... loading ...
زبان شخصیت کا آئینہ ہے۔ افسوس تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون اس سے بے خبر ہیں۔ذرا ان رہنماوؤں کی زبان سنیے! جو لاہور اور اوکاڑہ کے حلقوں کے ضمنی انتخابات کی مہم میں پورے ملک میں گونجنے لگی ہے۔اور جس نے مملکت کے تمام معاملات کو یر غمال بنا لیا ہے۔ اگر عربی کی فصیح و بلیغ زبان کو رہنما بنایا جائے تو وہ محاورے میں ایک اُصول وضع کرتی ہے:
تُعرفُ الاَشیاءُ بِاَضدَادِھَا
(چیزیں اپنی ضدوں کے ساتھ پہچانی جاتی ہے)
بلاشبہ یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف ایک دوسرے کا تعارف کراتی ہیں۔ اگر ان جماعتوں کا تصادم نہ ہوتا تو ہیرو پرستی کا مرض شخصیات کو پردے میں چھپائے رکھتا ۔ یہ لوگ اس طرح بے نقاب تو نہ ہوتے۔ ان کی زُبانیں خنجر کیا ہوئی ہیں تہذیب کی زبان کو قے آگئی ہے۔
دھرنے میں عمران خان نے” ابے تبے” کی جو زبان متعارف کرائی تھی وہ ایک بہت بڑے ردِ عمل کے ساتھ دلوں میں پرورش پارہی تھی۔ باقی جماعتوں کے لوگ بھی کوئی “کوثر وتسنیم” میں دُھلی زبان نہیں رکھتے۔ بس وہ مجمع میں مخاطبت کے الفاظ سےبقدرِ ضرورت آشنا تھے۔ اب یہ لحاظ باقی جماعتوں میں بھی جاتا رہا۔ اب وہی رہنما منچ کی رونق ہے جو زیادہ بڑا پھکڑباز ہے۔یقین نہ آئے تو شیخ رشید اور عابد شیر علی کی تقریریں ملاحظہ فرمائیں جو اُنہوں نے حلقہ 122 میں کی ہیں۔ افسوس جمہوریت کے نام پر ہم پست سے پست تر ہوتے جاتے ہیں۔
عمران خان نے میاں نوازشریف کے روّیے کو اپنے انٹریوز اور تقاریر میں اداکاری کے ساتھ موضوع بنایا۔ اب نوازشریف کے آغوشِ تربیت کے اداکار سیاست دان اس دَلدَّر اور ہَولاجولی کو مزید فروغ دے رہے ہیں۔ تنقید سیاست کا جوہر ہے مگر تنقید کی اپنی ایک تہذیب بھی ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ میں ایک رکن نے جھلّا کر کہا کہ “ایوان کےآدھے اراکین گدھے ہیں۔” سمجھدار اراکین خاموش رہے مگر آدھے اراکین کھڑے ہوگیے اور احتجاج کیا کہ یہ زبان شائستہ نہیں ۔ فاضل رکن اپنے الفاظ واپس لیں۔ فاضل رکن کھڑے ہوئے اور نہایت ادب سے کہا کہ ” میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں، ایوان کے آدھے اراکین گدھے نہیں ہیں۔” ہر چیز بیان کی جاسکتی ہے اگر اِسے برتنے کے لیے ذرا ہنر پیدا کیا جائے۔ مگر سیاست دان ساری مشقت صرف بدعنوانیوں کے لیے اُٹھاتے ہیں۔ دونوں حلقوں میں دونوں جماعتوں کے سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف جو زبان استعمال کر رہے ہیں اگر یہ جمہوریت کا حُسن ہے تو پھر چڑیل کو عالمی مقابلہ حُسن میں ملکہ حُسن کا تاج پہنادینا چاہیے۔
بنیادی بات یہ ہےکہ یہ مسئلہ چند سیاست دانوں تک محدود نہیں ، یہی ہمارا گردوپیش بنتا جارہا ہے۔ عمران خان نے اپنی سیاست میں جس لب ولہجے کو اختیار کیا تھا ،وہ اب زیادہ مکروہ بن کر مسلم لیگ نون کے تیوروں میں فروغ پارہا ہے۔ اوریوں لگتا ہے کہ پورا ملک انتقامی سیاست کا شکار ہوچکا ہے۔ جس سے ذرایع ابلاغ بھی مستثنیٰ نہیں۔ریاستی اداروں میں بھی حالات کو پڑھنے کی صلاحیت دن بہ دن کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے۔ اور ادارتی ذکاوت کا کہیں نام ونشان تک نہیں ملتا۔ الیکش کمیشن اور عدالتی فیصلوں میں اس کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔الیکشن کمیشن نے ضمنی انتخابات کے لیے جو ضابطہ اخلاق تشکیل دیا ،وہ عدالت عالیہ میں ٹہر نہیں سکا۔ جس سے دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کے خلاف ہر طرح کی گفتگو کو اپنے لیے روا بنا لیا۔ کیا عدالت عالیہ اور الیکشن کمیشن کو اندازا نہ تھا کہ وہ کب کیا کر رہے ہیں ؟ موجودہ ماحول میں جب اعتماد کا فقدان تھا ، ضابطہ اخلاق کی تیاری کاعمل سب کی رضامندی کے ساتھ ہونا چاہیے تھا مگر ادارے اپنی اجتماعی ذکاوت کو بروئے کار لانے میں مکمل ناکام رہے۔ عالمی سطح پر اب جس جمہوریت کو پسند کیا جاتا ہے وہ عوامی نہیں بلکہ دستوری جمہوریت کہلاتی ہے۔ جس میں ریاست کی سب قوتیں خود کو ایک قانون اوردستور کی تحویل میں رکھتی ہیں ۔ سیاست دان جہاں کہیں کا بھی ہو اپنی ہر گنجائش کو جمہوریت کی عمومی حد میں لے جانے پر مُصر رہتا ہے۔ اس لیے اداروں کو مضبوط کرکے اجتماعی معاملات کو ضابطوں کا پابند بنانا اب دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک کا عمومی رجحان اور نیا نکتہ بحث ہے۔ پاکستان کے جمہوریت پسند سیاست دان اور دانشور مگر اس سے بالکل بے خبر ہیں۔
کیااس ملک کے سارے معاملات بس سیاسی مفاد کے سایے میں چلیں گے۔ کسان پیکیج کا معاملہ دیکھیے۔ پہلاسوال مسلم لیگ نواز سے بنتا ہے۔ کسان پیکیج کے یہ سارے پہلو میزانیے میں اُجاگر کیوں نہیں کیے گیے تھے؟ اگر یہ پیکیج ضمنی اور بلدیاتی انتخابات میں سیاسی فائدہ اُٹھانے کے لیے نہیں تھا تو پھر یہ خاموشی کی قبر میں ڈیڑھ سال سے کیوں سویا ہوا تھا؟ اگلے سوالات اداروں سے بنتے ہیں۔ کیا یہ پیکیج محض دو حلقوں کے ضمنی انتخابات کے رائے دہندگان کے لیے تھا؟ اگر یہ سارے ملک کے لیےتھا تو پھر اس اندھے بہرے الیکشن کمیشن نے اسے معطل کیوں کیا؟ اگر اس سےسیاسی جماعت کےطو رپر مسلم لیگ نون فائدہ اُٹھا سکتی تھی تو اسے فائدہ اُٹھانے سے روکنے کے لیے صرف اس کی تشہیر پر پابندی کیوں نہیں لگائی جاسکتی تھی؟کیا ادارتی دانش بھی گھاس چرنے چلی جاتی ہے؟
وزیراطلاعات وقانون کو معلوم نہیں کب خبر ہوئی کہ عمران خان پاکستان کے دشمنوں سے پیسے لیتے ہیں؟ وہ جو کاغذ لہرا لہرا کر عمران خان کو چور ، غدار اور پاکستان کا دشمن کہہ رہے تھے۔ ایسے کاغذ یہاں سب کے خلاف نکل آتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ یہ زبان استعمال کیسے کر سکتے ہیں؟ چور ، غدار اور پاکستان دشمن الفاظ اپنی اصل میں ایک فیصلہ ہے۔ کیاوہ یہ ثبوت لے کر عدالت گیے ہیں ؟ اُن کی حکومت نے اب تک اس پر کوئی اقدام کیوں نہیں اُٹھایا؟یالوگوں کی غداری کے ثبوت بھی محض اس لیے اکٹھے کیے جاتے ہیں کہ اس سے سیاسی فائدے اپنے وقت پر سمیٹے جائیں۔کیا یہ ثبوت اگر اصلی ہیں تو اس لیے محفوظ رکھے گیے تھے کہ اِسے عمران خان کے لیے انتخابات میں استعمال کیے جائیں۔ اگر ملک سے وفاداری یا غداری کا معاملہ بھی سیاست کے ادنیٰ مفادات کی تحویل میں چلا جائے گا ، تو پھر باقی کیا بچے گا؟ مسلم لیگ نون کو سمجھنا چاہیے کہ اظہار ہی انسان کا کر دار ہے۔ انگریزی ناول نگار جارج اورویل نے ایک جگہ لکھا ہے کہ
” if thought corrupts language, language can also corrupt thought “
(اگر خیالات زبان کوغلیظ کر سکتے ہیں تو زبان بھی خیالات کوغلیظ کر سکتی ہے)
آج کل یہی ہمارا مشاہدہ ہے جس میں کسی کے خیالات نے زبان کو اور کسی کی زبان نے خیالات کو آلودہ بنا دیا ہے۔ دونوں جماعت کے رہنماوؤں کی خدمت میں عربی زبان کی ہی ایک تنبیہ پیشِ خدمت ہے کہ
طُولُ اللّسَانِ یُقصِرُ الاَ جَلَ
(زباں درازی ، عمر کو کم کرتی ہے)
ایک زباں دراز تھوڑی دیر کے لیے بول تو لیتا ہے مگر وہ زیادہ دیر کے لیے برقرار نہیں رہ پاتا ۔ پھر وہ وقت کے بہاؤ میں غیر متعلق ہو جاتا ہے۔ فصیح و بلیغ زبان ایسے آدمی کو زندہ تسلیم نہیں کرتی ۔
سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے فل کورٹ بینچ نے معاملے کی سماعت کی۔سماعت کو براہ راست سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر نشر کیا گیا۔سماعت کے آغاز پر سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا...
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پاکستان تحریک انصاف نے حکومت کے خلاف فیصلہ کن لانگ مارچ کا فیصلہ کر لیا، پارٹی سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ ظالموں کو مزید مہلت نہیں دیں گے، جلد تاریخی لانگ مارچ کی تاریخ کا باضابطہ اعلان کروں گا۔ پارٹی کے مرکزی قائدین کے اہم ترین مشاورتی اجلاس ہفتہ کو چیئرمین تحریک انصاف عمران ...
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ امریکی سائفر کی تحقیقات کی جائیں تو اسمبلی واپس آ سکتے ہیں، اسٹیبلشمنٹ سے ہمارے اچھے تعلقات تھے، پتا نہیں یہ کب اور کیسے خراب ہوئے؟ اپوزیشن سے زیادہ حکومت کو اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات کی ضرورت ہوتی ہے، اپوزیشن میں رہ...
سپریم کورٹ نے ایک بار پھر پاکستان تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں واپسی کا مشورہ دے دیا،چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ عوام نے آپ کو5سال کے لیے منتخب کیا ہے، پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں اپنا کردار ادا کرے، پارلیمان میں کردار ادا کرنا ہی اصل فریضہ ہے،مرحلہ وار استعفو...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ایک دفعہ ملک میں قانون کی بالادستی قائم کر دیں ہم ملک کے حالات ٹھیک کر کے دکھائیں گے، اوورسیز پاکستانی جب سرمایہ کاری کریں گے تو آئی ایم ایف کی ضرورت نہیں پڑے گی، جب تک انصاف کا نظام ٹھیک نہیں ہوتا تب تک معی...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...