... loading ...
قابل اجمیری کا اصل نام عبدالرحیم تھا۔ قابل، تخلص تھا۔ وہ 27؍ اگست1931ء کو ضلع اجمیر کے قصبہ چرلی میں پیدا ہوئے۔ اِسی مناسبت سے قابل اجمیری کہلائے۔ وہ تقسیم ہند کے بعد پاکستان آگئے۔ ضلع اجمیر میں قابلِ اجمیری کے مکان کاعقبی دروازہ خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ کے سامنے کھلتا تھا۔ قابل اجمیری کے سوانح نگاروں کے مطابق درگاہ سے سنی جانے والی نعتوں ، غزلوں اور قوالیوں نے قابل اجمیری کے شعری ذوق کو پرواز دی۔یہاں سنا جانے والا بہت سا کلام قابل اجمیری کی یادداشت میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوا۔
قابل کی شاعری میں درد اُن کی زندگی کی عطا ہے۔ وہ جب سات برس کے تھے تو اُن کے والد دق کے مرض میں زندگی ہار گئے۔ کچھ دنوں بعد والدہ اور پھر چھوٹی ہمشیرہ بھی جان کی بازی ہار گئیں۔ قابل کی زندگی کا کچھ عرصہ یتیم خانے میں بھی گزرا۔ پھر اپنے بھائی کے ساتھ ہجرت کرکے اجمیر شریف سے ہجرت کر کے حیدرآباد سندھ آبسے۔ قابل نے چودہ برس کی عمر میں شاعری شروع کردی تھی۔ارمان اجمیری اور مولانا مانی اجمیری نے اُن کی شاعری کو سنوارنے میں اہم کردار ادا کیا۔حیدرآباد سندھ میں اُنہیں ایک ادبی حلقہ میسر آیا۔ اُنہوں نے اخبارات وجرائد کے لیے قطعات بھی لکھے۔ اُن کی صحت 1960ء کا سال شروع ہونے سے پہلے ہی خراب رہنے لگی۔ چنانچہ وہ کوئٹہ کے سینوٹوریم میں علاج کے لیے داخل ہوگئے۔ اُنہیں بھی اپنے والد کی طرح دق کا مرض لاحق ہو چکاتھا مگر یہاں ایک عیسائی نرس نرگس سوزن سے اُن کی ملاقات ہوئی۔ قابل اجمیری بیماری میں مبتلا تھے اور وہ اُن کی شاعری کی مداح بن کر اُن کے مرضِ عشق میں مبتلا ہوگئیں۔ خاتون نے اسلام قبول کرکے قابل اجمیری کو اپنالیا۔ تب دق کے مرض میں مبتلا شاعر کی زندگی میں امید نے کروٹ لی اور وہ زندگی کو پیار کی نگاہوں سے دیکھنے لگے۔
نرگس بیگم سے قابل اجمیری کے ایک صاحبزادے ظفر اجمیری نے جنم لیا۔ مگر قابل کی زندگی نے کچھ زیادہ وفا نہیں کی۔ وہ صرف اکتیس برس کی عمر میں 3؍ اکتوبر 1962ء کی عمر میں وفات پاگئے۔ بلاشبہ کلامِ قابل شعری دنیا میں نرگس بیگم کے طفیل ہی پہنچا۔ کیونکہ اُن کے انتقال کے بعد نرگس بیگم کی کوششوں سے اُ ن کے شعری مجموعے ’’دیدۂ بیدار‘‘ اور’’ خونِ رگِ جاں ‘‘ شائع ہوسکے۔ اس طرح اُن کا یہ اعتماد اپنے اوپر غلط ثابت نہیں ہوا کہ
قابل اجمیری کی شاعری افسردگی اور رومانوی امتزاج کے ساتھ ایک منفرد تخیلاتی اُپج رکھتی ہے۔ اُن کی شاعری کا یہ کارنامہ ہے کہ وہ ایک برہم ذہن اور منتشرروح کے باوجود اپنے جذبے کو یکجا اور فکر کو مربوط رکھتے ہیں۔ اس نے اُن کے احساس کو جتنا بھی کرب آشنا رکھا ہو مگر اُن کے تخیل کو منظم رکھا۔ اِسی عمل نے اُن کی شاعری کو ایک رومانوی کارنامہ بنا دیا۔ وہ اِسی لیے اردو کے آخری رومانوی شاعر بھی کہلائے۔ اگر چہ اس میں کچھ مبالغہ بھی ہے۔ مگر قابل کی شاعری اُن کے لیے اس مبالغے کو روا بناتی ہے۔ اُن سے جگر مراد آبادی بلاوجہ متاثر نہ ہوئے تھے، جب اُنہوں نے کہا کہ
’’قابل کے کلام سے اُن کی انفرادیت نمایاں ہے اور یہی خصوصیت شاعر کے لیے اہم اور اہم تر ہے۔ ‘‘
ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے اُن کی زندگی اور فن دونوں کا درست تجزیہ کیا ہے کہ
’’اُن کاجسم جتنا نحیف تھا، اُن کی روح اتنی ہی قوی تھی۔وہ باہر سے جتنے پژمردہ تھے، اندر سے اتنے ہی زندہ تھے۔ اُن کے چہرے پر نقاہتِ جسمانی کی زردی تو تھی، بے دلی کے آثار نہ تھے۔ ‘‘
بس یہی عنصر اُن کی زندگی اور شاعری دونوں میں ایک کارنامے کی طرح جلوہ گر ہے۔
تضادِ جذبات میں یہ نازک مقام آیا تو کیا کرو گے
میں رو رہا ہوں تو ہنس رہے ہو میں مسکرایا تو کیا کرو گے
مجھی پہ اتنی توجہ مجھی سے اتنا گریز
مرے سلام سے پہلے مرے سلام کے بعد
فضا تمام نشیمن فضا تمام قفس
خیالِ دام سے پہلے خیالِ دام کے بعد
اب یہ عالم ہے کہ غم کی بھی خبر ہوتی نہیں
اشک بہہ جاتے ہیں لیکن آنکھ تر ہوتی نہیں
رنگِ محفل چاہتا ہے اک مکمل انقلاب
چند شمعوں کے بھڑکنے سے سحر ہوتی نہیں
ہم نے اس کے لب و رخسار کو چھو کر دیکھا
حوصلے آگ کو گلزار بنا دیتے ہیں
ان کی پلکوں پر ستارے اپنے ہونٹوں پر ہنسی
قصۂ غم کہتے کہتے ہم کہاں تک آگئے
ہم بدلتے ہیں رخ ہواؤں کا
آئے دنیا ہمارے ساتھ چلے
حیرتوں کے سلسلے سوزِ نہاں تک آگئے
ہم نظر تک چاہتے تھے تم تو جاں تک آگئے
اجنبی اجنبی ہے سارا وجود
مجھ کو اپنا رہی ہے تیری یاد
اجل بھی اس کی بلندی کو چھو نہیں سکتی
وہ زندگی جسے احساسِ زندگی ہو جائے
حادثے زیست کی توقیر بڑھا دیتے ہیں
اے غمِ یار تجھے ہم تو دعا دیتے ہیں