... loading ...
نواز شریف کا المیہ یہ ہے کہ اُنہیں دشمنوں کی ضرورت نہیں۔اپنی ذات اور حکومت کے سب سے بڑے دشمن وہ خود ہوتے ہیں۔ اچھے کام بھی کرتے ہیں مگر اتنے کم کہ اُن کے بُرے کاموں پر غالب نہیں آسکتے۔ اپنے موجودہ پانچویں اقتدار کا نصف گزارنے کے بعد اپنے آپ کو تاحال ’’مسٹر کلین ‘‘ کے طور پر منوا نہیں سکے ۔ یکے بعد دیگے ایک دو نہیں، درجنوں ایسے معاملات سامنے آرہے ہیں ،جن میں ان کی عوام دوستی کے دعوؤں کے برخلاف لوٹ مار اور بدعنوانیاں واضح نظر آرہی ہیں۔ اس میں سرفہرست نندی پور تھرمل پاؤر پراجیکٹ ہے۔
نندی پور ایک ایسا بھد نامہ (اسکینڈل)ہے جو نہ صرف موجودہ حکومت کی کھلی لوٹ مارکا واضح ثبوت ہے۔ بلکہ اُن کی پیپلز پارٹی کے لیے محبت کا ایک اور عملی مظاہرہ بھی ہے۔ اگرچہ یہ منصوبہ ماضی کی حکومتوں میں تیار ہوا۔ مگر اس بہتی گنگا میں موجودہ حکومت نے بھی اپنے ہاتھ کھل کر دھوئے ہیں۔ اور اب انکوائری،تحقیقات اور آڈٹ کے نام پر قربانی کا بکرا تلاش کرنے اور گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کی بے سود کوششیں ہورہی ہیں،جو عذرِ گناہ بدتراز گناہ کے مترادف ہے۔
وفاقی دارالحکومت کے ایوان اقتدار کی راہداریوں میں نندی پور اور اس طرح کے نقد آور منصوبوں کے پس منظر میں نہ صرف کھلی بلکہ ننگی گفتگوئیں ہورہی ہیں۔ حقائق اور ثبوت خزاں کے خستہ پتوں کی طرح بکھرے پڑے ہیں۔گو’’ آئی سی ایس ‘‘ کے (یہ پرانی انڈین سول سروس والی اصطلاح نہیں ، بلکہ جدید ’’اتفاق سول سروس‘‘ اس سے مراد ہے) حاضر باش افسران بھی اپنے سرتاجوں کو بچانے میں معروف ہیں۔ اور حکومت کے چار اعلیٰ ترین عہدیداران اور تین منظورِ نظر بیورو کریٹس کو بچانے کے لیے ’’پھرتیاں‘‘ دکھا رہے ہیں۔اور اس عمل میں قومی احتساب بیورو (نیب) ایف آئی اے اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی آر) جیسے قومی اداروں کو بدنیتی اور غیر آئینی طریقے سے استعمال کیا جارہا ہے۔
وجود ڈاٹ کام کو دستیاب دستاویزات کے مطابق اس قومی لوٹ مار کے دو حصے ہیں۔اول حصہ اُس دور سے تعلق رکھتا ہے جس میں اس منصوبے کی خلافِ ضابطہ منظوری دی گئی۔ سابق ’’مردِآہن‘‘ پرویز مشرف کے دور ِ حکومت میں اس منصوبے کی منظوری دی گئی۔ تب اس425 میگاواٹ کے منصوبے کی لاگت 329 ؍ملین ڈالر(23؍ارب ڈالر) تھی۔اس منصوبے کے معاہدے پر 2008ء کے انتخابات سے محض ایک ماہ قبل جنوری 2008ء میں دستخط کیے گئے۔ جسے اپریل 2011ء میں مکمل ہونا تھا۔ پاکستان الیکٹرک پاؤر کمپنی (PEPCO) کو اس منصوبہ کا مالک قرار دیاگیا۔ پیپلز پارٹی کے دوسرے دورِ حکومت یعنی نوے کی دہائی میں نجی تھرمل کمپنیوں کی لوٹ مار کے بعد دنیا بھر کے ماہرین یکسو تھے کہ پاکستان کی لڑکھڑاتی معیشت اب مزید کسی تھرمل جنریشن کی مار سہہ نہیں سکتی۔ تاہم جادو گر وزیراعظم شوکت عزیز کی انتہائی متنازع اور نقصان دہ تھرمل پالیسی کے تحت ہی اس منصوبے کی منظوری دی گئی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس دور میں جب پیٹرول کی قیمتیں آسمان پر چڑھتی جارہی تھیں اور عالمی منڈیوں میں پیٹرول کی قیمت120 ڈالر تک پہنچ گئی تھیں۔ فرنس آئل سے بجلی پیدا کرنے والے اس منصوبے کی منظوری اس طرح دی گئی کہ نہ تو یہ ماپا گیا کہ اس فیصلے کا زرِ مبادلہ پر کتنا بوجھ پڑے گا، (کیونکہ اس وقت قومی ذخائر پندرہ ، سولہ ارب ڈالر سے زیادہ نہ تھے )اور نہ ہی یہ طے کیا گیا تھا کہ بجلی کی پیداواری لاگت کیا ہوگی اور نیشنل گرڈ میں شامل کرنے کے لیے اس منصوبے سے کس قیمت پر بجلی خریدی جائے گی؟ پیپلز پارٹی کے گیلانی دورِ حکومت میں آصف علی زرداری کے دستِ راست ڈاکٹر عاصم حسین، وزارتِ پیٹرولیم کے مدارالمہام ہونے کی حیثیت سے پیپلز پارٹی کے نہایت چہیتے سیکریٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود کے ذریعے آنکھیں بند کرکے اس آلودہ منصوبے کے سرپرست بن گئے۔پھر چینی کنٹریکٹر ہو اور پیپلز پارٹی کی حکومت ، منصوبے میں سے لذتیں کشید کرنے کے وہ راستے ڈھونڈے گئے کہ دیکھنے والے دنگ رہ گئے۔ ایوانِ اقتدار کی راہداریوں میں یہ کوئی خفیہ معاملہ نہیں تھا۔ وہاں تو کھلی بولیاں لگتی تھیں۔
ڈاکٹر عاصم کے ایما پر نہ صرف وزارتِ خزانہ اور وزارتِ پانی وبجلی نیپرا اور منصوبہ بندی کمیشن نے منصوبے کی حتمی منظوری دی۔ بلکہ نیپرا نے بھی ایک دباؤ کے تحت نہایت اونچی قیمت کی منظوری دی۔ یہ تمام تفصیلات گزشتہ ایک ماہ کے دوران موصوف رینجرز کی تحویل میں بتا چکے ہیں۔ بلکہ اس سے متعلق ضروری دستاویزات تک دی گئی ہیں جو مناسب مقامات پر مستقبل میں استعمال کے لیے محفوظ ہو چکی ہیں۔ اس دور کی اہم ترین بات یہ ہے کہ ایک قطعی ناقابلِ عمل اور نقصان دہ منصوبہ کی فائل بغل میں لے کر ایک وزارت سے لے کر دوسری وزارت اور ایک ادارے سے دوسرے ادارے تک جانے والے ایک تابعدار بیورو کریٹ کو ہی (جو آج وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے منظورِ نظر ہونے کے ناطے آڈیٹر جنرل پاکستان کے آئینی عہدہ پر براجمان ہیں ) اس منصوبے کے آڈٹ کے لیے چُنا گیا۔ ان صاحب کو ذمہ داران کے تعین کی جو ذمہ داری سونپی گئی ہے وہ آئین کی صریح خلا ف ورزی اور تحقیقات کے نام پر کھلا فراڈ ہے۔ اگر موجودہ حکومت تحقیقات میں سنجیدہ ہوتی تو اس منصوبے کے’’ پی سی ون ‘‘سمیت تمام فائلیں نکلواتی اور اس پر دستخط کرنے والوں سے تحقیقات کرتی۔ اور کچھ نہیں تو تمام متعلقہ افراد کے اثاثوں کے گوشوارے اور ملکی وغیر ملکی اور خفیہ و اعلانیہ بینک اکاؤنٹس چیک کرلیں تو ساری حقیقت کھل جائیگی۔ مگر ڈاکٹر عاصم اور زرداری کے پسندیدہ افسران نے پھر سے اقتدار میں آتے ہی ’’چھوٹے میاں‘‘ کو بتایا کہ حضور ابھی ان پھولوں میں بہت رس باقی ہے اور موجودہ حکومت نے پیپلزپارٹی کے مفادات کے تحفظ کے لیے نہ صرف اُن چند سرکاری افسران کو قبول کیا بلکہ نندی پور منصوبے کو بھی گود لے لیا۔ اس طرح 23؍ارب کا وہ منصوبہ جسے پیپلز پارٹی نے 37؍ارب تک پہنچایاتھا، اب عوام دوست حکومت کے عہد میں 95؍ارب روپے کا ہوچکا ہے۔
خوشامد اور چاپلوسی کے ہتھیار ہمیشہ کاری وار کرتے ہیں جس طرح ماضی میں سلمان فاروقی اینڈ کمپنی، شیرشاہ سوری ثانی کہہ کر پھونک بھرتے رہے۔ موجودہ ’’آئی سی ایس‘‘ نے بھی انجینئر بادشاہ (شاہجہاں) کے لقب سے وہ پھونک بھری کہ قاعدے، قانون اور ضابطے سب دھرے رہ گئے۔ وزیراعظم توشاید اسی پھونک سے اڑتے رہے مگر عین اُن کی ناک کے نیچے وزیراعلیٰ شہباز شریف اس منصوبے کے بگ باس بن گئے۔ اور پھولوں میں وہ رس بھی چوس لیا جس کی توقع خود چمن اُگانے والوں تک کونہ تھی۔ چنانچہ داڑھی سے بھی مونچھیں لمبی ہوتی گئی اور 23 سے 37؍ارب ہونے والا منصوبہ 95؍ ارب روپے کا ہوگیا۔
اقتدار میں آتے ہی چھ ماہ میں بجلی کی قلت ختم کرنے کا وعدہ توایک سال میں بھی پورا نہ ہوسکا مگر چھوٹے میاں نے پھرتیاں دکھاتے ہوئے 31؍مئی 2014ء کو کریڈٹ لینے کے شوق میں وزیراعظم سے اس بوگس، نامکمل اور ناقابلِ عمل منصوبے کے 95 میگاوائٹ کے ٹربائن کا فیتہ کٹوادیا۔ جو دو دن چلنے کے بعد بند ہوگیا۔ یہ میاں شہباز شریف ہی تھے جن کی سرپرستی میں اسی ڈونگ فینگ (Dong Fang) نامی چینی کمپنی کو دوبارہ ٹھیکہ دے دیا گیا جسے حکومت پاکستان 21؍ مئی کو پیپرا قواعد کے مطابق قومی خزانہ کو ریلوے انجنوں کی خریداری میں 98 ملین ڈالر کا نقصان پہنچانے پر بلیک لسٹ قرار دے چکی ہے۔ 4 ستمبر 2015ء تک وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف اور ان کے بچونگڑے عابد شیر علی اور سیکریٹری پانی وبجلی یونس ڈھاگا ہر پلیٹ فارم پر اڑے رہے کہ اس منصوبے میں کوئی کرپشن یا گڑبڑ نہیں ہوئی۔ یونس ڈھاگا ان ہی خدمات کے عوض اکیسویں گریڈ میں ہو کر بائیسویں گریڈ میں مزے اڑارہے ہیں۔ بآلاخر 4؍ستمبر کو وزارت پانی وبجلی جاگ گئی۔ اور انہوں نے نندی پور پاؤر کمپنی کو خط لکھا کہ کمپنی وضاحت کرے کہ پیداوار شروع نہ ہونا کس کی غلطی اور ذمہ داری ہے۔ پاکستان کی نومولود برقیاتی صحافت یعنی الیکٹرانک میڈیا کے پاس مواد اور سوالات کی شدید قلت ہے، اسی بناء پر وہ تاحال نندی پور پراجیکٹ کو کھنگال نہیں پائے اورمحض رسمی زبانی جمع خرچ کی چند جگالیاں کر رہے ہیں وگرنہ یہ سوالات بار بار اُٹھائے جاتے کہ چھوٹی کمیت کے آئل ٹربائن کیوں منگوائے گئے؟ منصوبے میں کتنا بڑا پلانٹ مانگا گیا تھا؟ موجودہ پلانٹ کی کیفیت اور پیداواری صلاحیت کو کمیشننگ سے قبل اور بعد میں پڑتال کرنا کس ادارے کی ذمہ داری تھی ؟ وزیراعظم نے کس کے کہنے پر اور کیوں ایک نامکمل اور ناقص پلانٹ کا افتتاح کیا؟ سابق صدر آصف زرداری کے مفادات کے نگہبان سیکریٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود نے کیوں کر میٹرو بس پراجیکٹ کے بہانے نندی پور تھرمل پاؤر کے فرنس آئل کی درآمد کے لئے فنڈز ریلیز کرنے سے معذوری ظاہر کی؟ 23؍ارب کا منصوبہ 95؍ارب تک کیوں کر پہنچا؟ وفاقی وزارء اور سیکریٹری کیوں کر ہر پارلیمانی فورم پر جھوٹ بولتے رہے، آخر اُن کا کیا مفاد ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن کمپنی (NTDC)کے شور مچانے پر جب بلی تھیلے سے باہر آہی گئی ہے تو ایک ایک کرکے سارے جھوٹ بھی کھلنے لگے ہیں وگرنہ اداروں کے پاس وہ تمام ثبوت موجود ہیں کہ موجودہ حکومت کے دور میں وزیراعلیٰ پنجاب کی سرپرستی کے باوجود اس منصوبے کے تعمیراتی کاموں، زمین کی خریداری، آلات کی درآمد اور تنصیب، فرنس آئل کی خریداری اور سب سے بڑھ کر منصوبے کے لیے فنڈز کی ریلیز میں بڑے پیمانے پر کرپشن اور کمیشن لیے گئے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ایک حکومتی ادارے سے دوسرے حکومتی ادارے کو بجلی کی فروخت میں بھی قیمتوں میں ہیر پھیر کرکے بڑے کمیشن بنائے جارہے ہیں اور کس کس کا بھانجا ، بھتیجا اور داماد فرنٹ مین بن کر بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔ وہی رانا اسد امین جو خزانہ کے اسپیشل سیکریٹری کی حیثیت سے سچے جھوٹے سرٹیفیکٹ جمع کراکے منصوبے کی رقمیں ریلیز کرایا کرتے تھے۔ اب ان ہی خدمات کے عوض آڈیٹر جنرل کی حیثیت سے خود ہی اس منصوبہ کا آڈٹ کرنے کے ذمہ دار ٹہرے ہیں اور اُنہیں ہدف یہ دیا گیا ہے کہ قربانی کا بکرا بھی اُن کو ہی تلاش کرنا ہے۔ حالانکہ یہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی یا دیگر حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے آڈیٹر جنرل سے ذمہ داریوں کا تعین کرانا قانون اور آئین کی خلاف ورزی ہے۔ حالانکہ وہ صرف آڈٹ کرنے کے مجاز ہیں۔ یہ کام دراصل آڈیٹر جنرل کے دستوری عہدے کی آڑ میں اپنے کرپٹ ساتھیوں کو بچا نے کی کوشش ہے۔
بعض وزراء نے قربانی کے بکرے کی تلاش میں جب نیپرا کو رگڑنے کی کوشش کی تو چونکہ گھر کی دائی ہونے کے ناطے نیپرا حکومتوں کے تمام سچے جھوٹ کا گواہ بلکہ ثبوت بھی رکھتا ہے۔ اس لیے مذکورہ ادارے نے پلٹ کر حکومت کے منہ پر وہ پنجہ مارا کہ وہ ابھی تک منہ اور زخم دونوں سہلا رہے ہیں۔ نیپرا کی حالیہ رپورٹ ایک ایسی ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ملک میں بجلی کی پیداواری صلاحیت اور طلب میں کوئی فرق نہیں۔ اصل میں حکومت جھوٹ بولتی ہے۔ بجلی کا شارٹ فال نہ ہونا ماہرین کے لیے تو کوئی نئی بات نہیں لیکن عوام یہ سن کر سکتے میں آگئے ہیں کہ شارٹ فال نہیں تو بجلی کی لوڈ شیڈنگ کیوں کی جاتی ہے؟
عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے، اصل کرپشن کے کرداروں کو چھپا کر معصوم یا چھوٹے گناہ گاروں کو قربانی کا بکرا بنانے کی حکومتی کوششیں ایک جانب عروج پر ہیں تو دوسری جانب بھی تیزی سے تحقیقات جاری ہیں۔ ایک کے بعد ایک وعدہ معاف گواہ، سلطانی گواہ اورنہ معلوم کیا کچھ نکل رہا ہے۔ یہ خبریں بھی گرم ہیں کہ نیب ، ایف آئی اے کے ساتھ آئی بی کو بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ تاکہ متعلقہ لوگ اپنے منہ بند رکھیں ۔ جبکہ شنید یہ ہے کہ توانائی کے شعبے میں نندی پور سے بھی بہت بڑا بدعنوانی کا مقدمہ تیار ہو چکا ہے۔ جس کے تمام شواہد اور دستاویزات حاصل کر لی گئی ہیں۔ یہ مقدمہ پاک بازی کے اُجلے دامن کو اور بھی’’ اُجلا ‘‘کرنے بہت جلد باہر آنے والا ہے۔
چونکہ یہ مقدمہ خاص الخاص وزیراعظم نوازشریف اور ان کے ایک چہیتے ترین وزیر اور اُن کے چہیتے سیکریٹری کا ہے، یہ سیکریرٹری موصوف بھی اپنے قد سے بڑے عہدے پر براجمان ہیں، یعنی اکیسویں گریڈ میں ہو کر بائیسویں گریڈ میں ملک وقوم کی خدمت کر رہے ہیں۔اس لیے اپنی جان چھڑانے کے لیے حکومت اوگر اکی تنظیمِ نو کا بیڑہ اٹھا رہی ہے تاکہ اس بھد نامے کے سیاہ بادل غائب کر دئے جائیں۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ تمام کاغذات اور شواہدمحفوظ ہاتھوں میں جاچکے ہیں۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ عمران خان جیسے خطرناک مخالف کا ایک چہیتا بھی جناب وزیراعظم کی اس مار دھاڑ میں برابر کا شریک ہے۔ اپوزیشن میں بھی سیاست کے لیے مالی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اس حمام میں تو سب کے پیرہن ایک جیسے ہیں ۔
ہم نے امریکی سفارتخانے کی طرف مارچ کا کہا تھا، حکمرانوںنے اسلام آباد بند کیا ہے ، ہم کسی بندوق اور گولی سے ڈرنے والے نہیں ، یہ ہمارا راستہ نہیں روک سکتے تھے مگر ہم پولیس والوں کے ساتھ تصادم نہیں کرنا چاہتے حکمران سوئے ہوئے ہیں مگر امت سوئی ہوئی نہیں ہے ، اسرائیلی وح...
پانی کی تقسیم ارسا طے کرتا ہے ، کینالز کا معاملہ تکنیکی ہے ، اسے تکنیکی بنیاد پر ہی دیکھنا چاہیے ، نئی نہریں نکالی جائیں گی تو اس کے لیے پانی کہاں سے آئے گا ، ہم اپنے اپنے موقف کے ساتھ کھڑے ہیں(پیپلزپارٹی) ارسا میں پانی کی تقسیم کا معاملہ طے ہے جس پر سب کا اتفاق ہے ،...
نیشنل کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس کا جی میل اور مائیکروسافٹ 365پر 2ایف اے بائی پاس حملے کا الرٹ رواں سال 2025میں ایس وی جی فشنگ حملوں میں 1800فیصد اضافہ ، حساس ڈیٹا لیک کا خدشہ جعلی لاگ ان صفحات کے ذریعے صارفین کی تفصیلات اور او ٹی پی چوری کرنے کا انکشاف ہوا ہے ۔نیشنل ک...
خالص آمدنی میں سے سود کی مد میں 8 ہزار 106 ارب روپے کی ادائیگی کرنا ہوگی وفاقی حکومت کی مجموعی آمدن کا تخمینہ 19 ہزار 111 ارب روپے لگایا گیا ، ذرائع وزارت خزانہ نے یکم جولائی سے شروع ہونے والے آئندہ مالی سال 26-2025 کے لیے وفاقی بجٹ خسارے کا تخمینہ 7 ہزار 222 ارب...
حکومت پولیو کے انسداد کے لیے ایک جامع اور مربوط حکمت عملی پر عمل پیرا ہے وزیراعظم نے بچوں کو پولیو کے قطرے پلا کر 7روزہ انسداد پولیو کا آغاز کر دیا وزیراعظم شہباز شریف نے ملک سے پولیو کے مکمل خاتمے کے عزم کااظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت پولیو کے انسداد کے لیے ایک...
سندھ کے پانی پر قبضہ کرنے کے لیے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس ہی نہیں بلایا گیا پاکستان میں استحکام نہیں ،قانون کی حکمرانی نہیں تو ہارڈ اسٹیٹ کیسے بنے گی؟عمرایوب قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما عمر ایوب نے حکومتی اتحاد پر...
پیپلز پارٹی وفاق کا حصہ ہے ، آئینی عہدوں پر رہتے ہوئے بات زیادہ ذمہ داری سے کرنی چاہئے ، ہمیں پی پی پی کی قیادت کا بہت احترام ہے، اکائیوں کے پانی سمیت وسائل کی منصفانہ تقسیم پر مکمل یقین رکھتے ہیں پانی کے مسئلے پر سیاست نہیں کرنی چاہیے ، معاملات میز پر بیٹھ کر حل کرن...
وزیر خارجہ کے دورہ افغانستان میںدونوں ممالک میں تاریخی رشتوں کو مزید مضبوط بنانے پر تبادلہ خیال ، مشترکہ امن و ترقی کے عزم کا اظہار ،دو طرفہ مسائل کے حل کے لیے بات چیت جاری رکھنے پر بھی اتفاق افغان مہاجرین کو مکمل احترام کے ساتھ واپس بھیجا جائے گا، افغان مہاجرین کو ا...
دوران سماعت بانی پی ٹی آئی عمران خان ، شاہ محمود کی جیل روبکار پر حاضری لگائی گئی عدالت میں سکیورٹی کے سخت انتظامات ،پولیس کی بھاری نفری بھی تعینات کی گئی تھی 9 مئی کے 13 مقدمات میں ملزمان میں چالان کی نقول تقسیم کردی گئیں جس کے بعد عدالت نے فرد جرم عائد کرنے کے لیے تاریخ مق...
واپس جانے والے افراد کو خوراک اور صحت کی معیاری سہولتیں فراہم کی گئی ہیں 9 لاکھ 70 ہزار غیر قانونی افغان شہری پاکستان چھوڑ کر افغانستان جا چکے ہیں پاکستان میں مقیم غیر قانونی، غیر ملکی اور افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کے انخلا کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے دی گئ...
حملہ کرنے والوں کے ہاتھ میں پارٹی جھنڈے تھے وہ کینالوں کے خلاف نعرے لگا رہے تھے ٹھٹہ سے سجاول کے درمیان ایک قوم پرست جماعت کے کارکنان نے اچانک حملہ کیا، وزیر وزیر مملکت برائے مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کھیئل داس کوہستانی کی گاڑی پر ٹھٹہ کے قریب نامعلوم افراد کی جانب سے...
کان کنی اور معدنیات کے شعبوں میں مشترکہ منصوبے شروع کرنے کا بہترین موقع ہے غیرملکی سرمایہ کاروں کو کاروبار دوست ماحول اور تمام سہولتیں فراہم کریں گے ، شہباز شریف وزیراعظم شہباز شریف نے 60 ممالک کو معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری کی دعوت دے دی۔وزیراعظم شہباز شریف نے لاہور میں ...