... loading ...
اگرچہ حکمران نون لیگ کے امیدوار سردار ایاز صادق قومی اسمبلی کی نشست پر فتح یاب ہوچکے ہیں لیکن اس ضمنی الیکشن نے پارٹی کے اندر جاری انتشار اور پنجاب میں مسلسل حکمران رہنے کے باعث درآنے والی کمزوریوں کو طشت ازبام کردیا ہے۔پارٹی کے اند ر بالائی سطح پر پائی جانے والی کشمکش نے عوامی فلاح وبہبود کے منصوبو ں پر جاری کام کی رفتار کو بُری طرح متاثر کیا اور نون لیگ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگادیئے ہیں۔اب یہ کوئی انکشاف نہیں کہ وفاقی وزراء کے مابین ذاتی اختلافات ہیں جو تمام تر کوششوں کے باوجود ختم نہیں ہورہے۔نندی پور منصوبے میں سامنے آنے والی کرپشن نے بھی وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور خواجہ آصف کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کر دیا۔چودھری نثار اور خواجہ آصف کے درمیان تو طویل عرصہ سے بول چال بھی بند ہے ۔ دبے لفظوں میں میڈیا میں بھی ایک دوسرے کے خلاف کچھ نہ کچھ گل افشانی کرتے رہتے ہیں۔یہی نہیں بلوچستان میں بھی نون لیگ اورحکمران اتحاد کے اندر اختلافات ہیں۔فیصل آباد میں بھی پارٹی کے اندر تقسیم ہے۔خیبر پختون خوا میں بھی کئی گروہ ایک دوسرے کے درپے ہیں۔سندھ کی صورت حال اور بھی گھمبیر ہے۔
لاہور میں اگرچہ تحریک انصاف کو شکست ہوگئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نے نون لیگ کے ناقابل شکست ہونے کا تاثر پاش پاش کردیا ہے۔مخالف سیاسی جماعتوں کو اندازا ہوگیا ہے کہ اگر وہ اتحادی سیاست کریں اور نون لیگ کے ڈسے مقامی گروہوں اور ناراض ممتاز شخصیات کے ساتھ اشتراک کرلیں تولاہور اور پنجاب سے نون لیگ کا مقابلہ کیا جاسکتاتھا۔حالیہ تجربے نے تحریک انصاف کو بہت حوصلہ دیا۔علیم خان کا شمار تحریک انصاف کی بالائی قیادت میں نہیں ہوتا۔ان پر قبضہ مافیا کا حصہ ہونے کابھی الزام ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے زبردست مہم چلائی ۔ اگرچہ وہ چند ہزار ووٹوں سے ہار گئے لیکن تحریک انصاف کو صوبائی نشست مل گئی۔اس طرح دونوں جماعتوں نے ہار اور جیت کا مزہ چکھ لیا۔پنجاب میں بلدیاتی انتخابات ایک مرتبہ پھر انہیں معرکہ آرائی کا موقع فراہم کریں گے ۔تحریک انصاف کی قیادت اورکارکن بلدیاتی انتخابات میں حقیقی اور مقامی سطح کی سیاست کے داؤ پیچ سیکھیں گے۔تحریک انصاف کی خوش قسمتی ہے کہ اسے چودھر ی سرور جیسا ٹھنڈے مزاج اور مسلسل متحرک رہنے والا لیڈر ملا ہے جو سیاسی جوڑتوڑ کا گرو تو ہے ہی لیکن ابلاغ عامہ میں بھی متاثر کن ہے۔
حیرت ہے کہ لاہور جس پر شہباز شریف کی حکومت نے دل کھول کر خزانہ لٹایاوہاں اسے سخت مزاحمت کا سامنا کرناپڑا۔ میڑو ہی کا تحفہ نہیں دیا بلکہ زرق برق اور سگنل فری سڑکیں اور شاندار پارکوں کا جال بچھاکر لاہور کو ملک کا خوبصور ت ترین شہر بنادیا لیکن اس کے باوجود یہاں نون لیگ کو زبردست سیاسی مسابقت کا سامنا ہے۔اوکاڑہ ‘جو تخت لاہور سے محض 129 کلومیڑ کے فاصلے پر واقع ہے ـ‘میں نون لیگ کے امیدوار کی شکست آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں۔
