... loading ...
موسمی پھل اور سوغات کے تحائف ایک دوسرے کو بھجوانا ایک قدیم روایت ہے۔ ماضی قریب میں بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اﷲ خان اپنے ذاتی باغات سے آموں کی پیٹیاں تحائف کی صورت میں سیاستدانوں اور صحافیوں کا بھجوایا کرتے تھے۔ ا س قسم کی مختلف روایات آج بھی جاری ہیں۔ بیورکریسی کے اعلیٰ افسران کو ان کے ماتحتوں کی جانب سے تحائف بھجوانے کا عمل بھی جاری و ساری ہے۔ افسران کو تحائف بجھوانے والے اگرچہ خاندانی طور پر مستحکم نہیں ہوتے ۔ زیادہ تر لوگوں کے نہ تو باغات ہوتے ہیں اور نہ ایسے ذاتی وسائل کہ وہ اپنی سوغات افسرانِ بالا کی نذر کر سکیں۔ لہذا یہ مخلوق فطر ت کے حسن پر ڈا کا ڈالتی ہے۔ جن علاقوں کی سر حدیں دریاؤں سے ملحقہ ہیں وہ بڑے شہروں کے مکینوں کو مچھلی کے تحائف ارسال کرتے ہیں۔ لاہور اور دیگر بڑے شہروں میں رہنے والے فش فارموں کی مچھلی کا ذائقہ دریائی مچھلی سے بدل کر خوش ہوتے ہیں۔
اس روایت کا سب سے تکلیف دہ پہلو نادر اور نایاب قسم کے جانورں اور پرندوں کا بے دریغ شکار ہے۔ میرے علم میں آیا ہے کہ آج کل ہمارے ہاں بہت سے سرکاری محکموں کے افسران کو ان کے ماتحت شکار شدہ مرغابیوں کے تحائف ارسال کر رہے ہیں۔استفسار پر معلوم ہواہے جن علاقوں میں یہ شکار جاری ہے وہاں شکار شدہ مرغابی پچاس سے سو روپے کی ارزاں قیمت پر بآسانی مل جاتی ہے۔پنجاب کے شمال مغربی ضلع میانوالی سے موسم سرما کے چار مہینوں اکتوبر سے جنوری تک آبی پرندے بڑی تعداد میں شکار کیے جاتے ہیں۔ روایتی شکاریوں کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے بیوروکریٹ اور سیاستدانوں نے بھی اس ممنوعہ شکار میں حصہ لینا شروع کر دیا ہے۔فطرت سے اپنی اُنسیت کے حوالے سے میں دو سال سے اس موضوع پر ریسرچ میں مصروف ہوں۔اس دوران انسان کی بے رحمی اور شکار کے نام پر معصوم پر ندوں کے بے دریغ قتلِ عام نے بہت زیادہ دُکھی کیا۔ قدرت نے ہمارے ملک کو موسموں کی نعمتوں کے ساتھ ساتھ نیچر کی تمام ترخوبصورتیوں سے نوازا ہے۔ موسم سرما کی شدت کے ساتھ ہی روس کے برفانی علاقوں سے ہجرت کرنے والے مختلف اقسام کے خوبصورت پرندوں کی بڑی تعداد ہماری جھیلوں کا رُخ کرتی ہے۔ ان میں مرغابی، نیل سر اور سائبرین کرین( سفید کونج ) شامل ہیں۔ جس بڑی تعداد میں یہ خوبصورت پرندے پاکستان کا رُخ کرتے ہیں ،اُسی بے دردی کے ساتھ یہ شکاریوں کا نشانا بن جاتے ہیں۔ ہجرتوں کے موسموں اور بے دریغ شکار نے فطرت کے شاہکار ان خوبصورت پرندوں میں سے سفید کونج (Siberian Crane ) کی نسل کی بقاء کو شدید ترین خطرات سے دو چار کر دیا ہے۔
سائبیر یا کے دریائے ’’ اوب‘‘ کے کنارے چھوٹی بڑی آب گاہوں کے پھیلے ہوئے طویل سلسلہ میں پیدا ہونے اور پروان چڑھنے والی سفید کونج موسمِ سرما کے آغاز میں اس وقت نسبتاً گرم علاقوں کا رخ کرتی ہے جب سردی اور برف جمنے کی وجہ سے دریاؤں اور جھیلوں کی مچھلیاں پانی کی تہ میں چلی جاتی ہیں۔سفید کونج کا چہرہ چونچ سے لے کر آنکھوں سے کچھ اوپر تک سرخ رنگ کے نقاب سے ڈھکا ہوا ہوتا ہے۔جو اس سفید بُراق رنگ کے آبی پرندے کے حسن کو چار چاند لگا دیتا ہے۔سفید کونج کو انگریزی میں سائبیرین کرین (Siberian Crane )اور سائنسی اصطلاح میں اس کی نسل کو Leucogeranus Gurs کہتے ہیں۔اس کا قد ایک اعشاریہ چار میٹر تک بلند ہوتا ہے۔سفید کونج کے پروں کی لمبائی 2.1 سے 2.3 ،میٹر تک ہوتی ہے جبکہ وزن 4.9 سے 8.6 کلو گرام تک ہوتا ہے۔نر اور مادہ کونج تقریباً ایک جیسی ہی جسامت اور رنگ و روپ رکھتی ہیں۔تاہم نر کونج کا قد ذرا نکلتا ہوا ہوتا ہے۔سائبیریامیں اس کونج کی تین بڑی آبادیاں ہیں۔ کونجوں کی دوسری بڑی آبادی ’’ مرکزی‘‘ سے (جو مغربی سائبیریا میں ہے) ہر سال سفید کونجوں کی بڑی تعداد 3700 میل کا فاصلہ طے کرکے افغانستان اور پاکستان کے مختلف علاقوں سے پرواز کرتے ہوئے بھارت کے علاقے راجھستان میں واقع کیولا نیشنل پارک اور بھرت پور تک پہنچتی ہے۔مئی اور جولائی کا وسط سائبیرین کونج کے انڈے دینے کا موسم ہوتا ہے۔یہ صرف دو انڈے دیتی ہے جن میں سے صرف ایک بچہ نکلتا ہے۔ اس لئے اس کی افزائشِ نسل بہت ہی محدود ہے۔
ماحول پر کام کرنے والے ماہرین نے مجھے بتایا کہ گزشتہ مہینے سندھ، جناح بیراج اور چشمہ بیراج کے علاقے میں سائبیرین کونج کے حوالے سے ایک تفصیلی سروے کے بعد رپورٹ تیار کی گئی ، جس میں کہا گیا ہے کہ سائبیریا سے ہجرت، سرمائی ٹھکانوں کی ترقیاتی سرگرمیوں اور بے دریغ شکار نے سفید کونج کی نسل کی بقاء کو سنگین خطرات سے دوچار کر رکھا ہے۔اکتوبر 2013 ء کے اوائل میں سفید کونجوں کی خاصی تعداد کالاباغ سے لے کر چشمہ بیراج کے پانڈ ایریا اور جھیلوں، نمل جھیل اور سندھ کی منچھر جھیل میں موجود تھی۔ لیکن اس علاقے میں جاری مرغابیوں اور دیگر آبی پرندوں کے بے دریغ شکار نے سائبرین کرین کی نسل کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دو ماہ قبل اس علاقے میں سفید کونجوں کی تعداد سینکڑوں میں تھی جو اب انتہائی کم ہو چکی ہے۔ان دنوں صرف پانچ سے سات درجن کونجیں ہی ان سرمائی ٹھکانوں پر نظر آتی ہیں۔ سائبیرین کرین کی نسل کی بقاء کے لئے 1970 ء سے کوششیں کی جارہی ہیں۔لیکن اس کے باوجود اس کی نسل میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے۔ یہ خوبصورت پرندہ ماحول کی عالمی انجمن ’’ آئی یو سی این‘‘ کی بقاء کے خطرات سے دو چار جانوروں اور طیور( پرندوں) کی سرخ فہرست2002 (Red list ) میں شامل ہے۔اور اسے شدیدخطرات سے دوچار پرندے کا درجہ دیا گیا ہے۔سائبیرین کرین کو خطرات سے دوچار جانوروں اور پودوں کی عالمی تجارت سے متعلق معاہدے CITES اور ہجرت کرنے والے پرندوں سے متعلق عالمی معاہدے جسے ’’ بون کنونشن‘‘ بھی کہتے ہیں کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا ہے۔
چاروں صوبوں میں وائلڈ لائف کے تحفظ کے لئے محکمے قائم ہیں۔ اربوں روپئے کے فنڈز ان محکموں پر خرچ کیے جارہے ہیں۔ لیکن یہ محکمے جنگلی حیات کے تحفظ میں بری طرح ناکام نظر آتے ہیں۔ میاں شہباز شریف نے اپنے سابقہ دورِ حکومت میں تو وائلڈ لائف کے حوالے سے ایک ٹاسک فورس بھی تشکیل دی تھی۔ لیکن اس کی سربراہی سیاست کی نذر ہونے سے اس ٹاسک فورس کی کارکردگی بھی سستی روٹی ا سکیم اور دیگرا سکیموں کی طرح مایوس کن ہی رہی۔
ہمارے ملک میں قتل و غارت گری اس قد ر بڑھ گئی ہے انسان کی کوئی قیمت نہیں رہی۔ ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے برابر قرار دینے کے دین والے ملک میں انسانی جان کی قیمت اس قدر ارزاں کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ ایسے ماحول میں ہمار ی توجہ فطرت کی دیگر نعمتوں کے تشکر اور تحفظ کی جانب کم ہی پڑتی ہے۔ ملک بھر میں جھیلوں کے کنارے بدیسی پرندوں کا قتلِ عام جاری ہے۔ لیکن ہم میں سے کوئی بھی اس جانب متوجہ نہیں ہو رہا ہے۔
پاکستان نے ’’ ریو کانفرنس‘‘ میں حیاتیاتی تنوع کے معاہدے کو تسلیم کرنے اور اس عمل پیرا ہونے کا وعدہ بھی کیا تھا اور اس معاہدے پر دستخط بھی کیے تھے لیکن اس کے باوجود پاکستان میں ماحول اور حیاتیاتی تنوع خطرات سے دو چار ہے۔ تمام جانداربشمول انسان خالقِ کائنات کی زمین کے ماحولیاتی نظام میں ایک دوسرے میں پیوست کڑیاں ہیں لیکن اگر سفید کونج کی نسل بے دریغ شکار کی وجہ سے ختم ہو گئی تو زمین کے ماحولیاتی نظام کی اس کڑی کے نقصان کی انسان کیسے تلافی کرے گا۔
کچھ سال قبل محکمہ جنگلات کے ایک دفترمیں کباڑ (Un Serviceable articls ) کونیلام کیا گیا۔ تو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی پورٹریٹ اور بوسیدہ قومی پرچم کو بھی ایک ایک روپے کے عوض فروخت کر دیا گیا تھا۔اخبارات میں خبر کی اشاعت پر ڈویژنل فارسٹ آفیسر نے بڑے غرور کے ساتھ کہا...
برٹش وائلڈلائف فوٹوگرافی ایوارڈز میں شامل تصاویر سے اندازہ ہو رہا ہے کہ دیکھنے والی آنکھ کیا ہوتی ہے۔ 2015ء کے ان ایوارڈز میں "جانوروں کے رویے " سے لے کر "شہروں میں جنگلی حیات" تک مختلف موضوعات پر جیتنے والی تصاویر ان ہزاروں انٹریز میں سے منتخب ہوئیں جوشوقیہ اور پیشہ ورفوٹوگرافرز...
سپنس سے متعلقہ تحریں مجھے اپنے سحر سے نکلنے نہیں دیتیں۔ خاص کر مرڈر مسٹری کی دلدادہ ہوں۔مطالعہ کا شوق ورثے میں ملا ۔ دس سال کی عمر میں میری ایگتھا کرسٹی کی تحریروں سے اس کے ناول ’’مرڈر از ایزی‘‘ کے ذریعے سے شناسائی ہوئی۔یہ جادوئی اثر تحریروں کی خالق ناول نگارہ سے میری اولین مگر ا...
قصے کہانیاں، ماضی کے واقعات بیان کرنا انسانی فطرت کا حصہ رہا ہے۔آج سے ہزاروں سال پہلے جب انسان گھنے جنگلوں اورغاروں میں رہتا تھا تو اس وقت بھی وہ کہانیوں اور قصوں کا دلدادہ تھا۔اس دور میں انسان کی تفریح کا واحد ذریعہ کہانیاں ہی تھیں۔انسان کا داستان گوئی سے تعلق ہمیشہ سے ہی رہا ہ...
آسیب ایک خوبصورت لفظ ، بھیانک اثر کے ساتھ اپنے اندر پر اسراریت کا انبا ر سمیٹے ہوئے ہمارے ذہن پر اثر اندازہوتا ہے۔کبھی آسیب خوابوں میں آکر ہمیں پریشان کرتے ہیں۔ اورکبھی کبھی حقیقت کو بھیانک بنا دیتے ہیں۔ یکسانیت موت سے مماثلت رکھتی ہے۔ اور مجھے اس سے نفرت ہے۔اسی لئے ہر جگہ تبد...
ایک ننھا سا قطرۂ زہر رگوں میں پھیل کر روح کو جسم سے باہر دھکیلنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔زہر صدیوں سے قتل کے لئے استعمال ہونے والا سب سے خطرناک ، زور آور ، اور قابلِ اعتبار ہتھیار ہے۔ گو زہر کتنا ہی جان لیوا کیوں نہ ہو میرا ماننا ہے کہ زہر سے بھی خطرناک زہریلی سوچ ہوتی ہے۔زہر کا ہتھی...