... loading ...
ہمارے حجاج کرام اﷲ کے گھر سے واپس لوٹ رہے ہیں۔ ان کے پاس سانحہ منیٰ و جمرات کے سانحے کے بارے میں سنانے کے لئے بہت سی داستانیں ہیں۔ لیکن ہم نے اپنے الیکٹرانک میڈیا کی مدد سے حج کے دوران پیش آنے والے واقعات پر ان کی سنے بغیر پہلے ہی اپنی رائے نہ صرف قائم کر لی ہے بلکہ اس کی تبلیغ بھی شروع کر دی ہے۔ یہ رائے قائم کرنے میں جن لوگوں نے کردار ادا کیا ہے ، کیوں نہ ذرا ان کے اپنے کردار کا بھی تھوڑا سا جائزہ لے لیا جائے۔
ایک صاحب ہیں جو ہر محفل میں خود کو اسلام آباد کے با خبر صحافی کہلانے پر بضد ہوتے ہیں ، فرماتے ہیں کہ ذیابیطس کے باعث ان کی نظر کمزور ہے اس لئے عینک لگاتے ہیں جب کہ احباب کا خیال ہے کہ ان کی نظر ان کی بد اعمالیوں کے باعث کمزور ہوئی ہے ۔ جب لاہور میں ہوتے تھے تو کمال کیا کرتے تھے ۔کسی تھانے سے موبائل وین مانگ کر ملتان روڈ پر جا کر سڑک کے کنارے کھڑے ہوجاتے اور جعلی ٹریفک مجسٹریٹ بن کر آنے جانے والے ٹرکوں اور ویگنوں کے (جعلی) چالان کیا کرتے تاکہ اپنی غربت مٹانے کا کچھ سامان ہو۔ وہ تو ایک دن اصلی مجسٹریٹ نے دھرلیا تو بھانڈا پھوٹ گیا ۔ احباب کی محفلوں میں بیٹھے اکثر اپنی جنسی فتوحات کے واقعات مزے لے لے کر بیان کرتے پائے جاتے ہیں لیکن اُسی سانس میں اپنے حج اور عمروں کی تعداد کا ذکر کرنا بھی نہیں بھولتے تا کہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔ لیکن پوری گفتگو میں یہ معلوم نہیں ہوپاتا کہ ان دونوں کارناموں میں سے وہ کس بات پر فخر کر رہے ہوتے ہیں ؟ لیکن وہ کیا ہے کہ نظر کمزور ہے۔ حالانکہ ان کی گفتگو سن کر یہی لگتا ہے کہ موصوف کا کردار بھی اسی ضمن میں آتا ہے۔ موصوف کی گفتگو سن کر اکثر ایسے لگتا ہے کہ اپنے دن کا آغاز رب ذوالجلال کو نہیں بلکہ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر خود کو سجدہ کر کے کرتے ہیں۔
سانحہ منیٰ کے بعد موصوف نے اپنے ٹی وی پروگرام میں کیمرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اُس (مبینہ) سعودی شہزادے کی ایسی کی تیسی کر دی جو ایرانی بھائیوں کے ابتدائی طور پر جاری کردہ پروپیگنڈے کی پہلی قسط کے مطابق شیطان پر کنکریاں مارنے اپنی گاڑی میں بیٹھ کرآیا تھا اور اس کے لئے ٹریفک روکنا سانحہ منیٰ کا باعث بنا۔ موصوف کی دریدہ دہنی، کذب بیانی اور یاوہ گوئی جب تمام حدود پار کر گئی تواسی تحریک پر ہمیں اپنا لیپ ٹاپ نکال کر متعلقہ ویڈیو تلاش ہی کرنا پڑی جو موصوف اپنے پروگرام میں دکھا دکھا کر جھوٹ بول رہے تھے۔ مذکورہ ویڈیو پر تاریخ ترسیل سال ۲۱۰۲ ء لکھی ہوئی تھی۔ لگتا ہے یو ٹیوب والے بھی یا تو بک گئے یا پاکستان کے اس عظیم صحافی کے خلاف سازش کر گئے ۔ یعنی آپ کہہ سکتے ہیں اس واقعے پر بے ہنگم تقریر فرماتے ہوئے جو ویڈیو موصوف چلا رہے تھے، وہ تین سال پرانی اور عام دنوں کی تھی یعنی حج کے دنوں کی نہیں تھی۔ لا حول ولا قوۃ۔۔۔
اگر آپ کو یاد ہو تو خود کو باخبر کہنے والے یہ وہی صاحب ہیں جومنی لانڈرنگ کے مقدمے میں نامزد پاکستانی سپر ماڈل ایان علی کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے اخلاق اور قانون کی تمام حدود پار کر گئے تھے۔ انہوں نے اپنے پروگرام میں یہ خبر ’’بریک ‘‘ کی تھی ،ایان علی کم از کم چھ ماہ کی حاملہ ہیں۔ اس الف ننگی گفتگو کا پیمرا یا اس طرح کا کوئی اور ادارہ نوٹس کیوں اور کیا لیتا کہ لوگ تو زبان کا چسکا مانگتے ہیں۔ لیکن اگر موصوف کی بات مان لی جائے تو سوال تو اٹھایا جا سکتا ہے کہ اب توموصوفہ کو اس مقدمے میں ملوث ہوئے کافی عرصہ گزر گیا ہے۔ تو ان کی دی گئی ’’اندرونی خبر ‘‘ اب باہر بھی تو آجانی چاہیے۔ لیکن موصوف بھی دھواں دھار پروگرام کئے جا رہے ہیں، ایان بھی دھڑادھڑ تاریخیں بھگت رہی ہے اور ابھی تک کوئی بھی ’نتیجہ‘ منصہ شہود پر نہیں آیا۔ موصوف نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ ایان علی کسی کو اپنی لکھی گئی ڈائری کے اوراق بھی بھجوا رہی ہے جو امانتاً کسی کے پاس ہیں ،لیکن ان کی رسائی میں ہیں اور وہ ان یادداشتوں پر مشتمل ایک کتاب بھی چھپوائے گی۔لیکن کتاب تو کیا ڈائری ہی سرے سے غائب ہو گئی ہے۔
یار لوگوں نے بعد میں خبر دی کہ دو ارب روپے روزانہ کی دیہاڑی لگانے والی سابق سرکار نے موصوف کو حکم دیا تھا کہ لانچوں اور گھروں میں پکڑے جانے والے اربوں روپے کی خبروں سے توجہ ہٹائی جائے۔ تو موصوف نے یہ ڈگڈگی بجانا شروع کی ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کارکردگی کے نتیجے میں موصوف کو فوراً ہی پیپلز پارٹی کے ایک کارندے کے ٹی وی چینل میں ایک اعلیٰ عہدے پر متمکن کر دیا گیا۔ لیکن
ان پر ہی کیا موقوف ، ان سے بڑھ کر بھی ہمارے میڈیا میں کئی ذہنی بانجھ پڑے ہیں ۔ بات یہاں پر رک جاتی تو خیر تھی، ایک اور میڈیا ہاؤس نے مگر مچھ کے آنسو بہانا شروع کئے اور اسکرین پر ایک مذہب فروش مگر مچھ بھی بٹھا ڈالا، وہی مگر مچھ جس کے کردار کے بارے میں لاہور میں ’بی بی پاکدامن ‘ کے علاقے میں ناگفتہ بہ باتیں معروف ہیں۔
اس ٹی وی پر بیٹھی ایک خاتون اینکر چلاچلا کر کہہ رہی تھی کہ حاجیوں کی جانب سے دیوار توڑ کر نکلنے کی ویڈیو صرف انہی کے پاس ہے اور ساتھ میں مگر مچھ آنسو بہارہا تھا ۔ نیوز کاسٹر یہ چیخ چیخ کر دعویٰ کر رہی تھی کہ اس کرہ ارض پر چلنے والا واحد ان کا ٹی وی ہے جن کے پاس یہ بصری فیتہ موجود ہے۔ یعنی دنیا کا وہ تمام بین الاقوامی میڈیا جو واقعے کی لائیو کوریج کر رہا تھا ،اس کے پاس یہ بصری فیتہ موجود نہیں تھا لیکن ان کے ہیڈکوارٹر کراچی میں یہ موصول ہو گیا تھا ۔ مگر ان کے ساتھ بھی ہاتھ ہو گیا ، لگتا ہے یو ٹیوب کی انتظامیہ ہمارے میڈیا کو بے وقعت ثابت کرنے کے لیے ’را ‘ اور ’سی آئی اے ‘ کے ہاتھ میں کھیل گئی ،کیوں کہ جب ہم نے اس ویڈیو کو تلاش کیا تو اس پر بھی کئی سال پہلے کی تاریخ تھی۔اوپر سے مزید ظلم برادرعزیزسہیل جنجوعہ نے کر دیا، ان کا غصے سے بھرا فون آیا ، وہ بہت پریشان تھے ۔ فرمانے لگے کہ ان ویڈیوز میں دکھائے جانے والے حجاج کرام احرام میں نہیں ہیں۔ جب کہ رمی جمرات کے وقت لوگ احرام میں ہوتے ہیں۔ یار یہ لوگ ظلم کیوں کر رہے ہیں، اتنا جھوٹ بول کر یہ کیا ثابت کرنا چاہ رہے ہیں؟
اس سانحے کے حوالے سے بہت سے سوالات کے جواب آنا ابھی باقی ہیں۔ جب یہ سانحہ ہوا تو ایران نے فوراً اپنے سابق سفیر غضنفر رکن آبادی ، اور بیسیوں پاسداران انقلاب کے نام جاری کر دئیے جو اس حادثے میں جان سے گزر گئے تھے۔ غضنفر رکن آبادی لبنان میں ایران کے سفیر رہ چکے ہیں، (ان کو ایران میں ہیرو کا درجہ حاصل ہے کیوں کہ انہوں نے وہاں موجود حزب اﷲ ملیشیا کو لبنانی حکومت میں بزورِ بندوق شامل کروانے میں اہم کردار ادا کیا تھا)۔ لیکن جب ان ناموں کو حجاج کی فہرستوں میں تلاش کیا گیا تو پتہ چلا کہ ان ناموں کے حاجی تو سعودی عرب کی حدود میں سرے سے داخل ہی نہیں ہوئے۔ تو ظاہر ہے کہ یا تو پھر یہ غلط ناموں سے سفر کر رہے تھے یا پھر غیر قانونی راستے سے آئے تھے۔ دونوں صورتوں میں ان کے مقاصد بھی نیک تو نہیں ہو سکتے جب کہ ابتدائی تحقیق کے مطابق گرنی والی کرین کے پیچ ڈھیلے پائے گئے تھے اور ایسا کرنے والے افراد بصری فیتوں میں پہچانے جا سکتے ہیں۔
ایرانی جنرل قاسم سلیمان نے یمن میں کھڑے ہو کر کہا تھا کہ اس سال کا حج ہم کروائیں گے ورنہ خون کی ندیاں بہیں گی۔ ایرانی حکومت نے کہہ دیا کہ جنرل قاسم سلیمان کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے ، اس لئے حج تو وہ نہ کروا سکے لیکن خون کی ندیاں بہہ گئیں۔
اس لئے یہ اور ایسے بہت سے سوالات کے جواب ابھی آنا باقی ہیں۔ سعودی کہتے ہیں کہ اگر گھر میں لاشیں پڑی ہوں تو سیاست نہیں ہوتی۔ پہلے اﷲ کے مہمان لوٹ جائیں، ان لاشوں کو دفنا لیں تو پھر سب بصری فیتے بھی کھلیں گے اور کچھ لوگوں کے دامن ہائے بند قبا بھی۔ لیکن ہمارے ان لیری کنگز کو کون لگام ڈالے؟جو روزانہ اپنا اپنا چموٹا سنبھال کر بیٹھ جاتے ہیں۔
کوئی تین سال پہلے کی بات ہے کہ ہمارے ایک ہم عصر صحافی جو صحافت کرتے کرتے ایک دم غائب ہو گئے تھے، کچھ سالوں کے بعد ملے تو پتا چلا کہ وہ کابل میں ایک امریکی اخبار کے بیورو میں پائے جاتے ہیں اور ہر ماہ کسی افغان وار لارڈ کی طرح ڈالروں سے جیبیں بھرتے ہیں۔ پختون پس منظر کے باعث ان کو ...
جناب عمران خان نے رائیونڈ اور جاتی امراء چوک پر ایک اور جلسہ کرلیا۔ جلسے کی کامیابی یا ناکامی کا معیار ہر دو فریقین کے نزدیک دیگر ہے، لیکن یہ بات طے ہے کہ کوئی ربع صدی تک سیاسی جلسوں کے جائزوں کے بعد خاکسار کا خیال ہے کہ بیس ہزار وہ جادوئی ہندسہ ہے جس کو پار کر جانے کے بعد کوئی ب...
میاں محمد نواز شریف کا سخت سے سخت ناقد بھی اس بات کا معترف ہورہا ہے کہ انہوں نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک بھرپور اور پاکستان جیسے اہم اسلامی ملک کے شایانِ شان تقریر کی۔ پاک بھارت شملہ معاہدے کے بعد کشمیر پر یہ پہلی سفارتی ’’جارحیت‘‘ ہے جس کا اعزاز بھی ایک منتخب جمہوری ح...
ہمارا دفترگزشتہ ایک دہائی سے گلبرگ ، لاہور میں ہی واقع ہے۔ ادارہ بدلتا رہتا ہے لیکن علاقہ نہیں بدلتا۔ مشرف دور کی بات ہے ایک دن گھر کو واپسی کرتے ہوئے اُس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب کے گھر والی سڑک سے گزر کر نہر کے کنارے والی سڑک پر مڑے تو نہر کے کنارے بنی حفاظتی دیوار پر لکھا تھا ’...
دو دن قبل ہی چین سے افغانستان کو چلنے والی پہلی مال گاڑی تاجکستان اور ازبکستان کے راستوں سے ہوتی ہوئی افغان صوبہ مزار شریف کے سرحدی گاؤں حیراتان کی خشک بندرگاہ پرپہنچی ہے ۔ یہ مال گاڑی کوئی پندرہ روز قبل چین سے روانہ ہوئی تھی۔ دونوں ممالک اس کو ایک اہم تاریخی سنگِ میل قرار دے رہ...
میاں محمد نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان نوے کی دہائی میں سیاسی محاذ آرائی زوروں پر تھی تو بی بی کے خلاف مقتدر حلقوں کی طرف سے ایک خانہ ساز بدعنوانی یا کرپشن کا ’بیانیہ ‘ نہ صرف اوصول کیا گیا بلکہ اس کو حسبِ توفیق آگے بھی پھیلایا ، وہ بیانیہ تھا کہ ’’بے نظیر ،زرداری اور ان ...
سابق آمر صدر ایوب کے دور میں پشاور میں بڈابیر کے ہوائی اڈے پر سرخ دائرہ لگانے سے لے کر گزشتہ دنوں اسلام آباد میں لاہور، کراچی گیس پائپ لائن بچھانے کے منصوبے پر ہونے والے دستخط تک، پاکستان او ر روس کے دو طرفہ تعلقات بہت سے نشیب و فراز کا شکار رہے ہیں۔ پاکستان بننے کے فوراً بعد پنڈ...
حضرت ابراہیم ؑکو اپنے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی سے روکنے کیلئے بہکانے والا شیطان آج بھی اپنے اس عمل کو جاری رکھے ہوئے ہے کیونکہ یہ اس کی فطرت ہے اس نے مہلت مانگی تھی۔ 2015 کاحج اپنی خونریز یادیں چھوڑ گیا۔جمعرات 24 ستمبرصبح آٹھ سے نو بجے (سعودی وقت کے مطابق)منی میں جمرات پل ...
منیٰ حادثے کے بعد ایران اور سعودی عرب میں سخت تناؤ پایا جاتا ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے حادثے کی براہِ راست ذمہ دار سعودی حکومت کو قرار دیا ہے۔ ایران میں اس ضمن میں احتجاجی مظاہرے بھی منظم کیے گیے ہیں۔ دوسری طرف سعودی عرب نے اس مسئلے پر مکمل خاموشی اختیار کر...
سانحہ منیٰ میں ہونے والے جانی نقصان پر پورا عالم اسلام اشکبار ہے۔ اکثریت کی تشو یش کا محور ان کے وہ احباب تھے جو سال رواں خود فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے حجاز مقدس گئے تھے۔ تاہم بہت سوں کی تشویش سانحہ کے بعد پیدا شدہ حالات کے باعث تھی کیونکہ دیگر مسلم ممالک کے ردعمل کے برخلاف براد...
رواں سال حج کے دوران بھگدڑ اور اس میں سینکڑوں افراد کی شہادت ایک ایسا سانحہ ہے جو لاکھوں، کروڑوں مسلمانوں کے دلوں میں تاعمر زندہ رہے گا۔ بھگدڑ جیسے لفظ کو سنتے ہی ہمارے ذہن میں جو تصور ابھرتا ہے وہ انتہائی بھیانک ہوتا ہے کہ لوگ دیوانہ وار اپنی جان بچانے کے لیے دوڑ رہے ہیں اور کسی...
سعودی عرب کی وزارتِ داخلہ نے تقریباً 1100 ایسے افراد کی تصاویر غیر ملکی سفارت خانوں کو جاری کی ہیں جو رواں سال حج کے دوران حجازِ مقدس میں جاں بحق ہوئے۔ یہ تصاویر پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جن لاشوں کی پہچان ابھی تک نہیں ہوسکی، انہیں لواحقین تک پہنچایا جا سکے۔ وزارت داخلہ کے تر...