... loading ...
بات پرانی ہے مگر اچانک یاد آگئی۔
امریکی صحافی ڈینس برِیو (Dennis Breo) کو ایک بڑی دلچسپ کتاب تالیف کرنے کا اعزاز حاصل ہے ، انکی کتاب کا نام ہے ’’ایکسٹرا آرڈی نری کیئر‘‘یعنی غیر معمولی احتیاط۔ یہ کتاب درحقیقت ایسے ڈاکٹرز کے مشاہدوں پر مبنی ہے جو مشہور شخصیات کے معالج رہے ۔ ڈاکٹر ڈینس نے اس کتاب میں بڑے دلچسپ و عجیب انکشافات کئے ، مثلاً انہوں نے لکھا کہ ہٹلر ایک خطرناک جِلدی مرض میں مبتلا تھا مگر وہ کبھی اس پر راضی نہ ہوا کہ معالج کے سامنے کپڑے اتارے اسی لئے اسکا علاج صحیح طور پر نہ ہو سکا۔ مشہور امریکی بزنس ٹائیکون ہاورڈ ہیوز کے دانت خراب تھے مگر شدیدتکلیف کے باوجود اسے پسند نہ تھا کہ وہ ڈاکٹرز کے سامنے منہ کھولے لہذا وہ شراب نوشی کے ذریعے تکلیف کو وقتی طور پر ٹالا کرتا تھا ۔ شاہ ِ ایران فساد ِخون( Leukemia) کے مرض میں مبتلا تھے مگر انہوں نے معالجین سے باقاعدہ علاج کروانے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اس طرح انکا اقتدار کمزور پڑ جائے گا۔ جبکہ ان کے اقتدار کو خطرہ ان کے فسادِ خون سے نہیں انکی فسادِ سیاست سے تھا ۔ڈینس نے اپنی کتاب میں ایلوس پرسیلے، امریکی صدر رونالڈ ریگن اور پوپ جان پال دوئم کے علاج معالجے کے ایام کی تفصیلات بھی شامل کیں ، اس نے لکھا کہ اہم شخصیات اکثر’’ناممکن مریض‘‘ثابت ہوتی ہیں۔ ایسے لوگ دراصل چھوٹے چھوٹے اندیشوں میں مبتلا ہو تے ہیں اور بڑے بڑے مسائل سے غافل ، اکثر یہی روّیہ انکی ناکامیوں کا سبب بنتا ہے ۔ دل پر ہاتھ رکھیے اور خود پوچھیے کیا ہمارے وزیر اعظم نواز شریف کا معاملہ اس سے ذرا بھی مختلف ہے ؟
محترم وزیر اعظم نے کسانوں کیلئے 341؍ارب روپے کا پیکیج پیش کر دیا ہے ۔ اس حوالے سے منعقدہ کسان کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے حضور نے ایک بار پھر اسی پرانے اندیشے کا اظہار کیا ’’کچھ لوگ مجھے ہٹا کر اقتدار میں آنا چاہتے ہیں‘‘۔ معلوم نہیں، اُنہیں اقتدار چھن جانے کا اندیشہ اتنی شدت سے کیوں لاحق ہے جبکہ میعاد اقتدار پو ری ہونے پر ناکام قرار دئیے جانے اور غیر مقبول ہو نے کا اندیشہ اس سے کہیں بڑا اور قابل توجہ ہے ۔اُنہیں اس طر ح کام کرنے کی ضرورت ہے جیسے ہر دن انکی حکومت کا آخری دن ہو۔
وزیر اعظم نے کسانوں کیلئے تیار کردہ ریلیف پیکیج کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ کسانوں کی پیداواری لاگت میں کمی کیلئے کھاد کی فی بوری قیمت 500 روپے کم کی جا رہی ہے ۔ ساڑھے بارہ ایکڑ اراضی تک کے مالک چھوٹے کاشتکاروں کو بلا سود قرضے فراہم کرنے کیلئے رقم مختص کردی گئی ہے ، زرعی مشینری کی در آمد ی ڈیوٹی اور ٹیکسیز وغیرہ کو مجموعی طور پر 45فیصد سے کم کر کے 9فیصد کر دیا گیا ہے اور آئندہ فصلوں کی انشورنس کا پریمیئم حکومت ادا کرے گی۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے ۔ اسکی 44فیصد ورک فورس زراعت سے وابستہ ہے تاہم زرعی شعبے کا جی ڈی پی میں حصّہ 21فیصد ہے ،جو خاطر خواہ نہیں ۔ وڈیرے اور جاگیردار ملک کی زراعت پر سانپ بن کر پھن پھیلائے آلتی پالتی مارے بیٹھے ہیں ۔بیج اور کھاد کی قیمتوں میں وقتی کمی یا قرضے فراہم کرنے کے اعلانات حقیقی طور پر زرعی شعبے کو ترقی سے ہمکنار نہیں کرسکتے ہیں۔ یہ محض زرعی اصلاحات کے نفاذ اور جاگیرداری کے خاتمے کے تقاضوں کو پیچھے دھکیلنے کی کوششوں کے ہی ایک تسلسل سے زیادہ کچھ نہیں ۔بعض ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ پیکیج دراصل بلدیاتی انتخابات میں دیہی آبادی کے ووٹوں کو نیفے میں اُڑس لینے کی کوشش ہے ۔
مسئلہ یہ ہے کہ وزیر اعظم صاحب اربوں کھربوں کے پیکجز کے ذریعے حکومت چلانے پر یقین رکھتے ہیں۔ انکا خیال ہے کہ جب تک پیسے خرچ نہ ہوں حکومت کی کارکردگی کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے تیس سالوں کے دوران میں 7بار پنجاب کی صوبائی حکومت اور تیسری با روفاقی حکومت کے مزے لوٹنے کے باوجود آج تک وہ صحت، تعلیم اور انصاف کے بنیادی و اہم ترین شعبہ جات میں کوئی قابل ذکر کارنامہ انجام نہ دے سکے اور پولیس و پٹوار خانے کا جو حال ہے، وہ سب جانتے ہی ہیں ۔نجانے کیوں یہ بات ان کی عقل میں سماتی نہیں کہ چند افراد میں نوٹوں کے بھرے ہوئے تھیلے بانٹنے کی نہیں بلکہ ملک کو اصلاحات اورگورننس میں بہتری کی ضرورت ہے ۔کسان پیکیج کا کیا ہو نا ہے، اسکا اندازہ لگانے کیلئے کسی ’’راکٹ سائنس ‘‘ کی ضرورت نہیں ۔ لامحالہ اس کا حال اس سے مختلف نہ ہو گا جو گزشتہ سوا دو سال کے دوران میں دوسرے پیکجز کا ہوا ہے ۔ سب کے رنگ بارشوں میں دھل کر پھیکے ہو گئے۔ اعلانات کے خالی ’’کھوکھے‘‘ ہی پڑے رہ گئے۔
اگست 2013 میں میاں صاحب نے اقتدار سنبھالنے کے تقریباً دو ماہ بعد بے گھر شہریوں کیلئے ایک پیکیج کا اعلان کیا ،’’اپنا گھر اسکیم ‘‘ نامی اس پیکیج کے تحت وزیر اعظم نے اپنی پانچ سالہ مدتِ اقتدار کے دوران کم از کم 5لاکھ گھر تعمیر کرنے کا عزم کا اظہار کیا تھا ۔2013-14کے مالی سال کے دوران میں اس اسکیم کیلئے ساڑھے تین ارب روپے کا ابتدائی فنڈ مختص کیا گیا جبکہ 2014-15کے بجٹ میں بھی اس کیلئے6ارب روپے رکھے گئے ۔مگر آج تک حکومت ایک پائلٹ پراجیکٹ بھی شروع نہیں کر سکی ہے ۔ وزیر اعظم نے کراچی میں سرکلر ریلوے اور گرین بس سروس شروع کرنے کے بھی اعلانات کئے۔مگر کچھ نہ ہوا۔ نوجوانوں کیلئے یوتھ ڈویلپمنٹ پیکیج کا اعلان کیا گیا، جسکے تحت تعلیم یافتہ ، بے روزگار نوجوانوں کو ہر ماہ 100ملین کے بلا سود قرضے جاری کرنے تھے۔اس مقصد کیلئے موصول ہونے والی درخواستوں کو اب دھول مٹّی چاٹ رہی ہے۔میاں صاحب کی امورِ مملکت کیلئے صلاح کاری بنیادی طور پر چھوٹے بھائی اور سمدھی تک محدود ہے اور وہ چند مٹھی بھر’’ساڈے بندوں‘‘کے ذریعے حکومت چلانے پر یقین رکھتے ہیں ۔ چھوٹے میاں صاحب بھی اعلانات میں بڑے بھائی سے کسی طور پیچھے نہیں ۔ منڈی بہاء الدین کے کسی دل جلے رہائشی نے 2013کے انتخابات کے دوران انکی پر جوش تقریر سوشل میڈیا پر حال ہی میں اپ لوڈ کی ہے۔ جس میں وہ فرمارہے تھے کہ ’’خدا کی قسم اگر آپ لوگوں نے نواز شریف کو اسلام آباد پہنچایا تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ منڈی بہاء الدین کو فیصل آباد اور لاہور جیسا بنا دوں گا ۔‘‘ انہوں نے اسی جلسے میں منڈی بہاالدین کیلئے فی الفور ایک فلائی اوور کے علاوہ اسے موٹر وے سے ملانے کیلئے رابطہ سٹرک بنانے کا بھی اعلان کیا ۔ آج تک منڈی بہاالدین کے لوگ اس فلائی اوور اورر ابطہ سٹرک کو تلاش کرتے پھر رہے ہیں ۔ اتنا ہی نہیں انہوں نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ الیکشن جیتنے کے فوراً بعد منڈی بہاء الدین میں دانش اسکول کھولا جائے گا۔ اسی انتظار میں وہاں ابھی تک بہت سے والدین نے اپنے بچوں کو کسی نجی اسکول میں داخل نہیں کروایا ہے ۔بچوں کی مَسیں بھیگنا شروع ہو گئیں مگراب تک دانش اسکول کی پہلی اینٹ بھی نہیں رکھی گئی۔
میاں صاحبان غالباً سیاستدانوں کی اس قبیل سے ہیں جنہیں یہ اچھی طرح پتہ ہو تا ہے کہ ملک کیسے چلانا ہے مگر صرف تب تک جب تک وہ حکومت سے باہر ہوں ۔حکومت میں آنے کے بعد ان کے پاس مسائل کا ایسا حل ہوتا ہے کہ بے اختیار کہنا پڑے کہ اس حل سے تومسئلہ ہی بہتر تھا ۔نندی پورپاؤر پراجیکٹ اورقائد اعظم سولر پارک کی مثال سامنے ہے۔ کیا یہ زیادہ بہتر نہیں تھا کہ نندی پور پراجیکٹ پر 83؍ارب روپے اورقائد اعظم سولر پارک پر 150؍ملین ڈالرز ’’غتر بود‘‘ کرنے کے بجائے ملک میں بجلی کی ڈسٹری بیوشن کے نظام کو بہتر کرنے ، اسے اپ گریڈ کرنے ، لائن لاسز کو ختم کرنے اور واجبات کی وصولیابی پر کچھ توجہ مرکوز کر لی جاتی۔
وزیر اعظم صاحب نے اسی کسان کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے ایک اور دلچسپ بات کہی کہ ہم پیسہ بنانے کیلئے اقتدار میں نہیں آئے بلکہ ہم اپنی جیب سے خرچ کرنے والے ہیں ۔ کیا بات ہے حضور؟کیا ہی اچھا ہوتا اگر فرما دیتے کہ سوا دوبرس کے دوران کئے گئے 4میں سے کون سا والا عمرہ اپنے ذاتی خرچ پر کیا ۔ وہ جو 22کروڑ کی بلٹ پروف گاڑیاں اور 24لاکھ کے کتے آپ کے لیے خریدے گئے، انکی ادائی کون سے ذاتی اکاؤنٹ سے کی ۔ ایک لمحے کیلئے فرض کر لیجئے کہ یہ اخراجات میاں صاحب اپنی ذاتی جیب سے کریں تب بھی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کون سا انہوں نے ملک و قوم کی خدمت پر اپنا پیسہ خرچ کر ڈالا ۔یہ تو انہی کی ذات کیلئے ہونے والا خرچ ہے یعنی گھی کھچڑی میں اور کھچڑی پیٹ میں ۔
دوسری طرف اعداد وشمار کا آئینہ انکے اس دعوے کامنہ چڑاتاہے ، پچھلے ایک سال کے دوران میں انہوں نے 50روز بیرون ملک دوروں میں گزارے ۔ان دوروں میں وہ کل 431افراد کو سرکاری خرچ پر گھماتے پھراتے رہے، بیرون ملک دوروں کے دوران انہوں نے سرکاری خرچ پر نہایت مہنگی رہائشی سہولیات حاصل کیں ۔رواں برس میں انکے غیر ملکی دوروں کیلئے 170؍کروڑ روپے کا بجٹ مختص ہے ۔ اسی ماہ کے اواخر میں وہ دورٔہ امریکہ کیلئے سامان باندھ رہے ہیں ۔ 73افراد اس سفر میں سرکاری خرچ پر انکے ہمراہ ہو ں گے۔ یہ صرف ایک طرف کی صورتحال ہے ، دوسری طرف انکے رائے ونڈ کے فارم پر گزشتہ سوا سات سالوں سے بارہ سو اہلکار سیکورٹی کیلئے تعینات ہیں۔ جنکا خرچ پنجاب حکومت برداشت کرتی ہے۔انکے الاؤنسز اور کھانا پینا بھی سرکار سے آتا ہے اور اب تک کا تخمینہ لگایا جائے تو مجموعی رقم کئی کھرب بن جاتی ہے ۔ اتنا ہی نہیں نواز شریف کے اثاثے اس وقت دنیا کے کسی بھی وزیر اعظم سے زیادہ ہیں ۔وہ کلائی پر لاکھوں ڈالرز مالیت کی کئی گھڑیاں بدل بدل کر پہنتے ہیں ۔دودھ، دہی ، مرغی، انڈے، چینی سمیت شایدہی کوئی ایسا کاروبار ہو، جس میں انکا سرمایہ نہ لگا ہو مگر پانی بھی وہ سرکاری پیسوں سے ہی پیتے ہیں ۔
جب اقتدار ایک زبردست’’عیاشی‘‘ سے کم کچھ نہ ہو،حدِنگاہ ناک تک ہو ،کاروباری مفادات کے ساتھ ساتھ ذاتی شان وشوکت، جاہ و جلال مطمعٔ نظرہو تو پھر حکمرانوں کو ہر وقت اقتدار چھن جانے کا ندیشہ لاحق رہتا ہی ہے ۔ ’’سیاست کاروں‘‘کو اس وقت فوجی قیادت کی غیر معمولی مقبولیت ایک آنکھ نہیں بھا رہی لیکن وہ اسکی وجوہات کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کرکے سبق سیکھنے کو تیار نہیں ۔ایک طرف میاں صاحب ہیں جن کیلئے سرکاری ہیلی کاپٹر گرما گرم ’’کھابے ‘‘اسلام آباد سے مری پہنچاتا ہے اور دوسری طرف جنرل راحیل شریف ہیں جن کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ انہیں لیفٹننٹ جنرل کی حیثیت سے فوج کی طرف سے کراچی میں واقع جنرلز سوسائٹی میں پلاٹ الاٹ ہوا تھا ، انہوں نے وہ پلاٹ آرمی چیف بننے کے بعد ساڑھے تیرہ کروڑ میں فروخت کر دیا اور تمام رقم شہدافنڈ میں جمع کرادی تاکہ پاک فوج کے غریب شہداکے اہل ِ خانہ کی بہبودکے کام آسکے ۔بلا شبہ جیب سے خرچ کرنا اسے کہتے ہیں۔مارٹن لوتھر کنگ یاد آیا ، اس نے سیاہ فام امریکیوں کو سمجھانے کیلئے کہا تھا:
No one can ride on your back unless it is bent.
یعنی آپ پر اس وقت تک کوئی سواری نہیں کرسکتا جب تک آپ خود جھکے ہوئے نہ ہوں۔ میاں صاحب کو چاہیے کہ وہ بھی اپنی پشت سیدھی کر لیں یا پھر تیار رہیں کہ ان پر سواری کی جاتی رہے۔
(رانا خالد قمر)گزشتہ ایک ہفتے سے لندن میں جاری سیاسی سرگرمیوں اور نون لیگی کے طویل مشاورتی عمل کے بعد نیا لندن پلان سامنے آگیا ہے۔ لندن پلان پر عمل درآمد کا مکمل دارومدار نواز شریف سے معاملات کو حتمی شکل دینے کے لیے ایک اہم ترین شخصیت کی ایک اور ملاقات ہے۔ اگر مذکورہ اہم شخصیت نو...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا ایم شمیم نے انکشاف کیا ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت پر رہائی نہ ہونے کے لیے اُس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے ہائیکورٹ کے ایک جج کو خصوصی حکم دیا تھا۔ انصاف کے تقاضوں کے منافی اس مشکوک طرزِ عمل کے انکشاف نے پاکستان کے سیاسی ، صحافتی اور عد...
2013 میں نواز شریف کے دورِ حکومت میں تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے والی حکومتی کمیٹی کے سربراہ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ اس وقت طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوران عسکری قیادت کی جانب سے حکومت کو تعاون نہیں ملا تھا۔ایک انٹرویو میں سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ حکومت بننے کے ...
سابق وزیراعظم نوازشریف کی نااہلیت کے بعد اب اُن کا نام تمام قومی اور سرکاری جگہوں سے بتدریج ہٹایا جانے لگا ہے۔ تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کی ویب سائٹ سے رکن اسمبلی کے طور پر اُن کا نام ہٹا دیا گیا ہے۔ اسی طرح کراچی ائیرپورٹ پر قائداعظم اور صدرِ مملکت ممنون حسین کے ساتھ اُن کی ...
٭3 اپریل 2016۔پاناما پیپرز (گیارہ اعشاریہ پانچ ملین دستاویزات پر مبنی ) کے انکشافات میں پہلی مرتبہ وزیراعظم نوازشریف اور اْن کا خاندان منظر عام پر آیا۔ ٭5 اپریل 2016۔وزیراعظم نوازشریف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپنے خاندان کے حوالے سے ایک جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا عندیہ دیاتاکہ وہ...
عدالت ِ عظمیٰ کے لارجر بنچ کی جانب سے میاں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ سے نااہلی کے فیصلے نے پاکستان تحریک انصاف اور اُس کی قیادت کی اُس جدو جہد کو ثمر بار کیا ہے جو 2013 ء کے عام انتخابات کے فوری بعد سے چار حلقے کھولنے کے مطالبے سے شروع ہوئی تھی۔ عمران خان کی جانب سے انتخابات میں د...
پاناما کیس کا فیصلہ آنے کے بعدعمومی طور پر پنجاب اور خاص طور پر لاہور میں شدید رد عمل سامنے آیا ہے جیسے ہی سپریم کورٹ آف پاکستان میں5رکنی بینچ نے اپنا فیصلہ سنایا اور میڈیا کے ذریعے اس فیصلے کی خبر عوام تک پہنچی تو ان کا پہلا رد عمل وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کے سات...
جوں جوں نومبر کامہینہ قریب آرہا ہے، پاک فوج کے ممکنہ نئے سربراہ کے حوالے سے قیاس آرائیوں کاسلسلہ بھی دراز ہوتا جارہاہے، تاہم بھارت کے موجودہ جنگی جنون کے بعد پیداہونے والی صورت حال میں عوام اور تجزیہ کاروں کی اکثریت کاخیال یہی ہے کہ وزیر اعظم اس نازک وقت میں آرمی چیف تبدیل کرنے ک...
پارلیمان میں نمائندگی رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے قائدین کے ساتھ وزیراعظم نواز شریف کے اہم مشاورتی اجلاس میں پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، جمعیت العلمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے...
وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 71ویں اجلاس سے خطاب کو جو پذیرائی کشمیر میں حاصل ہوئی ہے ماضی میں شاید ہی کسی پاکستانی حاکم یا لیڈر کی تقریر کو ایسی اہمیت حاصل ہوئی ہو۔ کشمیر کے لیڈر، دانشور، صحافی، تجزیہ نگار، علماء، طلباء اور عوام کو اس تقریر کا...
اسپین میں ایک کہاوت ہے ‘ کسی کو دو مشورے کبھی نہیں دینے چاہئیں ایک شادی کرنے کا اور دوسرا جنگ پر جانے کا۔ یہ محاورہ غالباً دوسری جنگ عظیم کے بعد ایجاد ہوااس کا پس ِ منظر یہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں یورپ میں مردوں کی تعداد نہایت کم ہو گئی تھی اور عورتیں آبادی کا بڑا حصہ بن گئی تھی...