... loading ...
ستمبر کا مہینہ عالمی سطح پر اہم واقعات کے لئے جان بوجھ کر منتخب کیا گیا یا یہ محض ’’اتفاق‘‘ ہے؟ چند روز قبل 28ستمبر کو چوتھے ’’خونی چاندــ‘‘ “Blood Moon” کا دن تھا۔یہ ایسا چاند گرہن ہوتا ہے جس میں چاند کی رنگت سرخ خون کی مانند ہوجاتی ہے۔ اس مرتبہ پہلا سرخ چاند گرہن15؍اپریل 2014ء کو ہوا۔ دوسرا 8؍ اکتوبر 2014 ء کو ہوا۔ تیسرا سرخ گرہن 4 ؍اپریل 2015ء کو ہوا۔ جبکہ اب چوتھا سرخ چاند گرہن 28؍ستمبر2015ء کو ہواہے۔
بنیاد پرست یہودیوں اور عیسائیوں کے نزدیک تاریخ میں جب بھی چار سرخ چاند گرہن لگاتار ہوئے، دنیا بڑے واقعات سے دوچار ہوئی ہے۔مثلا ماضی میں اسپین سے یہودیوں کی بے دخلی اور انہیں زبردستی عیسائی بنانے کی مہم، امریکہ کا دریافت ہونااور یہودیوں کے لئے پناہ گاہ بننا، اسرائیل کا قیام اور یہودیوں کی مقبوضہ فلسطین میں آمد کے حوالے سے بنیاد پرست یہودیوں اور عیسائیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ واقعات چار سرخ چاند گرہن کے بعد وقوع پذیر ہوئے تھے۔ چنانچہ بنیاد پرست یہودی اس بار اسے ہیکلِ سلیمانی کی دوبارہ تعمیر سے تعبیر کررہے ہیں۔ ان کے نزدیک یروشلم میں مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل کی تعمیر کے ساتھ ہی اس شہر کو ـ’’عالمی قوت کے دارالحکومت ‘‘ہونے کا درجہ حاصل ہو جائے گا۔ لیکن اس سے پہلے واشنگٹن کو اس امتیاز سے محروم ہونا پڑے گا۔اقوام متحدہ کو تحلیل ہونا پڑے گا۔ عالمی کرنسی ڈالر کو زوال پزیر ہونا ہوگا۔ یہ بات تاریخی طور پر واضح ہے کہ جس وقت عالمی قوت کا اسٹیٹس یورپ سے امریکہ منتقل ہوا تو پہلی اور دوسری عالمی جنگیں ہوئیں۔ اس کے بعد لندن کی جگہ واشنگٹن نے لی۔ پونڈ کی جگہ ڈالر نے سنبھالی۔لیگ آف نیشن کی جگہ اقوام متحدہ کو قائم کیا گیا۔ اب جبکہ عالمی صہیونیت کے دجالی منصوبے کے مطابق واشنگٹن سے عالمی قوت کا اسٹیٹس پروشلم منتقل ہوگا تو یقینی بات ہے اقوام متحدہ کا وجود بے معنی ہوجائے گا۔ ڈالر محض کاغذ کا ایک ٹکڑا بن جائے گا۔اس کا اندازا اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی معیشت اس وقت جس شاخ نازک پر براجمان ہے وہ کسی وقت بھی ٹوٹ سکتی ہے۔ ان تمام باتوں کے تناظر میں دیکھنا یہ ہے کہ اس ماہ ستمبر میں اقوام متحدہ کا ایک بے سمت سربراہی اجلاس کیوں بلایا گیا؟ اسی ماہ پوپ نے امریکہ کا دورہ کیوں کیا؟ اسی ماہ چین اور روس کے سربراہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں بنفس نفیس کیوں آئے؟ پوپ اور اوباما کے درمیان ملاقات کا اصل ایجنڈا کیا تھا؟ اسی ماہ حج کے موقع پر حرم مکی میں کرین کا گرنا اور پھر سانحہ منیٰ کو عالمی تنازع بنانے کی کوشش کیا معنی رکھتی ہے؟
اقوام متحدہ کے70ویں اجلاس کاشور وغوغا تو بہت ہے لیکن اس اجلاس میں ہونے کیا جارہا تھا۔ اس حوالے سے تشویشناک پہلو بہرحال اپنی جگہ قائم ہے۔ عالمی معاملات میں اقوام متحدہ کی کیا اہمیت باقی رہ گئی ہے اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ عالمی پلیٹ فارم اب اپنی نام نہاد افادیت بھی کھو چکا ہے۔ یہ بس ایک عالمی اسٹیج کی حیثیت اختیار کرگیاہے جہاں عالمی رہنما اپنی اپنی بولی بول کر گھر کی راہ لیتے ہیں۔ کسی زمانے میں جس وقت اقوام متحدہ کے اس قسم کے اجلاس ہوا کرتے تھے تو اپنے اپنے ملکوں کی قدآور شخصیات اس میں شرکت کے لئے آیا کرتیں تھیں۔ ایجنڈا بھی پہلے سے تیار اور واضح ہوتا تھا اور تقریبا ہر کوئی جانتا تھا کہ اسے اس عالمی پلیٹ فارم پر کیا بولنا ہے؟ کس کی حمایت کرنی ہے اور کس کی مخالفت میں جانا ہے؟ لیکن اس مرتبہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ اجلاس ایک بے سمت اجلاس تھا۔ کوئی منظم قسم کی کارروائی اس میں دیکھنے کو نہیں ملی۔ یہ اجلاس ہے یا غیر ملکی خصوصا تیسری دنیا کے رہنماؤں کا سیر سپاٹا، کچھ خبر نہیں۔
البتہ مشرق وسطیٰ کے حالات میں جو ’’بڑی تبدیلی‘‘ ہونے جارہی ہے۔ اس میں روسی صدر پیوتن کی آمد کسی حد تک اہم کہلائی جاسکتی ہے اور ملاقاتوں میں اگر کوئی اہم ملاقات ہے تو وہ پیوتن اور اوباما کی ملاقات ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روس براہ راست شام کے معاملات میں ملوث ہوچکا ہے۔ یا یوں کہا جاسکتا ہے کہ مغرب کی جانب سے جان بوجھ کر ایسے حالات پیدا کیے گیے ہیں کہ روس کو شام میں عسکری مداخلت کرنا پڑی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شام کے معاملات میں ایرانی فورسز اور ایران نواز لبنانی شیعہ عسکری تنظیم حزب اﷲ کا بھاری نقصان ہوا ہے اور انہیں ایک طرف داعش اور دوسری جانب القاعدہ کی شاخ جبھۃ النصرہ اور فری سیرین آرمی کے ہاتھوں بھاری نقصانات اٹھانا پڑے ہیں۔ جس کی وجہ سے بشار انتظامیہ کی پوزیشن خاصی کمزور ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران اور حزب اﷲ کی جانب سے روسی فوج کی مداخلت کا خیر مقدم کیا گیا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ روس کو ایک مرتبہ پھر ایسے جہنم میں جھونکنے کا منصوبہ کس نے اور کیوں بنایا ہے؟ جیسا منظرہم تاریخ میں افغانستان میں دیکھ چکے ہیں؟اس میں شک نہیں کہ روس اور چین کے شام میں بھاری مفادات ہیں۔ بحیرہ روم کی جانب طرطوس کی واحد بندرگاہ دونوں ملکوں کے لئے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ جبکہ امریکا اور اسرائیل کسی طور بھی روس اور چین کو اس خطے میں فعال دیکھنا نہیں چاہتے۔ وہ بھی ایسی صورتحال میں جبکہ کریمیا اور یوکرین کے خطے میں روس اپنے پیر مضبوط کرچکا ہو۔اب جبکہ روسی عسکری دستے اپنے بھاری جنگی سازوسامان کے ساتھ شام میں براستہ ایران وارد ہوچکے ہیں تو آگے کا منظر نامہ کیا ہوسکتا ہے؟
دراصل مشرقِ وسطیٰ میں لگائی گئی آگ کا مقصد اسرائیل کے راستے کی رکاوٹوں کو دور کرنا ہے لیکن اس حوالے سے روس سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے کیونکہ اسرائیل کی جغرافیائی استعماریت کا ردعمل اگر کہیں سے آسکتا ہے تو وہ صرف روس ہی ہے۔ اسی وجہ سے امریکی اور اسرائیلی فوجی ماہرین نے پہلے جارجیا اور پھر آب غازیہ میں روس کے خلاف مسلح بغاوتیں کروائیں۔ تاکہ روس کو اس کی پرانی سرحدوں کے اندر محصور کردیا جائے اور وہ آنے والے تبدیلیوں کے واقعات میں اپنا کردار ادا نہ کرسکے۔ لیکن یہ چال اسرائیل اور امریکا کے اوپر الٹی پڑ گئی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ روس کے میزائل ردعمل کا مقابلہ کرنے کے لئے پہلے پولینڈ اور پھر جارجیا میں امریکا نے ’’میزائل شیلڈ‘‘ پروگرام نصب کرنے کی کوشش کی۔ تاکہ اسرائیل کے خلاف ردعمل دیتے ہوئے روسی میزائلوں کو راستے میں روک کر تباہ کیا جاسکے لیکن یہ کوشش بھی کامیاب نہ ہوسکی۔ اسی لئے شام میں خانہ جنگی کو ہوا دی گئی لیکن تیونس، مصراورلیبیا کی طرح وہاں حکومت کو یک دم بدلنے نہیں دیا گیا، بلکہ خانہ جنگی کو جان بوجھ کر طول دیا گیا۔ ورنہ کیا یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ امریکااور نیٹو کے نہ چاہتے ہوئے دمشق میں بشار الاسد کا اقتدار برقرار رکھا جاسکتا تھا۔لیکن اس خانہ جنگی سے کئی قسم کے مقاصد کا حصول مطلوب تھا۔ سب سے پہلے عرب اور ایران کی مخاصمت کو ہوا دینا، اس کے بعد سنی شیعہ جنگ کو بھڑکانا مقصود تھا، جس میں دجالی قوتیں پوری طرح کامیاب رہی ہیں۔ اس کے بعد ایران کو تھپکی دینے کے لئے اس کے ساتھ امریکا اور مغربی قوتوں نے جوہری معاہدہ کیا۔ اس سلسلے میں اسرائیل نے ڈراما کرتے ہوئے اس کی مخالفت شروع کی۔ لیکن یہ سب کچھ ایک دھکاوا تھا۔ورنہ وہ امریکاجہاں اسرائیلی لابی کی مرضی کے بغیر امریکی صدر منتخب نہیں ہوتا۔ وہ کیسے بھلا اسرائیل کو ناراض کرکے ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کرلیتا!
اب جبکہ شام کے بعد یمن کا محاذ بھی پوری طرح گرم کیا جاچکا ہے تو اس کھیل کا حتمی حصہ شروع کیا گیا ہے اور وہ ہے روس کو شام کی دلدل میں پھنسانا۔امریکا اور اسرائیل کو چونکہ بشار انتظامیہ کے ساتھ ساتھ ایک ایسا دشمن بھی خطے میں درکار تھا جس کے خلاف وہ ہلکی پھلکی عسکری کارروائیاں کرتا رہے تواس خلا کو داعش نے پر کردیا۔ صدر نکسن کے زمانے کے قومی سلامتی کے امور کا نگران بریزنسکی نے (جو روس کے خلاف شروع سے ہی مخاصمت رکھتا ہے اور افغانستان کی جنگ کے دوران پاکستان کے کئی دورے بھی کرچکا تھا) اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ شام میں داعش کا مقابلہ کرنے کے لئے مشترکہ کوششوں کو بروئے کار لایا جائے گا۔ ان مشترکہ کوششوں کا مقصد روس کو شام کی آگ میں دھکیلنا مقصود تھا، جس میں وہ فی الحال کامیاب نظر آتے ہیں۔ آئندہ آنے والے منظر نامے میں صاف نظر آرہا ہے کہ روسی فوجی دستے بشار حکومت کے تحفظ کے لئے ان تنظیموں سے نبردآزما ہوجائیں گے جو بشار حکومت کا تختہ الٹنا چاہتی ہیں۔ ایسی صورت میں یہ تنظیمیں پوری قوت کے ساتھ روسی عسکری دستوں پر حملہ آور ہوں گی تو دوسری جانب داعش پوری قوت کے ساتھ روسی فوجی دستوں پر ٹوٹ پڑے گی۔یاد رہے عراق اور شام میں داعش کی عسکری قوت میں زیادہ تر روسی علاقوں خصوصا چیچنیا کے مسلمان شامل ہیں جو روسی فوج کے ساتھ چیچنیا میں دو دو ہاتھ پہلے ہی کرچکے ہیں۔
