... loading ...
پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کو توسیع کب ملنی ہے؟ کون دے گا؟ کیوں دے گا؟ اس کی دلیل کیاہے، نظیر کیاہے؟ اس کے پاک فوج کے مورال پر کیا اثرات ہوں گے؟ قوم اس پر کیا سوچے گی؟ ان سوالوں کے علاوہ بھی بہت سےسوال ہیں جو اپنی جگہ موجود رہیں گے۔ ان پر بات ہونی بھی چاہیے۔ہو نٹوں نکلی بات کو ٹھوں جاچڑھتی ہے،سوجو بات ملکی میڈیا نے شروع کی اب عالمی ذرائع ابلاغ میں بھی اس پر بات ہورہی ہے۔
برطانوی جریدے اکانومسٹ نے اپنی رپورٹ میں پہلا موازنہ جنرل راحیل شریف اور نوازشریف کاکیاہے کہ سپہ سالار اس قدر مقبول ہیں کہ اب منتخب وزیراعظم نوازشریف کےلیےانہیں نظرانداز کرنا ممکن نہیں رہے گا اور دوسرا موازنہ یہ کیاہے کہ جنرل راحیل اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں فرق یہ ہے کہ فوج کا مورال اس وقت بہت ڈاؤن تھا، جوانوں کو عوامی مقامات پروردی میں نکلنے سے روک دیا گیاتھا اور اب ان کے سرفخر سے بلند ہیں۔
برطانوی جریدے کا تجزیہ یک رخا اور اس کے موازنے بھی بے جوڑ اورزمینی حقائق سے بہت دور ہیں جنرل راحیل شریف کا وزیراعظم نوازشریف سے موازنہ نہیں ہوسکتا۔ مختصر بات یہ کہ دونوں کی الگ الگ خصوصیات اورمختلف ترجیحات ہیں۔ ان کے اختیارات کہیں لامحدود بھی ہیں تو کہیں وہ مجبور بھی ہیں، رہی بات مشرف سے موازنے کی تو جنرل راحیل شریف اردو محاورے کے راجہ بھوج ہیں محاورہ کچھ یوں ہے کہ کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگو تیلی۔۔۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں نہ تو کوئی پروفیشنل فوجی فل ٹائم پاک فوج کا سربراہ تھانہ ہی کو ئی سویلین فل ٹائم صدراور نہ ہی کوئی با اختیار وزیراعظم۔ ایسی اندھیرنگری میں را ج چوپٹ ہی ہوجاتاہے۔ مقبولیت اور توسیع کو علیحدہ علیحدہ ہی دیکھا جانا چاہیے کیونکہ جو مقبول ہوئے انہوں نےمدت ملازمت میں توسیع قبول نہیں کی، جنہوں نے توسیع لی وہ مقبولیت کھو بیٹھے۔
پاک فوج میں ترقیاں، تقرراور تبادلے معمول کی بات ہیں۔ یہ امر خوش آئندہےکہ پاک فوج میں یہ عمل اپنے طے شدہ داخلی نظام الاوقات کے مطابق باقاعدگی سے ہوتاہے۔ سول بیوروکریسی میں بھی یہ معمول ہے مگر پاک فوج کو اس پر کئی درجےفضیلت حاصل ہے۔ پاک فوج میں ترقیاں، تقرراور تبادلے سیاستدانوں کا میدان ہے نہ انہیں اس کے بیچ کودنا چاہیےلیکن سیاست اورصحافت کے لبادے میں بعض سیاست کاروں کے وفاداروں نے پاک فوج میں اعلی سطح کے حالیہ تقرر وتبادلوں کے موسم سے ذرا پہلےایسا طوفان اٹھانے کی کوشش کی ہی اوراتنی گرد اڑائی ہے کہ منظر دھندلانے لگے ہیں۔
خیر، اب تو پاک فوج کے مضبوط نظام نے سارامعاملہ ہی صاف کردیا۔ جو لوگ افواہوں کا بازار گرم کیے ہوئے تھےان کے ارمان بھی ٹھنڈے ہوگئے۔ان عناصرنے تبادلے اور تقرر کے موسم کا فائدہ اٹھاکر پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کے بارے میں خوب خبریں پھیلائیں، وہ اب بھی یہی کررہے ہیں۔ ان کا نہ اُس وقت کوئی محل تھا، نہ اب ہے۔ کیونکہ جنرل صاحب 30 نومبر 2016ء کو ریٹائر ہوں گے۔ ان کے مطابق اگر توسیع ہونی ہے اس پر کم ازکم اس سال تو غور نہیں ہونا پھر خود جنرل راحیل شریف توسیع لینے کے حق میں نہیں۔ وہ ایک خالص پیشہ ور سپاہی ہیں اور جانتے ہیں کہ پاک فوج میں بہرحال کسی اعلیٰ عہدے پر تو سیع کو مثبت نہیں لیاجاتا کیونکہ بعض اوقات اس کے نتیجے میں اس عہدے اور اس سے نچلےعہدوں پراس توسیع کے باعث ترقی کا عمل متاثر ہوجاتاہے تو کوشش کے باوجود کچھ افسران دل سے یہ بات نہیں نکال پاتے کہ فلاں اپنے عہدے سے پر اتنے سال نہ رہتے تو شاید وہ اس سے اعلی عہدے پر سے ریٹائر ہوتے۔
جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں بہت سی مثالیں موجود ہیں۔جنرل شاہد عزیز کی کتاب “یہ خاموشی کہاں تک” میں اس کا احساس ملتاہے۔ اور جنرل ضیا الحق کے قریبی ساتھی جنرل خالد محمود عارف نے بھی سب کچھ کھل کے ہی لکھ دیاہے۔
پاک فوج کے افسران کی داخلی تبدیلیوں پر بات کرنا نہ تو موضوع ہے نہ ہی موزوں۔ اس لیے اپنے سوال کی طرف آتے ہیں کہ جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع اور مقبولیت،جنرل راحیل کے مقبول ہونے کی بھی ایک سے زائد وجوہات ہیں اور توسیع قبول نہ کرنے کی بھی۔
جنرل راحیل شریف کے خاندان میں دو نشان حید ر ہیں پاکستان میں کسی جرنیل کاایسا خاندان نہیں۔ پاکستان کی دو بڑی جنگوں میں ان کے گھر انے نے ملک کا سب سے بڑا فوجی اعزاز حاصل کیا۔خود انہوں نے دہشت گردی کے خلاف سرحدوں کے اندر جنگ میں اوربیرونی دشمن بھارت کےرویئےکے خلاف ایک شیردل جرنیل کا رویہ اختیارکیا۔توسیع لینے والوں کی مثالیں جنرل راحیل شریف کے سامنے موجود ہیں اس کی زندہ مثال تو جنرل مشرف ہیں، جنہیں آصف زرداری بزدلی کاطعنہ دیتے ہیں کہ جیل جانے سے کیوں ڈرتے ہو؟ اس پر خود کو کمانڈو کہنے والے پرویز مشرف کی زبان گنگ ہوجاتی ہے۔
جنرل مشرف خود اپنے دور میں دلیرانہ فیصلے نہیں کر سکے وہ کیسے کسی کو اچھا مشورہ دے سکتے ہیں بہتر یہی ہے کہ وہ اپنے مشورے سنبھال کے رکھیں نوازشریف ان کا مشورہ سننا نہیں چاہتے اور جنرل راحیل شریف تو سیع لینے کے حامی نہیں۔ جنرل مشرف کےلیے بہتر یہی ہے کہ وہ اپنی سیاسی جماعت کو منظم کریں اور مقدمات پر توجہ دیں کسی بڑے کھیل کے لیے نہ تو وہ فٹ ہیں نہ انکی ضرورت ہے۔
جنرل (ر) پرویز مشرف کی موت محض تعزیت کا موضوع نہیں، یہ تاریخ کا موضوع ہے۔ تاریخ بے رحمی سے حقائق کو چھانتی اور شخصیات کے ظاہر وباطن کو الگ کرتی ہے۔ تعزیت کے لیے الفاظ درد میں ڈوبے اور آنسوؤں سے بھیگے ہوتے ہیں۔ مگر تاریخ کے الفاظ مروت یا لحاظ کی چھتری تلے نہیں ہوتے۔ یہ بے باک و سف...
اسلام آباد ہائیکورٹ نے لاپتہ افراد کے کیس میں وفاقی حکومت کو پرویزمشرف سے لیکر آج تک تمام وزرائے اعظم کونوٹس جاری کرنے کا حکم دے دیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 15 صفحات کا حکم نامہ جاری کیا ہے جس میں آئینی خلاف ورزیوں پر اٹارنی جنرل کو دلائل کیلئے آخری موقع...
(رانا خالد قمر)گزشتہ ایک ہفتے سے لندن میں جاری سیاسی سرگرمیوں اور نون لیگی کے طویل مشاورتی عمل کے بعد نیا لندن پلان سامنے آگیا ہے۔ لندن پلان پر عمل درآمد کا مکمل دارومدار نواز شریف سے معاملات کو حتمی شکل دینے کے لیے ایک اہم ترین شخصیت کی ایک اور ملاقات ہے۔ اگر مذکورہ اہم شخصیت نو...
سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا ایم شمیم نے انکشاف کیا ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت پر رہائی نہ ہونے کے لیے اُس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے ہائیکورٹ کے ایک جج کو خصوصی حکم دیا تھا۔ انصاف کے تقاضوں کے منافی اس مشکوک طرزِ عمل کے انکشاف نے پاکستان کے سیاسی ، صحافتی اور عد...
2013 میں نواز شریف کے دورِ حکومت میں تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے والی حکومتی کمیٹی کے سربراہ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ اس وقت طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوران عسکری قیادت کی جانب سے حکومت کو تعاون نہیں ملا تھا۔ایک انٹرویو میں سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ حکومت بننے کے ...
سابق وزیراعظم نوازشریف کی نااہلیت کے بعد اب اُن کا نام تمام قومی اور سرکاری جگہوں سے بتدریج ہٹایا جانے لگا ہے۔ تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کی ویب سائٹ سے رکن اسمبلی کے طور پر اُن کا نام ہٹا دیا گیا ہے۔ اسی طرح کراچی ائیرپورٹ پر قائداعظم اور صدرِ مملکت ممنون حسین کے ساتھ اُن کی ...
٭3 اپریل 2016۔پاناما پیپرز (گیارہ اعشاریہ پانچ ملین دستاویزات پر مبنی ) کے انکشافات میں پہلی مرتبہ وزیراعظم نوازشریف اور اْن کا خاندان منظر عام پر آیا۔ ٭5 اپریل 2016۔وزیراعظم نوازشریف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپنے خاندان کے حوالے سے ایک جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا عندیہ دیاتاکہ وہ...
عدالت ِ عظمیٰ کے لارجر بنچ کی جانب سے میاں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ سے نااہلی کے فیصلے نے پاکستان تحریک انصاف اور اُس کی قیادت کی اُس جدو جہد کو ثمر بار کیا ہے جو 2013 ء کے عام انتخابات کے فوری بعد سے چار حلقے کھولنے کے مطالبے سے شروع ہوئی تھی۔ عمران خان کی جانب سے انتخابات میں د...
پاناما کیس کا فیصلہ آنے کے بعدعمومی طور پر پنجاب اور خاص طور پر لاہور میں شدید رد عمل سامنے آیا ہے جیسے ہی سپریم کورٹ آف پاکستان میں5رکنی بینچ نے اپنا فیصلہ سنایا اور میڈیا کے ذریعے اس فیصلے کی خبر عوام تک پہنچی تو ان کا پہلا رد عمل وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کے سات...
جوں جوں نومبر کامہینہ قریب آرہا ہے، پاک فوج کے ممکنہ نئے سربراہ کے حوالے سے قیاس آرائیوں کاسلسلہ بھی دراز ہوتا جارہاہے، تاہم بھارت کے موجودہ جنگی جنون کے بعد پیداہونے والی صورت حال میں عوام اور تجزیہ کاروں کی اکثریت کاخیال یہی ہے کہ وزیر اعظم اس نازک وقت میں آرمی چیف تبدیل کرنے ک...
پارلیمان میں نمائندگی رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے قائدین کے ساتھ وزیراعظم نواز شریف کے اہم مشاورتی اجلاس میں پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، جمعیت العلمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے...
وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 71ویں اجلاس سے خطاب کو جو پذیرائی کشمیر میں حاصل ہوئی ہے ماضی میں شاید ہی کسی پاکستانی حاکم یا لیڈر کی تقریر کو ایسی اہمیت حاصل ہوئی ہو۔ کشمیر کے لیڈر، دانشور، صحافی، تجزیہ نگار، علماء، طلباء اور عوام کو اس تقریر کا...