... loading ...
کچھ الفاظ ایسے ہیں جو عام لوگوں کی زبان پر غلط چڑھ گئے ہیں لیکن یہ غلط العام نہیں ہوئے۔ غلط العام فصیح کہلاتا ہے۔ انہی میں ایک لفظ ’’اتائی‘‘ بھی ہے اور یہی صحیح ہے۔ جانے یہ کیسے ’’عطائی‘‘ ہوگیا، جب کہ ’اتائی‘ ہندی زبان کا لفظ ہے اور اس میں عربی کے ’ع‘ اور ’ط‘ کا کوئی گزر نہیں۔ بعض لوگ عطائی کی جگہ اتائی لکھنے کو غلط سمجھنے لگے ہیں۔ گزشتہ دنوں ٹی وی چینل ’اب تک‘ پر خبر تھی کہ ایک اتائی ڈاکٹر آپریشن کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ اتائی کا صحیح املا دیکھ کر خوشی ہوئی جس پر ’اب تک‘ کا عملہ تحسین کا مستحق ہے۔ کسی اناڑی یا خودساختہ ڈاکٹر کے لیے عطائی کا لفظ ویسے بھی بے معنی ہے۔ اگر یہ عطا سے ہے تو کس کی عطا؟ عطا کا مطلب تو معلوم ہی ہے کہ بخشش، فیض، سخاوت، کوئی چیز کسی کو دینا۔ عربی میں عطائی بھی ہے یعنی جس نے کوئی فن باقاعدگی سے حاصل نہ کیا ہو بلکہ ویسے ہی کوئی بات جانتا ہے۔ زیادہ پرانی بات نہیں جب طبیب و حکیم حضرات کسی ماہرِ فن کے پاس بیٹھ کر یہ علم حاصل کرتے تھے، اور آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں۔ یہ طبیہ کالج وغیرہ تو بہت بعد کی بات ہے۔ اب جسے کوئی علم عطا ہوگیا ہو اُسے عطائی تو کہا جا سکتا ہے، اناڑی نہیں۔ خاص طور پر ایلوپیتھی کے معالجین تو گھر بیٹھے ڈاکٹر نہیں بن سکتے، لیکن یہ بھی گلی گلی مل جائیں گے۔ بہرحال وہ جعلی ڈاکٹر جو آپریشن کرتے ہوئے پکڑا گیا وہ ’’اتائی‘‘ تھا۔ اسی کو نیم حکیم بھی کہا جا سکتا ہے جس کے بارے میں مثل مشہور ہے: ’’نیم حکیم خطرۂ جان‘‘۔
ایک اور لفظ ہے ’’قسائی‘‘ جس کا املا قصائی ہوگیا ہے۔ یہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے: بے رحم، سنگدل، ظالم۔ اسی سے ’’قساوت‘‘ ہے یعنی بے رحمی، سنگدلی۔ قساوت میں کوئی ’س‘ کی جگہ ’ص‘ استعمال نہیں کرتا۔ ایک جگہ گوشت کی دکان پر لکھا دیکھا تھا کہ ’’ہمیں قسائی نہ کہا جائے‘‘۔ غالباً اس قصاب کو قسائی کا مطلب معلوم تھا۔ قسائی تو ایسا قصائی ہوا کہ بہت معروف شاعر اور استاد حضرت عنایت علی خان نے بھی ایک مصرع میں قصائی استعمال کیا ہے: ’’کہتا ہے یہ قصائی سے جا کر کہ مہرباں‘‘ (سنڈے میگزین، 20 ستمبر)۔ ممکن ہے ’ص‘ سے قصائی لکھنے سے اس کی قساوت کم ہوجاتی ہو۔
اس بار عموماً تمام ذرائع ابلاغ نے عیدالاضحیٰ کو عیدالاضحیٰ ہی لکھا ہے، البتہ کچھ اشتہارات میں یہ اب بھی عیدالضحیٰ ہے۔ اضحیٰ اور ضحیٰ میں معانی بالکل بدل جاتے ہیں۔ اضحیٰ کا مطلب ہے: قربانی۔ اور ضحیٰ کا مطلب ہے: ’’ایک پہر دن چڑھے، چاشت کا وقت‘‘
ایک کثیر الاشاعت اخبار میں تین کالمی سرخی دیکھی ’’کوائف افشاں کرنے پر وزیرداخلہ برہم‘‘۔ ہم نے تو سنا ہے کہ افشاں مانگ میں چھڑکی جاتی ہے، افشاں نہیں کی جاتی۔ افشا کی جگہ افشاں ہمارے ساتھی بھی استعمال کر جاتے ہیں۔ افشاں فارسی کا لاحقہ فاعلی ہے اور افشاندن مصدر سے صیغہ امر ہے جو کسی اسم کے بعد آکر اسے اسم فاعل بنا دیتا ہے اور چھڑکنے والا کے معنی دیتا ہے جیسے ’’گل فشاں‘‘۔ ایک مصرع ہے
اِفشا (الف کے نیچے زیر) عربی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے: ظاہر کرنا، کھولنا، انکشاف کرنا۔ ہم سمیت بہت سے لوگ ’’افشا‘‘ کے الف کو بالفتح، یعنی زبر کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ ہم پر بھی یہ بعد میں اِفشا ہوا۔ ایک شعر بلاوجہ یاد آگیا:
20 ستمبر ہی کے سنڈے میگزین میں کتابوں پر تبصرے میں ایک دلچسپ غلطی نظر سے گزری ’’کتابی سلسلہ اس کی نذیر ہے‘‘۔ یہ تبصرہ پروفیسر انوار احمد زئی کا ہے اور اُن کے قلم سے نظیر کی جگہ نذیر نکل جانا ممکنات میں سے نہیں۔ یہ مشینی کتابت کا سہو معلوم ہوتا ہے۔ نذیر کا مطلب ہے: ڈرانے والا۔ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو بشیر اور نذیر کہا گیا ہے، یعنی خوش خبری دینے والا اور اﷲ سے ڈرانے والا۔ ممکن ہے کوئی کتابی سلسلہ نذیر یعنی ڈرانے والا بھی ہو۔
اس بار عموماً تمام ذرائع ابلاغ نے عیدالاضحیٰ کو عیدالاضحیٰ ہی لکھا ہے، البتہ کچھ اشتہارات میں یہ اب بھی عیدالضحیٰ ہے۔ اضحیٰ اور ضحیٰ میں معانی بالکل بدل جاتے ہیں۔ اضحیٰ کا مطلب ہے: قربانی۔ اور ضحیٰ کا مطلب ہے: ’’ایک پہر دن چڑھے، چاشت کا وقت‘‘۔ سورہ الضحیٰ تو سب ہی کو یاد ہوگی جس کا آغاز ہی والضحیٰ سے ہوتا ہے یعنی ’’قسم ہے روزِ روشن کی‘‘۔ پھر بھی عیدالاضحیٰ کو عیدالضحیٰ کہا اور لکھا جائے تو یہ زیادتی ہے۔
دہرا یا دہرے میں لغت کے مطابق ’و‘ نہیں آتا، یعنی اسے دوہرا لکھنا صحیح نہیں ہوگا۔ ہمارے کچھ ساتھی جب کوئی درخواست دیتے ہیں تو آغاز اس طرح کرتے ہیں: ’’گزارش عرض یہ ہے کہ……‘‘ مگر گزارش اور عرض دونوں کا مطلب ایک ہی ہے۔ عرض بڑا وسیع المعنیٰ لفظ ہے۔ اب اگر عرض کی ’ر‘ پر زبر ہو یعنی عَرَض تو اس کا مطلب ہے وہ چیز جو بجائے خود قائم نہ ہو، کسی دوسری چیز کی وجہ سے اس کا وجود قائم ہو جیسے پھول کا رنگ۔ اس میں پھول کی پنکھڑیاں اصل چیز یعنی جوہر ہیں اور رنگ عرض ہے۔
عَرْض بروزن فرض درخواست کے معنیٰ میں آتا ہے لیکن اس کا مطلب چوڑائی بھی ہے۔ طول و عرض سے سب واقف ہیں۔ درخواست یا گزارش ہی کے حوالے سے دربار میں ایک منصب ’’عرض بیگی‘‘ کا ہوتا تھا جو لوگوں کی درخواستیں بادشاہ کے سامنے پیش کرتا تھا۔ عرض لینا کا مطلب ہے: حاضری لینا، جائزہ لینا۔ سوداؔ کا شعر ہے:
یعنی قوتِ نامیہ (نمو کی قوت) یہ دیکھتی ہے کہ باغ میں کوئی ڈالی، پات، پھول، پھل نشوونما کے فیض سے محروم تو نہیں رہا۔ نشو عربی کا لفظ ہے لیکن کچھ لوگ اس کا تلفظ چلو، سنو، جلو‘‘ کے وزن پرکرتے ہیں، جب کہ یہ بروزن طرف، ظرف وغیرہ ہے۔
ایک لفظ اور ہے جس کا تلفظ ہم کوشش کے باوجود اپنے قارئین کو سمجھا نہیں پائے، اور وہ ہے ’’تشیع‘‘۔ اب بھی اچھے پڑھے لوگ اسے تشعی کہتے اور پڑھتے ہیں، جب کہ یہ ’’توجّہ‘‘ اور تمتع کے وزن پر ہے۔ ہرْج، ہرَج اور حرج بھی گڑبڑا دیتے ہیں۔ ہرْج جس میں ’ر‘ ساکن ہے (بروزن سرد) اس کا مطلب ہے: خلل، نقصان، خسارہ۔ واجد علی شاہ اختر، نواب اودھ کا شعر ہے:
اور ہرَج (’ر‘ متحرک) کا مطلب ہے: وقفہ، دیر، ڈھیل۔ اس کو نواب مرزا تعشق کے اس شعر سے سمجھیے:
یہ ہرَج بدن کے وزن پر ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہرَج مزج اور ہرج مرج دونوں کا مطلب ہے: مصیبتیں، پریشانیاں۔ ہرْج کیا ہے، یعنی کیا نقصان ہے، کیا خرابی ہے، کیا مضائقہ ہے۔ شوق قدوائی کا شعرہے:
جہاں تک حَرَج کا تعلق ہے تو یہ عربی کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے: تنگی، سختی، نقصان،کمی، ضرر، دیر، تضیع اوقات۔ ہرْج بھی عربی کا لفظ ہے۔ اردو میں اس سے ہرجانہ بنا لیا گیا یعنی ہرج کرنے کا معاوضہ، تاوان۔ ہرجہ، خرچہ سنا ہوگا۔ حارج کا استعمال اردو میں عام ہے، یہ عربی اور مذکر ہے، یعنی روکنے والا، مزاحمت کرنے والا۔
اسلام آباد میں جا بیٹھنے والے عزیزم عبدالخالق بٹ بھی کچھ کچھ ماہر لسانیات ہوتے جارہے ہیں۔ زبان و بیان سے گہرا شغف ہے۔ ان کا ٹیلی فون آیا کہ آپ نے ’’املا‘‘ کو مذکر لکھا ہے، جبکہ یہ مونث ہے۔ حوالہ فیروزاللغات کا تھا۔ اس میں املا مونث ہی ہے۔ دریں اثنا حضرت مفتی منیب مدظلہ کا فیصلہ ب...
اردو میں املا سے بڑا مسئلہ تلفظ کا ہے۔ متعدد ٹی وی چینل کھُمبیوں کی طرح اگ آنے کے بعد یہ مسئلہ اور سنگین ہوگیا ہے۔ اینکرز اور خبریں پڑھنے والوں کی بات تو رہی ایک طرف، وہ جو ماہرین اور تجزیہ کار آتے ہیں اُن کا تلفظ بھی مغالطے میں ڈالنے والا ہوتا ہے۔ مغالطہ اس لیے کہ جو کچھ ٹی وی س...
ہم یہ بات کئی بار لکھ چکے ہیں کہ اخبارات املا بگاڑ رہے ہیں اور ہمارے تمام ٹی وی چینلز تلفظ بگاڑ رہے ہیں۔ ٹی وی چینلوں کا بگاڑ زیادہ سنگین ہے کیونکہ ان پر جو تلفظ پیش کیا جاتا ہے، نئی نسل اسی کو سند سمجھ لیتی ہے۔ بڑا سقم یہ ہے کہ ٹی وی پر جو دانشور، صحافی اور تجزیہ نگار آتے ہیں وہ...
علامہ اقبالؒ نے داغ دہلوی کے انتقال پر کہا تھا : گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے ایم اے اردو کے ایک طالب علم نے اس پر حیرت کا اظہار کیا کہ داغ نے یہ وضاحت نہیں کی کہ کس کے شانے کی بات کی جارہی ہے جب کہ غالب نے صاف کہا تھاکہ: تیری زلفیں جس کے شانوں پر پریشاں ہو گ...
مجاہد بک اسٹال، کراچی کے راشد رحمانی نے لکھا ہے کہ آپ کو پڑھ کر ہم نے اپنی اردو درست کی ہے لیکن 11 اپریل کے اخبار میں مشتاق احمد خان کے کالم نقارہ کا عنوان ’’لمحہ فکریہ‘‘ ہے۔ ہے نا فکر کی بات! صحیح ’لمحہ فکریہ‘ ہے یا ’لمحہ فکر‘؟ عزیزم راشد رحمانی، جن لوگوں نے سید مودودیؒ کو ن...
پچھلے شمارے میں ہم دوسروں کی غلطی پکڑنے چلے اور یوں ہوا کہ علامہ کے مصرع میں ’’گر حسابم را‘‘ حسابم مرا ہوگیا۔ ہرچند کہ ہم نے تصحیح کردی تھی لیکن کچھ اختیار کمپوزر کا بھی ہے۔ کسی صاحب نے فیصل آباد سے شائع ہونے والا اخبار بھیجا ہے جس کا نام ہے ’’ لوہے قلم‘‘۔ دلچسپ نام ہے۔ کسی کا...
سب سے پہلے تو جناب رؤف پاریکھ سے معذرت۔ ان کے بارے میں یہ شائع ہوا تھا کہ ’’رشید حسن خان اور پاکستان میں جناب رؤف پاریکھ کا اصرار ہے کہ اردو میں آنے والے عربی الفاظ کا املا بدل دیا جائے۔‘‘ انہوں نے اس کی سختی سے تردید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ خود رشید حسن خان سے متفق نہیں ہیں۔ چلی...
لاہور سے ایک بار پھر جناب محمد انور علوی نے عنایت نامہ بھیجا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’خط لکھتے وقت کوئی 25 سال پرانا پیڈ ہاتھ لگ گیا۔ خیال تھا کہ بھیجتے وقت ’’اوپر سے‘‘ سرنامہ کاٹ دوں گا مگر ایسا نہ ہوسکا۔ اگر خاکسار کے بس میں ہوتا تو آپ کی تجویز کے مطابق اردو میں نام بدلنے کی کوشش ...
’’زبان بگڑی سو بگڑی تھی‘‘…… کے عنوان سے جناب شفق ہاشمی نے اسلام آباد کے اُفق سے عنایت نامہ بھیجا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:’’دیرپائیں کے رفیق عزیز کا چار سالہ بچہ اپنے والد سے ملنے دفتر آیا تو لوگوں سے مل کر اسے حیرت ہوئی کہ یہ لوگ آخر بولتے کیوں نہیں ہیں۔ ایک حد تک وہ یقینا درست تھا کہ ی...
عدالتِ عظمیٰ کے منصفِ اعظم جناب انور ظہیر جمالی نے گزشتہ منگل کو ایوانِ بالا سے بڑی رواں اور شستہ اردو میں خطاب کرکے نہ صرف عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کی لاج رکھی بلکہ یہ بڑا ’’جمالی‘‘ خطاب تھا اور اُن حکمرانوں کے لیے آئینہ جو انگریزی کے بغیر لقمہ نہیں توڑتے۔ حالانکہ عدالتِ عظمیٰ کے ا...
عزیزم آفتاب اقبال، نامور شاعر ظفر اقبال کے ماہتاب ہیں۔ اردو سے خاص شغف ہے۔ ایک ٹی وی چینل پر زبان کی اصلاح کرتے رہتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ پروگرام مزاحیہ ہے، چنانچہ ان کی اصلاح بھی کبھی کبھی مزاح کے دائرے میں داخل ہوجاتی ہے۔ گزشتہ اتوار کو ان کا پروگرام دیکھا جس میں انہوں نے بڑا ...
اردو کے لیے مولوی عبدالحق مرحوم کی خدمات بے شمار ہیں۔ اسی لیے انہیں ’’باباے اردو‘‘کا خطاب ملا۔ زبان کے حوالے سے اُن کے قول ِ فیصل پر کسی اعتراض کی گنجائش نہیں۔ گنجائش اور رہائش کے بھی دو املا چل رہے ہیں، یعنی گنجایش، رہایش۔ وارث سرہندی کی علمی اردو لغت میں دونوں املا دے کر ابہام ...