اس صورتحال کا فائدہ اٹھا کر امریکا اور مغربی ممالک اسرائیل سمیت ان تنظیموں کو یکدم اسلحہ مہیا کرنا شروع کردیں گے جنہیں وہ پہلے ہی ترکی اور اردن کے راستے شام میں داخل ہونے کی بھرپور سہولیات مہیا کرتے رہے ہیں۔ لیکن یکدم جدید اسلحے کی فراہمی اور نئی افرادی قوت کے پہنچ جانے سے روسی فوجی دستے بُری طرح شام کی جنگ میں الجھ سکتے ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہوگا جس طرح افغانستان کی جنگ کے دوران سوویت یونین کے خلاف کیا گیا تھا۔ یوں طرطوس کی بندرگاہ تو دور کی بات شام کی سرزمین بھی روسی فوج پر تنگ ہوجائے گی۔جس وقت تک روس زخم چاٹ کر شام سے نکلے گا تو بشار مخالف تنظیمیں بھی نیم جاں ہوچکی ہوں گی اور فی الحال خطے میں اسرائیل کا کوئی مقابل نظر نہیں آئے گا۔ ایران سمجھے گا کہ عراق کی طرح باقی عرب خطے میں بھی اسے پوری طرح کُھل کھیلنے کا موقع مل جائے گا،تو یہ اس کی غلط فہمی ہوگی۔ ایران کا ہوّا صہیونی قوتوں نے اس لئے کھڑا کیا ہے کہ عرب ممالک اسرائیل کو ایران دشمن سمجھتے ہوئے مجبورا ًاسرائیل کی جانب تعاون کا ہاتھ بڑھا دیں۔ جیسا کہ مصر، اردن اور قطر نے کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اب اسرائیلی ذرایع ابلاغ میں یہ بات شدومد سے کہی جارہی ہے کہ اسرائیل کو خطرہ ایران کے جوہری پروگرام سے نہیں۔ بلکہ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں سے ہے۔
اس سلسلے میں پچھلے دنوں تل ابیب کے انسٹی ٹیوٹ برائے قومی سلامتی میں ایک باقاعدہ تحقیقی مقالہ تحریر کیا گیا ہے جس کے بارے میں کچھ رپورٹیں اسرائیلی اخبار ’’ہارتس‘‘ میں شائع ہوئی ہیں۔ان رپورٹوں کے مطابق ’’ایران کا جوہری پروگرام کسی بھی سطح پر ہو لیکن یہ امر طے ہے کہ اس کے پاس ایک بھی جوہری ہتھیار نہیں جبکہ برطانوی رپورٹوں کے مطابق پاکستان تیزی کے ساتھ اپنے جوہری ہتھیاروں میں اضافہ کررہا ہے اور 2020ء تک اس کے جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے میں 200جوہری ہتھیار ہوجائیں گے اس لئے اسرائیل کے لئے اصل خطرہ ایران نہیں بلکہ پاکستان ہے۔‘‘چنانچہ پاکستان کے دفاع کے ضامن اداروں کو اصل میں اس طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہے کہ وہ چین کی طرح روس کے ساتھ قریبی سفارتی اور عسکری تعلقات استوار کریں کیونکہ مستقبل میں اسرائیلی کی صہیونی عالمی حاکمیت کو روس نے چیلنج کرنا ہے اور روسی اور مسلمان ملک یہ جنگ مل کر لڑیں گے۔ اب اس طرف آجاتے ہیں کہ یہ سب معاملات عملی طور پر کب شروع کئے گئے تھے؟
مشرق وسطی اور شمالی افریقا کی موجودہ صورتحال کو تشکیل دینے کا فیصلہ امریکہ میں 2005ء کے آخر میں ہوچکا تھا۔ 2006ء میں امریکا کی سابق وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس نے انکشاف کیا تھا کہ ’’ایک نیا مشرق وسطی وجود میں آنے والا ہے۔‘‘ ایک بات کو ذہن میں رکھا جائے کہ جب مغربی ذرائع مشرق وسطیٰ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو اس میں صرف جزیرۃ العرب کو بیان کرنا مقصود نہیں ہوتا بلکہ ایک طرف شمالی افریقا اور دوسری جانب پاکستان تک کا علاقہ ان کے مد نظر ہوتا ہے۔ اس لئے یہ سوچنا کہ ’’نئے مشرق وسطیٰ‘‘ سے مراد صرف جزیرہ العرب کے ممالک ہیں غلط ہوگا۔ حالات کا بغور جائزہ لیا جائے تویہ خطہ ایسا ہے جو امریکاکی صیہونی استعماریت کے سامنے عوامی سطح پر زیادہ لوہے کا چنا ثابت ہوا ہے۔ باوجود اس کے یہاں کی حکومتیں اور ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ امریکیوں کی جیب کا سکہ تصور کی جاتی ہیں۔امریکا کی سینٹرل کمانڈ کا دائرہ اختیار بھی ایک طرف شمالی افریقا سے شروع ہوکر دوسری جانب پاکستان تک دراز ہے۔ اس لئے امریکیوں اور اس کے صہیونی صلیبی عسکری اتحاد نیٹو کی نظر میں مشرق وسطیٰ کے علاقے کا مفہوم سمجھنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔ اس لئے ’’نئے مشرق وسطی‘‘ کے ظہور کا مقصد صرف امریکیوں کے نزدیک شمالی افریقا سے لیکر پاکستان تک نئی سیاسی اور جغرافیائی درجہ بندی تھی۔
اب اس ’’نئے مشرق وسطی‘‘کی جغرافیائی تقسیم کا ایک منظر تو امریکی جریدے آرمڈ فورسز جرنل میں سابق امریکی کرنل رالف پیٹر نے شائع کروایا تھا۔ یہ کسی ایک شخص کی ذہن کی سوچ نہیں تھی بلکہ اس کے پیش نظرمغرب کا وہ سیاسی اور عسکری ایجنڈا تھا جس کے تحت آنے والے دنوں میں کام کیا جانا تھا۔اس میں سب سے زیادہ قطع و برید پاکستان، سعودی عرب اور عراق کی دکھائی گئی تھی۔ پاکستان کے دو صوبوں میں خیبر پی کو افغانستان کے ساتھ ضم دکھایا گیا تھا۔جبکہ بلوچستان کوایک آزاد ریاست کی شکل دے دی گئی تھی۔ سعودی عرب میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کو ایک ’’مقدس ریاست‘‘ کے طور پر الگ کیا گیا تھا۔ باقی سعودی عرب کو چھوٹی چھوٹی قبائلی ریاستوں میں تقسیم دکھایا تھا۔ عراق کو تین حصوں میں تقسیم کرکے عراقی، ایرانی، ترک اور شامی کردستان کو ملا کر ایک بڑی کرد ریاست کا تصور پیش کیا گیا۔ وسطی عرا ق کو سنی ریاست اور جنوبی عراق کو شیعہ ریاست کے طور پر دکھایا گیا تھا۔شمالی سعودی علاقوں کو اردن میں شامل کرکے گریٹر اردن اور گریٹر لبنان کو تشکیل دینا مقصود تھا۔
اس تمام مغربی استعماری تقسیم میں شمالی افریقا واضح انداز میں موجود نہیں تھا۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اس صہیونی منصوبے میں شمالی افریقا کی تقسیم پہلے مرحلے میں واقع تھی اس لئے اسے جان بوجھ کر پوشیدہ رکھا گیا۔ شمالی افریقا کی تقسیم کا آغاز سوڈان کو شمالی اور جنوبی سوڈان میں تقسیم کرکے کیا گیا۔ جبکہ اب امریکہ اور اس کے صلیبی صہیونی اتحادیوں کی پوری کوشش ہے کہ سوڈان کے شمال مغربی حصے دارفور کو باقی سوڈان سے الگ کیا جائے۔ اس کے بعد شمالی اور جنوبی مصر کو مسلمانوں اور قبطی عیسائیوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ ہے یہی وجہ ہے کہ مصر میں حسنی مبارک کو اقتدار سے الگ کئے جانے سے کچھ پہلے جنوبی مصر کے قبطی کلیساؤں پر حملے کروائے گئے تھے۔ جس کے بارے میں مصری انٹیلی جنس کی رپورٹ تھی کہ ان حملوں کا آپریشنل کنٹرول تل ابیب میں تھا۔ تیونس میں بن علی کی غاصبانہ حکومت نشانے پر آئی تو فوجی اسٹیبلشمنٹ کو حرکت میں لاکر اس تحریک کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کی گئی۔ یمن میں تاحال جنگ کی صورتحال ہے۔ جبکہ لیبیا کے عوامی انقلاب کے دوران ہی اس کے تیل اور گیس سے مالا مال شمالی علاقے کو امریکا اور اس کے صیہونی صلیبی اتحاد نے عسکری حملے کی شکل میں قابو کرلیا ہے اسی لئے اس وقت کے فرانسیسی صدر سرکوزی کے قریبی دوست جنرل محمود جبریل کو عبوری انتظامیہ کا سربراہ مقرر کیا گیاتھا۔
کنڈولیزا رائس نے جس ’’نئے مشرق وسطی‘‘کا تصور پیش کیا تھا وہ مذاکرات یا سیاسی دباؤ کے تحت وجود میں نہیں لایا جاسکتا تھا بلکہ اس کے لئے ایک بڑے عالمی کھیل کی بساط بچھائی گئی تھی۔ معاشی اُتار چڑھاؤ چونکہ انسانی رویوں پر تیزی کے ساتھ اثر انداز ہوتا ہے، اس لئے اس شیطانی کھیل کی بساط معاشی میدان میں بچھائی گئی۔ افغانستان اور عراق کی جنگ نے امریکا کو معاشی دیوالیہ تک پہنچا دیا تھا اس لئے انتہائی منصوبہ بندی کے ساتھ اس معاشی سونامی کا رخ باقی دنیا کی جانب بھی پھیرا گیا۔ بدقسمتی سے ’’نئے مشرق وسطی‘‘کے علاقے میں جو ممالک آتے ہیں ان کی معاشیات اور محفوظ ذخائر تمام کے تمام ڈالر میں ہیں۔ اس لئے سب سے زیادہ انہیں ہی متاثر ہونا تھا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ تیل پیدا کرنے والے ممالک بھی مہنگائی اور معاشی ناہمواری کی زد میں آگئے۔منصوبے کے مطابق اسی معاشی ناہمواری کی وجہ سے ’’نئے مشرق وسطی‘‘ کے ممالک کے عوام کو سر اٹھانا تھا اور پھر اسی عوامی بے چینی کے بطن سے ’’نئے مشرق وسطیٰ‘‘ کی تشکیل ہونا تھی۔آج جو کچھ مشرق وسطیٰ خصوصا یمن، شام اور لیبیا میں ہورہا ہے، کیا یہ سب کچھ اس صہیونی صلیبی منصوبے کی تمہید نہیں؟عوام اپنے حکمرانوں کے ظلم کیخلاف نکلتے رہیں اور امریکا اور اس کے صلیبی اتحادی اپنے مفادات کے تناظر میں انہیں شکار کرتے رہیں۔ تاکہ اصلاحات اور جمہوریت کے نام پر مسلمانوں کو جغرافیائی اور مذہبی طور پر تقسیم کرکے ’’نئے مشرق وسطی‘‘ کی داغ بیل ڈالی جائے۔
اسی تسلسل میں نیا اضافہ عرب ملک شام کا تھا۔ شام میں تقریبا88فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے جن میں 78فیصد مسلمان اہل سنت سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ 10فیصد مسلمان اہل تشیع ہیں۔ جبکہ غیر مسلم آباد ی میں سب سے بڑی اقلیت عیسائی ہیں جن کی تعداد سات فیصد جبکہ دروزی اور نصیری فرقے سے تعلق رکھنے والے افرادپانچ فیصد کے برابر ہیں اور یہی انتہائی کم اقلیت شام پر پانچ دہائیوں سے نہ صرف حکمران ہے۔ بلکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے مسلمان آبادی پر انتہائی ظلم وستم کا رویہ اختیار کئے ہوئے ہے۔
یہ وہ حالات ہیں جن میں اب ’’نئے مشرق وسطی‘‘ کی تشکیل کے شیطانی منصوبے کو پروان چڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تاکہ اس تمام انتشار زدہ خطے میں اسرائیل ایک نئے اور قائدانہ کردار کے ساتھ نمودار ہوسکے اورمعاشی،سیاسی اور فکری ناہمواری کے حامل اس خطے کی تمام باگ دوڑ اسرائیل کے ہاتھ میں ہو۔ اس لئے درحقیقت یہ ’’نئے مشرق وسطیٰ‘‘ کاایجنڈابرائے نام ہے درحقیقت یہ ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کا ایجنڈا ہے جس میں علاقے کی کوئی قوت یا ملک اس قابل نہ رہے کہ اسرائیل کی من مانی کے سامنے بند باندھ سکے۔ اس لئے جمہوریت اور عوامی تحفظ کے نام پر پہلے حکومتی فوجوں اور عوام کے درمیان جنگ کی کیفیت پیدا کرکے دونوں کو تباہی کے دہانے پر پہنچانا مقصود ہے اور اس منصوبے پر تیزی کے ساتھ کام جارہی ہے ایک کے بعد ایک عرب ملک اس کی لپیٹ میں آرہا ہے۔
اب رہ گیااس خطے کے مشرقی حصے پاکستان کا احوال۔ تو خیبرپی کے اور بلوچستان میں جو کچھ برپا کیا گیا، کیا وہ رالف پیٹر کے شیطانی منصوبے کے مطابق نہیں ہے ؟ امریکا نے افغانستان سے انخلاء کا جھانسا دے کر پاکستانیوں کو بے وقوف بنایا۔ انتہائی منصوبہ بندی کے تحت عملاً یہاں کے ادارے اور صنعتیں تباہ کردی گئی ہیں۔دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت کی حامل ریاست کے عوام روٹی کو ترس رہے ہیں۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ سوویت یونین بھی بڑی ایٹمی قوت تھی لیکن زوال کے بعد اس کے جرنیلوں نے ماسکو کی گلیوں میں جوتے فروخت کئے تھے۔ ان کے پاس بہترین اسلحہ اور رہائش کے لئے بہترین بنگلے موجود تھے لیکن کھانے کو ڈبل روٹی نہیں تھی۔بجلی اور گیس کا جو حال ہے اس نے واقعی امریکی دعوے کے مطابق ہمیں پتھر کے زمانے میں پہنچا دیا ہے۔ کاش ہم لڑ کر پتھر کے زمانے میں جاتے یوں نہ جاتے! چین کے ساتھ اقتصادی راہداری اور گوادر پورٹ کا منصوبہ پاکستان کے دفاع میں بھی ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ آنے والا وقت وطن عزیز کے حوالے سے سخت ہے۔ ایک طرف بھارت کی جانب سے اشتعال انگریزی ہے تو دوسری جانب افغانستان سے غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے۔ بدقسمتی سے سیاسی قیادت نام کی کوئی چیز اس وقت پاکستان میں نہیں اور جو ہیں وہ نااہل ہیں اس لئے پاکستان کے دفاع کے ضامن اداروں کو ہی اس سلسلے میں اہم اور مناسب اقدامات اٹھانے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے دنیا سے پاکستان کو پھر موسمیاتی انصاف دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں ہیضہ، ملیریا اور ڈینگی سیلاب سے زیادہ جانیں لے سکتا ہے۔ اپنے بیان میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ پاکستان صحت عامہ کی تباہی کے دہانے ...
پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں یوکرین سے روسی افواج کے فوری انخلا کا مطالبہ کرنے والی قرارداد پر جاری بحث میں اپنی باری پر حصہ نہیں لیا۔ اجلاس میں بھارت کے ووٹ دینے سے گریز سے متعلق سوال پر امریکی محکمہ خارجہ نے صحافیوں پر زور دیا کہ وہ انفرادی طور پر مخصوص مم...
اقوام متحدہ نے سابق افغان صدر محمداشرف غنی کا نام سربراہان مملکت کی فہرست سے نکال دیا ہے۔اقوام متحدہ کی آفیشل ویب سائٹ پر چند روز قبل 15 فروری کو نظرثانی شدہ اور ترمیم شدہ فہرست میں افغانستان کی خاتون اول کے طورپر سابق صدراشرف غنی کی اہلیہ رولا غنی(بی بی گل) کا نام بھی ہٹادیا گیا...
