وجود

... loading ...

وجود

۱۲ اکتوبر کا سبق

منگل 13 اکتوبر 2015 ۱۲ اکتوبر کا سبق

Pervez_Musharraf

عادتیں کبھی نہیں مرتیں۔ انسان کی سب سے خطرناک اسیری، عادتوں کی اسیری ہے۔ کوئی بھی شخص کسی بھی بیرونی اثر سے زیادہ اپنی ہی عادتوں کا اثر قبول کرتا ہے۔ ناول نگار گلبرٹ پارکر (Gilbert Parker)کبھی سیاست دان بھی رہا ۔ اُس کا ایک فقرہ اب ذہن میں گونجتا ہے:

There is no influence like the influence of habit.

ناول نگار کی موت ۱۹۳۲ء میں واقع ہوئی مگر اُس کی بات مکمل ہے۔ بارہ اکتوبر پاکستان کی تقویم کی ایک تاریخ ہی نہیں ہمارے سیاسی رویوں کی ایک مستقل عادت بھی ہے۔اس عادت کی سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ یہ محض جرنیلی تصورات میں رچی بسی نہیں ۔ یہ خود ہمارے تمدنی ڈھانچے کے اندر ایک بنیادی مطالبے کے ساتھ موجود ہے۔ آمریت یا جرنیلی راج کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ فوج کا بھی اقتدار نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ دراصل چند ایسے جرنیلوں کا اقتدار ہوتا ہے جو نظم وضبط کی پابند فوج کے دستوری نگران ہوتے ہیں۔ عادتوں کے ایک لمبے زنجیری سلسلے میں یہ تمدنی حکومتیں ہیں جو اس مسئلے کو حل کرنے میں ہی نہیں بلکہ سمجھنے تک میں ناکام رہی ہیں۔ جمہوری حکومتیں آمریت کو ایک اعلیٰ جمہوری آدرش کی روشنی میں مسترد کرتی ہیں مگریہ جمہوری آدرشوں کی اس روشنی سے ملک کو منور کرنے میں جب مکمل ناکام رہتی ہیں تو بس یہی سے آمریت ایک جواز کے طور پر لٹکتی تلوار لگنے لگتی ہے۔ جمہوری حکمران ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آمریت سے براہِ راست لڑ کر جمہوریت کو کامیاب نہیں بنایا جاسکتا۔

پاکستان میں جمہوریت کسی بھی سطح پر قومی یا عوامی خدمت کی ایسی شاندار مثالیں قائم نہیں کر سکیں کہ اُسے برقرار رکھنے کی خواہش قومی زندگی کے تمام طبقات میں سیاسی خیالات کے اختلاف کے ساتھ یکساں طور پر پیدا ہوسکے۔ پاکستانی ساختہ جمہوریت کی سب سے بڑی ناکامی یہی ہے۔پاکستان میں ایسے طبقات ایک بڑی تعداد میں ہر وقت موجود رہتے ہیں جو آمریت کو ہی مملکت کے مسائل کا حل سمجھتے ہیں۔ یہ طبقات سیاسی حلقوں کے لیے کتنے ہی ناگوار ہوں مگر یہ ناقابلِ نظر انداز ہیں۔ انہیں سیاسی و جمہوری دلائل سے قائل نہیں کیا جا سکتا۔ انہیں سیاست و جمہوریت کو مسائل کے حل کی ایک شاہ کلید ثابت کرنے سے ہی قائل کیا جاسکتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں جمہوریت ایسی کوئی مثالی دنیا پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں جمہوریت نے عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے بجائے مزید کم کیا ہے۔ اس کی تازہ مثال پنجاب کے حالیہ ضمنی انتخابات ہیں۔ سیاسی جماعتوں نے انتخابات کو ایک ایسا عمل بنا دیا ہے جس میں عام لوگ بس ایک پرچی ڈالنے ، پھر اپنی کامیابی کے جھوٹے تاثر میں رقص کرنے ، ڈھول بجانے اور مٹھائی کھانے کھلانے سے زیادہ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ یہ مکمل اشرافیہ کی سرگرمیاں بن کر رہ گئی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ذرایع ابلاغ میں سامنے آنے والے ان اعدادوشمار میں کوئی مبالغہ بھی ہو، مگر مجموعی طور پر یہی سیاسی اور جمہوری منظرنامہ ہے۔ لاہور کے حلقہ ۱۲۲ کے صرف ایک ضمنی انتخاب میں نون لیگ اور تحریک انصاف کی طرف سے جو اخراجات کیے گیے ہیں وہ مجموعی طور پر دو ارب سے متجاوز ہیں۔ اگر ایک ضمنی انتخاب اتنے پیسوں کا کھیل ہو تو پھر یہ زمین پر اُتر کر ایک عام آدمی کی دسترس میں آنے والا جمہوری عمل کب بن سکے گا۔ یہ جمہوریت کا سب سے بڑا مغالطہ ہے کہ عوام کو یہ باور کرایا جائے کہ وہ پانچ برس کے بعد اپنی پرچی کی طاقت سے ناپسندیدہ لوگوں کو بدل سکتے ہیں۔ جمہوریت دراصل یہ نہیں کہ رائے دہندگان پرچی کی طاقت رکھتے ہو، بلکہ یہ بھی ہے کہ ہر رائے دہندہ مساوی مواقع کے ساتھ خود کو اس نظام انتخاب میں لے جانے کا بھی اہل ہو۔ ذرا بتایئے! لاہور کے بیش قیمت ضمنی انتخاب کو دیکھتے ہوئے کسی عام شخص کے یہ وہم وگمان میں بھی آسکتا ہے کہ وہ اس نظام میں کہیں اوپر آسکتا ہے۔

