وجود

... loading ...

وجود

نندی پور پراجیکٹ: حکومت نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے

جمعه 02 اکتوبر 2015 نندی پور پراجیکٹ: حکومت نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے

nandipur-power-project

نواز شریف کا المیہ یہ ہے کہ اُنہیں دشمنوں کی ضرورت نہیں۔اپنی ذات اور حکومت کے سب سے بڑے دشمن وہ خود ہوتے ہیں۔ اچھے کام بھی کرتے ہیں مگر اتنے کم کہ اُن کے بُرے کاموں پر غالب نہیں آسکتے۔ اپنے موجودہ پانچویں اقتدار کا نصف گزارنے کے بعد اپنے آپ کو تاحال ’’مسٹر کلین ‘‘ کے طور پر منوا نہیں سکے ۔ یکے بعد دیگے ایک دو نہیں، درجنوں ایسے معاملات سامنے آرہے ہیں ،جن میں ان کی عوام دوستی کے دعوؤں کے برخلاف لوٹ مار اور بدعنوانیاں واضح نظر آرہی ہیں۔ اس میں سرفہرست نندی پور تھرمل پاؤر پراجیکٹ ہے۔

نندی پور ایک ایسا بھد نامہ (اسکینڈل)ہے جو نہ صرف موجودہ حکومت کی کھلی لوٹ مارکا واضح ثبوت ہے۔ بلکہ اُن کی پیپلز پارٹی کے لیے محبت کا ایک اور عملی مظاہرہ بھی ہے۔ اگرچہ یہ منصوبہ ماضی کی حکومتوں میں تیار ہوا۔ مگر اس بہتی گنگا میں موجودہ حکومت نے بھی اپنے ہاتھ کھل کر دھوئے ہیں۔ اور اب انکوائری،تحقیقات اور آڈٹ کے نام پر قربانی کا بکرا تلاش کرنے اور گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کی بے سود کوششیں ہورہی ہیں،جو عذرِ گناہ بدتراز گناہ کے مترادف ہے۔

وفاقی دارالحکومت کے ایوان اقتدار کی راہداریوں میں نندی پور اور اس طرح کے نقد آور منصوبوں کے پس منظر میں نہ صرف کھلی بلکہ ننگی گفتگوئیں ہورہی ہیں۔ حقائق اور ثبوت خزاں کے خستہ پتوں کی طرح بکھرے پڑے ہیں۔گو’’ آئی سی ایس ‘‘ کے (یہ پرانی انڈین سول سروس والی اصطلاح نہیں ، بلکہ جدید ’’اتفاق سول سروس‘‘ اس سے مراد ہے) حاضر باش افسران بھی اپنے سرتاجوں کو بچانے میں معروف ہیں۔ اور حکومت کے چار اعلیٰ ترین عہدیداران اور تین منظورِ نظر بیورو کریٹس کو بچانے کے لیے ’’پھرتیاں‘‘ دکھا رہے ہیں۔اور اس عمل میں قومی احتساب بیورو (نیب) ایف آئی اے اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی آر) جیسے قومی اداروں کو بدنیتی اور غیر آئینی طریقے سے استعمال کیا جارہا ہے۔

وجود ڈاٹ کام کو دستیاب دستاویزات کے مطابق اس قومی لوٹ مار کے دو حصے ہیں۔اول حصہ اُس دور سے تعلق رکھتا ہے جس میں اس منصوبے کی خلافِ ضابطہ منظوری دی گئی۔ سابق ’’مردِآہن‘‘ پرویز مشرف کے دور ِ حکومت میں اس منصوبے کی منظوری دی گئی۔ تب اس425 میگاواٹ کے منصوبے کی لاگت 329 ؍ملین ڈالر(23؍ارب ڈالر) تھی۔اس منصوبے کے معاہدے پر 2008ء کے انتخابات سے محض ایک ماہ قبل جنوری 2008ء میں دستخط کیے گئے۔ جسے اپریل 2011ء میں مکمل ہونا تھا۔ پاکستان الیکٹرک پاؤر کمپنی (PEPCO) کو اس منصوبہ کا مالک قرار دیاگیا۔ پیپلز پارٹی کے دوسرے دورِ حکومت یعنی نوے کی دہائی میں نجی تھرمل کمپنیوں کی لوٹ مار کے بعد دنیا بھر کے ماہرین یکسو تھے کہ پاکستان کی لڑکھڑاتی معیشت اب مزید کسی تھرمل جنریشن کی مار سہہ نہیں سکتی۔ تاہم جادو گر وزیراعظم شوکت عزیز کی انتہائی متنازع اور نقصان دہ تھرمل پالیسی کے تحت ہی اس منصوبے کی منظوری دی گئی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس دور میں جب پیٹرول کی قیمتیں آسمان پر چڑھتی جارہی تھیں اور عالمی منڈیوں میں پیٹرول کی قیمت120 ڈالر تک پہنچ گئی تھیں۔ فرنس آئل سے بجلی پیدا کرنے والے اس منصوبے کی منظوری اس طرح دی گئی کہ نہ تو یہ ماپا گیا کہ اس فیصلے کا زرِ مبادلہ پر کتنا بوجھ پڑے گا، (کیونکہ اس وقت قومی ذخائر پندرہ ، سولہ ارب ڈالر سے زیادہ نہ تھے )اور نہ ہی یہ طے کیا گیا تھا کہ بجلی کی پیداواری لاگت کیا ہوگی اور نیشنل گرڈ میں شامل کرنے کے لیے اس منصوبے سے کس قیمت پر بجلی خریدی جائے گی؟ پیپلز پارٹی کے گیلانی دورِ حکومت میں آصف علی زرداری کے دستِ راست ڈاکٹر عاصم حسین، وزارتِ پیٹرولیم کے مدارالمہام ہونے کی حیثیت سے پیپلز پارٹی کے نہایت چہیتے سیکریٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود کے ذریعے آنکھیں بند کرکے اس آلودہ منصوبے کے سرپرست بن گئے۔پھر چینی کنٹریکٹر ہو اور پیپلز پارٹی کی حکومت ، منصوبے میں سے لذتیں کشید کرنے کے وہ راستے ڈھونڈے گئے کہ دیکھنے والے دنگ رہ گئے۔ ایوانِ اقتدار کی راہداریوں میں یہ کوئی خفیہ معاملہ نہیں تھا۔ وہاں تو کھلی بولیاں لگتی تھیں۔

وزیراعلیٰ پنجاب کی سرپرستی کے باوجود منصوبے کے تعمیراتی کاموں، زمین کی خریداری، آلات کی درآمد اور تنصیب فرنس آئل کی خریداری اور سب سے بڑھ کر منصوبے کے لیے فنڈز کی ریلیز میں بڑے پیمانے پر کرپشن ہوئی اور کمیشن لیے گئے ہیں

ڈاکٹر عاصم کے ایما پر نہ صرف وزارتِ خزانہ اور وزارتِ پانی وبجلی نیپرا اور منصوبہ بندی کمیشن نے منصوبے کی حتمی منظوری دی۔ بلکہ نیپرا نے بھی ایک دباؤ کے تحت نہایت اونچی قیمت کی منظوری دی۔ یہ تمام تفصیلات گزشتہ ایک ماہ کے دوران موصوف رینجرز کی تحویل میں بتا چکے ہیں۔ بلکہ اس سے متعلق ضروری دستاویزات تک دی گئی ہیں جو مناسب مقامات پر مستقبل میں استعمال کے لیے محفوظ ہو چکی ہیں۔ اس دور کی اہم ترین بات یہ ہے کہ ایک قطعی ناقابلِ عمل اور نقصان دہ منصوبہ کی فائل بغل میں لے کر ایک وزارت سے لے کر دوسری وزارت اور ایک ادارے سے دوسرے ادارے تک جانے والے ایک تابعدار بیورو کریٹ کو ہی (جو آج وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے منظورِ نظر ہونے کے ناطے آڈیٹر جنرل پاکستان کے آئینی عہدہ پر براجمان ہیں ) اس منصوبے کے آڈٹ کے لیے چُنا گیا۔ ان صاحب کو ذمہ داران کے تعین کی جو ذمہ داری سونپی گئی ہے وہ آئین کی صریح خلا ف ورزی اور تحقیقات کے نام پر کھلا فراڈ ہے۔ اگر موجودہ حکومت تحقیقات میں سنجیدہ ہوتی تو اس منصوبے کے’’ پی سی ون ‘‘سمیت تمام فائلیں نکلواتی اور اس پر دستخط کرنے والوں سے تحقیقات کرتی۔ اور کچھ نہیں تو تمام متعلقہ افراد کے اثاثوں کے گوشوارے اور ملکی وغیر ملکی اور خفیہ و اعلانیہ بینک اکاؤنٹس چیک کرلیں تو ساری حقیقت کھل جائیگی۔ مگر ڈاکٹر عاصم اور زرداری کے پسندیدہ افسران نے پھر سے اقتدار میں آتے ہی ’’چھوٹے میاں‘‘ کو بتایا کہ حضور ابھی ان پھولوں میں بہت رس باقی ہے اور موجودہ حکومت نے پیپلزپارٹی کے مفادات کے تحفظ کے لیے نہ صرف اُن چند سرکاری افسران کو قبول کیا بلکہ نندی پور منصوبے کو بھی گود لے لیا۔ اس طرح 23؍ارب کا وہ منصوبہ جسے پیپلز پارٹی نے 37؍ارب تک پہنچایاتھا، اب عوام دوست حکومت کے عہد میں 95؍ارب روپے کا ہوچکا ہے۔

