... loading ...
عزیزم آفتاب اقبال معروف شاعر ظفر اقبال کے ’’اقبال زادے‘‘ ہیں۔ اردو سے محبت اپنے والد سے ورثے میں پائی ہے۔ ایک ٹی وی چینل پر پروگرام کرتے ہیں۔ پروگرام کی نوعیت تو کچھ اور ہے تاہم درمیان میں آفتاب اقبال اردو کے حوالے سے چونکا دینے والے انکشافات بھی کر جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نے بتایا کہ ’’کھینچا تانی‘‘ اصل میں اینچا تانی ہے۔ کپڑا بُنتے ہوئے دائیں سے بائیں اور اوپر سے نیچے دو دھاگے چلتے ہیں جو اینچا تانی کہلاتے ہیں۔ یقینا یہ الفاظ لغت میں موجود ہیں۔ اسی کو تانا بانا بھی کہا جاتا ہے۔
لغت کے مطابق ’’اینچا تانی‘‘ یا اینچا کھینچی کا مطلب کشاکش، کش مکش، بکھیڑا، کھینچا کھینچ ہے۔ اسی سے ایک لفظ ’’اینچن‘‘ ہے یعنی کشا کش اور کھینچا تانی۔ ایک مثل ہے ’’اینچن چھوڑ گھسیٹن میں پڑے‘‘۔ یعنی ایک آفت سے دوسری بڑھ کر ثابت ہوئی، الٹی بلا گلے پڑی۔ ’’اینچنا‘‘ کا ایک مطلب ضامن ہونا بھی ہے۔
لیکن کھینچا تانی یا کھینچ تان ایک الگ ترکیب اور مستقل لفظ ہے۔ کھینچ (’ک‘ پر زبر) اور کھینچ (’ک‘ پر زیر)کا مطلب کشش، کھچاؤ، کمی، قلت، قحط، کال وغیرہ۔ کسی کی آمدنی کم ہو تو کہا جاتا ہے: ہاتھ کھینچ کر خرچ ہورہا ہے یا کھینچ تان کرکے اخراجات پورے کیے جارہے ہیں۔ اب ذرا یہاں لفظ ’’اینچا تانی‘‘ استعمال کرکے دیکھیں۔ کھینچ بلانا کا مطلب ہے زبردستی بلانا۔ تھانیدار صاحب کسی کو اینچ بلائیں تو وہ ہرگز نہیں آئے گا اِلاّ یہ کہ پہلے اسے مطلب سمجھایا جائے۔ کھینچا تانی کا مطلب ہے: کشاکش، لڑائی جھگڑا۔ کھینچنا کا مطلب ہے: گھسیٹنا، تاننا، جذب کرنا، چوسنا، غرور کرنا، اکڑنا، جلد جلد لکھنا، تصویر بنانا، عکس اتارنا، میان سے تلوار نکالنا (کھینچ لی تلوار جب حیدرؓ کرار نے)، باہر لانا، لٹکانا، چڑھانا، روکنا، سمیٹنا، لمبا یا ٹھنڈا سانس لینا، حلقہ بنانا، گھیرنا، احاطہ کرنا، نقش کرنا، اوپر لانا، اوپر چڑھانا، جکڑنا، باندھا، برداشت کرنا، گرفتار کرانا، مہنگا کرنا وغیرہ متعدد معانی ہیں۔ البتہ ایک معنی ’’اینچنا‘‘ بھی ہے۔ چنانچہ یہ کہنا صحیح نہ ہوگا کہ اصل لفظ کھینچا تانی نہیں، اینچا تانی ہے۔ ورنہ تو کھینچ تان سے متعلق تمام الفاظ بے کار جائیں گے۔ عملاً صورت حال یہ ہے کہ اینچا تانی اب صرف لغت میں رہ گیا ہے۔ بھلا کوئی یہ کہے گا کہ اس نے ٹھنڈا سانس اینچا، یا مضمون اینچ کر رکھ دیا! بہرحال آفتاب اقبال نے ایک متروک لفظ کو زندہ کرنے کی کوشش توکی ہے۔ رشید حسن خاں نے بھی اینچن کا محاورہ استعمال کیا ہے ’’اینچن چھوڑ گھسیٹن میں نہ پڑ جاؤں‘‘ یعنی اصل بات کے بجائے (بعض لوگ ’کی بجائے‘ بھی لکھتے ہیں جو صحیح نہیں ہے) کسی دوسری بات پر برا نہ سننا پڑے۔ ’’ڈاکٹر نذیر احمد کی کہانی: کچھ میری اور کچھ ان کی زبانی‘‘ (مرزا فرحت اﷲ بیگ) سے ایک جملہ نقل کیا ہے: ’’بہت کچھ لکھ لیا تھا، وہ پھاڑ ڈالا کہ کہیں اینچن چھوڑ گھسیٹن میں نہ پڑ جاؤں۔‘‘
’’مقدار اور تعداد‘‘ کا استعمال اخبارات اور ٹی وی چینلوں میں عموماً غلط ہورہا ہے۔ مثلا ’’بھاری مقدار میں اسلحہ برآمد‘‘ اور ’’بڑی تعداد میں منشیات پکڑی گئیں‘‘۔ مقدار اُس چیز کے لیے استعمال ہوتا ہے جو تولی یا ناپی جاسکے۔ اب یہ تو نہیں کہا جائے گا کہ پائپ لائن پھٹنے سے بھاری تعداد میں پانی ضائع ہوگیا، یا دودھ میں پانی کی تعداد بڑھ گئی۔ اسلحہ کے لیے مقدار کا لفظ استعمال کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ اسے تولا گیا ہے۔ ممکن ہے ایسا ہی ہوتا ہو۔ یہ تو معلوم ہی ہوگا کہ اسلحہ جمع ہے لیکن بطور واحد استعمال ہوتا ہے۔ البتہ اسلحہ خانہ لکھنے سے گریز کرنا چاہیے۔ قباحت یہ ہے کہ اگر ’’سِلاح خانہ‘‘ لکھا جائے تو لوگ پوچھتے ہیں یہ کیا ہے؟
’’قلع قمع‘‘ کو اکثر قلعہ قمع لکھا دیکھا۔ جب قلع، قلعہ بن جائے تو قمع کو بھی قمحہ یا قمعہ کردینا چاہیے۔ ’’قلع‘‘ اور ’’قلعہ‘‘ دونوں الگ الگ ہیں۔ قلع عربی کا لفظ ہے اور مطلب ہے ’’ڈھانا‘‘۔ اسی طرح قمع بھی عربی کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے ’’توڑنا، زخمی کرنا‘‘۔ دونوں کے معانی قریب قریب ہیں یعنی ڈھانا، توڑنا۔ کسی کا قلع قمع کیا جائے تو صرف ڈھانے سے کام نہیں چلے گا بلکہ اسے اچھی طرح توڑنا بھی پڑے گا۔ کہا جاتا ہے کہ ضرب عضب میں دہشت گردوں کا قلع قمع کردیا گیا۔ لیکن کیا دہشت گردوں کے لیے یہ اصطلاح مناسب ہے؟ انہوں نے اپنے جو قلعے بنا رکھے ہیں انہیں تو ڈھایا اور توڑا جا سکتا ہے، دہشت گردوں کو ڈھانا کسی کُشتی ہی میں ممکن ہے۔ برسوں سے یہ سن رہے ہیں کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی۔ یہاں شاید قمع کی ترکیب استعمال ہوجائے، مگر ہوتی نہیں۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ برسوں سے مسلسل کمر توڑنے کے باوجود یہ ٹوٹی کمر والے ستم ڈھا رہے ہیں۔
’’گئی اور گئیں‘‘ کے استعمال میں بھی بے احتیاطی ہوجاتی ہے۔ منگل کو جسارت کی اشاعت میں ایک ذیلی سرخی ہے ’’قیمتی گاڑیاں خریدی گئیں تھیں‘‘۔ اصول یہ ہے کہ اگر جملہ گئیں، آئیں، رہیں وغیرہ پر ختم ہورہا ہے تو صحیح ہے، لیکن اگر اس کے آگے تھیں، ہیں وغیرہ آرہے ہوں تو سابقہ واحد ہوجائے گا یعنی ’’گئی تھیں، آئی تھیں، رہی تھیں وغیرہ۔ آج کل عموماً اس کا لحاظ نہیں رکھا جارہا۔ ایک شاعر کا مصرع دیکھیے:
یہاں ’’گئیں رتوں‘‘ نہیں کہا گیا۔ ایک جملہ ہے: ’’کل وہ میرے گھر آئیں تھیں‘‘۔ یہاں بھی ’’آئی تھیں‘‘ ہونا چاہیے خواہ آنے والی ایک ہو یا کئی……