جمہوری حکمران ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آمریت سے براہِ راست لڑ کر جمہوریت کو کامیاب نہیں بنایا جاسکتا۔

نون لیگ پرویز مشرف کی آمریت کے خلاف بارہ اکتوبر کو ایک یوم سیاہ کے طور پر منا رہی ہے۔ اُس نے ایک روز قبل گیارہ اکتوبر کو ضمنی انتخاب کا معرکہ اپنے نام کیا ہے۔ مگر کیا یہی وہ جمہوریت ہے جس کی بالادستی کے خواب عوام کو دکھا کر آمریت کی عادت سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے؟ جمہوریت کسی نظام حکومت کا نام نہیں بلکہ یہ ایک نظام حکومت میں طرزِ سیاست کا نام ہے۔ جو سیاسی جماعتوں کی تشکیل سے لے کر قومی سرگرمیوں تک یکساں اُصولوں اور موقعوں کی ایک تحریک پیدا کرتی ہے۔ افسوس اس میں سے کوئی چیز بھی قومی منظرنامے پر موجود نہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ دنیا میں کہیں پر بھی کامیاب جمہوریتوں میں کسی ایک شخص کو کسی ایک جماعت پر اس طرح دسترس حاصل نہیں ہوتی جس طرح پاکستان میں نون لیگ میں میاں نوازشریف ، پیپلز پارٹی میں آصف زرداری اور تحریک انصاف میں عمران خان کو حاصل ہے۔ یہ سب اپنی اپنی جماعتوں کے اندر پرویز مشرف سے زیادہ طاقت رکھتے ہیں اور اُس سے زیادہ آمرانہ انداز میں فیصلے کرتے ہیں۔ پھر ان میں سے کسی کی بھی حکومت ہو، ان کے تمام سرکاری فیصلے ادارتی سے زیادہ ذاتی ہوتے ہیں۔ انتخابی امیدواروں کے انتخاب سے لے کر سیاسی حکومت کی تشکیل تک سب کچھ ایک شخص کے مرہون ِ منت ہوتا ہے۔ کیا پرویز مشرف کی حکومت میں اُن کے طرزِ حکومت اور شہاز شریف کی صوبائی حکومت میں اُن کے طرزِ حکومت میں کوئی فرق ہے؟ دونوں بلا شرکت ِ غیرے اقتدار کے قائل ہیں۔ مگر ان میں سے ایک آمریت اور دوسرا جمہوریت کا نمائندہ کیوں کہلاتا ہے؟ جمہوریت کے یہ قائدین جس جمہوریت کی بالادستی چاہتے ہیں ، پہلے اُس کی تحویل میں خود کو اور اپنی سیاسی جماعتوں کو دے کر تو دکھائیں پھر وہ آمریت کے خلاف جمہوریت کی بالادستی کی بات کریں ۔مگر مسئلہ یہ ہے کہ آمروں کی طرح یہ جمہوری سیاست دان بھی اپنی عادتوں کے اسیر ہیں۔ جس کی ایک معمولی مثال یہ بھی ہے کہ مرکزی وزراء اپنے منصوبوں پر منصوبہ بندی کمیشن کی نگرانی قبول کرنے کو تیار نہیں۔ اسے وہ ترقی کی راہ میں رکاؤٹ سمجھتے ہیں۔ مگر ان کی خواہش یہ ہے کہ وہ فوج پر نگرانی چاہتے ہیں۔

