... loading ...
تاریخ سے ہم یہ سیکھتے ہیں کہ تاریخ سے ہم کچھ نہیں سیکھتے۔ یہ مقولہ درست ہو یا نا ہو یہ سبق تاریخ سے ضرور ملتا ہے کہ تاریخ کبھی معروضی نہیں ہوتی!
مشہور پاکستانی نژاد ناول نگار بپسی سدھوا کے تقسیم ہندوستان کے تناظر میں لکھے گئے انگریزی ناولوں پر کسی بھارتی ادیب نے اعتراض کیا کہ ان میں ہمیشہ ہندوؤں اور سکھوں کے مظالم کا ذکر ملتا ہے، مسلمانوں نے تقسیم کے وقت جو زیادتیاں کیں ان کے بارے میں بپسی کا قلم خاموش ہے۔ بپسی نے (جو خود پارسی ہیں) اس الزام کا جواب ان الفاظ میں دیا کہ “دس از مائی ہسٹری، یو رائٹ یور اون ہسٹری ” (“یہ میری تاریخ ہے، تم اپنی تاریخ خود لکھو”)
اسلامی تاریخ، مسلمانوں کے مختلف گروہ اپنے اپنے “سچ” کی بنیاد پر مرتب کرتے آئے ہیں۔ عیسائی فرقے اس دوڑ میں کسی سے پیچھے نہیں ۔ ہندووں کی مذہبی تاریخ میں راون شمال میں بُرا کردار ہے اور جنوب کے تاملوں کا ہیرو۔ کوئی قوم، نسل، مذہبی گروہ ان اطوار سے پاک نہیں ہے۔
تاریخ کے تضادات محض ان ادوار کے مرہون منت نہیں ، جن میں مورخین درباری ہوا کرتے تھے۔ دور جدید میں اعلیٰ تعلیمی اداروں، آزاد عدالتوں اور ابلاغ عامہ کے تمام تر ذرائع کے باوجود تاریخ کی معروضیت سوالیہ نشان ہی بنی رہی ہے۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ کوئی شخص ریکارڈ پر اپنے بارے میں خود کوئی دعویٰ کرے تو ہمارے مورخین اپنی اعلیٰ تحقیق سے یہ ثابت کردیں گے کہ اس شخصیت کی اپنے ہی بارے میں معلومات حقیقت کے برعکس ہے۔ مثال کے طور پر قائد اعظم محمد علی جناح کراچی کو اپنی جائے پیدائش بتاتے تھے اور پاکستان میں بالعموم درسی کتب بھی یہی معلومات دیتی ہیں۔ تاہم سندھ اسمبلی کی قرارداد کے مطابق وہ مورخ درست قرار پاتے ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ آپ کراچی نہیں بلکہ ٹھٹھہ کے گاؤں جھرک میں پیدا ہوئے۔ پینسٹھ کی پاک بھارت جنگ میں دونوں ملکوں نے جیت کا دعویٰ کیا اور اس بارے میں دونوں کے تاریخ داں، حکمران اور عوام متضاد موّقف رکھتے ہیں جس کا مظاہرہ گزشتہ ماہ ستمبر میں بھی بھرپور انداز میں دیکھنے کو ملا۔ پاکستان مذہب کے نام پر وجود میں آیا یا سیکولر ریاست کے طور پر یہ معمہ مبارک علی اور ڈاکٹر صفدر محمود جیسے دانشوروں کے علمی ملاکھڑوں سے عوامی قارئین کی دلچسپی تو ضرور برقرار رکھے ہوئے ہے اور جناح انسٹی ٹیوٹ جیسے کئی اداروں کی مالی منفعت کا باعث ہے لیکن اس کا حل تلاش کرنا تاحال ناممکن ہی دکھائی دیتا ہے۔
اس تاریخ کی بنیاد پر خود کو مسلمان کہلانے والے بہت سارے افراد اور گروہ اپنے دین اسلام سے سلامتی کے تمام معنی خارج کرکے ایک دوسرے کو قتل کرنے کے تاریخی طور پر درپے رہے ہیں۔ اس تاریخ کی بنیاد پر ہم نے اسلام کو عبودیت، اخلاق، حسنِ سلوک، حقوق و فرائض، امانت، دیانت اور امن و آشتی کی بجائے ان شخصیات کی پرستش کا مذہب بنا لیا ہے جو اگر آج اس دنیا میں لوٹ آئیں تو اپنے نام لیواؤں سے اظہار برات کر کے اللہ کی پناہ مانگیں۔ ۔۔
چند ہی دنوں میں محرم کا مقدس مہینہ ہم پر سایہ فگن ہوگا لیکن اس کے ساتھ ہی خوف، نفرت اور دہشت کی لو بھی چلنے لگے گی۔ صدیوں پہلے کے واقعات اور ان کی متنازع تاریخ مسلمانوں میں کسی ایک یا ایک سے زائد فرقے کا “سچ” اور عقیدہ تو ضرور ہو سکتا ہے لیکن آج تعلیم یافتہ، باشعورمسلمانوں کی بڑی تعداد اتحادِ امت کا خواب دیکھتی ہے اور اسلام کو ایک نظام کی صورت میں دنیا پر غالب ہوتا دیکھنا چاہتی ہے۔ وہ ان مباحث سے شدید بیزار ہے جن کی وجہ سے فرقہ ورانہ نفرتوں کی آگ کے شعلے بلند ہوتے ہیں۔ آج کے مسلمان نوجوانوں میں دینی حمیت اور جذبہ گزشتہ نسلوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے چاہے وہ ظاہری طور پر کتنے ہی “غیر شرعی” نظر آئیں۔ ماضی قریب میں برٹش کونسل کے ایک سروے میں بھی یہ بات واضح تھی کہ پاکستان میں نوجوانوں کی اکثریت ملک میں شریعت کا نفاذچاہتی ہے۔ خوش قسمتی سے یہ نوجوان نسل اس فرقہ ورانہ “تاریخ” سے عمومی طور پر نابلد ہے اور مدارس میں مناظرے بازی کے لیے پڑھائے جانے والے ان مسائل سے بھی جو سات، آٹھ سال غریب طلبہ کے دماغوں میں ٹھونسے جاتے ہیں اور جب جگہ باقی نہیں رہتی تو سر پر تھان لپیٹ کر ان کی “دستار بندی” کر دی جاتی ہے۔
مغربی اور مقامی لادین میڈیا کی تمام تر کوششوں کے باوجود شام، عراق اور یمن کے تناظر میں جو فرقہ ورانہ آگ پاکستان میں بھڑکانے کی کوششیں کی جارہی ہیں وہ پاکستانی قوم اور بالخصوص نوجوانوں کے اجتماعی شعور نے ناکام بنا دی ہیں۔ ایران اور سعودی عرب سے جن متحارب فرقوں کی وفاداریاں مذہبی بنیاد پر زیادہ ہیں ان کو بھی اپنی مہمات میں عوامی تائید کے حصول میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ ان علامتوں سے لگتا ہے کہ شاید وہ وقت آگیا ہے کہ ہمارے علماء اور مذہبی پیشوا اپنے “تاریخی” لٹریچر اور مباحث کو مضبوط صندوقوں میں بند کر کے اس اسلام کی بات کریں جو ہماری نئی نسل کی امنگوں کے مطابق آج کی دنیا کے فکری، مادّی اور روحانی مسائل کے حل کے لیے رہنمائی فراہم کرے اور اس کارپوریٹ دور کے قیصر و کسریٰ کے استحصال سے انسانیت کو نجات دلائے۔ وہ دین جس کو پا کر عرب بدّو جہالت کے اندھیروں سے نکل کر ترقی پسندی کے راہ پر گامزن ہوئے اور چین و ہندوستان سے لے کر مصر و یونان کے علوم سے آگے کی بات کی، وہ دین کیا اس لیے آیا تھا کہ ہم اپنے مدارس میں ساری توانائی تو مخالف مسلک کے رد میں مواد تیار کرنے پر لگا دیں لیکن مغرب کی الحادی یلغار کے رد کی کوئی تیاری ہو نہ سودی نظام سے پاک عالمی معیشت کا کوئی نقشہ کسی نے سوچا ہو؟ ہاں، تحیّل سے ہم نے بینکاری کے نظام کو شرعی جامہ پہنانا خوب سیکھ لیا ہے کیونکہ ہر ناجائز کام کے لیے اس فن سے شرعی “گنجائش” نکالنے میں ہمارے کئی “علماء” خودکفیل ہیں اور اس میں مسلک کی بھی کوئی قید نہیں۔ ۔۔
فرقہ پرستی کی افیون کے نشے میں تاریخ سوچنا، مرتب کرنا، بیان کرنا اور اس کی بنیاد پر مناظروں اور کفر کے فتووں سے مسلمانوں کو تقسیم کرنا وہ صنعت ہے جو صدیوں سے ہمارے سیاسی اور معاشرتی انحطاط کا باعث بنتی آئی ہے۔ لیکن آثار یہی ہیں کہ انشاءاللہ آج کی مسلمان نوجوان نسل مجموعی طور پر اب اس کا حصہ نہیں بنے گی۔ مذہبی رہنماؤں اور تنظیموں کو یا تو اس نسل کو میثاق مدینہ اور حجت الوداع کی بنیاد پر اسلام کی صحیح تفسیر دینی ہوگی، بنیاد پہ قائم رہتے ہوئے حال اور مستقبل کی کامیابی کی راہ دکھانی ہوگی یا پھر الحاد جدید کے بڑھتے سایوں میں خدا نخواستہ کھو دینا ہو گا۔ اور اگر اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو پھر خدا کے پاس اپنا جواب سوچ لیں کہ تاریخ کی بھول بھلیاں دین تھیں یا اسلام کا سیدھا راستا!
ماڈل و اداکارہ عفت عمر نے کہا کہ صلاح الدین ایوبی ہمارے ہیرو نہیں ہیں، ترکوں نے ہم پر حملہ کیا۔ایک ٹی وی شو میں گفتگو کرتے ہوئے عفت عمر نے کہا کہ اگر میں موجودہ حکومت کی خامیاں تلاش کرتی ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میرا کسی سیاسی جماعت سے تعلق ہے، اگر ایک ادارہ دوسرے ادارے کے کا...
ہمارے ہاں ایک چھوٹا سا طبقہ یہ ثابت کرنے پر تُلا ہوا ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ 11 اگست 1947ء کو سندھ اسمبلی کی موجودہ عمارت میں پیدا ہوئے، اسی دن تحریک پاکستان پورے جوش و خروش کے ساتھ چلی اور چند ہی گھنٹوں میں پاکستان معرض وجود میں آ گیا، اسی دن قائد نے پاکستان کی پہلی دستور...
[caption id="attachment_34856" align="aligncenter" width="594"] حیدرآباد کے قریب سکندر آباد میں ایک پالتو چیتے کے ساتھ چند گورے افسران [/caption] ہمارے یہاں جنرل مشرف کے دور میں مارکیٹ سے اٹھائے ہوئے ایک افسر ایف بی آر کے چیئرمین جالگے۔ ایک رات ایوان صدر میں تقریب میں درجہ دوم...
قائد اعظم محمد علی جناح کی یہ تقریر دسمبر 1946ء میں ریکارڈ کی گئی تھی جو ہندوستان کی تقسیم کے حوالے سے ان کی نظریے کو واضح طور پر پیش کرتی ہے۔ وڈیو کے ساتھ ان کی تقریر کا مختصر اردو ترجمہ بھی ذیل میں پیش ہے۔ "آپ جانتے ہیں کہ ہندوستان میں بہت سارے عقائد، نسل اور مذاہب سے ت...
تاریخ کے طالب علم یا مطالعہ کرنے والے افراد کو عموماً یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ قرونِ وسطیٰ میں یورپ میں انتہائی ظالمانہ سزائیں دی جاتی تھیں۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں ظلم سرایت کرچکا ہو، وہاں عام افراد بھی خون کے اتنے ہی پیاسے تھے، جتنے کہ جاگیردار اور شاہی طبقہ۔ اس کی ایک جھلک گزش...
تاریخ پر اب تاریخ گزرتی ہے مگر کبھی تاریخ کے اوراق کھنگالے جائیں تو ایک رائے بہادر یار جنگ کی ملتی ہے، جسے اُنہوں نے کسی اورسے نہیں خود قائدِ اعظم محمد علی جناح کے سامنے ظاہر کیا تھا: پاکستان کو حاصل کرنا اتنامشکل نہیں جتنا پاکستان کو پاکستان بنانا مشکل ہو گا۔ اب دہائیاں بی...