... loading ...
سوویت یونین کا خاتمہ ایک ایسی طاقت کا زوال تھا جو جوہری ہتھیاروں سے لیس تھی۔ جب یہ قوت کئی ریاستوں میں تقسیم ہوئی تو کوئی ایسی سپر پاور نہ بچی جو ان جوہری ہتھیاروں کو قابو میں رکھتی جو ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے تھے۔ امریکی خبر رساں ادارے کی ایک حالیہ رپورٹ نے اس تازہ خطرے کی جانب نشاندہی کی ہے جو سابق سوویت ریاستوں اور ان کے پاس موجود تابکار مواد سے دنیا کو لاحق ہے۔ یہ رپورٹ سابق سوویت ریاست مالڈووا کے بارے میں ہے جہاں کے جرائم پیشہ افراد کے نیٹ ورکس مشرق وسطیٰ میں دہشت گرد گروہوں کو تابکار مواد فروخت کرنا چاہ رہے ہیں۔ گزشتہ پانچ سالوں میں یورپ کی یہ چھوٹی اور غریب ریاست جوہری مواد کی زبردست بلیک مارکیٹ بن چکی ہے۔
ویسے تو اس خطرے کی جانب اشارہ 1996ء میں ہی ہوگیا تھا جب امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی کے گراہم ایلی سن نے دنیا کی توجہ اس جانب مبذول کروائی تھی۔ جس کے مطابق روس کے جوہری ہتھیار ملک کے طول و عرض میں سینکڑوں مقامات پر پھیلے ہوئے ہیں، جن میں ہزاروں ٹن انتہائی افزودہ یورینیم، 100 ٹن پلوٹونیم اور کوئی 30 ہزار نیوکلیئری وارہیڈز شامل ہیں جو اب خطرے کی زد میں ہیں۔ روس کو ورثے میں سوویت یونین کے جوہری، کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کے وسیع ذخائر ملے اور ان کا بہت برا حال تھا۔ ہتھیاروں کے ان گوداموں اور تجربہ گاہوں کو دیکھ کر خوف آتا تھا کہ جہاں نہ کوئی محافظ تھا، رکاوٹیں ٹوٹی ہوئی اور دروازوں پر تالے بھی نہ لگے ہوئے۔ ایک مرتبہ تو مغربی سائبیریا کے ایک باڑے سے دو ملین گیس کے شیل ملے تھے۔
کسی بڑے خطرے کے پیش نظر امریکا نے آئندہ سالوں میں روس کو جوہری تنصیبات بہتر بنانے اور اُن کی حفاظت میں اضافے کے لیے اربوں ڈالرز دیے تھے، جس کے دوران ہزاروں نیوکلیئر وارہیڈز تباہ یا ضائع کیے گئے یہاں تک کہ 2014ء کے اختتام تک جب دونوں ممالک کے درمیان تعاون ہی کا خاتمہ ہوگیا۔ اس کے ابوجود جوہری مواد آج بھی قابل دسترس ہے۔ گو کہ نیوکلیئر وارہیڈ چوری کرنا ایک بہت مشکل کام ہوگا لیکن “ڈرٹی بم” کے لیے ریڈایکٹو مواد حاصل اور منتقل کرنا کہیں آسان ہے۔ تابکاری سے بیمار کا خطرہ اس بمبار کے لیے کیا معنی رکھتا ہے جو خودکش ہو؟
رپورٹ بنانے کے دوران صحافیوں نے داعش کے نمائندے کا روپ دھارا اور ڈھائی ملین یوروز کی خطیر رقم پر ایک اسمگلر سے اتنا سیسیئم (Cesium) خریدنے میں کامیاب ہوگیا جو شہر کے ایک علاقے کی فضا کو آلودہ کرنے کے لیے تو کافی تھا۔ ویسے سیسیئم نیوکلیئر بم بنانے اہم اجزاء میں شامل نہیں اور جو سیسیئم دیا گیا تھا وہ اس معیار کا بھی نہیں تھا کہ اس سے ڈرٹی بم بنتا۔ خیر، اب تو اسمگلر تو جیل کی ہوا کھا رہا ہے۔
گزشتہ پانچ سالوں میں ہونے والی ایسی چار کوششوں میں سے سب سے خطرناک 2011ء میں ہوئی تھی جب مالڈووا کے دارالحکومت چیسی ناؤ مخبر نے افزودہ یورینیم حاصل کرلیا تھا، جو نیوکلیئر بم میں استعمال ہونے کے قابل اور بہترین معیار کا تھا۔ پولیس نے بروقت کارروائی کرکے اس کام میں ملوث افراد کو گرفتار کرلیا تھا۔
بارہا ایسی خبروں کا آنا یہ بات تو ثابت کرتا ہے کہ اتنی خطرناک بلیک مارکیٹ وجود رکھتی ہے، لیکن کب تک؟ جب تک کہ مواد کی رسد اور طلب برقرار رہے اور جب تک کہ اسمگلر یہ سمجھتے رہیں کہ وہ کسی کے ہاتھ لگے بغیر بڑا مال بنا سکتے ہیں۔
چین بحر الکاہل میں پہلی بار جوہری ہتھیاروں سے لیس آبدوزیں بھیجے گا، دلیل یہ ہے کہ امریکا کے ہتھیاروں کی خطے میں موجودگی کے بعد اس کے پاس یہ قدم اٹھانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ چين کا کہنا ہے کہ امریکا جنوبی کوریا میں "تھاڈ" اینٹی بیلسٹک میزائل سسٹم کی تنصیب اور ہائپرسونک گلائ...
پاکستان نے جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے بیلسٹک میزائل شاہین III کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب بھارت کے ساتھ اعلیٰ سطحی امن مذاکرات کے دوبارہ آغاز کے اعلان کو دو دن ہی گزرے ہیں، یہ تجربہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان امن کا خواہاں ضرور ہے لیکن اپنے دفاع پر کوئ...
بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کی ایک تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تہران نے 2003ء میں جوہری ہتھیار بنانے کی ایک منظم کوشش کی اور چند سرگرمیاں اوباما کے برسر اقتدار میں آنے کے بعد تک جاری رہیں۔ پارچین کی تنصیبات میں ایران کی خفیہ سرگرمیاں ایجنسی کی موثر تص...
دو امریکی فکری مراکز (تھنک ٹینکس) نے اپنی ایک مفصّل روداد (رپورٹ) میں اِصرار کیا ہے کہ پاکستان سالانہ بیس جوہری ہتھیار تیار کررہا ہے۔اس طرح اگلے دس برسوں میں وہ جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے میں دنیا کا تیسرا بڑا ملک بن سکتا ہے۔ کارنیگی اینڈومنٹ اور اسٹمسن سینٹرنے پاکستان کی طرف سے...