... loading ...
تاریخ سے سبق سیکھنے کے بجائے اس کو اپنی جھوٹی انا اورتکبر کا باعث بنا لینا قوموں کے زوال کا سبب بنتا ہے۔آج بہت ساری قومیں اس کی عبرتناک مثال بن کر ہمارے سامنے ہیں ،جن کا ماضی بہت روشن تھا لیکن آج وہ محض دوسری طاقتور اقوام کے رحم و کرم پر ہیں۔ اس طرح کی قومیں یاسیت کے شکار قوم پرست رہنما اور تنظیمیں تو نت نئی پیدا کر رہی ہیں لیکن اپنے لوگوں کے ذہنوں کو غلامی سے نجات دلانے والے رہنما ان کے ہاں اب پیدا نہیں ہو رہے ہیں۔
ہمارے خطے میں جو قوم آزادی، شجاعت، مزاحمت، غیرت کا استعارہ سمجھی جاتی تھی وہ آج ان تمام تر اعلیٰ ظرفیوں کو ماضی کے قصّوں میں ضرور تلاش کرتی ہے لیکن گزشتہ چالیس برس سے وہ جس تلاطم کا شکار ہے اس سے نکلنے کے لیے جس قومی فہم اور جذبے کی ضرورت ہے، یہ اس سے کوسوں دور ہے۔ آپ درست سمجھ رہے ہیں، ہمارا اشارہ افغان قوم کی جانب ہے ،جس کا خود راقم بھی ایک فرد ہے۔
یہ قوم تاریخ میں جب محمود غزنوی کی قیادت میں متحد ہوئی تو بنارس سے لے کر قونیہ تک ایک عظیم سلطنت قائم ہوئی۔ جب میر واعظ ہوتکی کی کمان میں صفوی راج کے خلاف صف آراء ہوئی تو اس کے دارالحکومت اصفہان تک کو اس سے چھین لیا۔ جب دہلی پہ تخت نشین ہوئی توپورے ہندوستان کے طول و عرض میں اپنا نظم و نسق قائم کرکے گنگا جمنی تہذیب کا روشن ترین باب کہلائی۔ سڑکوں کا مواصلاتی جال، ڈاک کا نظام، ‘روپیہ’ کی ابتداء، ماحولیاتی تحفظ کے قوانین، پٹوارخانوں کے ذریعے زمینوں اور کاشتکاری کا ریکارڈ اور اس پر محاصل کا نفاذ۔۔۔ ایک طویل فہرست ہے ان کاموں کی جن سے آج مغرب تو استفادہ کرتا ہے لیکن ہماری نصابی کتب اس کے ذکر سے خالی ہیں۔
پاکستان بننے سے قبل بھی پورے ہندوستان میں جہاں جہاں مسلمان آباد تھے وہاں وہاں اس قوم کے علماء اور مجاہدین ٹکڑیوں کی صورت میں چکر لگاتے رہتے اور ان کی مذہبی اور معاشرتی تقویت کا سبب بنتے۔ کشمیر اور سندھ سے لے کر دکن اوربنگال تک جہاں جہاں ضرورت ہوتی، پہنچتے۔ اگر کہیں آباد ہو جاتے تو کاروبار اور زمینداری بھی خوب کرتے۔عسکری خدمات کا تو کسی اور قوم سے مقابلہ ہی نہیں تھا۔ راجپوتوں اور مرہٹوں کے لئے بھی ان سے صلح کیے بغیر چارہ نہ تھا۔ ان کی رامپور، شاہ جہان پور، بھوپال اور ٹونک جیسی ریاستیں تو انگریز دور میں بھی مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی نشانی تھیں۔
ہر مشکل وقت میں ہندوستانی مسلمان اپنے شمال مشرق میں اپنی اس پشتیبان قوم کو آواز دیتے اور ہر پکار پر لاکھوں احمد شاہ ابدالی ان کی مدد کو پہنچتے۔ سیکڑوں سال کا یہ رشتہ ‘سرد جنگ’ کی نذر ہونا اس وقت شروع ہوا جب اس قوم کے حکمران مادر پدر آزاد مغربیت اور عوام روس سے آنے والی سرخ آندھی، یعنی کمیونزم، کا شکار ہونے لگے۔ اس سے قبل ہندوستان کے مسلمانوں کی چلائی جانے والی تحریکِ ہجرت میں افغانستان میں ان کے ساتھ ہونے والے سلوک اور ہزاروں مہاجرین کی بے یارو مددگار اورکسمپرسی کے عالم میں اموات تاریخ کا ایک سیاہ باب ہیں۔ مولانا عبیدللہ سندھی کی جنود ربانیہ بھی، جو ریشمی رومال تحریک کے نام سے مشہور ہوئی، افغانستان کے حکمرانوں کی انگریز نوازی کی نذر ہو گئی اور اس سے وابستہ ہزاروں لوگوں کو چن چن کر اذیت ناک طریقوں سے شہید کیا گیا۔
پاکستان بننے کے بعد ہندوستان کے ساتھ نہ ختم ہونے والے مسائل تو تھے ہی، افغانستان کا رویہ بھی دوستانہ نہیں تھا تاہم وقت کے ساتھ ساتھ اس میں کچھ اتار چڑھاؤ آتے رہے جس پر بہت کچھ تحریری شکل میں ملتا ہے۔ پاکستان میں قوم پرست جماعتوں اور الذوالفقار جیسی دہشت گرد تنظیموں کو بھی افغانستان کے لادین حکمرانوں سے مدد ملتی رہی۔ قائد ملت لیاقت علی خان کی شہادت سے لے کرسوات اور بلوچستان میں لگنے والی آگ کے ساتھ ساتھ آج تک دہشت گردی کے مختلف واقعات کا ایک طویل سلسلہ ہے جس کے تانے بانے پاکستان میں افغان خفیہ ایجنسیوں کے کردار سے جوڑے جا سکتے ہیں۔
یہ بات شاید ماضی قریب میں لکھی جانے والی مقبول کتابوں یا اخباری مضامین میں نہ ملے کہ افغانستان میں پاکستان اور اسلام سے محبت کرنے والا گروہ ۷۰ کی دہائی میں انجینئر حبیب اللہ نامی ایک افغان رہنما نے منظم کیا ،جو قاضی حسین احمد مرحوم کے ذاتی دوست تھے۔ انہیں بعد میں افغانستان کی کمیونسٹ حکومت نے شہید کردیا تھا۔ روس کے خلاف جہاد افغانوں کو پاکستان کے مزید قریب لے آیا اور لاکھوں مہاجرین جنگ کے دوران میں پاکستان میں پناہ گزین ہوئے۔ ایک وقت میں ان کی تعداد ۵۰ لاکھ سے زائد تھی اور اب بھی یہ ۱۰ لاکھ کے لگ بھگ پاکستان کے کونے کونے میں مقیم ہیں۔
افغان جہاد دس برس سے زائد جاری رہنے کے بعد اس حد تک تو کامیاب ہوا کہ روسی ریچھ خطے سے واپس ہوا اور اپنا وجود ہی برقرار نہ رکھ سکا۔ کئی وسط ایشیائی ریاستیں آزاد ہوئیں اور دیوار برلن ریزہ ریزہ ہوئی لیکن افغانستان میں امن لوٹ کر نہیں آیا اور نہ مجاہدین اتفاق کے ساتھ اپنی کوئی حکومت بنا سکے۔ پاکستان کے سیاسی اور عسکری پالیسی سازوں سے بھی اس دوران غلطیاں ہوئی ہیں۔ لیکن افغان جہاد کی ناکامی کے اسباب میں خود مجاہدین کی قیادت کی باہمی چپقلش اور روس کی واپسی کے بعد اقتدار کے لیے خانہ جنگی کے اسباب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ خانہ کعبہ کے سائے میں اٹھائے گئے حلف اور صلح کے وعدے بھی ان کو ایک دوسروں کی گردنیں کاٹنے سے باز نہ رکھ سکے۔
طالبان تحریک کا عروج و زوال اور نائن الیون کے بعد امریکہ کا اپنے اتحادیوں سمیت آنا اور پاکستان کو بھی اس جنگ کی آگ میں جھلسانے کے لیے سازشوں کا جو جال بنا جاتا رہا ہے اس پر گفتگو اس تحریر کا موضوع نہیں۔ تاہم افغان قوم کو یہ سوچنا ہو گا کہ اس خطے میں نہ ختم ہونے والے بحرانوں اور جنگی صورتحال کے اصل ذمہ دار خود ان کے اپنے رہنما تو نہیں؟ میر صادق اور میر جعفر صرف ہندوستانی مسلمانوں کی میراث نہیں۔ روس افغان کمیونسٹوں کی خواہش کے بغیر تو ان کے ملک میں نہیں آیا تھا، نہ امریکہ طالبان مخالف افغانوں کی مدد کے بغیر خطے میں کچھ کر سکتا تھا۔ پاکستان کی افغانستان کے حوالے سے تاریخی بد اعتمادی بھی بھارت کو وہاں دائمی طور پر حاصل “انسانی وسائل” کی وجہ سے ہے ۔جنہوں نے ہمیشہ اپنا ایمان اور ضمیر بیچ کر اپنے ہی مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے گلے کاٹے ہیں۔ افغان ایجنسیوں کا گزشتہ سات دہائیوں کے دوران میں دیا گیا بیانیہ پاکستان میں موجود پختون اور بلوچ قوم پرست جماعتوں کو افغانستان کی “عظیم تاریخی حیثیت” کے سحر میں مبتلا رکھ کے پاکستان کی حقیقت کوتسلیم کرنے سے آج بھی دور رکھتا ہے۔ قوم پرستوں کو چھوڑیں، اسلام پسند بھی اس “غیرت” پر مبنی بیانیے کے خلاف جانے کی جرات نہیں کر سکتے۔ ڈیورنڈ لائن کو مستقل سرحد تسلیم کرنا تو افغان قوم سے اتنی بڑی غداری سمجھی جاتی ہے کہ پاکستان سے قریب ترین تعلق رکھنے والی حزب اسلامی اور بعد میں طالبان قیادت بھی اس پر راضی نہ ہو سکی۔ مسئلہ صرف ڈیورنڈ لائن کا نہیں۔ اس بیانیے میں تو مضحکہ خیز طور پر بلوچستان اور کراچی بھی افغانستان کا حصہ قرار دیے جاتے ہیں۔ افغانستان میں وہ کون سی لابی ہے جو بھارت سے آنے والی درآمدات پر “از کشور ہندوستان” چھپواتی ہے اور کابل سے چلنے والے تمام تر ٹی وی اور ریڈیو چینل اپنے اینکرز کی جانب سے دن رات پاکستان کو دی جانے والی باقاعدہ گالیوں کو سنسر تک کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ نوجوانوں کو پاکستان کے خلاف برین واش کیا جاتا ہے اور اس کے لیے ہر طرح کا مواد پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا ہر پھیلایا جاتا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ افغانستان میں غریب پاکستانی مزدوروں کے گلے کاٹے جا رہے ہیں اور پاکستانی سفارت کاروں کا سفارت خانے سے باہر آنا جانا مشکل تر ہو چکا ہے۔
دوسری جانب پاکستان کو اکسایا جارہا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے افغانستان میں چھپے دہشت گردوں کا تعاقب کیا جائے۔ اس کا نتیجہ یقیناَ جنگ ہوگا۔ جب کہ اس بات کے ثبوت بھی کابل حکومت کو کئی بار پیش کیے جا چکے ہیں کہ بلوچستان کے علیحدگی پسند اور ٹی ٹی پی کو میسر افغان سرزمین پر نہ صرف پناہ گاہیں قائم ہیں بلکہ انہیں سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہے۔
افغانوں کو سوچنا ہو گا۔۔۔ فیصلہ کرنا ہو گا کہ جو بین الاقوامی قوتیں افغانوں کو پاکستان کے خلاف سازشوں اور جنگ پر اُ کسا رہی ہیں وہ ان کی خیر خواہ ہیں یا اس کے ذریعے کچھ اور مفادات حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ کیا اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار کسی بھی طرح پاکستان کو ٹہرانے میں افغان حکومت اور رہنما حق بجانب ہیں؟ کیا وہ خطے میں ایک اور جنگ کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ ان کی عاقبت نااندیشیوں کی وجہ سے پاکستان میں تین نسلوں سے امن و سکون سے رہنے والے افغان مہاجرین کی زندگیاں پہلے ہی اجیرن ہو چکی ہیں جن کا بوجھ آئندہ آنے والی کئی دہائیوں تک افغانستان اٹھانے کے قابل تو کم از کم نہیں۔ داعش کی صورت میں ایک نیا خطرہ منڈلا رہا ہے اور افغانستان کے مشرقی صوبوں میں سفید جھنڈے سیاہ ہونا شروع ہوچکے ہیں۔ مجھ سمیت لاکھوں افغانوں کو پاکستان اور پاکستانیوں کی مہمان نوازی کے سبب آج تعلیم، صحت، روزگار کی سہولت حاصل ہے۔ اگر تکلیف ہے تو اتنی ہی جتنی ہمارے جیسے غریب پاکستانیوں کو اپنے سرکاری اداروں کی کرپشن، نااہلی اور طاقت کے ناجائز استعمال سے ہوتی ہے۔ ہم نے پاکستان کو اپنا دوسرا وطن سمجھا ہے اور یہی ہمیں ہمارے والدین نے سکھایا تھا جن کی قبریں اب یہاں موجود ہیں۔ پاکستان کے ساتھ دشمنی کرنے والے افغان، افغانستان اور اسلام کے دشمن ہیں اور خطے میں کرائے کے قاتلوں کا کردار ادا کررہے ہیں۔ اگر افغان قوم اپنے ملک میں امن اور ترقی چاہتی ہے تو ان کرداروں کوبے نقاب کرنا ضروری ہے جو نئی افغان نسل کو گمراہ کر کے ایک نئی جنگ کا ایندھن بنانا چاہتے ہیں۔
ہمیں سوچنا ہو گا۔۔۔ ہمیں کچھ کرنا ہوگا۔۔۔ ورنہ افغان ،تاریخ میں بہادری اور تہذیب و دانش کے علم برداروں کے بجائے خدانخواستہ کرائے کے قاتلوں کے طور پر جانے جائیں گے۔یا شاید: ”ہماری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں۔۔۔”
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ انہوں نے طالبان کو دھمکی دی تھی کہ اگر انہوں نے ان کے ساتھ کیا معاہدہ توڑا تو طالبان کے شریک بانی کو "مٹا دیا" جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ دھمکی دینے کے ساتھ طالبان کے امیر کو ان کے ٹھکانے کی تصویر بھیجی تاکہ یہ ثابت ہو سکے کہ ہم ایسا کر سکتے ...
طالبان حکومت نے افغانستان میں نیا وزیر تعلیم مقرر کر دیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق نور اللہ منیر کی جگہ قندھار کی صوبائی کونسل کے موجودہ سربراہ حبیب اللہ آغا کو افغانستان کا نیا وزیر تعلیم مقرر کیا گیا ہے۔غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق طالبان کی جانب سے یہ فیصلہ اقوام متحدہ کی طرف س...
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 13 طالبان رہنماؤں کو حاصل سفری پابندیوں کا استثنیٰ ختم کر دیا۔ غیر ملکی خبررساں ایجنسی کے مطابق چین اور روس کی جانب سے طالبان رہنماؤں کی سفری پابندیوں کے استثنیٰ میں توسیع کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ سلامتی کونسل نے 2011 میں 135 طالبان رہنماؤں پر پابندیا...
ایک سینئر طالبان رکن نے کہا ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم اتنا حساس معاملہ ہے کہ اس پابندی کے خاتمے کے فیصلے پر طالبان ہی میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہو گئی تھی، جس کے بعد خود سپریم لیڈر کو مداخلت کرنا پڑی تھی۔ میڈیارپورٹس کے مطابق ایک سینئر طالبان رکن نے بات چیت میں کہا کہ لڑکیوں کی تعلیم اتنا حس...
افغان حکام نے طالبات کیلئے بدھ سے ہائی اسکول دوبارہ کھولنے کا حکم واپس لے لیا، بدھ کی صبح صبح اسکول پہنچنے والی طالبات کو گھر جانے کا حکم دیا گیا۔غیرملکی خبرایجنسی کے مطابق افغان وزارت تعلیم نے طالبات کیلئے ہائی اسکول تاحکم ثانی بند رکھنے کانوٹس جاری کردیا۔نوٹس میں کہا گیا کہ اسل...
طالبان نے کہا ہے کہ جب تک بیرون ملک موجود افغان شہریوں کے حالات بہتر نہیں ہوجاتے وہ مزید شہریوں کو انخلا کی اجازت نہیں دیں گے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ شہریوں کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے تو جب تک اس بات کی ضمانت نہ مل جائے کہ ان کی زندگی...
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کبھی نہ کبھی تو افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنا ہوگا، عالمی براردی کو افغان حکومت کے ساتھ ''کچھ لو اور دو'' کی بنیاد پر کام کرنا چاہیے۔امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان افغانستان اور طالبان حکومت سے متعلق بات ک...
٭داعش کا افغانستان میں محدود علاقے پر کنٹرول ہے جس نے مربوط حملے کرنے کی مسلسل صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے ٭طالبان نے ملک میں غیر ملکی دہشت گرد جنگجوؤں کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے لیے کوئی قدم اٹھایا اقوام متحدہ کے ماہرین نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ حال ہی میں اقتدار میں آنے وا...
ضلع کرم میں پاک افغان بارڈر پر سرحد پار سے دہشت گردوں کی فائرنگ میں پاک فوج کے 5جوان شہید ہوگئے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق ضلع کرم میں افغانستان سے دہشت گردوں نے سکیورٹی فورسز پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 5جوان شہید ہوگئے۔آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ فورسز کی بھرپور جوا...
افغانستان کے حکمران طالبان نے قطر چھوڑنے والی نیوزی لینڈ کی حاملہ مگرغیرشادی شدہ صحافیہ کو پناہ کی پیش کش کردی ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق صحافیہ شارلٹ بیلس کو یہ معلوم ہونے کے بعد قطر چھوڑنا پڑا تھا کہ وہ ایک ایسے ملک میں حاملہ ہیں جہاں بغیرشادی سے بچے کو جنم دینا غیرقانونی ہے۔ بیلس...
امارت اسلامیہ افغانستان میں امریکی شہری کرسٹوفر نے اسلام کی حقانیت کا اقرار کرتے ہوئے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے ہاتھوں اسلام قبول کرلیا۔افغانستان کی سرکاری نیوز ایجنسی کے مطابق طویل عرصے سے افغانستان میں مقیم امریکی شہری کرسٹو فر نے اسلام کے آفاقی پیغام کی حقانیت کو پہچ...
ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے اعلان کیا ہے کہ رواں برس مارچ سے ملک بھر میں لڑکیوں کے تمام اسکول کھول دیئے جائیں گے۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امارت اسلامیہ افغانستان کے نائب وزیر اطلاعات اور ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے انٹرویو میں بتایا کہ لڑکیوں کے اسکول کھولنے کے انت...