بلاشبہ فوج کو ایک دستوری نگرانی میں رہنا چاہیے اور سیاست دانوں کی ناکامی کے باوجود ان حالات کو اپنے غیر دستوری اقدامات کے جواز کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ مگر اس کے لیے سیاست دانوں کو جس اخلاقی برتری کا مظاہرہ کرنا چاہیے وہ کہیں پر بھی پائی نہیں جاتی۔ ماضی کے بدترین جرنیلی اقدام کے ساتھ سیاست دانوں کی ناکامی کے دہرے دکھ میں ڈھل کر بارہ اکتوبر مزید غم زدہ کرتا ہے۔ بارہ اکتوبر کا پیغام امریکی اداکارہ میری مارٹن (Mary Martin) کے الفاظ میں دونوں طرف کے لیے یکساں ہے اگر وہ دھیان دیں :

Stop the habit of wishful thinking and start the habit of thoughtful wishes

(آرزو بھری سوچ بچار کی عادت ترک کریں اور سوچ بچار والی آرزؤں کی عادت ڈالیں)


متعلقہ خبریں


دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو وجود - پیر 06 فروری 2023

جنرل (ر) پرویز مشرف کی موت محض تعزیت کا موضوع نہیں، یہ تاریخ کا موضوع ہے۔ تاریخ بے رحمی سے حقائق کو چھانتی اور شخصیات کے ظاہر وباطن کو الگ کرتی ہے۔ تعزیت کے لیے الفاظ درد میں ڈوبے اور آنسوؤں سے بھیگے ہوتے ہیں۔ مگر تاریخ کے الفاظ مروت یا لحاظ کی چھتری تلے نہیں ہوتے۔ یہ بے باک و سف...

دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو

رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

رفیق اور فریق کون کہاں؟ وجود - منگل 23 اگست 2022

پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...

رفیق اور فریق کون کہاں؟

لاپتہ افراد کیس، عدالت کا مشرف سے لے کر آج تک کے تمام وزرائے اعظم کونوٹس جاری کرنے کا حکم وجود - پیر 30 مئی 2022

اسلام آباد ہائیکورٹ نے لاپتہ افراد کے کیس میں وفاقی حکومت کو پرویزمشرف سے لیکر آج تک تمام وزرائے اعظم کونوٹس جاری کرنے کا حکم دے دیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 15 صفحات کا حکم نامہ جاری کیا ہے جس میں آئینی خلاف ورزیوں پر اٹارنی جنرل کو دلائل کیلئے آخری موقع...

لاپتہ افراد کیس، عدالت کا مشرف سے لے کر آج تک کے تمام وزرائے اعظم کونوٹس جاری کرنے کا حکم

شہباز شریف پاکستان کے 23 ویں وزیراعظم منتخب وجود - پیر 11 اپریل 2022

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف پاکستان کے نئے وزیراعظم منتخب ہوگئے۔ ملک کے 23ویں وزیراعظم کے آج ہونے والے انتخاب کا عمل اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت ہوا۔ قبل ازیں ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے ایوان کی کارروائی کو شرمناک قرار دیتے ہوئے اس کا حصہ نہ بننے کا اعلان کیا۔ بعد ازا...

شہباز شریف پاکستان کے 23 ویں وزیراعظم منتخب

ہم نے غداری کی ہے توآرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی ثبوت سامنے لائیں، شہباز شریف وجود - منگل 05 اپریل 2022

پاکستان مسلم لیگ (ن)کے صدرمیاں محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ عمران نیازی نے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ کے زریعہ قومی اسمبلی کے 197ارکان کو غدار قراردلوایا ہے، میںچیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمرجاوید باجودہ اور ڈی جی آئی ایس آئی سے مطالبہ کرتا ہوں کہ اگر ہم نے غداری کی ہے تو پھر ث...

ہم نے غداری کی ہے توآرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی ثبوت سامنے لائیں، شہباز شریف

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر