وجود

... loading ...

وجود

تابش دہلوی۔۔۔۔اردو نظم وغزل کی کلاسیکی روایت کے علمبردار

بدھ 23 ستمبر 2015 تابش دہلوی۔۔۔۔اردو نظم وغزل کی کلاسیکی روایت کے علمبردار

tabish-dehlvi

تابش دہلوی 9 نومبر 1911ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ خاندانی نام سید مسعود الحسن تھا۔ پہلا تخلص بھی مسعود تھا۔ اُنہوں نے پہلا شعر کم وبیش تیرہ برس میں اسی تخلص کے ساتھ کہا کہ

کہاں کہاں مجھے مسعودؔ لوگ ڈھونڈ آئے
بھلا میں اُس کی گلی کے سوا کہاں جاتا

سید مسعود الحسن نے بعد میں تابش تخلص اختیار کیا اور پھر وہ تابش دہلوی کے نام سے ہی معروف ہو گئے۔ ابتدائی تعلیم گھر میں ہوئی پھر اپنے نانا کے پاس حیدرآباد دکن چلے گئے۔ بی اے تک تعلیم حاصل کی اور 1932ء میں حیدرآباد کے پوسٹ آفس میں پہلی ملازمت اختیار کی۔ تابش دہلوی 1940ء میں دلی آ گئے اور آل انڈیا ریڈیو میں ملازم ہو گئے۔ کہا جاتا ہے کہ اُن کا صوتی امتحان (آڈیشن) پطرس بخاری نے لیا۔ بطور صدا کار اور خبرکار وہ آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ رہے۔ قیام ِ پاکستان کے بعد وہ 1947ء میں ہی پاکستان آگئے۔ اور ریڈیو پاکستان سے مختلف حیثیتوں میں وابستہ رہے۔ یہاں تک کہ 1980ء میں سینئر پروڈیوسر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔

تابش دہلوی کی ادبی زندگی کا آغاز بھی اُن کی پیشہ ورانہ زندگی کے ساتھ ساتھ ہی بالکل ابتدا میں ہوگیا تھا۔ اُن کی پہلی نظم ماہنامہ ساقی کے اکتوبر 1930ء کے شمارے میں ” دلی”کے عنوان سے شائع ہوئی۔ تابش دہلوی نے فانی بدایونی سے نیاز حاصل کیا۔ تابش دہلوی کے نثری مضامین کا ایک مجموعہ “دید، بازدید”بھی شائع ہو چکا ہے۔ جسے اُن کی یادداشتیں بھی کہا جاسکتا ہے۔

تابش دہلوی شاعری میں اردو نظم و غزل کی کلاسیکی روایت کے علمبردار سمجھے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر ابوالخیر کشفی کے بقول ” تابش صاحب کی زندگی میں بڑا رکھ رکھاؤ ہے اور یہی رکھ رکھاؤ ان کی شاعری میں بھی نظر آتا ہے۔ “اردو کے اس بزرگ شاعر کے لیے ڈاکٹر ابو الخیر کشفی نے یہ بھی لکھا ہے کہ “اُن کا دل رہن ِ وضع بزرگاں ہے۔ “ڈاکٹر اسلم فرخی نے اُن کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ” تابش سوزِ محبت کے شاعر ہیں، محبت کی نرم اور دھیمی آنچ میں جلنے والے حساس اور باشعور فنکار!! ان کی نظمیں اور غزلیں اسی سوزِ محبت کی ترجمان ہیں۔ “مگر سوزِ محبت سے گندھی اسی شاعری پر ماہر القادری کی رائے یہ ہے کہ” تابش کی شاعری میں چھیڑ چھاڑ، لمس وتقبیل اور سطحی اشارے کنائے نہیں ہیں۔ رمزیت اور اشاریت بے شک ہے مگر وہ سنجیدہ ہے، یہی باوقار سنجیدگی ان کے کلام کی امتیازی خصوصیت ہے۔ بلاشبہ اُن کے کلام کے عناصر میں اچھی شاعری کی پورا ارتکاز موجود ہے ۔ جس کی خود اردو شاعری کو بہت ضرورت ہے۔ تابش دہلوی کے شعری مجموعوں میں نیم روز(1963ء)، چراغ صحرا(1982ء)، غبار ِانجم(1984ء)، گوہرانجم()، تقدیس(1984)، ماہِ شکستہ(1993) اور دھوپ چھاؤں (1996) شامل ہیں۔ درد کی تہذیب کے قائل تابش دہلوی 23 ستمبر2004 ء کو کراچی میں وفات پا گئے اورسخی حسن کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔

انتخاب تابش دہلوی

آسماں سر پہ ہے جہاں جاؤں
یہ زمیں لے کے اب کہاں جاؤں
ہم قدم روزگار کا ہو کر
میں کہاں تک رواں دواں جاؤں
مجھ سے کھوئی گئی شناخت مری
بھیڑ میں ڈھونڈنے کہاں جاؤں
سوئے منزل ہجومِ شوق لیے
میں بھی مانندِ کارواں جاؤں


موسمِ ہجر و وصال اچھا ہے
قریۂ جاں کا یہ سال اچھا ہے
شورشِ عقل سے محفوظ رہیں
جو نہ آئے وہ خیال اچھا ہے
غم کہاں ملتا ہے دل کے بدلے
اتنی قیمت میں یہ مال اچھا ہے


اک شرر ہر نفس میں آتا ہے
سوزِ جاں کس کے بس میں آتا ہے
سر بسر میں اسیر ہوتا ہوں
جب بھی کوئی قفس میں آتا ہے
اس کا دامن میرا گریباں ہو
جب کہیں دسترس میں آتا ہے
دائمی روزِ وَصل اے تابش
دیکھیے کس برس میں آتا ہے


کسی مزدور کا گھر کھلتا ہے
یا کوئی زخمِ نظر کھلتا ہے
دیکھنا ہے کہ طلسمِ ہستی
کس سے کھلتا ہے اگر کھلتا ہے
داؤ پر دَیر و حرم دونوں ہیں
دیکھیے کون سا گھر کھلتا ہے
پھول دیکھا ہے کہ دیکھا ہے چمن
حسن سے حسنِ نظر کھلتا ہے
تُو تو دستک پہ دیے جا دستک
بند ہوتا ہے تو در کھلتا ہے
چھوٹی پڑتی ہے اَنا کی چادر
پاؤں ڈھکتا ہوں تو سر کھلتا ہے
ایسی شوریدہ سری سے حاصل
درِ زنداں نہیں سر کھلتا ہے
بند کر لیتا ہوں آنکھیں تابش
بابِ نظارہ نہ مگر کھلتا ہے


آئی تو ہوائے تازہ لیکن
تنکوں کی طرح بکھر گئے ہم
سورج کی طرح چڑھے ہوئے تھے
دریا کی طرح اتر گئے ہم


بارِ حیات اٹھائیے تنہا اٹھائیے
یہ بوجھ آپ سے نہیں اٹھتا اٹھائیے
وحشت میں خاک اڑانی ہی مقسوم ہے تو پھر
اک مشتِ خاک کیا سرِ صحرا اٹھائیے
ان خفتگانِ راہ کو ہمراہ لے چلیں
قدموں کے ساتھ نقشِ کفِ پا اٹھائیے
بیمارِ عصر جلد شفایاب ہو سکیں
گہوارے سے اک اور مسیحا اٹھائیے
دل میں نفاذِ شوق کی طاقت کہاں سے لائیں
کوزے میں کیا تلاطمِ دریا اٹھائیے
دنیا سے زندگی کا بڑا حوصلہ ملا
احساں کی طرح ہر غمِ دنیا اٹھائیے
نادیدہ منظروں کو اگر چاہیں دیکھنا
اپنی ہی ذات سے کوئی پردہ اٹھائیے
پا مردیوں سے گزرے ہیں جو راہِ شوق میں
پلکوں سے ان کی نقشِ کفِ پا اٹھائیے
تابش سہارا لیجیے نہ امید و بیم کا
تنہا کبھی حجابِ تمنا اٹھائیے


متفرق اشعار

زمین آسمان ایک کر دینے والو
زمیں ایک ہے آسماں اور بھی ہیں

طریقے ظلم کے صیاد نے سارے بدل ڈالے
جو طائر اُڑ نہیں سکتا اسے آزاد کرتا ہے


آتی جاتی ہیں جو کوئے جاں سے
ان ہواؤں میں سنک جاتا ہوں
میں تو ہوں شاخِ ثمر وَر تابش
ٹوٹتا کم ہوں لچک جاتا ہوں


اندوہِ جاں ہو یا غم جاناں کوئی تو ہو
کوئی حریفِ شوق تو ہو ہاں کوئی تو ہو


اک ہیولا ہے گھر خرابی کا
ورنہ کیا خاک گھر میں رکھا ہے


محرومیوں میں خوب پناہیں تلاش کیں
میں تھک گیا جہاں اسے منزل کہا گیا


گزرا اسی پہ سہل یہ طوفانِ رنگ و بو
جو موسمِ بہار میں دیوانہ بن گیا


عشق بھی تابش نہیں وجہِ نشاط
اب یہ رسمِ درد بھی دل سے اٹھی


آئینہ در آئینہ در آئینہ ترا حسن
حیراں ہوں تیرے طالبِ دیدار کہاں تک
پھیلی ہوئی ہر سمت کڑی دھوپ ہے تابش
جائے گا کوئی سایۂ دیوار کہاں تک


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر