... loading ...
پاکستان کے انحطاط پزیر معاشرے کی صحافت کے رنگ نرالے ہی نہیں مایوس کُن بھی ہیں۔ ہمارے الیکٹرانک میڈیا کے غیر تربیت یافتہ اینکرز کی صحافت ایک ایسی موج کی طرح رقص کناں ہے جسے ہر دم یہ گماں رہتا ہے کہ اُس کا عین اگلا اُچھال اُسے ساحلِ مراد سے ہمکنار کر دے گا۔ لیکن حقائق کی منہ زور ہواؤں کا محض ایک تھپیڑااُسے سمندر کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل کر بے شباہت کر دیتا ہے۔ ان اینکرزکی ذاتی زندگیاں، صحافتی اداروں خصوصاً چینلز کی اندرونی کہانیاں ہوش رُبا اور عبرتناک ہیں لیکن یہ سب کچھ ’’آزادیٔ صحافت ‘‘ کے لحاف میں ملفوف ہو کر دور سے بڑا ہی خوشنما نظر آتا ہے۔ ہما رے ہاں موجودہ ’’کاروبارِ صحافت ‘‘ میں تجزیوں کی آڑھت کی ایک پوری منڈی ہے جہاں ہر اُبھرتی صبح حکمرانوں اور مختلف مافیاز کی حمایت میں قلم کی روشنائی نیلام ہو کر سیاہی بنتی ہے اور زبانیں بے لگام ہو تی ہیں۔
اخبارات اور ٹی وی چینلز کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جو لکھا اور چھاپا جا رہا ہے، دانش و بینش کے نام پر چینلز جو کچھ دکھا رہے ہیں وہ سب کچھ’’ ایک پوسٹ پیڈ سِم ‘‘ سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس کے سارے پیکج پہلے سے طے شدہ ہیں۔ اور اس ’’پروگرامنگ ‘‘ میں حقائق نام کاکوئی پروگرام انسٹال نہیں ہوسکتا۔ عمران خان اور ان کی سیاست کا ذکر آتے ہی اکثر اوقات ’’حقائق ‘‘ کے ڈرائیورز کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ لکھنے والے اور تجزیہ کرنے والے کا ضمیر اُس کا انتہائی کمزور ساتھی ثابت ہوتا ہے۔ حالیہ دنوں میں ایک مرتبہ پھر حساس قومی معاملات سے توجہ ہٹانے کے لیے عمران خان اور ریحام خان کی خانگی زندگی کو بلا وجہ اُچھا لا جا رہا ہے۔ عمران خان اس صورتحال پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے صورتحال کی وضاحت کر چکے ہیں۔ لیکن ایک منصوبہ بندی کے تحت حقیقی مسائل کو پس منظر میں دھکیلنے کا ماہر میڈیا اپنی ’’چال ‘‘ بدلنے کے لیے تیار نہیں۔
عمران خان سال میں کئی مرتبہ طے شدہ شیڈول کے مطابق اپنے بیٹوں قاسم خان اور سلمان خان سے ملنے برطانیا جاتے ہیں۔ ان کے ہر دورے کے بعد ’’میڈیا کے شرلاک ہومز ‘‘ کسی نئی کہانی کا سُراغ لگا لیتے ہیں۔ اس مرتبہ انہوں نے عمران خان کی ذاتی زندگی کے حوالے سے نیا ’’افسانچہ ‘‘ تلاش کیا جس کی بنیاد بود ی معلومات پر ہے۔ اصل معاملہ پنجاب میں ہونے والے ضمنی اور بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے من پسند نتائج حاصل کر نا ہیں۔ گذشتہ65 سالوں سے ہماری سیاست کو یرغمال بنانے والی سیاسی جماعتیں اور تیس تیس سال تک اقتدار پر مسلط رہنے والوں کو تمام مسائل کی وجہ عمران خان نظر آتے ہیں۔
عمران خان اور جمائما خان کا قصہ پریوں کے دیس کی کہانی معلوم ہوتی ہے۔ ریحام خان اور کپتان کی کہانی کا افسانوی رنگ بھی منفرد ہے۔ عمران خان اور ریحام خان اپنی ازدواجی زندگی کامیابی کے ساتھ گزار رہے ہیں۔ کپتان کی پہلی شادی کی طرح اس شادی کو بھی دنیا بھر میں بھرپور کوریج ملی تھی۔ کپتان کے چاہنے والے اور ان سے حسد کرنے والوں کی اگرچہ کمی نہیں، لیکن اس شادی پر جس قسم کا ردِ عمل سامنے آیا تھا اُس نے کرکٹ کے لیجنڈ اور پاکستانی سیاست کے معروف لیڈ ر کی مقبولیت کو مزید واضح کر دیا تھا۔ شادی کے بعد ریحام خان نے عمران خان کے حوالے سے جن خیالات کا اظہا ر کیا تھا، اس کی تصدیق ان کے روز مرہ کے معمولات سے اب بھی ہوتی ہے۔ نکاح اور ولیمے کی تقریبات نے نئے شادی شدہ جوڑے کو دنیا بھر میں یگانگت عطا کی تھی۔ عمران خان کی نئی ازدواجی زندگی کی کامیابی کے لیے ہر طرف دعائیں سنائی دے رہی تھیں۔ کپتان کی دوسری شادی کی گونجتی شہنائی میں پہلی شادی کی بازگشت بھی سنائی دی تھی۔ اب ایک مرتبہ پھر ایسا ہو رہا ہے۔ کپتان کی پہلی شادی پاکستانیت اور مٹی سے وابستگی اور وارفتگی پر قربان ہوئی اور اس سارے فسانے میں کوئی ایک مقام بھی ایسا نہیں جہاں عمران خان کو ذمہ دار ٹہرایا جائے۔
عمران خان نے کرکٹ کے میدان میں قدم رکھا تو کامرانی نے آگے بڑھ کر اُن کے قدم چومے۔ کامیابیوں، شخصیت کی کشش اور سحر نے اُنہیں خیالوں کے شہزادے کا روپ دے دیا۔ اس پاکستانی لیجنڈ کی ابتدائی زندگی ایک یورپین ’’ پلے بوائے ‘‘کی عکاس تھی، 80 کی دہائی میں جب عمران نے کرکٹ کی دنیا کو اپنے سحر میں پوری طرح جکڑا ہوا تھا تو وہ گلیمر کی دنیا کے لئے بھی ناگزیرہو چکے تھے اور دنیا بھر کی خواتین کا مرکزِ نگاہ بنے ہوئے تھے۔ بھارتی دوشیزائیں تو اُ ن کے ارد گرد اس طرح سے منڈلاتی رہتی تھیں جیسے تتلیاں پھول کا طواف کرتی ہیں۔ 1992 ء میں ورلڈ کپ جیتنے کے بعد عمران شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گیے۔ کینسر ہسپتال تعمیر کرنے کی ان کی خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں پاکستانی عوام نے اہم کردار ادا کیا۔ والدہ شوکت خانم کی وفات کے بعد اور کینسر ہسپتال کی تکمیل کے مراحل میں عمران خان کی زندگی نے بدلنا شروع کر دیا۔ خود سر عمران خان جو ایک پلے بوائے کی سی زندگی گزار رہا تھا، اچانک خودی کا پیکر بن گیا۔ ان کے فیملی ذرائع بتاتے ہیں کہ ’’ عمران خان کو کہیں سے علامہ اقبال کی مشہور نظمیں شکوہ، جوابِ شکوہ کی کاپی ہاتھ لگی۔ عمران نے ان نظموں کو کئی بار پڑھا لیکن سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ عمران نے اپنے والد اکرام اللہ خان نیازی مرحوم سے ان دونوں نظموں اور ان کے خالق کے بارے میں دریافت کیا۔والد کی طرف سے شکوہ، جواب ِ شکوہ کی تشریح ان کے من کو اس قدر بھائی کہ وہ اقبال کے دیوانے ہو گئے۔ مولانا نیازی ؒ اور عمران خان کے گھرانے کا تعلق بہت گہرا اور پُرانا تھا۔ عمران خان کی بہن کے نکاح کے موقع پر عمران خان کی مولانا نیازی ؒ سے کچھ دیر گفتگو ہوئی مولانا نیازی ؒ نے دورانِ گفتگو اپنی گرجدار آواز میں علامہ اقبال ؒ کا کلام پڑھا تو مغرب کی چکا چوند میں جوانی کے ایام گزارنے والے عمران بے حد متاثر ہوئے۔
عمران خان کے اس سے پہلے کئی برطانوی لڑکیوں کے ساتھ اسکینڈل منظر عام پر آچکے تھے۔ موڈریٹ اور سکیولر عمران خان نے اگرچہ زیادہ وقت برطانوی دوشیزاؤں کے جُھرمٹ میں گزارا۔ لیکن انہوں نے کسی لڑکی سے رومانس نہیں کیا۔ وہ جانتے تھے کہ یورپ کی تمام امیر کبیر حسیناؤں کا مسئلہ ایک ہی ہوتا ہے۔ وہاں شہرت یافتہ نوجوانوں، اداکاروں، اور کھلاڑیوں سے شادی کرنے کے لئے مقابلے بازی کا رُجحان بہت زیادہ ہے۔ برطانیہ کی شہزادی لیڈی ڈیانا ہوں، سیتا وائٹ ہوں یا جمائما اعلیٰ طبقے کی وہ خواتین تھیں۔ جو شوہر سے زیادہ شہرت کو عزیز رکھتی ہیں۔
عمران خود کہتے تھے کہ( اُس وقت تک ) انہوں نے زندگی میں اگر کسی سے محبت کی، تو وہ ایما سارجنٹ تھیں جن سے ان کی شادی نہیں ہو سکی۔ انہوں نے ایماسارجنٹ سے شادی کے لئے اپنی والدہ سے اجازت طلب کی تھی لیکن ان کی والدہ نے اس شادی کی اجازت نہیں دی تھی۔ جس کی وجہ سے عمران خاموش ہو گئے اور ایما سارجنٹ نے کوئی نیا ساتھی تلاش کر لیا۔ اس کے بعد عمران خان اور سیتا وائٹ کے درمیان دوستی ہو گئی۔ یہ دوستی رفتہ رفتہ اس قدرمضبوط ہو گئی کہ سیتا وائٹ عمران خان سے شادی کی خواہش لے کر پاکستان آ ئی۔ اُس نے زمان پارک لاہور میں عمران خان کے والدین سے کئی ملاقاتیں کیں۔ وہ عمران خان کو اپنی زندگی کا ساتھی بنانے کے لئے بہت سے پاپڑ بیلتی رہیں۔ لیکن اُسے کامیابی نہیں ہوئی۔ عمران خان کے قریبی ذرائع کے بقول ’’سیتا وائٹ‘‘ نے مسلمان ہونے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ سیتا وائٹ کے بعد جمائما گولڈا سمتھ شادی کے لئے دوسری اُمیدوار تھیں۔ عمران خان کو لاہور کے ایک عالم دین نے مشورہ اور تجویز دی کہ اگر جمائما اسلام قبول کرنے کا عہد کر لے تو شادی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بلکہ یہ اسلام اور پاکستان کی عظیم خدمت ہو گی۔ اس شادی سے پہلے عمران خان کے روز و شب سوچ بچار میں گزرے۔
جمائما گولڈ سمتھ سے عمران خان کی شادی کی خبر پاکستانی عوام کو پسند نہیں آئی تھی۔ عمران خان کے پرستارایک یہودی خاندان سے رشتہ جوڑنے پر دل گرفتہ تھے۔ پاکستانی میڈیا نے اس شادی کو تنقید کا موضوع بنایا تھا۔ پاکستانیوں کا غصہ تو سمجھ میں آتا تھا لیکن اس شادی کے اعلان سے برطانیا میں بھی اکثریت کے ماتھے پر شکنیں اُبھر آئی تھیں۔ لیکن برطانوی شہزادی ڈیانا کی قریبی دوست جمائما گولڈا سمتھ نے اپنی تعلیم، مُلک بلکہ مذہب کو بھی خیر باد کہہ دیا اور اسلام قبول کرکے پاکستان آکر ایک روایتی بیوی بننے کو پسند کرنے کا تاثر دیا تھا۔
جمائما کو شادی سے پہلے لاہور سے شدید نفرت تھی۔ عمران خان مشترکہ خاندانی نظام ( جوائنٹ فیملی سسٹم ) کے حامی تھے جبکہ جمائما خان اس نظام سے دور بھاگتی تھیں۔ اس کا شروع سے ہی اصرار تھا کہ بچے انگلینڈ میں پڑھیں گے اور عمران بھی انگلینڈ میں بسیرا کریں۔ اس دوران جمائما معدے کے مرض میں مبتلا ہو گئیں۔ جمائما ہی کے اصرار پر عمران خان لاہور چھوڑ نے اور اسلام آباد منتقل ہونے پر آمادہ ہوئے تھے۔ جمائمانے’’ سوشل وائف ‘‘بننے کی بہت کوشش کی لیکن عمران نے سختی سے منع کر دیا۔ جمائما نے اپنا اسلامی نام رکھا، دوپٹہ اوڑھا اور پاکستان سے اپنی محبت کاا ظہار کیا، لیکن جمائما مشرقی بیوی نہ بن سکیں۔ جبکہ عمران خان کے گھر کا ماحول رفتہ رفتہ اسلامی سانچے میں ڈھلتا جا رہا تھا۔ پھر اچانک جمائما خان لندن چلی گئیں۔ لندن میں قیام کے دوران وہ بار بار عمران کو پیغام بھیجتی رہیں کہ ’’ پاکستان چھوڑ کر یہاں آجاؤ! مجھے رکھو یا پاکستان کو کسی ایک کا انتخاب کر لو ‘‘۔ ان پیغامات کے حوالے سے عمران خان کے ایک قریبی دوست کا کہنا ہے کہ عمران اپنا گھر بسانے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے۔ لیکن پاکستان چھوڑنے کے مطالبے پر وہ ہر بار ایک ہی جواب دیتے تھے کہ ’’ میں پاکستان نہیں چھوڑ سکتا، شادی سے پہلے میں تمہیں بتا چُکا ہوں کہ تمہیں باقی زندگی پاکستان میں گزارنی ہو گی ‘‘۔
عمران خان نے مغربی تہذیب کا اصل چہرہ پڑھ لیا تھا۔ان دنوں عمران خان نے ایک ریڈیو انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’ دو ثقافتوں کے درمیان ہونے والی شادیوں میں بہت مشکلات پیش آتی ہیں۔ ‘‘ عمران خان کا ہمیشہ سے یہ خیال رہا ہے کہ تہذیبوں کے تصادم کے ماحول میں تہذیبوں کے ملاپ کی باتیں محض کتابی اور خیالی ہوتی ہیں۔عمران خان نے برطانیا جا کر اس رفاقت کو ختم کر دیا۔ لیکن ترکِ تعلقات کا خوشگوار پہلو یہ تھا تمام مراحل انتہائی خوش اسلوبی سے طے ہوئے۔ قاسم خان اور سلمان خان کی اسلامی تربیت کی ضمانت لی گئی۔ عمران خان نے جس طرح سے یہ معاملہ ختم کیا تھا وہ ان کی اسلام سے وابستگی اور پاکستان سے دلبستگی کا خوبصورت اظہار تھا۔ لیکن پھر بھی طلاق کا لفظ رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے۔ مغربی معاشرے کی کسی لڑکی کے لئے اس ’’ناپسندیدہ عمل‘‘کے معنی شاید بہت معمولی ہوں لیکن مشرقی معاشرے میں طلاق کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔
عمران خان کی نئی زندگی کی شروعات سے ہی تبصروں اور تجزیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستانی میڈیاسے وابستہ ایک مخصوص طبقہ اگرچہ حاسدینِ عمران کی خواہشات کو خبر بنانے میں مصروف ہے لیکن پاکستانی عوامی کی اکثریت جس قسم کے تبصروں اور گفتگو میں مگن ہے، اس ساری گفتگو کا حُسن یہ ہے عمران خان اور ریحام خان کی کامیاب زندگی کی دعائیں کی جا رہی ہیں۔ ہماری بھی یہی دعا ہے کہ عمران خان اور ریحام کا بندھن کامیابی ازدواجی زندگی کی مثال بنے۔
بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ آرمی چیف، جنرل (ر) فیض حمید کا ٹرائل اوپن کورٹ میں کریں کیوں کہ جنرل (ر) فیض اور میرا معاملہ فوج کا اندرونی مسئلہ نہیں۔ صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آرمی چیف سے مطالبہ ہے کہ جنرل (ر) فیض حمید کا ٹرائل اوپن کورٹ میں کریں...
سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت نہ پہلے تھی نہ اب ہے۔ نجی ٹی وی کو انٹرویو میں عمران خان نے کہا کہ میری طرف سے آرمی چیف کو توسیع دینے کی آفر تک وہ یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ رجیم چینج کو نہیں روکیں گے، یہ روک سکتے تھے انہوں نے نہیں روکا کیوں کہ پاؤر تو ان کے ...
پاکستان تحریک انصاف چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ میں تمام اداروں سے کہتا ہوں اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ تشدد کروا کر اپنی عزت کروائیں گے تو غلط فہمی میں نہ رہیں، عزت دینے والا اللہ ہے اور آج تک دنیا کی تاریخ میں مار کر کسی ظالم کو عزت نہیں ملی، اعظم سواتی کو ننگ...
پاکستان تحریک انصاف نے حکومت کے خلاف فیصلہ کن لانگ مارچ کا فیصلہ کر لیا، پارٹی سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ ظالموں کو مزید مہلت نہیں دیں گے، جلد تاریخی لانگ مارچ کی تاریخ کا باضابطہ اعلان کروں گا۔ پارٹی کے مرکزی قائدین کے اہم ترین مشاورتی اجلاس ہفتہ کو چیئرمین تحریک انصاف عمران ...
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے وفاقی وزیر داخلہ کو براہ راست دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس مرتبہ رانا ثنا اللہ کو اسلام آباد میں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔ پارٹی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 25 مئی کو ہماری تیاری نہیں تھی لیکن اس مرتبہ بھرپور تیاری کے ساتھ ...
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ اسلام آباد جانے کا فیصلہ کر لیا ہے اس لیے کارکن تیاری کر لیں، کسی بھی وقت کال دے سکتا ہوں۔ خیبرپختونخوا کے ارکان اسمبلی، ذیلی تنظیموں اور مقامی عہدیداروں سے خطاب کے دوران عمران خان نے کارکنوں کو اسلام آباد مارچ کیلئے تیار رہنے...
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ 85 سیٹوں والا مفرور کیسے آرمی چیف سلیکٹ کر سکتا ہے؟ اگر مخالفین الیکشن جیت جاتے ہیں تو پھر سپہ سالار کا انتخاب کر لیں، مجھے کوئی مسئلہ نہیں، نئی حکومت کے منتخب ہونے تک جنرل قمر باجوہ کوعہدے پر توسیع دی جائے۔ ...
سابق صدرمملکت اورپاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ہم اداروں اور جرنیلوں کو عمران خان کی ہوس کی خاطر متنازع نہیں بننے دیں گے۔ بلاول ہاؤس میڈیا سیل سے جاری کیے گئے بیان میں انہوں نے چیئرمین پی ٹی آئی کی گزشتہ روز کی افواجِ پاکستان سے متعلق تقریر کو تن...
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ اداروں کو بدنام کرنے اور ان کے خلاف نفرت پھیلانے کی عمران نیازی کی انتہائی قابل مذمت مہم ہر روز ایک نئی انتہا کو چھو رہی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ حساس پیشہ وارانہ امور کے بارے میں اور مسلح افواج اور اس کی قیادت کے خلاف اب وہ براہ راست کیچڑ اچھالتے ...
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہیرے بڑے سستے ہوتے ہیں، کوئی مہنگی چیز کی بات کرو۔ جمعرات کے روز عمران خان ، دہشت گردی کے مقدمہ میں اپنی ضمانت میں توسیع کے لیے اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت میں پیشی کے بعد ایک صح...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کو عاشور کے روز اسلام آباد سے گرفتار کرلیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق اُنہیں اسلام آباد بنی گالہ چوک سے گرفتار کیا گیا۔ شہباز گل کے خلاف تھانہ بنی گالہ میں بغاوت پر اُکسانے کا مقدمہ بھی درج کیے جانے کی اطلاعات ہیں۔ ذرائع کے مطابق شہباز گل کی گرفتاری کے دوران ڈ...