وجود

... loading ...

وجود

بلوچستان میں افغان مہاجرین کا تنازع خطرناک ہو سکتا ہے!

پیر 05 اکتوبر 2015 بلوچستان میں افغان مہاجرین کا تنازع خطرناک ہو سکتا ہے!

AFGHAN-REFUGEES

اس امر میں شک کی گنجائش نہیں کہ بلوچستان بلوچ اور پشتون آبادی پر مشتمل صوبہ ہے اور یہ دو نوں اقوام سینکڑوں ہزاروں سال سے اپنی اپنی سر زمین پر آباد چلے آرہے ہیں ۔قیام پاکستان سے پہلے کوئٹہ میں بالخصوص پنجابی ،اردو بولنے والے اور ہزارہ برادری کے خاندانوں نے رہائش اختیار کر لی تھی ۔یہ آبادیاں انگریز حکومت میں ملازمتوں ،محنت مزدوری اور کاروبار کی غرض سے آباد ہوئیں۔ برطانوی راج کے دوران بھی بلوچستان در حقیقت بلوچ اور پشتون منطقوں میں منقسم تھا ۔یہ تقسیم ریاستی بلوچستان اور برٹش بلوچستان یا چیف کمشنر صوبہ کے نام سے تھی ۔چیف کمشنری صوبہ1879ء سے پہلے افغانستان کا حصہ تھا ۔ انگریز نے 26مئی 1879ء کو افغان حکمران امیر محمد یعقوب خان کو معاہدہ ’’گندمک ‘‘پر مجبور کر کے کوئٹہ ،سبی ،لورالائی ،ژو ب اور پشین کے علاقے ہتھیا لئے۔ اور پھر 1893ء میں انگریزوں نے ڈیورنڈ لائن کے ذریعے ایک مستقل سرحدی لکیر کھینچ دی۔1887ء میں ان علاقوں کو چیف کمشنر صوبے کا نام دیا گیا۔ چیف کمشنری صوبہ قلات کی ریاست سے ایک الگ اور مکمل انتظامی یونٹ تھا۔ اس صوبے کا دارلحکومت کوئٹہ تھا ۔انگریز گورنر جنرل اور وائسر ائے کا نمائندہ یہاں بیٹھتا تھا جسے ایجنٹ ٹو گورنر یا( AGG)کہا جاتا تھا۔قلات ریاست کا سربراہ ’’خان‘‘ تھا۔ قیام پاکستان کے بعد 1954ء تک آبادی اور علاقوں کی یہی تقسیم رہی ۔

بلوچستان نیشنل پارٹی ایک عرصے سےافغان مہاجرین کی موجودگی،ان کو شناختی کارڈاوردیگر دستاویزات کی فراہمی کے خلاف احتجاج کر رہی ہے

جب ون یونٹ قائم ہوا تو اس خطے کو دو حصوں یعنی قلات ڈویژن اور کوئٹہ ڈویژن میں تقسیم رکھا گیا ۔البتہ ون یونٹ کے ختم ہونے کے بعد ان دو اقوام پر مشتمل خطوں کو ایک صوبہ یعنی ’’بلوچستان ‘‘ بنایا گیا ۔عبدالصمد خان اچکزئی نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) سے بطور احتجاج علیحدہ ہوئے ۔ وہ چاہتے تھے کہ چیف کمشنر صوبے کو الگ صوبہ بنایا جائے یا خیبر پختونخوا کے ساتھ ملایا جائے۔عبدالصمد خان اچکزئی کی اس تجویز سے عبدالولی خان کو بھی اتفاق نہ تھا ، اس طرح عبدالصمد خان اچکزئی نے الگ پشتون صوبے کے قیام اور قومی حقوق کی بنیاد پر سیاسی تحریک کا آغاز کر دیا۔ تب سے اب تک پشتونخوا ملی عوامی پارٹی بلوچستان کے اندر برابری اور الگ صوبے کے قیام کی بنیاد پر سیاست کر رہی ہے ۔بلوچ قوم پرست،پشتونوں کے الگ صوبے کے قیام کی خواہش کا احترام تو کرتے ہیں لیکن وہ سبی اور کوئٹہ سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔یہ تنازع اُٹھتا رہتا ہے، جو سیاسی محاذ آرائی کا سبب بن جاتا ہے ۔ یہ نسلی تفریق مختلف ادوار میں تصادم کا باعث بن چکی ہے، حتیٰ کہ خونی رنگ بھی اختیار کر چکی ہے ۔دونوں اقوام کے درمیان آبادی پر بھی اختلاف رائے موجود ہے ۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی دعویٰ کرتی ہے کہ پشتونوں کی آبادی بلوچوں سے زیادہ ہے اور بلوچوں کا دعویٰ اس کے برعکس ہے ۔بلوچ چونکہ سرکاری اعداد و شمار پیش کرتے ہیں جس کے مطابق بلا شبہ اُن کی آبادی بڑھ کر ہے ۔جبکہ پشتون قوم پرست مردم شماری کو تسلیم نہیں کرتے وہ الزام لگاتے ہیں کہ چونکہ حکومتی مشینری بلوچوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے اس بناء پر آبادی کو بڑھا چڑھا کر اندراج کرا دیاجاتا ہے ۔