او آئی سی نے بھارت کی ریاست اتراکھنڈ میں مسلمانوں کے قتل عام کی دعوت دینے،سوشل میڈیا پر مسلم خواتین کو پریشان کرنے اور مسلم طالبات کو حجاب سے سے منع کرنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ سعودی میڈیا کے مطابق او آئی سی نے کہا کہ مسلمانوں کی عبادت گاہوں پر حملے اور مختلف ریاستوں میں مسلما...
اقوام متحدہ کے تازہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ سال 55 صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کو قتل کیا گیا جبکہ 2006 سے ہر 10 میں سے9 قتل کے واقعات تاحال حل نہیں ہوئے۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق نیویارک سے جاری رپورٹ میں کہا گیا کہ خواتین صحافیوں کو خاص طور پر خطرہ لاحق ہے ج...
پاکستان میں ایک سال کے دوران ایڈز کے 25 ہزار کیسز سامنے آئے ہیں۔اس حوالے سے اقوام متحدہ کے پروگرام یواین ایڈز نے اعدادوشمار جاری کردیے ہیں۔اعدادوشمار میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال 8200 افراد کی ایڈز کے باعث موت ہوئی۔ پاکستان میں 10 برس کے دوران ایڈز کی شرح اموات میں 507 فیصد اضاف...
امریکی انتظامیہ نے امریکی اور اقوام متحدہ حکام کو طالبان حکام کے ساتھ سرکاری نوعیت کے مالی امور نمٹانے کی اجازت دے دی ہے۔ اس اجازت کا مقصد اقوام متحدہ کی جانب سے آنے والے سال میں طالبان کی حکومت کو 60 لاکھ ڈالر کی امداد کی فراہمی کے لئے راہ ہموار کرنا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق امری...
طالبان نے اقوام متحدہ میں سفیر کی تعیناتی کے لیے ایک بار پھر درخواست دے دی۔غیرملکی میڈیا کے مطابق افغانستان کی سابق حکومت کے سفیر نے اقوام متحدہ میں نشست چھوڑ دی ہے جس کے بعد طالبان نے ایک بارپھراقوام متحدہ سے اپنا سفیر بھیجنے کی اپیل کی ہے۔ طالبان رہنما اور اقوام متحدہ کی نشست ک...
انتہائی خطرناک ہتھیاروں پر پابندی لگانے کی انٹرنیشنل میٹنگ پیر تیرہ دسمبر سے جنیوا میں شروع ہو گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے افتتاحی خطاب میں انتہائی خطرناک ہتھیاروں پر پابندی کو وقت کی ضرورت قرار دیا ہے۔اقوام متحدہ کی زیرِ نگرانی ہونے والی اس بات چیت میں کئی ممالک کے س...
ورلڈ بینک نے کہا ہے کہ وہ امریکا اور اقوام متحدہ کی تجویز کو عملی شکل دینے کے لیے افغانستان کے منجمد فنڈز میں سے 50 کروڑ ڈالر جاری کرنے پر کام کر رہا ہے۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ورلڈ بینک میں افغانستان کے ترقیاتی پروجیکٹس کے لیے 1 ارب 50 کروڑ روپے کی رقم موجود ہے جسے طالبان ...
اقوام متحدہ نے اعلان کیا ہے کہ افغانستان کی امداد کیلئے اس کی حالیہ اپیل کا 600 ملین ڈالر کا ہدف مکمل ہوگیا ہے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق عالمی ادارے کے ترجمان نے کہا ہے کہ افغانستان کیلئے عالمی ادارے کی تازہ اپیل اب 100 فیصد فنڈڈ ہے۔اقوام متحدہ نے ستمبرمیں جینیوا میں ہونے والے اجلاس م...
اقوام متحدہ نے پاکستان میں گلیشیئرز پگھلنے کی صورت حال کو تشویش ناک قرار دیدیا۔اقوام متحدہ کے بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو گلوبل وارمنگ کے بحران کا سامنا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ قطبی اور پہاڑی گلیشیئرز ممکنہ طور پرکئی دہائیوں تک پگھلتے رہیں...