... loading ...
معروف شاعر اقبال عظیم 8 جولائی 1913ء کو میرٹھ میں پیدا ہوئے ۔اُن کے والدسید مقبول عظیم کا تعلق سہارن پور سے تھا۔ خود لکھنؤ اور اودھ میں پروان چڑھے ۔لکھنؤ یونیورسٹی سے 1934ء میں بی اے کی سند حاصل کی۔ پھر آگرہ چلے گئے جہاں سے 1943ء میں آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے کی سند حاصل کی۔اُنہیں ڈھاکا یونیورسٹی سے ریسرچ اسکالر شپ ملی اور ’’ٹیچرز ٹریننگ کالج ، لکھنؤ‘‘ سے تدریسی تربیت بھی حاصل کی۔اقبال عظیم نے باقاعدہ تدریس کا آغاز’’گورنمنٹ جوبل کالج ، لکھنؤ ‘‘ سے کیا۔ساڑھے گیارہ برس یوپی کے سرکاری مدارس میں پڑھاتے رہے ۔جولائی 1950ء میں مشرقی پاکستان آگئے اور تقریباً بیس برس تک یہیں پر سرکاری ڈگری کالجوں میں پروفیسر اور صدر شعبہ اردو کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے ۔ اپریل 1970ء میں بینائی زائل ہونے کے سبب اپنے عزیز و اقارب کے پاس کراچی تشریف لے آئے ۔اُنہوں نے اپنی بے نگاہی کا ماجرا بھی اپنے ایک شعر میں خود ہی بیان کر دیا ہے :
مجھے ملال نہیں اپنی بے نگاہی کا
جو دیدہ ور ہیں اُنہیں بھی نظر نہیں آتا
اقبال عظیم کراچی آنے کے بعد 1965ء تا 1970ء سندھ کے صوبائی سیکریٹریٹ میں ایک تحقیقاتی افسر کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے ۔
اردو شاعری کا آغاززمانہ طالب علمی سے ہی کیا ۔نعت نگاری میں آپ نے خصوصی مقام پایا۔ شاعری کا پہلا مجموعہ ’’ مضراب‘‘ 1975ء میں شایع ہوا۔اقبال عظیم کا دوسرا مجموعہ نعتوں پرمشتمل “قاب قوسین” 1977ء میں منظرِ عام پر آیا۔ تحریکِ پاکستان کی معروف شخصیت اورعظیم اردو شاعر حسرتؔ موہانی سے آپ کی گہری دوستی تھی۔پروفیسر اقبال عظیم اردو ، ہندی،عربی،فارسی اور بنگلہ زبانوں کے ماہر تھے ۔1970ء کے بعدمستقل کراچی ہی میں قیام پذیر رہے یہاں تک کہ 22 ستمبر 2000ء کو اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔
مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ
جبیں افسردہ افسردہ ، قدم لغزیدہ لغزیدہ
چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانب طیبہ
نظر شرمندہ شرمندہ بدن لرزیدہ لرزیدہ
کسی کے ہاتھ نے مجھ کو سہارا دے دیا ورنہ
کہاں میں اور کہاں یہ راستے پیچیدہ پیچیدہ
غلامان محمد دور سے پہچانے جاتے ہیں
دل گرویدہ گرویدہ، سرِ شوریدہ شوریدہ
کہاں میں اور کہاں اُس روضئہ اقدس کا نظارہ
نظر اُس سمت اٹھتی ہے مگر دُزیدہ دُزیدہ
بصارت کھو گئی لیکن بصیرت تو سلامت ہے
مدینہ ہم نے دیکھا ہے مگر نادیدہ نادیدہ
وہی اقبال جس کو ناز تھا کل خوش مزاجی پر
فراق طیبہ میں رہتا ہے اب رنجیدہ رنجیدہ
جہاں روضۂ پاک خیر الوریٰ ہے وہ جنت نہیں ہے ، تو پھر اور کیا ہے
کہاں میں کہاں یہ مدینے کی گلیاں یہ قسمت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
محمدؐ کی عظمت کو کیا پوچھتے ہو کہ وہ صاحب قاب قوسین ٹھہرے
بشر کی سرِ عرش مہماں نوازی ، یہ عظمت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
جو عاصی کو دامن میں اپنی چھپا لے ، جو دشمن کو بھی زخم کھا کر دعا دے
اسے اور کیانام دے گا زمانہ وہ رحمت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
شفاعت قیامت کی تابع نہیں ہے ، یہ چشمہ تو روز ازل سے ہے جاری
خطا کار بندوں پہ لطف مسلسل شفاعت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
قیامت کا اک دن معین ہے لیکن ہمارے لیے ہر نفس ہے قیامت
مدینے سے ہم جاں نثاروں کی دوری قیامت نہیں ہے ، تو پھر اور کیا ہے
تم اقبال یہ نعت کہہ تو رہے ہو مگر یہ بھی سوچا کہ کیا کر رہے ہو
کہاں تم کہاں مدح ممدوحِ یزداں ، یہ جرات نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
مجھے اپنے ضبط پہ ناز تھا سرِ بزم رات یہ کیا ہوا
مری آنکھ کیسے چھلک گئی مجھے رنج ہے یہ بُرا ہوا
مری زندگی کے چراغ کا یہ مزاج کوئی نیا نہیں
ابھی روشنی ابھی تیرگی نہ جلا ہوا نہ بجھا ہوا
مجھے جو بھی دشمن ِ جاں ملا وہی پختہ کار جفا ملا
نہ کسی کی ضرب غلط پڑی نہ کسی کا تیر خطا ہوا
مجھے آپ کیوں نہ سمجھ سکے یہ خود اپنے دل ہی سے پوچھیے
مری داستان ِ حیات کا تو ورق ورق ہے کھلا ہوا
جو نظر بچا کے گزر گئے مرے سامنے سے ابھی ابھی
یہ مرے ہی شہر کے لوگ تھے مرے گھر سے گھر ہے ملا ہوا
ہمیں اس کا کوئی بھی حق نہیں کہ شریکِ بزم خلوص ہوں
نہ ہمارے پاس نقاب ہے نہ کچھ آستیں میں چھپا ہوا
مجھے اس گلی میں پڑا ہوا کسی بدنصیب کا خط ملا
کہیں خون ِ دل سے لکھا ہوا کہیں آنسوؤں سے مٹا ہوا
وہ موجِ تبسّم شگفتہ شگفتہ، وہ بھولا سا چہرہ کتابی کتابی
وہ سُنبل سے گیسو سنہرے سنہرے ، وہ مخمور آنکھیں گلابی گلابی
کفِ دست نازک حنائی حنائی، وہ لب ہائے شیریں شہابی شہابی
وہ باتوں میں جادو اداؤں میں ٹُونا، وہ دُزدیدہ نظریں عقابی عقابی
کبھی خوش مزاجی، کبھی بے نیازی، ابھی ہوشیاری، ابھی نیم خوابی
قدم بہکے بہکے نظر کھوئی کھوئی، وہ مخمور لہجہ شرابی شرابی
نہ حرفِ تکلّم، نہ سعیِ تخاطب، سرِ بزم لیکن بہم ہم کلامی
اِدھر چند آنسو سوالی سوالی، اُدھر کچھ تبسّم جوابی جوابی
وہ سیلابِ خوشبو گلستاں گلستاں، وہ سروِ خراماں بہاراں بہاراں
فروزاں فروزاں جبیں کہکشانی، درخشاں درخشاں نظر ماہتابی
نہ ہونٹوں پہ سرخی، نہ آنکھوں میں کاجل، نہ ہاتھوں میں کنگن، نہ پیروں میں پائل
مگر حُسنِ سادہ مثالی مثالی، جوابِ شمائل فقط لاجوابی
وہ شہرِ نگاراں کی گلیوں کے پھیرے ، سرِ کوئے خوباں فقیروں کے ڈیرے
مگر حرفِ پُرسش نہ اِذنِ گزارش، کبھی نامرادی کبھی باریابی
یہ سب کچھ کبھی تھا، مگر اب نہیں ہے کہ آوارہ فرہاد گوشہ نشیں ہے
نہ تیشہ بدوشی، نہ خارہ شگافی، نہ آہیں نہ آنسو نہ خانہ خرابی
کہ نظروں میں اب کوئی شیریں نہیں ہے ، جدھر دیکھیے ایک مریم کھڑی ہے
نجابت سراپا، شرافت تبسّم، بہ عصمت مزاجی، بہ عفّت مآبی
جو گیسو سنہرے تھے اب نُقرئی ہیں، جن آنکھوں میں جادو تھا اب با وضو ہیں
یہ پاکیزہ چہرے یہ معصوم آنکھیں، نہ وہ بے حجابی نہ وہ بے نقابی
وہ عشقِ مجازی حقیقت میں ڈھل کر تقدّس کی راہوں پہ اب گامزن ہے
جو حُسنِ نگاراں فریبِ نظر تھا، فرشتوں کی صورت ہے گِردوں جنابی
وہ صورت پرستی سے اُکتا گیا ہے ، خلوصِ نظر اور کچھ ڈھونڈتا ہے
نہ موجِ تبسّم، نہ دستِ حنائی، نہ مخمور آنکھیں گلابی گلابی
نہ دُزدیدہ نظریں عقابی عقابی، نہ مخمور لہجہ شرابی شرابی
نہ سُنبل سے گیسو سنہرے سنہرے ، نہ لب ہائے شیریں شہابی شہابی