... loading ...
اس امر میں شک کی گنجائش نہیں کہ بلوچستان بلوچ اور پشتون آبادی پر مشتمل صوبہ ہے اور یہ دو نوں اقوام سینکڑوں ہزاروں سال سے اپنی اپنی سر زمین پر آباد چلے آرہے ہیں ۔قیام پاکستان سے پہلے کوئٹہ میں بالخصوص پنجابی ،اردو بولنے والے اور ہزارہ برادری کے خاندانوں نے رہائش اختیار کر لی تھی ۔یہ آبادیاں انگریز حکومت میں ملازمتوں ،محنت مزدوری اور کاروبار کی غرض سے آباد ہوئیں۔ برطانوی راج کے دوران بھی بلوچستان در حقیقت بلوچ اور پشتون منطقوں میں منقسم تھا ۔یہ تقسیم ریاستی بلوچستان اور برٹش بلوچستان یا چیف کمشنر صوبہ کے نام سے تھی ۔چیف کمشنری صوبہ1879ء سے پہلے افغانستان کا حصہ تھا ۔ انگریز نے 26مئی 1879ء کو افغان حکمران امیر محمد یعقوب خان کو معاہدہ ’’گندمک ‘‘پر مجبور کر کے کوئٹہ ،سبی ،لورالائی ،ژو ب اور پشین کے علاقے ہتھیا لئے۔ اور پھر 1893ء میں انگریزوں نے ڈیورنڈ لائن کے ذریعے ایک مستقل سرحدی لکیر کھینچ دی۔1887ء میں ان علاقوں کو چیف کمشنر صوبے کا نام دیا گیا۔ چیف کمشنری صوبہ قلات کی ریاست سے ایک الگ اور مکمل انتظامی یونٹ تھا۔ اس صوبے کا دارلحکومت کوئٹہ تھا ۔انگریز گورنر جنرل اور وائسر ائے کا نمائندہ یہاں بیٹھتا تھا جسے ایجنٹ ٹو گورنر یا( AGG)کہا جاتا تھا۔قلات ریاست کا سربراہ ’’خان‘‘ تھا۔ قیام پاکستان کے بعد 1954ء تک آبادی اور علاقوں کی یہی تقسیم رہی ۔
جب ون یونٹ قائم ہوا تو اس خطے کو دو حصوں یعنی قلات ڈویژن اور کوئٹہ ڈویژن میں تقسیم رکھا گیا ۔البتہ ون یونٹ کے ختم ہونے کے بعد ان دو اقوام پر مشتمل خطوں کو ایک صوبہ یعنی ’’بلوچستان ‘‘ بنایا گیا ۔عبدالصمد خان اچکزئی نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) سے بطور احتجاج علیحدہ ہوئے ۔ وہ چاہتے تھے کہ چیف کمشنر صوبے کو الگ صوبہ بنایا جائے یا خیبر پختونخوا کے ساتھ ملایا جائے۔عبدالصمد خان اچکزئی کی اس تجویز سے عبدالولی خان کو بھی اتفاق نہ تھا ، اس طرح عبدالصمد خان اچکزئی نے الگ پشتون صوبے کے قیام اور قومی حقوق کی بنیاد پر سیاسی تحریک کا آغاز کر دیا۔ تب سے اب تک پشتونخوا ملی عوامی پارٹی بلوچستان کے اندر برابری اور الگ صوبے کے قیام کی بنیاد پر سیاست کر رہی ہے ۔بلوچ قوم پرست،پشتونوں کے الگ صوبے کے قیام کی خواہش کا احترام تو کرتے ہیں لیکن وہ سبی اور کوئٹہ سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔یہ تنازع اُٹھتا رہتا ہے، جو سیاسی محاذ آرائی کا سبب بن جاتا ہے ۔ یہ نسلی تفریق مختلف ادوار میں تصادم کا باعث بن چکی ہے، حتیٰ کہ خونی رنگ بھی اختیار کر چکی ہے ۔دونوں اقوام کے درمیان آبادی پر بھی اختلاف رائے موجود ہے ۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی دعویٰ کرتی ہے کہ پشتونوں کی آبادی بلوچوں سے زیادہ ہے اور بلوچوں کا دعویٰ اس کے برعکس ہے ۔بلوچ چونکہ سرکاری اعداد و شمار پیش کرتے ہیں جس کے مطابق بلا شبہ اُن کی آبادی بڑھ کر ہے ۔جبکہ پشتون قوم پرست مردم شماری کو تسلیم نہیں کرتے وہ الزام لگاتے ہیں کہ چونکہ حکومتی مشینری بلوچوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے اس بناء پر آبادی کو بڑھا چڑھا کر اندراج کرا دیاجاتا ہے ۔
