... loading ...
سپنس سے متعلقہ تحریں مجھے اپنے سحر سے نکلنے نہیں دیتیں۔ خاص کر مرڈر مسٹری کی دلدادہ ہوں۔مطالعہ کا شوق ورثے میں ملا ۔ دس سال کی عمر میں میری ایگتھا کرسٹی کی تحریروں سے اس کے ناول ’’مرڈر از ایزی‘‘ کے ذریعے سے شناسائی ہوئی۔یہ جادوئی اثر تحریروں کی خالق ناول نگارہ سے میری اولین مگر انتہائی دلچسپ ملاقات تھی ۔ بس اُسی وقت سے میں، ایگتھا کرسٹی کی تحریروں میں بسے پُر اسرار اور طلسمی لمحوں کے سحر میں مبتلا چلی آ رہی ہوں۔
اس خوبصورت اور بے بدل ناول کے کردار ’’ لیوک فٹز ولیم ‘‘ مرڈر مسٹری حل کرتے کرتے میرے دوست بن گئے۔ مرڈر از ایزی میں ’’ مس پنکرٹون ‘‘ جو کہ لیوک کو اپنی آنٹ ملڈرڈ جیسی لگتی تھی مجھے اپنی نانی اماں کی ایک دوست جیسی لگی۔مس پنکرٹون کی بلی کانام ’’ Wonky pooh ‘‘ میرے لئے خاصی دلچسپی کا باعث تھا۔لارڈ وائٹ فیلڈ اور برگٹ کے کرداروں نے مجھ پر آج تک جادو کیا ہوا ہے۔اس وقت سے لے کر اب تک میں اس کے تمام ناول پڑھ چُکی ہوں۔اب بھی اس کی تحریروں کی عادی ہوں۔مجھے پتا بھی نہیں چلا کہ اس قلمکارہ نے کب مجھے اپنا شکار یا گرویدہ بنا لیا ہے۔
بوکاشیو(Bocaccio ) کی کتاب Novallastoria کو تحریری طور پر پہلا ناول تسلیم کیا جاتا ہے۔ناول لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی نئی چیز کے ہیں۔ سولہویں صدی سے ناول کی طرز پر کہانی لکھنے کا آغاز ہوا۔جو اٹھارویں صدی میں باقاعدہ طور پر انگریزی ادب کا حصہ بنی۔برانٹے بکسلے کو انگزیزی ادب کا پہلا ناول نگار کہا جاتا ہے۔انگریزی کے اس پہلے ناول نگار نے اپنے ادب کو کئی زندہ جاوید ناول دیئے۔لیکن ’’کرائم کوئین‘‘ کے الفاظ سامنے آتے ہی Agtha Chirste کا نام یادداشت کے اُفق پرسنہرے حروف کے ساتھ اُبھرنا شروع ہو جاتا ہے۔ایگتھا کرسٹی کے جاسوسی ناول ان کی ایک ایسی اچھوتی کاوش ہے جس میں ابھی تک کوئی ان کا ثانی سامنے نہیں آیا۔ایک عورت ہونے کے ناطے زندگی میں کرسٹی نے جس طرح اپنے آپ کو دوسروں سے بلند،منفرد اور ممتاز کیا۔وہ تمام خواتین کے لئے فخر کا باعث ہے۔’’کوئین آف کرائم ‘‘ کا خطاب نہ صرف ان کی پہچان بنا بلکہ ہمیشہ کے لئے ان ہی کے لئے مخصوص ہو کر رہ گیا۔
ایگتھاکرسٹی پندرہ ستمبر1890 کو Torquay. Devon England میں پیدا ہوئیں ۔ ان کا تعلق ایک متمول گھرانے سے تھا۔پہلی جنگِ عظیم کے دوران انہوں نے ایک ہسپتال میں کام کیا۔کرسٹی نے بہت کم عمری میں کرائم اسٹوریاں لکھنا شروع کر دی تھیں۔ ابتدا (20 سال کی عمر تک)میں انہیں اپنا منفرد تحریری کام شائع کروانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری نوجوان دوشیزاؤں کی طرح کرسٹی کے لئے بھی یہ ناکامیاں ایک ایسا سنگِ میل تھیں جس کے بعد ایک سنہرامستقبل ہاتھ باندھے باندیوں کی طرح اُس کا منتظرتھا۔
1920 ء میں برطانیا کے ایک پریس The Bodley نے ان کا پہلا ناول’’The Mysterious Affairs at style شائع کیا۔یہی وہ ناول تھا جس کے ذریعے ایگتھا نے شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے کردار ’’Poirt ‘‘کو تخلیق کیا۔یہ کردار جاسوسی کی دنیا کے دوسرے معروف کردار شرلک ہومز کا ہمسر ہے۔ اس کے علاوہ کرسٹی کے تخلیق کردہ ایک اور کردار Fluffy Miss Marple نے بھی کافی شہرت حاصل کی۔یہ ایگتھا کے لافانی کیریئر کا آغاز تھا۔گینز بُک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق اس ناول کی چار بلین کاپیاں فروخت ہوئیں۔ان کی اسٹیٹ دعویٰ کرتی ہے کہ بائبل اور ویلیئم شیکسپیئر کے بعد اس خاتوں مصنفہ کا رینک تیسرے نمبر پر ہے۔ جس کے ناول دنیا میں سب سے زیادہ تعداد میں شائع ہوئے ہیں۔ان کے ستر سے زائد جاسوسی ناول دنیا کی ایک سو تین زبانوں میں ترجمہ ہوئے ۔’’And then there were none‘‘سب سے زیادہ فروخت ہونے والا ناول ہے جس نے اس وقت سو ملین سے زیادہ آمدن کا ریکارڈ قائم کیا۔ اور اب تک بیسٹ سیلنگ مسٹری ناول کا درجہ قائم رکھے ہوئے ہے۔
ایگتھا کرسٹی کی ناول نگاری کے شعبے میں لافانی خدمات کے اعتراف میں ملکہ الزبتھ دوئم نے بکنگھم پیلس میں ’’Dame ‘‘ منایا۔ایگتھا کا اسٹیج ڈرامہ ’’دی ماؤس ٹریپ ‘‘ 25 نومبر1952 ء سے ایمبیسڈر تھیٹر لندن میں ابھی تک لگا ہوا ہے اور یہ کھیل رواں سال تک پچیس ہزار سے زائد پرفارمنسز دے چُکا ہے۔یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔1955 ء میں کرسٹی کومسٹری آف امریکا، دی گرینڈ ماسٹر ایوارڈ اور اسی
سال اُس نے ایڈگا ایوارڈ(این ڈبلیو اے)اپنے پلے’’Witness for the Prosecution‘‘ کے لئے حاصل کیا۔ان کے ناول ،کہانیاں ، ڈرامے اور افسانے بڑے پیمانے پر فلمائے گئے، اس کے علاوہ ٹی وی، ریڈیو، ویڈیو کیسٹ اور Comics میں بھی ایگتھا کے کردار اور کہانیوں کو استعمال کیا گیا۔
اس باکمال مصنفہ کو جرائم کی نفسیات پر ناقابلِ یقین عبور حاصل تھا۔کردار نگاری کسی بھی اعلیٰ فن پارے میں بنیادی اہمیت کی حامل ہوتی ہے جو قلم کار اپنے کرداروں کے ساتھ انصاف نہ کر پائے اس کی تخلیق اپاہج رہ جاتی ہے۔وہ اپنے ناولوں میں تمام کرداروں کو اس مربوط انداز میں Paint کرتی ہیں کہ ناول میں کردار مضبوط اور فٹ بیٹھتے ہیں بلکہ ان کے دروبست سے کہانی کی روانی اور پُراسراریت قاری کو اکتاہٹ سے دور بلکہ بہت ہی دور لے جاتا ہے۔یہ درست ہے کہ ہر کردار اپنی جگہ نگینے کی مانند فٹ ہے۔ انہیں الفاظ برتنے کا سلیقہ آتا تھا۔ ان کے جملے برجستگی سے بھر پور ہوتے تھے۔انہوں نے عام سی مرڈرا سٹوریوں میں ایسے نکتے نکالے کہ قاری تحیر میں ڈوب گیا اور تحریر لازوال بن گئی۔
ایگتھا نے کچھ نظمیں بھی لکھی ہیں۔جو ان کے قلمی نام ’’ میری ویسٹ میکوٹ ‘‘ کے نام سے منسوب ہیں۔اسی طرح انہوں نے چھ رومانوی ناول بھی لکھے جو ان کے قلمی نام سے شائع ہوئے۔ایگتھا ایک بھر پور زندگی گزارنے کی قائل تھیں۔ انہوں نے اپنے آر کیالوجسٹ شوہر Sir Max Mallowan کے کام میں بھی بھر پور معاونت کی۔وہ 12 جنوری 1976 ء کو اپنی تصانیف کا جادوئی اثاثہ چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہو گئیں ۔کرائم کی دنیا کی یہ ملکہ اپنی فسوں بھری کہانیوں کی جادوگری کے باعث ہمیشہ کے لئے مجھ سمیت اپنے لاکھوں قارئین کے دلوں کی ملکہ بھی بن گئی ہے۔
اگر آپ بھی ایگتھا کے Homicidal قاتل سے ملنا چاہتے ہیں تو ایگتھا کی کتابوں کا مطالعہ شروع کر دیں یقین کریں کہ آپ بھی جرائم کی اس ملکہ کے فسوں کا شکار ہو جائیں گے۔اس کرائم کوئین کے بارے میں خوشگوار سوچوں کے درمیان مجھے نوبل انعال یاقتہ چینی ادیب ’’ کاؤ شنگ چیانگ ‘‘ کے نوبل خطبے کی یہ بات اکثر یاد آتی ہے کہ
’’ثقافتی انقلاب کی چیرہ دستیوں سے بھی ادب کی موت واقع نہیں ہوئی اور نہ ہی ادیب کا نام و نشان مٹا۔کتاب کے طاقوں پرہر ادیب کے لئے جگہ محفوظ ہے۔اور جب تک قاری موجود ہیں، اس میں زندگی موجود رہے گی، وہ زندہ رہے گا۔ کسی ادیب کے لئے اس سے بڑا انعام کیا ہو سکتا ہے کہ وہ انسانیت کے وسیع ذخیرہ ادب میں ایک کتاب چھوڑ جائے جسے مستقبل میں پڑھا جاتا رہے۔‘‘
ایگتھا نے تو کتابوں کا ایک ذخیرہ چھوڑا ہے۔جو اُسے لازوال اور لافانی کر گیا ہے۔
کچھ سال قبل محکمہ جنگلات کے ایک دفترمیں کباڑ (Un Serviceable articls ) کونیلام کیا گیا۔ تو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی پورٹریٹ اور بوسیدہ قومی پرچم کو بھی ایک ایک روپے کے عوض فروخت کر دیا گیا تھا۔اخبارات میں خبر کی اشاعت پر ڈویژنل فارسٹ آفیسر نے بڑے غرور کے ساتھ کہا...
موسمی پھل اور سوغات کے تحائف ایک دوسرے کو بھجوانا ایک قدیم روایت ہے۔ ماضی قریب میں بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اﷲ خان اپنے ذاتی باغات سے آموں کی پیٹیاں تحائف کی صورت میں سیاستدانوں اور صحافیوں کا بھجوایا کرتے تھے۔ ا س قسم کی مختلف روایات آج بھی جاری ہیں۔ بیورکریسی کے اعلیٰ افسران...
قصے کہانیاں، ماضی کے واقعات بیان کرنا انسانی فطرت کا حصہ رہا ہے۔آج سے ہزاروں سال پہلے جب انسان گھنے جنگلوں اورغاروں میں رہتا تھا تو اس وقت بھی وہ کہانیوں اور قصوں کا دلدادہ تھا۔اس دور میں انسان کی تفریح کا واحد ذریعہ کہانیاں ہی تھیں۔انسان کا داستان گوئی سے تعلق ہمیشہ سے ہی رہا ہ...
آسیب ایک خوبصورت لفظ ، بھیانک اثر کے ساتھ اپنے اندر پر اسراریت کا انبا ر سمیٹے ہوئے ہمارے ذہن پر اثر اندازہوتا ہے۔کبھی آسیب خوابوں میں آکر ہمیں پریشان کرتے ہیں۔ اورکبھی کبھی حقیقت کو بھیانک بنا دیتے ہیں۔ یکسانیت موت سے مماثلت رکھتی ہے۔ اور مجھے اس سے نفرت ہے۔اسی لئے ہر جگہ تبد...
ایک ننھا سا قطرۂ زہر رگوں میں پھیل کر روح کو جسم سے باہر دھکیلنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔زہر صدیوں سے قتل کے لئے استعمال ہونے والا سب سے خطرناک ، زور آور ، اور قابلِ اعتبار ہتھیار ہے۔ گو زہر کتنا ہی جان لیوا کیوں نہ ہو میرا ماننا ہے کہ زہر سے بھی خطرناک زہریلی سوچ ہوتی ہے۔زہر کا ہتھی...