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے 1981ء کی مردم شماری پر بھی انہی تحفظات کا اظہار کیا تھا اور 1998ء کی مردم شماری کا اسی خدشے کے پیش نظر بائیکاٹ کیا تھا۔اُس وقت سردار اختر جان مینگل بلوچستان کے وزیر اعلیٰ تھے ۔اس پشتون قوم پرست جماعت نے کوئٹہ اور پشتون علاقوں میں مردم شماری کے عمل کو سبوتاژ کیا ۔ مردم شماری تو بہر حال تکمیل کو پہنچی لیکن پشتونوں کی ایک بڑی آبادی احتجاج کے اس نا مناسب طریقہ کار کے باعث اندراج سے محروم کر دی گئی۔اس نقصان کا ازالہ اب تک نہیں ہو سکا ہے ۔ یعنی پشتون آبادی کو برابر نقصان کا سامنا ہے ۔مگر اب بلوچ جماعتیں آئندہ ہونے والی مردم شماری پر معترض ہیں کہ افغان مہاجرین کا اندراج کیا جا رہا ہے ۔بلوچستان نیشنل پارٹی ایک عرصے سے افغان مہاجرین کی موجودگی ، ان کو شناختی کارڈ اور دیگر دستاویزات کی فراہمی کے خلاف احتجاج کر رہی ہے ۔حکمران جماعت ، نیشنل پارٹی بھی اس ضمن میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے موقف سے متفق ہے۔22؍جولائی 2015ء کو محمود خان اچکزئی نے بلوچ جماعتوں کے احتجاج کے پیش نظر اپنی ایک تقریر میں کہا کہ ’’افغانستان پشتونوں کا آبائی وطن ہے اور پاکستان ہمارا ملک ہے ۔آگے چل کر کہا کہ بلوچ پشتون برابری کو عملاً تسلیم کر کے اس صوبے کو (بلوچستان) کو مزید بہتری کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے ۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو جنوبی پشتونخوا (بلوچستان کے پشتون علاقے) کو اپنا صوبہ بنانے یا خیبر پختونخوا میں شامل ہونے کی راہ اپنانی ہو گی۔محمود خان اچکزئی کا مزید کہنا تھا کہ قومی شناختی کارڈ کے حصول میں بلوچ ، سندھی ،پنجابی اور سرائیکی اقوام کیلئے جو قوانین ہیں ، وہی پشتونوں پر لاگو ہوتے ہیں اور اس سے بالاتر کوئی قانون تسلیم نہیں کرتے اور مہاجرین کے نام پر باتیں صحیح نہیں۔‘‘

بلوچستان نیشنل پارٹی کے ترجمان نے23؍جولائی2015ء کو اس کے جواب میں کہا کہ بلوچستان میں بلوچ اور پشتون اپنی اپنی تاریخی سر زمین پر آباد ہیں اور مہاجرین کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ دس لاکھ افغان مہاجرین نہ صرف بلوچ بلکہ بلوچستانیوں بالخصوص پشتونوں کیلئے مسائل کا سبب بنتے جا رہے ہیں اور مقامی پشتونوں کا بھی معاشی استحصال ہو رہا ہے ۔لاکھوں افغان مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری کی کوئی قانونی اور آئینی حیثیت نہیں ہو گی۔ بی این پی نے دو ستمبر 2015ء کو اس مہم کے سلسلے میں کوئٹہ پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ ساڑھے پانچ لاکھ افغان مہاجر خاندانوں نے شناختی کارڈز ، پاسپورٹ اور دیگر دستاویزات حاصل کر رکھی ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کا تین ستمبر 2015ء کو بیان چھپا جس میں کہا گیا کہ افغان’’ کڈوال‘‘ کو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ ، خانہ مردم شماری سے جوڑنا تعجب خیز ہے۔ افغانوں کو اپنے وطن سے بے دخل کرنے والوں کے کردار اور اُن حالات کا ذکر کیے بغیر ایک قوم دوست، وطن پرست جماعت کی جانب سے مسلسل افغانوں کو طعنے غیر مہذب اور غیر شائستہ لہجہ سمجھ سے بالاتر ہے ۔محض ووٹ لینے اور شہ سرخیوں میں زندہ رہنے کیلئے افغانوں کے خلاف زہر اُگلنا ایک جماعت کی ذہنی اختراع کی عکاستی کرتا ہے ۔اور کہا کہ’’ اُمید ہے کہ صوبے کے وسیع العریض قوم پرست، وطن دوست پشتون ،بلوچ جماعتیں ان دونوں برادر اقوام کو عارضی ، وقتی مفادات کی بھینٹ چڑھنے نہیں دیں گی اور ہر قسم کی جذباتیت اور انتہا پسندی کو رد کرے گی۔‘‘آئندہ متوقع مردم شماری میں مشکلات حائل ہوں گی ۔حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان میں افغان مہاجرین لاکھوں کی تعداد میں اپنا اندراج بطور پاکستانی شہری کرا چکے ہیں اوراندراج کا یہ سلسلہ ہر منٹ ، ہر گھنٹہ اور ہر دن جاری رہتا ہے ۔افغان باشندے یہاں کی سیاست ،معاشرت اور معیشت سمیت زندگی کے ہر شعبے پر اثر انداز ہو چکے ہیں۔ معلوم نہیں کہ لفظ ’ ’کڈوال‘‘ کا کیا معنیٰ لیا جاتا ہے ۔’’ کڈوال‘‘ پشتو میں اُن کو کہتے ہیں جو ایک ہی وطن میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو جاتے ہیں۔پاکستان ایک الگ ملک ہے اور افغانستان دنیا کے جغرافیہ پر علیحدہ ملک کے نام سے وجود رکھتا ہے ۔کوئی شخص غزنی ، کابل ،قندہار، فرح یا افغانستان کے کسی علاقے سے آکر پاکستان میں رہائش اختیار کرے اور انہیں پاکستانی قومیت دی جائے کیونکہ وہ کڈوال ہے ،یہ کہاں کا انصاف ہے ۔نہ ہی پاکستان کے آئین و قانون میں’’ کڈوال‘‘ کی اس تشریح کی گنجائش اور اجازت ہے ۔اس سچ کو تسلیم کیا جائے کہ افغان مہاجرین اور افغان باشندے بلوچستان میں دھڑا دھڑ آباد ہو رہے ہیں۔


متعلقہ خبریں


بلوچستان: ضلع شیرانی میں چیک پوسٹ پرحملہ، 4 اہلکار شہید وجود - اتوار 02 جولائی 2023

بلوچستان کے ضلع شیرانی کے علاقے دھانہ سر میں ایف سی چیک پوسٹ پردہشت گرد حملے میں 4 اہلکار شہید جبکہ ایک زخمی ہوگیا۔ ترجمان کے مطابق دہشت گرد حملے میں حملے میں ایک ایف سی اور3 پولیس اہلکار شہید ہوگئے، تفصیلات  کے مطابق فائرنگ کے تبادلے میں ایک دہشت گرد ہلاک ہوگیا۔ فورسز اور دہشت گ...