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے 1981ء کی مردم شماری پر بھی انہی تحفظات کا اظہار کیا تھا اور 1998ء کی مردم شماری کا اسی خدشے کے پیش نظر بائیکاٹ کیا تھا۔اُس وقت سردار اختر جان مینگل بلوچستان کے وزیر اعلیٰ تھے ۔اس پشتون قوم پرست جماعت نے کوئٹہ اور پشتون علاقوں میں مردم شماری کے عمل کو سبوتاژ کیا ۔ مردم شماری تو بہر حال تکمیل کو پہنچی لیکن پشتونوں کی ایک بڑی آبادی احتجاج کے اس نا مناسب طریقہ کار کے باعث اندراج سے محروم کر دی گئی۔اس نقصان کا ازالہ اب تک نہیں ہو سکا ہے ۔ یعنی پشتون آبادی کو برابر نقصان کا سامنا ہے ۔مگر اب بلوچ جماعتیں آئندہ ہونے والی مردم شماری پر معترض ہیں کہ افغان مہاجرین کا اندراج کیا جا رہا ہے ۔بلوچستان نیشنل پارٹی ایک عرصے سے افغان مہاجرین کی موجودگی ، ان کو شناختی کارڈ اور دیگر دستاویزات کی فراہمی کے خلاف احتجاج کر رہی ہے ۔حکمران جماعت ، نیشنل پارٹی بھی اس ضمن میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے موقف سے متفق ہے۔22؍جولائی 2015ء کو محمود خان اچکزئی نے بلوچ جماعتوں کے احتجاج کے پیش نظر اپنی ایک تقریر میں کہا کہ ’’افغانستان پشتونوں کا آبائی وطن ہے اور پاکستان ہمارا ملک ہے ۔آگے چل کر کہا کہ بلوچ پشتون برابری کو عملاً تسلیم کر کے اس صوبے کو (بلوچستان) کو مزید بہتری کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے ۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو جنوبی پشتونخوا (بلوچستان کے پشتون علاقے) کو اپنا صوبہ بنانے یا خیبر پختونخوا میں شامل ہونے کی راہ اپنانی ہو گی۔محمود خان اچکزئی کا مزید کہنا تھا کہ قومی شناختی کارڈ کے حصول میں بلوچ ، سندھی ،پنجابی اور سرائیکی اقوام کیلئے جو قوانین ہیں ، وہی پشتونوں پر لاگو ہوتے ہیں اور اس سے بالاتر کوئی قانون تسلیم نہیں کرتے اور مہاجرین کے نام پر باتیں صحیح نہیں۔‘‘
بلوچستان نیشنل پارٹی کے ترجمان نے23؍جولائی2015ء کو اس کے جواب میں کہا کہ بلوچستان میں بلوچ اور پشتون اپنی اپنی تاریخی سر زمین پر آباد ہیں اور مہاجرین کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ دس لاکھ افغان مہاجرین نہ صرف بلوچ بلکہ بلوچستانیوں بالخصوص پشتونوں کیلئے مسائل کا سبب بنتے جا رہے ہیں اور مقامی پشتونوں کا بھی معاشی استحصال ہو رہا ہے ۔لاکھوں افغان مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری کی کوئی قانونی اور آئینی حیثیت نہیں ہو گی۔ بی این پی نے دو ستمبر 2015ء کو اس مہم کے سلسلے میں کوئٹہ پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ ساڑھے پانچ لاکھ افغان مہاجر خاندانوں نے شناختی کارڈز ، پاسپورٹ اور دیگر دستاویزات حاصل کر رکھی ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کا تین ستمبر 2015ء کو بیان چھپا جس میں کہا گیا کہ افغان’’ کڈوال‘‘ کو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ ، خانہ مردم شماری سے جوڑنا تعجب خیز ہے۔ افغانوں کو اپنے وطن سے بے دخل کرنے والوں کے کردار اور اُن حالات کا ذکر کیے بغیر ایک قوم دوست، وطن پرست جماعت کی جانب سے مسلسل افغانوں کو طعنے غیر مہذب اور غیر شائستہ لہجہ سمجھ سے بالاتر ہے ۔محض ووٹ لینے اور شہ سرخیوں میں زندہ رہنے کیلئے افغانوں کے خلاف زہر اُگلنا ایک جماعت کی ذہنی اختراع کی عکاستی کرتا ہے ۔اور کہا کہ’’ اُمید ہے کہ صوبے کے وسیع العریض قوم پرست، وطن دوست پشتون ،بلوچ جماعتیں ان دونوں برادر اقوام کو عارضی ، وقتی مفادات کی بھینٹ چڑھنے نہیں دیں گی اور ہر قسم کی جذباتیت اور انتہا پسندی کو رد کرے گی۔‘‘آئندہ متوقع مردم شماری میں مشکلات حائل ہوں گی ۔حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان میں افغان مہاجرین لاکھوں کی تعداد میں اپنا اندراج بطور پاکستانی شہری کرا چکے ہیں اوراندراج کا یہ سلسلہ ہر منٹ ، ہر گھنٹہ اور ہر دن جاری رہتا ہے ۔افغان باشندے یہاں کی سیاست ،معاشرت اور معیشت سمیت زندگی کے ہر شعبے پر اثر انداز ہو چکے ہیں۔ معلوم نہیں کہ لفظ ’ ’کڈوال‘‘ کا کیا معنیٰ لیا جاتا ہے ۔’’ کڈوال‘‘ پشتو میں اُن کو کہتے ہیں جو ایک ہی وطن میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو جاتے ہیں۔پاکستان ایک الگ ملک ہے اور افغانستان دنیا کے جغرافیہ پر علیحدہ ملک کے نام سے وجود رکھتا ہے ۔کوئی شخص غزنی ، کابل ،قندہار، فرح یا افغانستان کے کسی علاقے سے آکر پاکستان میں رہائش اختیار کرے اور انہیں پاکستانی قومیت دی جائے کیونکہ وہ کڈوال ہے ،یہ کہاں کا انصاف ہے ۔نہ ہی پاکستان کے آئین و قانون میں’’ کڈوال‘‘ کی اس تشریح کی گنجائش اور اجازت ہے ۔اس سچ کو تسلیم کیا جائے کہ افغان مہاجرین اور افغان باشندے بلوچستان میں دھڑا دھڑ آباد ہو رہے ہیں۔
بلوچستان کے ضلع شیرانی کے علاقے دھانہ سر میں ایف سی چیک پوسٹ پردہشت گرد حملے میں 4 اہلکار شہید جبکہ ایک زخمی ہوگیا۔ ترجمان کے مطابق دہشت گرد حملے میں حملے میں ایک ایف سی اور3 پولیس اہلکار شہید ہوگئے، تفصیلات کے مطابق فائرنگ کے تبادلے میں ایک دہشت گرد ہلاک ہوگیا۔ فورسز اور دہشت گ...
بلوچستان میں پاک فوج کا ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہوگیا جس کے نتیجے میں 2 میجر سمیت 6 اہلکار شہید ہوگئے۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان کے مطابق پاک فوج کا ایک ہیلی کاپٹربلوچستان کے علاقے ہرنائی کے قریب گر کرتباہ ہوگیا۔ ہیلی کاپٹر حادثے میں 2 پائلٹ سم...
مشیر داخلہ بلوچستان میر ضیا ء لانگو نے خواتین اور بچوں سمیت سینکڑوں افراد کے سیلاب زدہ علاقوں میں پھنسنے کی تصدیق کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے ہر ممکن تعاون کا مطالبہ کیا ہے۔مشیر داخلہ بلوچستان میر ضیا لانگو اور ڈی جی پی ڈی ایم اے نے بارش سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے تصدیق کی ک...
بلوچستان میں سیلاب اور بارشوں نے ہر طرف تباہی مچا دی ہے جس سے صوبے کے بیشتر علاقے بجلی کی بندش کے باعث تاریکی میں ڈوب گئے، تمام مواصلاتی نظام سمیت فضائی راستے بھی منقطع ہوگئے۔ تفصیلات کے مطابق کوئٹہ شہر اور نواحی علاقوں میں مسلسل 30 گھنٹے سے زائد دیر تک کبھی تیز کبھی ہلکی بارش کا...
وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروا دی گئی، تحریک عدم اعتماد بلوچستان عوامی پارٹی، پی ٹی آئی، عوامی نیشنل پارٹی کے 14 ارکان کے دستخطوں سے جمع کروائی گئی ہے، تفصیلات کے مطابق بدھ کو بلوچستان عوامی پارٹی کے صدر سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خا...
کراچی سے چھینی اورچوری کی گئی فور وہیل گاڑیوں کے بلوچستان کی آئل فیلڈز میں استعمال کا انکشاف ہوا ہے۔پولیس حکام نے بتایا کہ گزشتہ دنوں شارع نور جہاں سے ایک کار لفٹر منظور عرف بافا کو گرفتارکیا تو اس نے انکشاف کیا کہ اس نے 5 سالوں (جنوری 2017 سیاکتوبر 2021 تک) میں کم از کم 35نئی فو...
2022 کے پہلے مہینے میں ملک کی امن و امان کی صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئی اور ملک میں دہشت گردوں کی جانب سے کیے گئے حملوں میں معمولی کمی آنے کے باجود ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔میڈیا رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں موجود ایک آزاد تھنک ٹینک پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کنفلکٹ اینڈ س...
جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان بلوچستان میں آئندہ حکومت سازی کیلئے متحرک ہوگئے، مولانا فضل الرحمان سے سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی نے ملاقات کی جس میں مولانا عبدالغفورحیدری، مولانا عبدالواسع، آغا محمود شاہ، کامران مرتضیٰ ، اپوزیشن لیڈر کے پی کے اسمبلی اکرم خان درانی ا...
پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز (پکس) کی سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2021 میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 56 فیصد اضافہ ہوا۔ پکس کی سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ ایک سال میں دہشت گردی کے 294 واقعات میں 376 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور 606 ...
حق دوتحریک کے قائد مولانا ہدایت الرحمان بلوچ کو تین سال کیلئے جماعت اسلامی کا صوبائی جنرل سیکرٹری مقرر کردیا گیا۔ امیرجماعت اسلامی بلوچستان مولانا عبدالحق ہاشمی نے ذمہ داران وشوریٰ اراکین کی مشاورت سے حق دو تحریک کے قائد عالم دین حضرت مولانا ہدایت الرحمان بلوچ کو2021تا2024تین سال...
بلوچستان کے ضلع کیچ میں دہشت گردوں کی جانب سے چیک پوسٹ پر حملہ کے نتیجے میں دو سیکیورٹی اہلکار شہید ہوگئے۔ترجمان پاک فوج کے مطابق بلوچستان کے ضلع کیچ میں دہشت گردوں کا چیک پوسٹ پر حملے کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں دوسیکیورٹی اہلکارجام شہادت نوش کرگئے،لائس نائیک منظرعباس شہید کا ...
حکومت نے افغان مہاجرین اور غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کرلیا ۔ نجی ٹی وی کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت افغانستان پر اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی، اجلاس میں افغان مہاجرین اور غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ذرائع نے ب...