خوشامد اور چاپلوسی کے ہتھیار ہمیشہ کاری وار کرتے ہیں جس طرح ماضی میں سلمان فاروقی اینڈ کمپنی، شیرشاہ سوری ثانی کہہ کر پھونک بھرتے رہے۔ موجودہ ’’آئی سی ایس‘‘ نے بھی انجینئر بادشاہ (شاہجہاں) کے لقب سے وہ پھونک بھری کہ قاعدے، قانون اور ضابطے سب دھرے رہ گئے۔ وزیراعظم توشاید اسی پھونک سے اڑتے رہے مگر عین اُن کی ناک کے نیچے وزیراعلیٰ شہباز شریف اس منصوبے کے بگ باس بن گئے۔ اور پھولوں میں وہ رس بھی چوس لیا جس کی توقع خود چمن اُگانے والوں تک کونہ تھی۔ چنانچہ داڑھی سے بھی مونچھیں لمبی ہوتی گئی اور 23 سے 37؍ارب ہونے والا منصوبہ 95؍ ارب روپے کا ہوگیا۔

وفاقی دارالحکومت کے ایوان اقتدار کی راہداریوں میں نندی پور اور اس طرح کے نقد آور منصوبوں کے پس منظر میں نہ صرف کھلی بلکہ ننگی گفتگوئیں ہورہی ہیں۔

اقتدار میں آتے ہی چھ ماہ میں بجلی کی قلت ختم کرنے کا وعدہ توایک سال میں بھی پورا نہ ہوسکا مگر چھوٹے میاں نے پھرتیاں دکھاتے ہوئے 31؍مئی 2014ء کو کریڈٹ لینے کے شوق میں وزیراعظم سے اس بوگس، نامکمل اور ناقابلِ عمل منصوبے کے 95 میگاوائٹ کے ٹربائن کا فیتہ کٹوادیا۔ جو دو دن چلنے کے بعد بند ہوگیا۔ یہ میاں شہباز شریف ہی تھے جن کی سرپرستی میں اسی ڈونگ فینگ (Dong Fang) نامی چینی کمپنی کو دوبارہ ٹھیکہ دے دیا گیا جسے حکومت پاکستان 21؍ مئی کو پیپرا قواعد کے مطابق قومی خزانہ کو ریلوے انجنوں کی خریداری میں 98 ملین ڈالر کا نقصان پہنچانے پر بلیک لسٹ قرار دے چکی ہے۔ 4 ستمبر 2015ء تک وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف اور ان کے بچونگڑے عابد شیر علی اور سیکریٹری پانی وبجلی یونس ڈھاگا ہر پلیٹ فارم پر اڑے رہے کہ اس منصوبے میں کوئی کرپشن یا گڑبڑ نہیں ہوئی۔ یونس ڈھاگا ان ہی خدمات کے عوض اکیسویں گریڈ میں ہو کر بائیسویں گریڈ میں مزے اڑارہے ہیں۔ بآلاخر 4؍ستمبر کو وزارت پانی وبجلی جاگ گئی۔ اور انہوں نے نندی پور پاؤر کمپنی کو خط لکھا کہ کمپنی وضاحت کرے کہ پیداوار شروع نہ ہونا کس کی غلطی اور ذمہ داری ہے۔ پاکستان کی نومولود برقیاتی صحافت یعنی الیکٹرانک میڈیا کے پاس مواد اور سوالات کی شدید قلت ہے، اسی بناء پر وہ تاحال نندی پور پراجیکٹ کو کھنگال نہیں پائے اورمحض رسمی زبانی جمع خرچ کی چند جگالیاں کر رہے ہیں وگرنہ یہ سوالات بار بار اُٹھائے جاتے کہ چھوٹی کمیت کے آئل ٹربائن کیوں منگوائے گئے؟ منصوبے میں کتنا بڑا پلانٹ مانگا گیا تھا؟ موجودہ پلانٹ کی کیفیت اور پیداواری صلاحیت کو کمیشننگ سے قبل اور بعد میں پڑتال کرنا کس ادارے کی ذمہ داری تھی ؟ وزیراعظم نے کس کے کہنے پر اور کیوں ایک نامکمل اور ناقص پلانٹ کا افتتاح کیا؟ سابق صدر آصف زرداری کے مفادات کے نگہبان سیکریٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود نے کیوں کر میٹرو بس پراجیکٹ کے بہانے نندی پور تھرمل پاؤر کے فرنس آئل کی درآمد کے لئے فنڈز ریلیز کرنے سے معذوری ظاہر کی؟ 23؍ارب کا منصوبہ 95؍ارب تک کیوں کر پہنچا؟ وفاقی وزارء اور سیکریٹری کیوں کر ہر پارلیمانی فورم پر جھوٹ بولتے رہے، آخر اُن کا کیا مفاد ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن کمپنی (NTDC)کے شور مچانے پر جب بلی تھیلے سے باہر آہی گئی ہے تو ایک ایک کرکے سارے جھوٹ بھی کھلنے لگے ہیں وگرنہ اداروں کے پاس وہ تمام ثبوت موجود ہیں کہ موجودہ حکومت کے دور میں وزیراعلیٰ پنجاب کی سرپرستی کے باوجود اس منصوبے کے تعمیراتی کاموں، زمین کی خریداری، آلات کی درآمد اور تنصیب، فرنس آئل کی خریداری اور سب سے بڑھ کر منصوبے کے لیے فنڈز کی ریلیز میں بڑے پیمانے پر کرپشن اور کمیشن لیے گئے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ایک حکومتی ادارے سے دوسرے حکومتی ادارے کو بجلی کی فروخت میں بھی قیمتوں میں ہیر پھیر کرکے بڑے کمیشن بنائے جارہے ہیں اور کس کس کا بھانجا ، بھتیجا اور داماد فرنٹ مین بن کر بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔ وہی رانا اسد امین جو خزانہ کے اسپیشل سیکریٹری کی حیثیت سے سچے جھوٹے سرٹیفیکٹ جمع کراکے منصوبے کی رقمیں ریلیز کرایا کرتے تھے۔ اب ان ہی خدمات کے عوض آڈیٹر جنرل کی حیثیت سے خود ہی اس منصوبہ کا آڈٹ کرنے کے ذمہ دار ٹہرے ہیں اور اُنہیں ہدف یہ دیا گیا ہے کہ قربانی کا بکرا بھی اُن کو ہی تلاش کرنا ہے۔ حالانکہ یہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی یا دیگر حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے آڈیٹر جنرل سے ذمہ داریوں کا تعین کرانا قانون اور آئین کی خلاف ورزی ہے۔ حالانکہ وہ صرف آڈٹ کرنے کے مجاز ہیں۔ یہ کام دراصل آڈیٹر جنرل کے دستوری عہدے کی آڑ میں اپنے کرپٹ ساتھیوں کو بچا نے کی کوشش ہے۔