ایک منظر ملاحظہ فرمائیے:کراچی میں رینجرز آپریشن اور کرپشن کے خلاف جاری مہم میں پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت اور اس کے مرکزی رہنما مسلسل پھنس رہے ہیں۔نون لیگ ان کی کوئی مدد نہیں کرسکی جس کا پیپلزپارٹی کو سخت صدمہ ہے۔آصف علی زرداری نے عسکری قیادت اور رینجرز کے خلاف بیانات جاری کیے لیکن پارٹی قیادت نے انہیں اس محاذ پر طبع آزمائی نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ کہتے ہیں کہ راجہ پرویز اشرف نے پی پی پی کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں آصف علی زرداری سے کہا کہ آپ نے فوج کے خلاف بیان توجاری کردیا لیکن آپ نہیں جانتے کہ اس وقت ملک کا سب سے مقبول لیڈر جنرل راحیل شریف ہیں۔شہری ان کے خلاف کوئی بات سننا پسند نہیں کرتے۔اعتراز احسن نے کہا کہ وقت آیا ہے کہ قیادت نئی نسل کو سونپ دی جائے۔بآ لفاظ دیگر زرداری صاحب اپنا بوریا بستر سمیٹیں اورسیاست سے کنارہ کش ہوجائیں۔
آصف علی زرداری کو یہ رنج کھائے جارہاہے کہ نون لیگ ان کی کمک کو کیوں نہیں آتی۔وزیراعظم رینجرز کا ہاتھ روکیں۔نیب اور ایف آئی اے کو لگام دیں۔پی پی پی کے رہنماؤں کے خلاف مقدمات واپس لیں کیونکہ یہی میثاق جمہوریت کی روح ہے۔وزیراعظم نوازشریف چاہنے کے باوجود ان کی کوئی مدد نہیں کرسکتے۔عسکری قیادت نے بڑی مہارت سے کرپشن اور دہشت گردی کے مابین پائے جانے والے تعلق کو بے نقاب کرکے وفاقی حکومت کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے ۔ اگر وہ پیپلزپارٹی یا ایم کیوایم کی مدد کرتی ہے تو اس کی تعبیر اور تشریح یہ کی جائے گی کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے راستے میں روڑے اٹکا رہی ہے۔کوئی سیاستدان اس وقت ضرب عضب والوں کے ساتھ الجھنانہیں چاہتا۔
پیپلزپارٹی کے پاس اب ایک ہی راستا ہے کہ نون لیگ کی حکومت کے خلاف مورچہ لگائے۔ سیاسی دباؤ بڑھائے اور خاص طور پر پنجاب میں نون لیگ کی مخالف سیاسی جماعتوں کے اشتراک سے سیاست کرے۔بلاول بھٹو زرداری کی بھی سیاسی حکمت عملی یہی نظر آتی ہے کہ وہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کے اجڑے ہوئے مسکن کو دوبارہ آباد کریں۔اسٹیبلشمنٹ بھی بلاول بھٹو کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے۔وہ سند ھ پیپلزپارٹی کی موجودہ قیادت سے ناخوش ہے لیکن چاہتی ہے کہ بلاول کو ئی بڑا کردار ادا کریں تاکہ سندھ میں پی پی پی مضبوط رہے۔سندھ میں مقبول پیپلزپارٹی مضبوط وفاق کی ضمانت تصور کی جاتی ہے۔اس لیے سندھ میں پیپلزپارٹی کی انتخابی سیاست کو کوئی بڑا چیلنج درپیش نہیں۔
اصل میدان پنجاب کی سیاست میں سجنے جارہاہے جہاں تحریک انصاف نے مسلسل مقابلے اور محاذ آرائی سے ثابت کیا کہ وہی واحد جماعت ہے جو نون لیگ کے مقابلے کی سکت اور عزم رکھتی ہے۔اگر نون لیگ پیپلزپارٹی کی قیادت کو بچانے میں کوئی کردار ادا نہیں کرپاتی تو یقینا اس کا فائدہ تحریک انصاف کو ہوگا۔پی پی پی کے ووٹر اور لیڈر کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ وہ تحریک انصاف کی حمایت کریں۔اگر یہ سیناریو بن گیا تو پھر پنجاب میں نون لیگ بمقابلہ دیگر والا معاملہ بن سکتاہے۔
نون لیگ نے گزشتہ برسوں میں پارٹی کی تنظیم سازی کو بری طر ح نظراندار کیا ۔کسی بھی نئے لیڈر کو منظر عام پر نہیں آنے دیا۔وہی پرانے اوراُ کتائے ہوئے چہرے ہیں۔پارٹی کے رہنماؤں کے لیے مرکزی قیادت کے پاس وقت ہے اور نہ دلچسپی۔جماعتوں کو منظم کرنے اور انہیں ڈرائنگ روم سیاست سے باہر نکالنے کے لیے جس جوش وخروش والی قیادت کی ضرورت ہوتی ہے وہ متوسطہ طبقے سے جنم لیتی ہے۔بھٹو کی پیپلزپارٹی نے متوسط اور نچلے طبقے کے نوجوانوں کو جماعت میں جگہ دی اور عشروں تک یہی لوگ پارٹی میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح متحرک رہے۔
نون لیگ کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس کا اب کوئی تصور ہی باقی نہیں رہا۔ایف ایٹ اسلام آباد میں جماعت کا خستہ حال دفتر ویران پڑاہے۔عام کارکنوں کے لیے کسی بھی فورم پر کوئی شنوائی نہیں۔قرآئن سے عیاں ہے کہ اگر نون لیگ نے اپنی تنظیم پر توجہ نہ دی تو وہ بھی رفتہ رفتہ پیپلزپارٹی کی طرح بتدریج خستہ حال ہو جائے گی۔جماعتیں بھی یک دم نہیں اجڑتیں بلکہ بتدریج زوال پزیر ہوتی ہیں۔ دنیا میں جمہوریت اسی وقت مضبوط ہوتی ہے جب سیاسی جماعتیں جمہوری اور جدیدخطوط پر منظم اور استوار ہوں۔ان کے اندر جمہوری انداز میں مشاورت سے فیصلے ہوتے ہوں۔بحث ومباحثہ ہوتاہو اور تازہ دم قیادت کے لیے جگہ موجود ہو۔اگر نون لیگ اپنی صفوں کو سدھارتی نہیں تو پھر وہ دن دور نہیں کہ احبا ب کہیں گے۔
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
بہتر مستقبل کے لیے 76 فیصد پاکستانیوں نے کسی امیر ملک جانے کا موقع ملنے کے باوجود پاکستان نہ چھوڑنے کا کہا ہے جبکہ 24فیصد پاکستانیوں نے بہتر مستقبل کیلئے پاکستان چھوڑنے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔گیلپ پاکستان نے 5ہزار سے زائد افراد کی رائے پر مبنی نیا سروے جاری کیا ہے جس کے مطابق ...
پاکستان مسلم لیگ (ن) نے بیرونِ ملک مقیم اپنے ارکان قومی اسمبلی کو 48 گھنٹوں میں پاکستان واپس پہنچنے کی ہدایت کردی۔ ذرائع کے مطابق پارٹی نے پاکستان میں مقیم تمام ارکان قومی اسمبلی کو بیرونِ ملک سفر نہ کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔ تمام پارٹی ارکان قومی اسمبلی کو آئندہ 3 روز لاہور اور ا...
چند دن قبل دبئی میں ڈاکٹر عاصم سے ملاقات ہوئی۔تپاک سے ملے اور ہمدردی سے کہنے لگے کہ آپ کی تحریریں پڑھتے ہوئے زمانہ گزرگیا لیکن سمجھ نہیں آتی کہ آپ نون لیگ کے حامی ہیں یا تحریک انصاف کے۔کبھی آپ وزیراعظم نوازشریف کی مدح سرائی فرماتے ہیں اور کبھی عمران خان کے حق میں زمین وآسمان کے ق...
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا لاہور تشریف لانا غیر معمولی اہمیت کا حامل ہی نہیں بلکہ پا ک بھارت تعلقات میں نئے باب کا اضافہ بھی کرسکتا ہے اور لگ بھگ ستر برس تک تنازعات میں گھرا یہ خطہ امن اور علاقائی تعاون کی جانب گامزن ہوسکتا ہے۔ وزیر اعظم مودی نے سفارت کاری بالخصوص پاکستان کے...
رمضان کا تیسرا عشرہ تھا ۔ بھائی نزاکت محمود رات گئے گھر تشریف لائے۔سفر، تھکاوٹ اور کچھ کاہلی کے سبب گاڑی گیراج میں کھڑی کرنے کے بجائے گلی میں پارک کردی۔سحری کے وقت گاڑی موجود نہ پا کر سب کے ہاتھ پاؤں پھول گئے ۔ہمارا گھر ائیر پورٹ سے تین اورمقامی تھانہ سے دو کلو میٹر کی مسافت پر ہ...
پاکستان میں عوام بلدیاتی انتخابات اور اس سے ظاہر ہونے والے نتائج میں بری طرح مدہوش ہیں ۔ مگر خطے میں کئی اہم واقعات نے جنم لے لیا ہے۔جس میں سب سے پہلے افغان طالبان کے نئے امیر ملا اختر منصور کی ہلاکت کی جھوٹی خبر پھیلانا، اس سے پہلے نواز حکومت کی جانب سے اے این پی کے رہنماوؤں پر ...
اگرچہ مشیر خارجہ سرتاج عزیز کے بھارتی وزیرخارجہ سشماسوراج سے پرجوش مصافے نے دونوں ممالک کے درمیان تین سال سے جمی ہوئی برف کو پگھلا دیا ،لیکن ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔سشما سوراج اور ان کے پاکستانی ہم منصب سرتاج عزیز نے اتفاق کیا ہے کہ نہ صرف ماضی میں کئے جانے والے مذاکرات او...
بلدیاتی انتخابات کے تیسرے اور آخری مرحلے میں سندھ کے دارالحکومت کراچی کے 6 اضلاع میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے نتائج روایتی ثابت ہوئے جس میں متحدہ قومی موومنٹ نے نہ صرف واضح اکثریت حاصل کر لی ۔ بلکہ کراچی کے میئر کے لئے ایم کیوایم کے راستے میں کوئی رکاؤٹ بھی دور دور تک باق...
تاریخ کے پہلے بلدیاتی انتخابات کے لیے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں آج (بتاریخ 30 نومبر) انتخابی عمل جاری ہے۔جس پر سیاسی جماعتوں کے درمیان روایتی قسم کی الزام تراشیوں کاسلسلہ بھی جاری ہے۔ملکی تاریخ کے دارالحکومت میں اس پہلے بلدیاتی انتخابات میں چھ لاکھ 76 ہزار سے زائد ووٹرز اپن...
کراچی میں دسمبرکی پانچ تاریخ کو بلدیاتی انتخابات ہونے جارہے ہیں شہر کی اہم اسٹیک ہولڈر متحدہ قومی موومنٹ شکایت کررہی ہے کہ اسے انتخابات سے روکا جارہاہے۔مبصرین کہتے ہیں کہ اپنے مخصوص سیاسی پس منظراور لب ولہجے کے باعث جب یہ جماعت مذکوہ بیان دے تو اس کا مطلب یہی لیا جاتاہے کہ اسے جی...
چند دن قبل فرانس کے شمال مشرقی شہرا سٹراس برگ کے ایک وسیع وعریض ہال میں یورپی پارلیمنٹ کے چار ارکان سمیت کوئی ایک سو بیس کے لگ بھگ مندوبین جمع تھے۔ پاکستان میں ’’چین:انسانی حقوق کے حوالے سے بڑھتے ہوئے خدشات‘‘ موضوع سخن تھا ۔اس مجلس میں جاوید محمد خان نامی ایک شخص نے بلوچستان کا م...
کراچی شہرمیں انتخابات بالکل ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے ساس بہو کا جھگڑا ، ساس اپنے رشتے داروں کے سامنے بہو کو امریش پوری بنا کر پیش کرتی ہے اور بہو اپنے رشتے داروں اور شوہر سمیت ساس کو پھولن دیوی سے تشبیہ دینے کی کوشش کرتی ہے جس طرح اختلاف جمہوریت کا حسن ہے ایسے ہی ساس بہو کے جھگڑے گھ...