپنے بیان میں ڈپٹی ہیڈ روسی سکیورٹی کونسل نے کہا ہے کہ مغرب سے تعلقات مکمل ختم کرسکتے ہیں، ممکن ہے کہ پھر روس اور مغرب ایک دوسرے کو دوربین سے دیکھیں۔واضح رہے کہ یوکرین پر حملے کے بعد...
آذربائیجان اور آرمینیا کے مابین ایک مرتبہ پھر مسلح جھڑپوں کا آغاز ہو گیا ہے۔ آرمینیا نے روس سے مدد طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے پندرہ فوجی مارے گئے ہیں جبکہ آذربائیجان نے بارہ فوجیوں کو پکڑ لیا ہے۔جرمن ٹی وی رپورٹ کے مطابق آرمینیا کی طرف سے منگل کو جاری ہونے والے ایک بیان کے مطا...
افغانستا ن کی صورتحال پر ٹرائیکا پلس اجلاس آج جمعرات کو اسلام آباد میں ہوگا، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اجلاس کا افتتاح کریں گے،اجلا س میں افغانستان کے لیے چین،روس،امریکا اور پاکستان کے خصوصی نمائندگان و سفیر شرکت کریں گے، جبکہ افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی بھی شریک ہونگے...
افغانستان کے لیے روسی نمائندہ ضمیر کابولوف نے کہا ہے کہ ماسکو میں افغانستان سے متعلق 20 اکتوبر کو شیڈول مذاکرات میں طالبان کو دعوت دی جائے گی۔ میڈیارپورٹس کے مطابق ضمیر کابولوف نے چین، بھارت، ایران اور پاکستان پر مشتمل مذاکرات میں طالبان کو نمائندگی کے لیے دعوت دینے کے حوالے سے ر...
کوئی تین سال پہلے کی بات ہے کہ ہمارے ایک ہم عصر صحافی جو صحافت کرتے کرتے ایک دم غائب ہو گئے تھے، کچھ سالوں کے بعد ملے تو پتا چلا کہ وہ کابل میں ایک امریکی اخبار کے بیورو میں پائے جاتے ہیں اور ہر ماہ کسی افغان وار لارڈ کی طرح ڈالروں سے جیبیں بھرتے ہیں۔ پختون پس منظر کے باعث ان کو ...
جناب عمران خان نے رائیونڈ اور جاتی امراء چوک پر ایک اور جلسہ کرلیا۔ جلسے کی کامیابی یا ناکامی کا معیار ہر دو فریقین کے نزدیک دیگر ہے، لیکن یہ بات طے ہے کہ کوئی ربع صدی تک سیاسی جلسوں کے جائزوں کے بعد خاکسار کا خیال ہے کہ بیس ہزار وہ جادوئی ہندسہ ہے جس کو پار کر جانے کے بعد کوئی ب...
میاں محمد نواز شریف کا سخت سے سخت ناقد بھی اس بات کا معترف ہورہا ہے کہ انہوں نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک بھرپور اور پاکستان جیسے اہم اسلامی ملک کے شایانِ شان تقریر کی۔ پاک بھارت شملہ معاہدے کے بعد کشمیر پر یہ پہلی سفارتی ’’جارحیت‘‘ ہے جس کا اعزاز بھی ایک منتخب جمہوری ح...
ہمارا دفترگزشتہ ایک دہائی سے گلبرگ ، لاہور میں ہی واقع ہے۔ ادارہ بدلتا رہتا ہے لیکن علاقہ نہیں بدلتا۔ مشرف دور کی بات ہے ایک دن گھر کو واپسی کرتے ہوئے اُس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب کے گھر والی سڑک سے گزر کر نہر کے کنارے والی سڑک پر مڑے تو نہر کے کنارے بنی حفاظتی دیوار پر لکھا تھا ’...
دو دن قبل ہی چین سے افغانستان کو چلنے والی پہلی مال گاڑی تاجکستان اور ازبکستان کے راستوں سے ہوتی ہوئی افغان صوبہ مزار شریف کے سرحدی گاؤں حیراتان کی خشک بندرگاہ پرپہنچی ہے ۔ یہ مال گاڑی کوئی پندرہ روز قبل چین سے روانہ ہوئی تھی۔ دونوں ممالک اس کو ایک اہم تاریخی سنگِ میل قرار دے رہ...
میاں محمد نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان نوے کی دہائی میں سیاسی محاذ آرائی زوروں پر تھی تو بی بی کے خلاف مقتدر حلقوں کی طرف سے ایک خانہ ساز بدعنوانی یا کرپشن کا ’بیانیہ ‘ نہ صرف اوصول کیا گیا بلکہ اس کو حسبِ توفیق آگے بھی پھیلایا ، وہ بیانیہ تھا کہ ’’بے نظیر ،زرداری اور ان ...