... loading ...
عجب معاملہ ٔبے چارگی و کم مائیگی ہے۔ پچھلے کالم میں ایک ذمہ دار افسر کے وہ مشاہدات بیان ہوئے ہیں جن کی روشنی میں ہم بھی ان خامیوں ،کوتاہیوں اور دکھ بھری مثالوں سے بارہا دوچار ہوئے ۔ویسے تو ہمار ے قومی چارہ گر، ملک کی وسائل گاہ میں جی بھر کے چارہ تو چرتے رہتے ہیں مگر ان کے بارے میں کسی اجتماعی علاج کا انہوں نے کبھی نہیں سوچا۔ مدارس سے لے کر پانی میں سیسے کی جان لیوا ملاوٹ تک سرکار کے اعلیٰ ترین عہدہ دار آپ کو اپنے دائرہ کار سے متعلق کسی پالیسی کے حوالے سے کوئی دور رس کارروائی میں مصروف دکھائی نہیں دیتے۔
ہمارے نوجوانوں کی کثیر تعداد کی بے سمتی ، کم علمی، بے نظمی اور کمزور صحت پر کبھی ان کی نگاہ ِغلطاں و پیچاں پڑ بھی گئی ہوگی تو آپ اسے تعلیمی نظام کی کمزوری اور گھریلو تربیت کا فقدان جان کر دل مسوس کر رہ گئے ہوں گے۔
آپ نے یہ بھی نہیں سوچا ہوگا کہ آخر کیا بات ہے کہ اراضی شنکر داس (اوکاڑہ) پنجاب، ناظم آباد کراچی، جون جانی ۔گولارچی ۔(بدین )۔سندھ ،رزمک ( وزیر ستان)، دالبدین ، بلوچستان جیسے دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے یہ انتہائی مختلف مسلکی، لسانی، سماجی پس منظرکے حامل یہ اوسط تعلیم یافتہ کالجوں کے نوجوان جب فوج کی تربیت گاہوں سے فارغ ہوکر آپ کے سامنے بطور سیکنڈ لیفٹننٹ ،میجر حتی کے کپتان کے روپ میں آپ کے سامنے آتے ہیں تو اُن کے بدن، اُن کی چال ڈھال، اُن کا طرز عمل اورمجموعی انداز فکر بہت معیاری ، اپنی پیشہ ورانہ ضرورت کے عین مطابق اور خود اعتمادی سے بھر پور ہوتا ہے۔ یہ فیضان نظر ہے کہ مکتب کی تربیت کہ ایک ہی صف میں کھڑے ہوجاتے ہیں محمود و ایاز۔معین اختر مرحوم نے جب ایک فوجی تقریب میں اپنے کسی لطیفے پر پتھر دل صدر ضیا ء الحق سمیت تمام افسران کو بہ یک وقت ہنستے دیکھا تو کہنے لگے’’ اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ہے آج تمام فوج ایک ساتھ ہنس رہی ہے‘‘۔
یہاں توقف فرمائیں ذرا بڑی سطح پر آپ اسے Process of Standardization یعنی معیاریت کا عمل کہیں گے۔ ایک قابل ستائش گروہی طرز عمل جس سے کسی قوم یا گروپ کی ترقی کا اندازالگایا جاسکتا ہے اس کے لیے یہ معیار بہت لازمی جز ہے۔ اقوام جیسے جیسے ترقی کرتی ہیں تو ان میں معیاریت کا عمل تیز ہوجاتا ہے۔اس کی ایک معمولی صورت کم از کم اجرت ہے ، رہائش ،تعلیم ،صحت ،ٹرانسپورٹ ، انفرا اسٹرکچر کا ایک مطلوبہ معیارجس سے نیچے کی زندگی گزارنا نا قابل قبول سمجھا جاتا ہے۔
ذرا آگے بڑھ کر سوچتے ہیں علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ع
امریکی اور برطانوی افواج کو افغانستان میں ایک نئے ہتھیار کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس ہتھیار کو 9/11 کا signature weapon کہا گیا۔بے حد مہلک، استعمال کرنے والے کے لیے اسقدر سستا کہ امریکیوں کو اسے Dirt Cheap (یعنی مٹی کے مول )کہتے ہوئے دُہری اذیت ہوتی تھی۔اس کی ترسیل اور تنصیب دونوں ہی بہت آسان ۔وہاں امریکا میں جب اس کی قیمت کا اندازا کیا گیا تو 2009ء میں یہ کل265 ڈالر کا تھا۔ اس کا عراق اور افغانستان میں بہت استعمال کیا گیا۔ اسے وہ improvised explosive device” ـ “یا IED کہتے تھے۔اس کو تلاش کرنے کے لیے بر طانوی فوج نے چالیس کروڑ پاؤنڈ اور چار سو فوجی ضائع کیے۔امریکا کے 719 فوجی اس کی وجہ سے ہلاک اور7448 زخمی ہوئے۔جن عام باشندوں کو جنگ میں “collateral damage” (غیر اہم اضافی نقصان) سمجھ کر لائق تذکرہ بھی نہیں سمجھا جاسکتا ،ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
اس نکتے کو بیان کرنے کا ایک مقصد یہ ہے کہ تمام عالم کے خطہ ہائے حرب و تصادم میں اب دو طرح کے گروپس برسرپیکار ہیں ایک وہ جنہیں آپ روایتی عسکری گروپ یا باقاعدہ افواج کا نام دیتے ہیں اور دوسرے جنہیں دہشت گرد، مجاہد،تخریب کار یا نان اسٹیٹ گروپ کہتے ہیں۔ ان میں آپ خوارج، حشیشین، دولت اسلامیہ ، بوکو حرام ، خیمر روژ ، جیوش ڈیفنس لیگ ، ریڈ آرمی ،سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والے کی دم دمی ٹکسال اور تامل ایلام نامی جس گروپ کا بھی نام ڈالیں ، برحق ہیں۔آج اگر ہمارے ہاتھ فرعون کی وزارت اطلاعات کی دستاویز لگ جائے تو ان کے بیانیے میں حضرت موسی علیہ السلام کا ذکرجن الفاظ میں ہوا ہوگا وہ سمجھنا کچھ دشوار نہیں۔
آئیے ماضی کے جلال آباد افغانستان چلتے ہیں ۔ عبدالوحید قنات صاحب نے اکتوبر 1986 ء میں اﷲ سے کامیابی کی دعا مانگی اور اپنے کھیت سے ایک اسٹٹنگر میزائل دے مارا۔سات برس ہوچکے تھے۔ سویت افواج افغانستان پر قابض تھیں۔ایران میں کمیونسٹ تودہ پارٹی کو تباہ و برباد کرکے خمینی کی سربراہی میں امریکا کامیاب طالبان تجربہ کرچکا تھا۔ ایران کے سارے مذہبی رہنما براستہ پیرس اسلامی انقلاب کے نام پر درآمد کیے گئے تھے۔ اب وقت آچکا تھا کہ روس کو افغانستان سے مار بھگایا جائے۔میزائل سیدھا ہی ہیلی کاپٹر سے جا ٹکرایا اور جنگ کا نقشہ پلٹنے کا آغاز ہوگیا۔
افغانیوں کے لیے کسی نے بے حد دل چسپ بات کہی تھی کہ ’’اٖفغان صرف اس وقت امن کے مزے لوٹ رہا ہوتا ہے، جب وہ حالت جنگ میں ہوـ‘‘۔
ہمارے اس بیانے کا مقصد یہ ہے کہ ایک Conventional Army (روایتی فوج )کے مقابلے میں غیر روایتی فوج یعنی Non-Conventional Army کو بہت بہتر مواقع ہوتے ہیں۔ روایتی فوج اگر افغانستان آئے گی تو اس کے لیے پٹرول کراچی سے آئے گا جو بعض مقامات پر تو لگ بھگ دو ہزار میل کا زمینی سفر بن جاتا ہے۔ ایک ٹینک کو ایک میل کا سفر طے کرنے کے لیے آٹھ گیلن پٹرول درکار ہوتا ہے۔ ویت نام ،ا افغانستان، عراق اور شام میں جو بھی افواج برسرپیکار رہی ہیں ۔وہ بخوبی جانتی ہیں کہ غیر روایتی فوج سے لڑنا کس قدر دشوار اور مہنگا حربہ ہے۔
پاکستان کی افواج الحمد ﷲ دنیا کی قابل فخر روایتی افواج میں شمار ہوتی ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم آگے کا سوچیں۔
جنگ عظیم اول کے خاتمے پر فرانسوا پکو اور مارک سائک نے مشرق وسطیٰ کے نقشے پر سیدھی لائنیں ڈال کر جو ممالک بنائے تھے وہ عرب بہار کے بعد ایک کرکے ٹوٹ رہے ہیں ۔عراق ، لیبیا اور یمن تو بکھر گیے، سوڈان جو ایک زمانے تک بہ لحاظ رقبہ دنیا کی سب سے بڑی مسلم ریاست تھا ، جولائی 2011 ء میں عربی بولنے والے شمالی سوڈان اور عیسائی سوڈان کے جنوب مغرب میں واقع وسطی افریقی ری پبلک میں مسلمانوں کا قتل برما کے روہنگیا مسلمانوں کی طرح بے دردی سے جاری ہے۔شام جو ایک ایسی قدیم مملکت ہوا کرتا تھا جس کی بنیادحضرت عیسیٰ کی پیدائیش سے دس ہزار سال پہلے رکھی گئی تھی ۔اس پر لے دے کے بشار الاسد کی اقلیتی حکومت کا کل تیس سے چالیس فیصد رقبے پر تسلط باقی رہ گیا ہے۔تاحال روسی افواج کی شام میں آمد ، ایران کے ایک مرتبہ پھر امریکا سے تعلقات کا کھلا فروغ اور اس کے مشرق وسطیٰ پر بڑھتے ہوئے اثرات ، یہ ایسی نشانیاں ہیں جو قومی سطح پر اہل تفکر کے لیے باعث تشویش اور پاکستان کی دفاعی اور خارجہ اور قومی پالیسی سازوں کے لیے نئی پیش بندی کا لائحۂ عمل بن سکتی ہیں۔
اس مجوزہ لائحہ عمل میں اس نکتے کو بھی شامل کرنا چاہیے کہ اب جب کہ پاکستان کی 33 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے تو کیوں نہ ان کو لازمی فو جی تربیت کے ایک کثیر المقاصد پروگرام کے ذریعے نظم و ضبط سے آشنا کرکے چند اہم اور بڑے مقاصد حاصل کئے جائیں۔(جاری ہے)
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...
[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...
پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...
[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...
[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...
معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...
میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...