بعض وزراء نے قربانی کے بکرے کی تلاش میں جب نیپرا کو رگڑنے کی کوشش کی تو چونکہ گھر کی دائی ہونے کے ناطے نیپرا حکومتوں کے تمام سچے جھوٹ کا گواہ بلکہ ثبوت بھی رکھتا ہے۔ اس لیے مذکورہ ادارے نے پلٹ کر حکومت کے منہ پر وہ پنجہ مارا کہ وہ ابھی تک منہ اور زخم دونوں سہلا رہے ہیں۔ نیپرا کی حالیہ رپورٹ ایک ایسی ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ملک میں بجلی کی پیداواری صلاحیت اور طلب میں کوئی فرق نہیں۔ اصل میں حکومت جھوٹ بولتی ہے۔ بجلی کا شارٹ فال نہ ہونا ماہرین کے لیے تو کوئی نئی بات نہیں لیکن عوام یہ سن کر سکتے میں آگئے ہیں کہ شارٹ فال نہیں تو بجلی کی لوڈ شیڈنگ کیوں کی جاتی ہے؟

عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے، اصل کرپشن کے کرداروں کو چھپا کر معصوم یا چھوٹے گناہ گاروں کو قربانی کا بکرا بنانے کی حکومتی کوششیں ایک جانب عروج پر ہیں تو دوسری جانب بھی تیزی سے تحقیقات جاری ہیں۔ ایک کے بعد ایک وعدہ معاف گواہ، سلطانی گواہ اورنہ معلوم کیا کچھ نکل رہا ہے۔ یہ خبریں بھی گرم ہیں کہ نیب ، ایف آئی اے کے ساتھ آئی بی کو بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ تاکہ متعلقہ لوگ اپنے منہ بند رکھیں ۔ جبکہ شنید یہ ہے کہ توانائی کے شعبے میں نندی پور سے بھی بہت بڑا بدعنوانی کا مقدمہ تیار ہو چکا ہے۔ جس کے تمام شواہد اور دستاویزات حاصل کر لی گئی ہیں۔ یہ مقدمہ پاک بازی کے اُجلے دامن کو اور بھی’’ اُجلا ‘‘کرنے بہت جلد باہر آنے والا ہے۔

دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اُچھلتا ہے کیا

چونکہ یہ مقدمہ خاص الخاص وزیراعظم نوازشریف اور ان کے ایک چہیتے ترین وزیر اور اُن کے چہیتے سیکریٹری کا ہے، یہ سیکریرٹری موصوف بھی اپنے قد سے بڑے عہدے پر براجمان ہیں، یعنی اکیسویں گریڈ میں ہو کر بائیسویں گریڈ میں ملک وقوم کی خدمت کر رہے ہیں۔اس لیے اپنی جان چھڑانے کے لیے حکومت اوگر اکی تنظیمِ نو کا بیڑہ اٹھا رہی ہے تاکہ اس بھد نامے کے سیاہ بادل غائب کر دئے جائیں۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ تمام کاغذات اور شواہدمحفوظ ہاتھوں میں جاچکے ہیں۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ عمران خان جیسے خطرناک مخالف کا ایک چہیتا بھی جناب وزیراعظم کی اس مار دھاڑ میں برابر کا شریک ہے۔ اپوزیشن میں بھی سیاست کے لیے مالی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اس حمام میں تو سب کے پیرہن ایک جیسے ہیں ۔


متعلقہ خبریں


قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام وجود - جمعه 22 نومبر 2024

سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ قوم اپنی توجہ 24 نومبر کے احتجاج پر رکھے۔سعودی عرب ہر مشکل مرحلے میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ بشریٰ بی بی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔عمران خان نے اڈیالہ جیل سے جاری اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ، آئین ک...

قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف وجود - جمعه 22 نومبر 2024

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دیرپاامن واستحکام کے لئے فوج قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی، پاک فوج ...

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم وجود - جمعه 22 نومبر 2024

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ بھائی بن کرمدد کی، سعودی عرب سے متعلق بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے ، سعودی عرب کے خلاف زہر اگلا جائے تو ہمارا بھائی کیا کہے گا؟، ان کو اندازہ نہیں اس بیان سے پاکستان کا خدانخوستہ کتنا نقصان ہوگا۔وزیراعظم نے تونس...

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم

چیمپئینز ٹرافی،بھارت کی ہائبرڈ ماڈل یا پھر میزبانی ہتھیا نے کی سازشیںتیز وجود - جمعه 22 نومبر 2024

آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی 2025 کے شیڈول کے اعلان میں مزید تاخیر کا امکان بڑھنے لگا۔میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اگلے 24گھنٹے میں میگا ایونٹ کے شیڈول کا اعلان مشکل ہے تاہم اسٹیک ہولڈرز نے لچک دکھائی تو پھر 1، 2 روز میں شیڈول منظر عام پرآسکتا ہے ۔دورہ پاکستان سے بھارتی ا...

چیمپئینز ٹرافی،بھارت کی ہائبرڈ ماڈل یا پھر میزبانی ہتھیا نے کی سازشیںتیز

ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 3خواتین اور بچے سمیت 38 افراد کو قتل کردیا جب کہ حملے میں 29 زخمی ہوگئے ۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا کہ نامعلوم مسلح افراد نے کرم کے علاقے لوئر کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے...

ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتجاج کے تناظر میں بنے نئے قانون کی خلاف ورزی میں احتجاج، ریلی یا دھرنے کی اجازت نہ دینے کا حکم دے دیا، ہائی کورٹ نے وزیر داخلہ کو پی ٹی آئی کے ساتھ پُرامن اور آئین کے مطابق احتجاج کے لیے مذاکرات کی ہدایت کردی اور ہدایت دی کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں تو وزیر...

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور کے ساتھ مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ، ہم سمجھتے ہیں ملک میں بالکل استحکام آنا چاہیے ، اس وقت لا اینڈ آرڈر کے چیلنجز کا سامنا ہے ۔صوابی میں میڈیا سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ 24 نومبر کے احتجاج کے لئے ہم نے حکمتِ...

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

وزیر اعظم کی ہدایت کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)نے غیر رجسٹرڈ امیر افراد بشمول نان فائلرز اور نیل فائلرز کے خلاف کارروائی کے لیے ایک انفورسمنٹ پلان کو حتمی شکل دے دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے فیلڈ فارمیشن کی سطح پر انفورسمنٹ پلان پر عمل درآمد کے لیے اپنا ہوم ورک ...

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ

عمران خان کو رہا کرا کر دم لیں گے، علی امین گنڈا پور کا اعلان وجود - بدھ 20 نومبر 2024

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ انشاء اللہ بانی چیئرمین کو رہا کرا کر دم لیں گے ۔پشاور میں میڈیا سے گفتگو میں علی امین گنڈاپور نے کہا کہ انشاء اللہ بانی چیئرمین کو رہا اور اپنے مطالبات منوا کر ہی دم لیں گے ۔انہوں نے کہا کہ ہم سب کے لیے تحریک انصاف کا نعرہ’ ا...

عمران خان کو رہا کرا کر دم لیں گے، علی امین گنڈا پور کا اعلان

24نومبر احتجاج پر نظررکھنے کے لیے پی ٹی آئی کا مانیٹرنگ یونٹ قائم وجود - بدھ 20 نومبر 2024

دریں اثناء پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 24 نومبر کو احتجاج کے تمام امور پر نظر رکھنے کے لیے مانیٹرنگ یونٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ پنجاب سے قافلوں کے لیے 10 رکنی مانیٹرنگ کمیٹی بنا دی۔تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کا مانیٹرنگ یونٹ قیادت کو تمام قافلوں کی تفصیلات فراہم...

24نومبر احتجاج پر نظررکھنے کے لیے پی ٹی آئی کا مانیٹرنگ یونٹ قائم

24نومبر کا احتجاج منظم رکھنے کے لیے آرڈینیشن کمیٹی قائم وجود - بدھ 20 نومبر 2024

ایڈیشنل سیکریٹری جنرل پی ٹی آئی فردوس شمیم نقوی نے کمیٹیوں کی تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے ۔جڑواں شہروں کیلئے 12 رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے جس میں اسلام آباد اور راولپنڈی سے 6، 6 پی ٹی آئی رہنماؤں کو شامل کیا گیا ہے ۔کمیٹی میں اسلام آباد سے عامر مغل، شیر افضل مروت، شعیب ...

24نومبر کا احتجاج منظم رکھنے کے لیے آرڈینیشن کمیٹی قائم

عمران خان کی توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت منظور،رہائی کا حکم وجود - بدھ 20 نومبر 2024

اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ ٹو کیس میں دس دس لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض بانی پی ٹی آئی کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ہائیکورٹ میں توشہ خانہ ٹو کیس میں بانی پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری پر سماعت ہوئی۔ایف آئی اے پر...

عمران خان کی توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت منظور،رہائی کا حکم

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر