... loading ...
عادتیں کبھی نہیں مرتیں۔ انسان کی سب سے خطرناک اسیری، عادتوں کی اسیری ہے۔ کوئی بھی شخص کسی بھی بیرونی اثر سے زیادہ اپنی ہی عادتوں کا اثر قبول کرتا ہے۔ ناول نگار گلبرٹ پارکر (Gilbert Parker)کبھی سیاست دان بھی رہا ۔ اُس کا ایک فقرہ اب ذہن میں گونجتا ہے:
There is no influence like the influence of habit.
ناول نگار کی موت ۱۹۳۲ء میں واقع ہوئی مگر اُس کی بات مکمل ہے۔ بارہ اکتوبر پاکستان کی تقویم کی ایک تاریخ ہی نہیں ہمارے سیاسی رویوں کی ایک مستقل عادت بھی ہے۔اس عادت کی سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ یہ محض جرنیلی تصورات میں رچی بسی نہیں ۔ یہ خود ہمارے تمدنی ڈھانچے کے اندر ایک بنیادی مطالبے کے ساتھ موجود ہے۔ آمریت یا جرنیلی راج کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ فوج کا بھی اقتدار نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ دراصل چند ایسے جرنیلوں کا اقتدار ہوتا ہے جو نظم وضبط کی پابند فوج کے دستوری نگران ہوتے ہیں۔ عادتوں کے ایک لمبے زنجیری سلسلے میں یہ تمدنی حکومتیں ہیں جو اس مسئلے کو حل کرنے میں ہی نہیں بلکہ سمجھنے تک میں ناکام رہی ہیں۔ جمہوری حکومتیں آمریت کو ایک اعلیٰ جمہوری آدرش کی روشنی میں مسترد کرتی ہیں مگریہ جمہوری آدرشوں کی اس روشنی سے ملک کو منور کرنے میں جب مکمل ناکام رہتی ہیں تو بس یہی سے آمریت ایک جواز کے طور پر لٹکتی تلوار لگنے لگتی ہے۔ جمہوری حکمران ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آمریت سے براہِ راست لڑ کر جمہوریت کو کامیاب نہیں بنایا جاسکتا۔
پاکستان میں جمہوریت کسی بھی سطح پر قومی یا عوامی خدمت کی ایسی شاندار مثالیں قائم نہیں کر سکیں کہ اُسے برقرار رکھنے کی خواہش قومی زندگی کے تمام طبقات میں سیاسی خیالات کے اختلاف کے ساتھ یکساں طور پر پیدا ہوسکے۔ پاکستانی ساختہ جمہوریت کی سب سے بڑی ناکامی یہی ہے۔پاکستان میں ایسے طبقات ایک بڑی تعداد میں ہر وقت موجود رہتے ہیں جو آمریت کو ہی مملکت کے مسائل کا حل سمجھتے ہیں۔ یہ طبقات سیاسی حلقوں کے لیے کتنے ہی ناگوار ہوں مگر یہ ناقابلِ نظر انداز ہیں۔ انہیں سیاسی و جمہوری دلائل سے قائل نہیں کیا جا سکتا۔ انہیں سیاست و جمہوریت کو مسائل کے حل کی ایک شاہ کلید ثابت کرنے سے ہی قائل کیا جاسکتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں جمہوریت ایسی کوئی مثالی دنیا پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں جمہوریت نے عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے بجائے مزید کم کیا ہے۔ اس کی تازہ مثال پنجاب کے حالیہ ضمنی انتخابات ہیں۔ سیاسی جماعتوں نے انتخابات کو ایک ایسا عمل بنا دیا ہے جس میں عام لوگ بس ایک پرچی ڈالنے ، پھر اپنی کامیابی کے جھوٹے تاثر میں رقص کرنے ، ڈھول بجانے اور مٹھائی کھانے کھلانے سے زیادہ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ یہ مکمل اشرافیہ کی سرگرمیاں بن کر رہ گئی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ذرایع ابلاغ میں سامنے آنے والے ان اعدادوشمار میں کوئی مبالغہ بھی ہو، مگر مجموعی طور پر یہی سیاسی اور جمہوری منظرنامہ ہے۔ لاہور کے حلقہ ۱۲۲ کے صرف ایک ضمنی انتخاب میں نون لیگ اور تحریک انصاف کی طرف سے جو اخراجات کیے گیے ہیں وہ مجموعی طور پر دو ارب سے متجاوز ہیں۔ اگر ایک ضمنی انتخاب اتنے پیسوں کا کھیل ہو تو پھر یہ زمین پر اُتر کر ایک عام آدمی کی دسترس میں آنے والا جمہوری عمل کب بن سکے گا۔ یہ جمہوریت کا سب سے بڑا مغالطہ ہے کہ عوام کو یہ باور کرایا جائے کہ وہ پانچ برس کے بعد اپنی پرچی کی طاقت سے ناپسندیدہ لوگوں کو بدل سکتے ہیں۔ جمہوریت دراصل یہ نہیں کہ رائے دہندگان پرچی کی طاقت رکھتے ہو، بلکہ یہ بھی ہے کہ ہر رائے دہندہ مساوی مواقع کے ساتھ خود کو اس نظام انتخاب میں لے جانے کا بھی اہل ہو۔ ذرا بتایئے! لاہور کے بیش قیمت ضمنی انتخاب کو دیکھتے ہوئے کسی عام شخص کے یہ وہم وگمان میں بھی آسکتا ہے کہ وہ اس نظام میں کہیں اوپر آسکتا ہے۔
نون لیگ پرویز مشرف کی آمریت کے خلاف بارہ اکتوبر کو ایک یوم سیاہ کے طور پر منا رہی ہے۔ اُس نے ایک روز قبل گیارہ اکتوبر کو ضمنی انتخاب کا معرکہ اپنے نام کیا ہے۔ مگر کیا یہی وہ جمہوریت ہے جس کی بالادستی کے خواب عوام کو دکھا کر آمریت کی عادت سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے؟ جمہوریت کسی نظام حکومت کا نام نہیں بلکہ یہ ایک نظام حکومت میں طرزِ سیاست کا نام ہے۔ جو سیاسی جماعتوں کی تشکیل سے لے کر قومی سرگرمیوں تک یکساں اُصولوں اور موقعوں کی ایک تحریک پیدا کرتی ہے۔ افسوس اس میں سے کوئی چیز بھی قومی منظرنامے پر موجود نہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ دنیا میں کہیں پر بھی کامیاب جمہوریتوں میں کسی ایک شخص کو کسی ایک جماعت پر اس طرح دسترس حاصل نہیں ہوتی جس طرح پاکستان میں نون لیگ میں میاں نوازشریف ، پیپلز پارٹی میں آصف زرداری اور تحریک انصاف میں عمران خان کو حاصل ہے۔ یہ سب اپنی اپنی جماعتوں کے اندر پرویز مشرف سے زیادہ طاقت رکھتے ہیں اور اُس سے زیادہ آمرانہ انداز میں فیصلے کرتے ہیں۔ پھر ان میں سے کسی کی بھی حکومت ہو، ان کے تمام سرکاری فیصلے ادارتی سے زیادہ ذاتی ہوتے ہیں۔ انتخابی امیدواروں کے انتخاب سے لے کر سیاسی حکومت کی تشکیل تک سب کچھ ایک شخص کے مرہون ِ منت ہوتا ہے۔ کیا پرویز مشرف کی حکومت میں اُن کے طرزِ حکومت اور شہاز شریف کی صوبائی حکومت میں اُن کے طرزِ حکومت میں کوئی فرق ہے؟ دونوں بلا شرکت ِ غیرے اقتدار کے قائل ہیں۔ مگر ان میں سے ایک آمریت اور دوسرا جمہوریت کا نمائندہ کیوں کہلاتا ہے؟ جمہوریت کے یہ قائدین جس جمہوریت کی بالادستی چاہتے ہیں ، پہلے اُس کی تحویل میں خود کو اور اپنی سیاسی جماعتوں کو دے کر تو دکھائیں پھر وہ آمریت کے خلاف جمہوریت کی بالادستی کی بات کریں ۔مگر مسئلہ یہ ہے کہ آمروں کی طرح یہ جمہوری سیاست دان بھی اپنی عادتوں کے اسیر ہیں۔ جس کی ایک معمولی مثال یہ بھی ہے کہ مرکزی وزراء اپنے منصوبوں پر منصوبہ بندی کمیشن کی نگرانی قبول کرنے کو تیار نہیں۔ اسے وہ ترقی کی راہ میں رکاؤٹ سمجھتے ہیں۔ مگر ان کی خواہش یہ ہے کہ وہ فوج پر نگرانی چاہتے ہیں۔
بلاشبہ فوج کو ایک دستوری نگرانی میں رہنا چاہیے اور سیاست دانوں کی ناکامی کے باوجود ان حالات کو اپنے غیر دستوری اقدامات کے جواز کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ مگر اس کے لیے سیاست دانوں کو جس اخلاقی برتری کا مظاہرہ کرنا چاہیے وہ کہیں پر بھی پائی نہیں جاتی۔ ماضی کے بدترین جرنیلی اقدام کے ساتھ سیاست دانوں کی ناکامی کے دہرے دکھ میں ڈھل کر بارہ اکتوبر مزید غم زدہ کرتا ہے۔ بارہ اکتوبر کا پیغام امریکی اداکارہ میری مارٹن (Mary Martin) کے الفاظ میں دونوں طرف کے لیے یکساں ہے اگر وہ دھیان دیں :
Stop the habit of wishful thinking and start the habit of thoughtful wishes
(آرزو بھری سوچ بچار کی عادت ترک کریں اور سوچ بچار والی آرزؤں کی عادت ڈالیں)
جنرل (ر) پرویز مشرف کی موت محض تعزیت کا موضوع نہیں، یہ تاریخ کا موضوع ہے۔ تاریخ بے رحمی سے حقائق کو چھانتی اور شخصیات کے ظاہر وباطن کو الگ کرتی ہے۔ تعزیت کے لیے الفاظ درد میں ڈوبے اور آنسوؤں سے بھیگے ہوتے ہیں۔ مگر تاریخ کے الفاظ مروت یا لحاظ کی چھتری تلے نہیں ہوتے۔ یہ بے باک و سف...
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
اسلام آباد ہائیکورٹ نے لاپتہ افراد کے کیس میں وفاقی حکومت کو پرویزمشرف سے لیکر آج تک تمام وزرائے اعظم کونوٹس جاری کرنے کا حکم دے دیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 15 صفحات کا حکم نامہ جاری کیا ہے جس میں آئینی خلاف ورزیوں پر اٹارنی جنرل کو دلائل کیلئے آخری موقع...
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف پاکستان کے نئے وزیراعظم منتخب ہوگئے۔ ملک کے 23ویں وزیراعظم کے آج ہونے والے انتخاب کا عمل اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت ہوا۔ قبل ازیں ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے ایوان کی کارروائی کو شرمناک قرار دیتے ہوئے اس کا حصہ نہ بننے کا اعلان کیا۔ بعد ازا...
پاکستان مسلم لیگ (ن)کے صدرمیاں محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ عمران نیازی نے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ کے زریعہ قومی اسمبلی کے 197ارکان کو غدار قراردلوایا ہے، میںچیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمرجاوید باجودہ اور ڈی جی آئی ایس آئی سے مطالبہ کرتا ہوں کہ اگر ہم نے غداری کی ہے تو پھر ث...