تاریخِ تصوف پر ایک کتاب دیکھ رہا تھا۔ اس میں بڑے بڑے کا جملہ ہے: ’’فرقہ سہیلیہ مریدوں کی تربیت و پرورشِ روحانی میں ’’یدِبیضا‘‘ رکھتا ہے‘‘۔ یہاں یدِطولیٰ ہونا چاہیے۔ یدِبیضا تو حضرت موسیٰؑ کو بطور کرامت عطا کیا گیا تھا۔ بیضا سفید کو کہتے ہیں اور حضرت موسیٰؑ کی ہتھیلی چاندی کی طرح چمکتی تھی۔ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم ’’ایام بیض‘‘ کے روزے بڑے اہتمام سے رکھتے تھے۔ یہ قمری مہینے کی 14,13 اور 15 کی تاریخیں ہیں جن میں چاند خوب چمکتا ہے اور راتیں روشن ہوتی ہیں۔ انڈہ سفید ہوتا ہے اسی لیے اسے بھی بیضہ کہتے ہیں۔ عربی میں رنگ بھی مذکر، مونث ہوتے ہیں۔ آخر میں الف آئے تو مونث…… جیسے سودا، صفرا، زرقا، حمرا، بیضا وغیرہ۔ مذکر اسود، اصغر، ارزق، احمر وغیرہ۔
ایک غلطی جو ہم سے بھی صادر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ’’دوران‘‘ کے بعد ’’میں‘‘ آنا چاہیے۔ بعض لوگ اسے غیر ضروری سمجھتے ہیں۔ ’’اس اثنا میں‘‘ لکھنے سے تعرض نہیں کرتے جو فارسی کے ’’دریں اثنا‘‘ کا ترجمہ ہے۔ بہت کم لوگوں کو ’’دوران میں‘‘ لکھتے ہوئے دیکھا ہے۔ ایک دلچسپ جملہ دیکھا ’’کام کرنے کا طریقہ کار‘‘۔ ارے بھائی ’کام‘ اور ’کار‘ ایک ہی چیز تو ہے۔ ’کار‘ فارسی میں کام کو کہتے ہیں۔ ’’ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کنند‘‘ یا اقبال کا یہ مصرع ’’کارِ جہاں دراز ہے، اب میرا انتظار کر‘‘۔
پنجاب میں زراعت کے تعلق سے ایک اصطلاح نظر سے گزری جو ہمارے لیے نئی ہے اور ممکن ہے بہت سے لوگوں کے لیے بھی نئی ہو۔ یہ ہے ’’برداشت‘‘ کا استعمال۔ ویسے تو عوام ہی بہت کچھ برداشت کررہے ہیں اور صورتِ حال پر برداشتہ خاطر (بیزار، اداس، آزردہ) بھی ہیں۔ لیکن ایوب زرعی تحقیقاتی ادارے، فیصل ...
فارسی کی ایک مثل ہے ’’خودرا فضیحت دیگراں را نصیحت‘‘۔ یعنی خود تو غلط کام کرنا، دوسروں کو نصیحت کرنا۔ فضیحت کا مطلب رسوائی، ذلت، بدنامی بھی ہے۔ یہ محاورہ یوں یاد آیا کہ کچھ قارئین غلطیوں کی نشاندہی کرکے یہی مثل سنا دیتے ہیں۔ اب ہم کیا کریں کہ اپنے جن صحافی ساتھیوں کی زبان درست کرن...
ایک ہفت روزہ کے سرورق پر سرخی ہے ’’پیپلزپارٹی تتّر بتّر ہوسکتی ہے‘‘۔ یعنی دونوں جگہ ’ت‘ پر تشدید ہے۔ پڑھ کر خوشگوار حیرت ہوئی، کیونکہ عموماً لوگ بغیر تشدید کے تتربتر کردیتے ہیں جب کہ تشدید کے ساتھ ہی صحیح ہے۔ فرہنگ آصفیہ، فیروزاللغات وغیرہ میں بھی اسی طرح ہے، اور اردو کی کلاسیکی ...
گزشتہ تحریر میں ہم نے ’دارو‘ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’یاد رہے دارو گیر میں بھی دارو موجود ہے لیکن یہ ایک الگ لفظ ہے۔ دارو گیر کا دارو سے کیا تعلق ہے، یہ ماہرین ہی بتاسکتے ہیں‘‘۔ یہ معاملہ ازراہِ تفنن ہم نے ماہرین پر چھوڑ دیا تھا۔ چنانچہ سب سے پہلے تو جسارت کے پروف ریڈر گزجن...
علامہ طاہر اشرفی علماء کے سرخیل ہیں۔ انہوں نے غالباً عربی بھی پڑھی ہوگی، ورنہ اردو تو ضرور پڑھی ہوگی۔ اب اگر اتنے کلّے‘ ٹھلے کے اور جسیم عالم بھی ملک کو ’’مولک‘‘ کہیں تو تھوڑی سی حیرت تو ہوگی۔ اگر پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اﷲ علم کو ’’ایلم‘‘کہیں تو یہ اُن کو زیب دیتا ہے بلکہ ا...
جناب پرویز رشید وفاقی وزیر اطلاعات ہیں اور اس لحاظ سے تمام صحافیوں کے سرخیل ہیں۔ ان کا فرمانا ہمارے لیے سند ہے۔ لاہور کا معرکہ جیتنے پر وہ فرما رہے تھے کہ فلاں کی تو ضمانت تک ضَبَطْ (بروزن قلق‘ شفق‘ نفخ وغیرہ یعنی ضَ۔بَط) ہوگئی۔ اب جو مثالیں ہم نے دی ہیں نجانے ان کا تلفظ وہ کیا ک...
ہمارے وفاقی وزیر چودھری نثار تو ذمہ داری کو ذمہ واری کہتے رہیں گے، انہیں ان کی ذمہ واری پر چھوڑتے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب جناب شہبازشریف شمسی توانائی کی کارکردگی پر وضاحت پیش کرتے ہوئے ’’اوسط‘‘ کو بروزن دوست‘ گوشت وغیرہ کہتے رہے اور بار بار کہتے رہے۔ لیکن یہ تو حکمران طبقہ ہے۔ اسے ز...
آئیے، آج ایک بچے کے خط سے آغاز کرتے ہیں جو غالباً بچوں کے رسالے ’ساتھی‘ کا قاری ہے۔ برخوردار نے لکھا ہے کہ ’’انکل‘ آپ ہمیں تو سمجھاتے ہیں کہ ’’لالچ‘‘ مونث نہیں مذکر ہے، لیکن سنڈے میگزین (6 تا 12 ستمبر) میں ایک بڑے قلمکار نے صفحہ 6 پر اپنے مضمون میں کم از کم چھ بار لالچ کو مونث لک...
عدالتِ عظمیٰ کے حکم پر آئین کے مطابق قومی زبان اردو کو اس کا جائز مقام دینے کی کوششیں شروع ہوگئی ہیں۔ 1973ء کے آئین میں اردو کو سرکاری زبان بنانے کے لیے غالباً 10 سال کی مدت طے ہوئی تھی۔ ایسے کئی دس سال گزر گئے۔ لیکن اب عدالت نے نہ صرف حکم جاری کیا ہے بلکہ نئے منصفِ اعلیٰ نے اپنا...
محترم عمران خان نیا پاکستان بنانے یا اسی کو نیا کرنے کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایک نیا محاورہ بھی عنایت کردیا ہے۔10 اگست کو ہری پور میں خطاب کرتے ہوئے سانحہ قصور کے حوالے سے انہوں نے پُرجوش انداز میں کہا ’’میرا سر شرم سے ڈوب گیا‘‘۔ انہوں نے دو محاوروں کو ی...
چلیے، آغاز اپنی غلطی سے کرتے ہیں اور اس یقین کے ساتھ کہ آئندہ بھی کریں گے۔ پچھلے شمارے میں سرزد ہونے والے سہو کی نشاندہی روات سے ایک ذہین شخص ذہین احمد نے کی ہے۔ روات اسلام آباد کے قریب ایک چھوٹا سا قصبہ تھا، ممکن ہے اب بڑا شہر ہوگیا ہو، اسلام آباد کی قربت کا فائدہ ضرور ہوا ہوگا۔...
صوبہ خیبرپختون خوا کے شہر کرک سے ایک اخبار ’’دستک‘‘ کے نام سے شائع ہوتا ہے۔ زبان کے حوالے سے یہ سلسلہ وہاں بھی شائع ہورہا ہے، جس کا فائدہ یہ ہے کہ پشتو بولنے والے اُن بھائیوں سے بھی رابطہ ہورہا ہے جو اردو میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اردو کو قومی سطح پر تو اب تک رائج نہیں کیا گیا لیکن ا...