بلوچستان: ضلع شیرانی میں چیک پوسٹ پرحملہ، 4 اہلکار شہید

بلوچستان میں پاک فوج کا ایک اورہیلی کاپٹر گرکرتباہ ، 2 میجرسمیت 6 اہلکار شہید وجود - پیر 26 ستمبر 2022

بلوچستان میں پاک فوج کا ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہوگیا جس کے نتیجے میں 2 میجر سمیت 6 اہلکار شہید ہوگئے۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان کے مطابق پاک فوج کا ایک ہیلی کاپٹربلوچستان کے علاقے ہرنائی کے قریب گر کرتباہ ہوگیا۔ ہیلی کاپٹر حادثے میں 2 پائلٹ سم...

بلوچستان میں پاک فوج کا ایک اورہیلی کاپٹر گرکرتباہ ، 2 میجرسمیت 6 اہلکار شہید

طوفانی بارش کے باعث کوئٹہ میں سیلاب کا خدشہ، عوام کو بائی پاس پر جمع ہونے کی ہدایت وجود - جمعه 26 اگست 2022

مشیر داخلہ بلوچستان میر ضیا ء لانگو نے خواتین اور بچوں سمیت سینکڑوں افراد کے سیلاب زدہ علاقوں میں پھنسنے کی تصدیق کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے ہر ممکن تعاون کا مطالبہ کیا ہے۔مشیر داخلہ بلوچستان میر ضیا لانگو اور ڈی جی پی ڈی ایم اے نے بارش سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے تصدیق کی ک...

طوفانی بارش کے باعث کوئٹہ میں سیلاب کا خدشہ، عوام کو بائی پاس پر جمع ہونے کی ہدایت

بلوچستان: بجلی، گیس اور مواصلاتی نظام تباہ، زمینی و فضائی راستے بند وجود - جمعه 26 اگست 2022

بلوچستان میں سیلاب اور بارشوں نے ہر طرف تباہی مچا دی ہے جس سے صوبے کے بیشتر علاقے بجلی کی بندش کے باعث تاریکی میں ڈوب گئے، تمام مواصلاتی نظام سمیت فضائی راستے بھی منقطع ہوگئے۔ تفصیلات کے مطابق کوئٹہ شہر اور نواحی علاقوں میں مسلسل 30 گھنٹے سے زائد دیر تک کبھی تیز کبھی ہلکی بارش کا...

بلوچستان: بجلی، گیس اور مواصلاتی نظام تباہ، زمینی و فضائی راستے  بند

بلوچستان میں سیاسی پارہ تیز، وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع وجود - بدھ 18 مئی 2022

وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروا دی گئی، تحریک عدم اعتماد بلوچستان عوامی پارٹی، پی ٹی آئی، عوامی نیشنل پارٹی کے 14 ارکان کے دستخطوں سے جمع کروائی گئی ہے، تفصیلات کے مطابق بدھ کو بلوچستان عوامی پارٹی کے صدر سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خا...

بلوچستان میں سیاسی پارہ تیز، وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع

کراچی سے چھینی گئی گاڑیاں بلوچستان میں پی پی ایل اور او جی ڈی سی ایل میں استعمال کا انکشاف وجود - جمعرات 10 فروری 2022

کراچی سے چھینی اورچوری کی گئی فور وہیل گاڑیوں کے بلوچستان کی آئل فیلڈز میں استعمال کا انکشاف ہوا ہے۔پولیس حکام نے بتایا کہ گزشتہ دنوں شارع نور جہاں سے ایک کار لفٹر منظور عرف بافا کو گرفتارکیا تو اس نے انکشاف کیا کہ اس نے 5 سالوں (جنوری 2017 سیاکتوبر 2021 تک) میں کم از کم 35نئی فو...

کراچی سے چھینی گئی گاڑیاں بلوچستان میں پی پی ایل اور او جی ڈی سی ایل میں استعمال کا انکشاف

جنوری 2022 میں دہشت گرد حملوں میں معمولی کمی ہوئی، رپورٹ وجود - جمعرات 03 فروری 2022

2022 کے پہلے مہینے میں ملک کی امن و امان کی صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئی اور ملک میں دہشت گردوں کی جانب سے کیے گئے حملوں میں معمولی کمی آنے کے باجود ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔میڈیا رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں موجود ایک آزاد تھنک ٹینک پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کنفلکٹ اینڈ س...

جنوری 2022 میں دہشت گرد حملوں میں معمولی کمی ہوئی، رپورٹ

مولانا فضل الرحمان بلوچستان میں آئندہ حکومت سازی کیلئے متحرک وجود - جمعه 21 جنوری 2022

جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان بلوچستان میں آئندہ حکومت سازی کیلئے متحرک ہوگئے، مولانا فضل الرحمان سے سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی نے ملاقات کی جس میں مولانا عبدالغفورحیدری، مولانا عبدالواسع، آغا محمود شاہ، کامران مرتضیٰ ، اپوزیشن لیڈر کے پی کے اسمبلی اکرم خان درانی ا...

مولانا فضل الرحمان بلوچستان میں آئندہ حکومت سازی کیلئے متحرک

پاکستان میں2021 میں دہشت گردی کے واقعات میں 56 فیصد اضافہ ہوا،رپورٹ وجود - جمعه 31 دسمبر 2021

پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز (پکس) کی سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2021 میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 56 فیصد اضافہ ہوا۔ پکس کی سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ ایک سال میں دہشت گردی کے 294 واقعات میں 376 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور 606 ...

پاکستان میں2021 میں دہشت گردی کے واقعات میں 56 فیصد اضافہ ہوا،رپورٹ

مولانا ہدایت الرحمان تین سال کیلئے جماعت اسلامی کے صوبائی جنرل سیکرٹری مقرر وجود - اتوار 26 دسمبر 2021

حق دوتحریک کے قائد مولانا ہدایت الرحمان بلوچ کو تین سال کیلئے جماعت اسلامی کا صوبائی جنرل سیکرٹری مقرر کردیا گیا۔ امیرجماعت اسلامی بلوچستان مولانا عبدالحق ہاشمی نے ذمہ داران وشوریٰ اراکین کی مشاورت سے حق دو تحریک کے قائد عالم دین حضرت مولانا ہدایت الرحمان بلوچ کو2021تا2024تین سال...

مولانا ہدایت الرحمان تین سال کیلئے جماعت اسلامی کے صوبائی جنرل سیکرٹری مقرر

بلوچستان ، کیچ میں دہشت گردوں کے حملے میں دو اہلکار شہید وجود - جمعه 24 دسمبر 2021

بلوچستان کے ضلع کیچ میں دہشت گردوں کی جانب سے چیک پوسٹ پر حملہ کے نتیجے میں دو سیکیورٹی اہلکار شہید ہوگئے۔ترجمان پاک فوج کے مطابق بلوچستان کے ضلع کیچ میں دہشت گردوں کا چیک پوسٹ پر حملے کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں دوسیکیورٹی اہلکارجام شہادت نوش کرگئے،لائس نائیک منظرعباس شہید کا ...

بلوچستان ، کیچ میں دہشت گردوں کے حملے میں دو اہلکار شہید

افغان مہاجرین اور غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو واپس بھیجنے کا فیصلہ وجود - هفته 18 دسمبر 2021

حکومت نے افغان مہاجرین اور غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کرلیا ۔ نجی ٹی وی کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت افغانستان پر اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی، اجلاس میں افغان مہاجرین اور غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ذرائع نے ب...

افغان مہاجرین اور غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو واپس بھیجنے کا فیصلہ

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر