وجود

... loading ...

وجود

حقائق

منگل 22 ستمبر 2015 حقائق

Peshawar-base-camp-PAF-terrorists-attack

امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی دہشت گردی سے متعلق ایک ڈیسک کے انچارج مائیکل شیور نے اپنی کتاب میں لکھا: وہ لامحدود صبر رکھتے ہیں۔ ‘‘جی ہاں! بات اس سے بھی ذراآگے کی ہے۔ وہ پلٹ کر وار کرتے ہیں۔ اور اُن کے خاتمے کا ہر یقین جھوٹا نکلتا ہے۔ پھر کیا کیا جائے؟ عسکریت پسندوں سے نمٹنے کا راستا کیا ہے؟

بڈھابیر کے فضائی کیمپ پر عسکریت پسندوں کا حملہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ یہ ہمارے ناقص تصورات پر بھی ایک کامیاب حملہ ہے۔ اس نے حُب الوطنی کے جذباتی بیانیوں سے لے کر قومی سطح کے تمام تعصبات کو بھی عریاں کر دیا ہے۔ مگر کوئی کبوتر کی طرح اپنی آنکھیں موند رکھے تو اُنہیں کون بیدار کر سکتا ہے۔ بلوچ کہاوت یاد آتی ہے: آنکھ خود کے عیوب دیکھنے کے لئے اندھی ہوتی ہے۔‘‘

بڈھا بیر پشاور کے جنوب میں واقع کوہاٹ روڈ پر ایک نواحی علاقہ ہے جو مرکزی شہر سے تقریباً دس کلومیٹر دور ہے۔ حملہ آوروں نے پاک فضائیہ کے جس کیمپ کو نشانا بنایا۔ وہ پشاور سے تقریباً چھ کلومیٹر دور انقلاب شاہراہ پر واقع ہے۔ جسے ۱۹۸۰ء میں ایک باقاعدہ کیمپ کی شکل دی گئی۔عسکریت پسندوں نے اس کیمپ کا انتخاب کیا۔ مگر ایک مقام کے طور پر یہ کوئی چونکا دینے والا انتخاب نہیں تھا۔ ان علاقوں میں مختلف مواقع پر مختلف نوعیت کے حملے ہوتے رہے ہیں۔ ایک ایسے موقع پر جب ضرب ِ عضب جاری ہے پہلے سے ہی عسکریت پسندوں کے نشانے پر رہنے والے علاقے بھی زیادہ محفوظ نہیں بنایے جاسکے۔ یہ امر اس تناظر میں زیادہ تکلیف دہ ہو جاتا ہے کہ اگر دہشت گرد’’ مقام‘‘ کے طور پر چونکا دینے والے اہداف کا انتخاب کریں تو ہماری صلاحیت پر اس سے زیادہ سوالات اُٹھ سکتے ہیں۔ پھر یہ خبر’’ نامعلوم‘‘ وجوہ کی بناء پر زیادہ پزیرائی حاصل نہیں کر سکی کہ عسکریت پسندوں نے جس فضائی کیمپ کو نشانا بنایا، ٹھیک اُسی کو نشانا بنانے کی اطلاع پہلے سے موجود بھی تھی۔ اگر مقام کے تعین کے باوجود اس طرح کے حملے نہ روکے جاسکیں تو یہ زیادہ خطرناک بات بن جاتی ہے۔مقام کے انتخاب کے طور رپر ایک دوسرا پہلو بھی ہمارے غوروفکر کی صلاحیت پر سوال اُٹھاتا ہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے جاری آپریشن ضرب ِ عضب میں فضائیہ کا کر دار انتہائی اہم ہو چکا ہے۔ اور یہ خصوصی طور پر عسکریت پسندوں کے لیے پریشانی کا باعث بنا ہے۔چنانچہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے پیشگی تدابیر کے ضروری فہم کا یہ ایک بنیادی نُکتہ ہونا چاہیے تھا کہ عسکریت پسند اپنے اہداف کی ترتیب میں کیا ترجیحات رکھتے ہوں گے؟ ابھی کچھ دن پہلے ہی وادیٔ شوال میں فضائی حملوں میں کامیابی کی خبریں باربار چلائی جارہی تھیں۔ افسوس اس ضمن میں ہمارا پیشگی تدابیر کا فہم بھی ناقص رہا۔

اس حوالے سے ایک دوسری بات اس سے بھی کہیں زیادہ اہم ہے کہ پاک فوج کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے چند دن پیشتر ہی قوم کو یہ نوید سنائی تھی کہ ضرب ِ عضب کامیابی کے ساتھ اب اپنے فیصلہ کن موڑ میں داخل ہو چکا ہے۔ اور اب عسکریت پسندوں سے خالی کرایے گیے علاقے کبھی بھی اُن کے زیر قبضہ نہیں آنے دیے جائیں گے۔ وہ جس جراحت (آپریشن) میں کامیابی کی نوید سنا رہے تھے ، بڈھا بیر کا واقعہ اس کے بالکل برعکس تاثر پیدا کرنے کا باعث بنا۔عسکریت پسندوں نے اس طرح اپنی مرضی کاوقت منتخب کرکے ہمارے تصورات کی قائمہ صورتوں کو نشانا بنایا۔ اس اعتبار سے مزید سوچا جائے تو ہماری قومی استعداد کی ایک برعکس تصویر اُبھرتی ہے جو زیادہ خوش کن نہیں۔

کیایہ ایک خطرناک احتساب کا موضوع نہیں کہ عسکریت پسند اکثر اپنے اہداف کا تعین اور اُس کے لیے طریقہ کار میں یکساں ہوتے ہوئے بھی ہمارے پیشگی اقدامات کی گرفت میں نہیں آپاتے۔ عسکریت پسند ’’جیسا دیس ویسا بھیس‘‘ کے اُصول پر کارروائیاں کرتے ہیں۔ اور تقریباً تمام فوجی تنصیبات پر حملوں میں وہ ہدف کے مطابق وہاں رائج وردی استعمال کرتے ہیں۔ فوی اداروں میں وردیوں کا معاملہ نہایت حساس ہوتا ہے۔ اور یہ مجاز اداروں کے علاوہ مارکیٹ میں عام طور پر فروخت نہیں ہو سکتیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر دہشت گرد تقریباً تمام اہداف میں یہ وردیاں کیسے بآسانی حاصل کر لیتے ہیں؟ اس ضمن میں ایک بیرونِ صندوق (آوٹ آف باکس) حل بھی تلاش کیا جا سکتا ہے۔ مگر ہمارے ادارے اس پر ابھی تک سوچ بچار سے کترا کیوں رہے ہیں؟اس کے علاوہ عسکریت پسندوں کے پاس ضرورت کے عین مطابق ہر جگہ ایک ہی طرح کے ہتھیاروں کی دستیابی بھی کئی طرح کے سوالات اُٹھاتی ہیں مگر ایک قومی سطح پر پھیلایے جانے والے تاثر کا فوری جواب بھی دیتی ہے کہ عسکریت پسندوں سے تمام علاقے خالی کرا لیے گیے ہیں۔ عسکریت پسندوں کی طرف سے ایک جگہ سے دوسری جگہ آسانی سے نقل وحرکت کی بات تو قابلِ فہم ہو سکتی ہے مگر اتنی ہی آسانی سے وہ اپنے ہتھیار بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ لا اور لے جاسکتے ہوں، یہ کچھ قابلِ فہم بات نہیں لگتی۔ یقینا عسکریت پسندوں کے پاس ہتھیار کی فراہمی کا ایک ایسا محفوظ اور مناسب بندوبست موجود ہے جو ہمارے اندازوں سے زیادہ محفوظ اور مختلف ہیں۔ مگر اس حوالے سے مزید غوروفکر کے نتائج ہمارے پاس نہیں ہیں۔

عسکریت پسندوں کے بارے میں مبالغہ آمیز دعوے کوئی دانشمندانہ روش نہیں۔ بلکہ یہ قومی کارکردگی کے حوالے سے مایوسی پیدا کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اور عوامی سطح پر پھر اُن دعووں کی روشنی میں ہی کارکردگی کا جائزہ لیا جاتاہے۔ اس ضمن میں کچھ ٹھوس حقائق کا دیانت دارانہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ عسکریت پسندی اب کو ئی مقامی مسئلہ نہیں رہا۔ یہ ایک عالمی نوعیت کی معلوم لہر ہے۔ دراصل جدید ریاستوں میں اجتماعیت کی نہاد طاقت اور بے طاقتی کے عملی فلسفے پر رکھی گئی ہے۔ جس پر دنیابھر میں غوروفکر کیا جارہا ہے۔ عسکریت پسندی کے جائزے کی فلسفیانہ بنیادیں طے ہورہی ہیں اور یہ اب کم وبیش تسلیم کیا جانے لگا ہے کہ اس کے مکمل خاتمے کے لیے اب تک قائم ریاستی اور بین الریاستی تصورات ناکافی اور غیر تسلی بخش ہیں۔ اس کاجائزہ اب ایک دوسرے پیمانے سے لیا جا رہا ہے جس میں جدید ریاست کو اس سے’’ نباہ ‘‘کرنے کے نیے طریقوں کی مناسب تفہیم درکار ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ دنیا جب اس بارے میں مختلف نتائج تک پہنچنے کے قریب ہے اور نیے طریقوں کا جائزہ لے رہی ہیں تو ہم پُرانے اور ناکام طریقوں پر اپنی کامیابی کے دعوے کیے جارہے ہیں۔

دنیا بتدریج اس فہم کو پارہی ہے کہ عسکریت پسندی کا خاتمہ جدید ریاستوں کے موجودہ ڈھانچوں میں بہت بڑے بدلاؤ کا تقاضا کر رہا ہے۔ اس کے بغیر ہماری کوششیں رائیگاں رہیں گی۔ اور عسکریت پسند وقفوں وقفوں سے قومی زندگی کو ناہموار کرتے رہیں گے۔ اُن کے لامحدود صبر کا ایک مطلب یہ بھی ہے وہ ہماری غفلت کے بارے میں بھی ہم سے بہتر اندازے لگاتے ہیں۔ اور اُن کے خاتمے کے دعووں کا جائزہ تو اس امر سے لیا جاسکتا ہے کہ جو لوگ بڈھا بیر کے فضائی کیمپ پر حملے کے مرتکب ہیں اُن میں سے جتنوں کی بھی اب تک شناخت ہوئی ہیں ، اُس کی تفصیلات سرکاری موقف کو بھک سے اڑا ددیتی ہے۔ اب تک حملے میں باور کیے گیے ۱۴ عسکریت پسندوں میں سے جن پانچ کی شناخت ہوئی ہیں اُن میں ۱۹ برس سے ۲۷ برس تک کے نوجوان شامل ہیں اور وہ پاکستانی شناختی کارڈ بھی رکھتے تھے۔جب آپ ہر کارروائی میں روز ایسے لوگوں کے چہرے دیکھتے ہوں جنہیں پچھلی کارروائیوں میں نہ دیکھا ہو تو پھر سنجیدگی سے اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آخر انہیں یہ لوگ میسر’’ کیوں ‘‘آجاتے ہیں؟ اس کے بجائے ہم اس پر غور کرتے رہتے ہیں کہ انہیں یہ لوگ میسر’’ کہاں‘‘ سے آتے ہیں؟ پہلے سوال پر غور کریں گے تو وہ ہمیں اسباب پر پہنچائے گا اوردوسرے سوال پر غور کریں گے تو یہ ہمیں کچھ گھروں تک پہنچائے گا جو ہر بار بدل جاتے ہیں ۔ اور کسی بار بھی فائدہ نہیں پہنچاتے !جبکہ ’’وہ‘‘ اپنے لامحدودصبر کے ساتھ اپنے خاتمے کا ہر یقین جھوٹا ثابت کر دیتے ہیں۔


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

رفیق اور فریق کون کہاں؟ وجود - منگل 23 اگست 2022

پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...

رفیق اور فریق کون کہاں؟

بھارتی حدود سے آنیوالی تیز رفتار شے کو پاک فضائیہ نے مارا گرایا، ترجمان پاک فوج وجود - جمعه 11 مارچ 2022

پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے کہاہے کہ بھارتی حدود سے آنیوالی تیز رفتار شے کو پاک فضائیہ نے مارا گرایا، پاکستان فضائی حدود کی خلاف ورزی کی بھرپور مذمت کرتا ہے،بھارت وضاحت کرے کہ میاں چنوں' میں کیا ہوا؟ ،پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کے کیا مقاصد تھے، یہ تو بھارت ہی بتا ...

بھارتی حدود سے آنیوالی تیز رفتار شے کو پاک فضائیہ نے مارا گرایا، ترجمان پاک فوج

آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ کے 3 سال مکمل: پاک فضائیہ نے نغمہ جاری کردیا وجود - اتوار 27 فروری 2022

آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ کے تین سال مکمل ہونے پر پاک فضائیہ نے نغمہ ''دنیا میں سربلند'' جاری کیا ہے۔پاکستان ایئر فورس نے اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر نغمہ کا لنک شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ پاک فضائیہ نے آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ کے تین سال مکمل ہونے پر اس نغمہ کے ذریعے پاک فوج کے جوانوں اور آپری...

آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ کے 3 سال مکمل: پاک فضائیہ نے نغمہ جاری کردیا

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں وجود - پیر 14 فروری 2022

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں

پشاور سے نیٹو اور امریکی فورسز کے زیر استعمال اسلحہ برآمد وجود - هفته 15 جنوری 2022

کسٹمز حکام نے خیبرپختونخوا کے دارالحکومت کارروائی کرتے ہوئے امریکی اور ایساف فورسز کے زیر استعمال اسلحہ قبضے میں لے لیا۔ تفصیلات کے مطابق صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں کسٹمز حکام نے غیرملکی اسلحہ کی اسمگلنگ کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے نیٹو کے زیر استعمال اسلحہ قبضے میں...

پشاور سے نیٹو اور امریکی فورسز کے زیر استعمال اسلحہ برآمد

مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر