... loading ...
مملکتِ خداداد پاکستان میں وارد ہونے والے ہرمارشل لاء نے جہاں اس معاشرے کے اخلاقی و معاشرتی خدو خال کو مسخ کیا وہاں ہر آمریت جاتے ہوئے اس معاشرے کے معاشی و اقتصادی پہلووں کو بھی کچھ یوں نیست و نابود کر گئی کہ ملکی حالات اس کے بعد آنے والی کسی بھی حکومت کے قابو میں نہیں آئے اور بعد میں آنے والی حکومت حالات کی انہی ستم ظریفیوں سے نبرد آزما ہوتی کہ ایک نیا مارشل لاء اینٹ کے ساتھ جمہوریت کا دروازہ کھٹکھٹانے آ پہنچتا۔
فیلڈ مارشل ایوب خان نے ہماری ملکی تاریخ کے پہلے دس سالوں میں بننے والی صنعتی و اقتصادی بنیادوں کے اوپر اپنا کھیل جما کر ایسا ڈرامہ کیا کہ ان کے گوئبلز نے اس قوم کو باور کرا دیا کہ فیلڈ مارشل کے دور میں صنعت و حرفت نے بہت زیادہ ترقی کی حالانکہ یہ تو انڈین سول سروس کے اُن محب وطن پاکستانی افسروں کی دن رات محنت کا نتیجہ تھا ، جنہوں نے اپنی آنکھوں سے اس ملک کو بنتے دیکھا تھا اور انہیں اس کی بنیادوں میں بہنے والے خون کا کچھ اندازہ تھا۔ اس لئے انہوں نے ملک میں ترقی کی مضبوط بنیاد رکھی جس پر کہ آج تک ملک میں صنعت کاری اور صنعت سازی ہوتی چلی آ رہی ہے۔ لیکن چوں کہ جناب فیلڈ مارشل نے ان بابوؤں کو افسر شاہی بنا دیا تھا اور ان کا واحد کام حکومتِ وقت کی خوشنودی اور چاپلوسی ہی ٹھہرا دیا گیا تھا ۔اس لئے آج تک بات اس سے آگے نہ بڑھ سکی۔
فیلڈ مارشل جنرل ایوب صاحب کے دور میں سینما مالکان کو عروج حاصل ہوا، کیوں کہ کسی بھی سینما کے مالک کو اس کی ’اوقات ‘ صرف ایک بارہویں گریڈ کا ایک افسر یاد کرا دیا کرتا تھا۔اور ویسے بھی سینما مالک کو روزانہ سول ڈیفنس سے لے کر مقامی پولیس تک کم از کم بتیس محکموں کو بھگتانا پڑتا تھا اور اگر ان میں سے کسی ایک بھی محکمے کے افسر کے مزاج بدلتے تو سینما کے مالک کی سانس خشک ہو جاتی۔ اس لئے سینما مالکان کو نکیل ڈالے رکھنا آسان تھا۔
ان کے بعد جنرل آغا محمد یحییٰ خان صاحب کو تو شاید اداکارہ ترانہ کو ’قومی ترانہ‘ بنانے سے ہی فرصت نہ ملی جب کہ مرحوم ضیاء الحق کے دور میں ٹرانسپورٹ مالکان کا عروج کچھ یوں ہوا کہ نیو خان اور کوہستان ٹرانسپورٹ کے مالکان اسمبلیوں میں آبیٹھے۔ سرکاری بس اڈوں سے باہر پرائیویٹ بس اور ویگن اڈوں کا ظہور اور عروج بھی اسی دور میں ہوا ۔جن سے اربوں روپوں کا بھتہ وصول کیا جاتا تھا ۔ ویسے بھی کسی ٹرانسپورٹ کمپنی کے مالک کو اس کی اوقات یاد دلانے کے لئے ایک ٹریفک کانسٹیبل ہی کافی ہوا کرتا تھا۔
مشرف صاحب نے اسی طرح اس ملک کوا سکول مافیا دیا۔ اگر آپ کو یاد ہو تو کمانڈو جنرل مشرف کے وزیرِ خارجہ، وزیرتعلیم، وزیرِ اطلاعات وغیرہ سب کے سب اسکول مالکان تھے ۔مشرف صاحب نے مقامی طور پر جن کے کندھے پر ہاتھ رکھا ان میں سے بیشتر بھی کسی نہ کسی حد تک تعلیم فروشی سے ہی وابستہ تھے۔ انہوں نے نہ صرف ان سکولوں کے لئے کوئی ریگولیٹری ادارہ نہیں بننے دیا بلکہ اس بات کا بھی اہتمام کیا کہ نئے تعلیمی ادارے یا تو کھولے ہی نہ جائیں یا پھر اتنے کم کہ وہ بڑھتی آبادی کی تعلیمی ضروریات کے مقابلے میں بہت کم ہوں تا کہ نجی اسکول مالکان کو من مانی کرنے اور کھل کھیلنے کا موقع مل سکے۔ اگر صرف پنجاب کے سب سے بڑے شہر لاہور کا ہی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ نج کاری کے نام پرا سکول مقامی این جی اوز کو دے کر، معیارِ تعلیم میں بہتری کے نام پر عوام کی ان اداروں تک رسائی کو تو مشکل بنایا گیا لیکن آج بھی اس ایک کروڑ آبادی والے شہر میں سرکاری ا سکولوں کی تعداد و ہی ہے جتنی اُس وقت تھی جب اس شہر کی آبادی چالیس لاکھ تھی۔
کمانڈو جنرل مشرف نے تعلیمی نظام کو بے وقعت کرنے کے لئے نہ صرف کیمبرج کے امتحانی نظام کی سرکاری سرپرستی کی بلکہ غیر ملکی ناشر ان کو کتابیں چھاپنے کے اجازت نامے بھی مرحمت فرما دئیے اور ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ درسی کتب اس قدر مہنگی ہوئیں کہ سفید پوش والدین جب بچوں کی کتابیں خریدنے جاتے تو ان کے ماتھے پر پسینے آنے لگتا۔ دوسری طرف انہوں نے پیشہ ورانہ اداروں میں داخلوں کے لئے انٹری ٹیسٹ کا نظام متعارف کروایا جس کا سیدھا سا مطلب یہ تھا کہ ہمارے تعلیمی نظام کے بنیادی ستون ، یعنی سیکنڈری بورڈ زجو امتحانات لے رہے تھے وہ اس قابل نہیں تھے کہ ان کے نتائج پر اعتماد کیا جا سکے۔ لہٰذا انٹری ٹیسٹ کی تیاری کروانے کے نام پر ایک پورا اکیڈمی مافیا وجود میں آ گیا ۔ انتہائی محتاط اندازے کے مطابق انٹری ٹیسٹ کی تیاری کروانے والے ادارے صرف شہرِ لاہور میں تیس ارب سے زائد رقم ٹیوشن فیس کی صورت میں والدین سے اینٹھ رہے ہیں۔
یہ کیسا نظام ہے کہ بچہ میڈیکل کالج میں داخلے سے پہلے بھی ایک اضافی امتحان دے اور جب وہ پانچ سال پڑھ کر ڈاکٹر بن جائے تو پھر اپنی پیشہ ورانہ تنظیم پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کا رکن یعنی باقاعدہ ڈاکٹر بننے کے لئے پھر ایک امتحان دے۔ یہی حال انجینئرنگ کے شعبے میں جانے والوں کا ہے۔ کیا دنیا کے کسی بھی مہذب ملک میں ایسا ہوتا ہے؟ مزے کی بات یہ ہے نیشنل ٹیسٹنگ سروس سے لے کر انٹری ٹیسٹ لینے والے سارے وہی شاہ دولے کے چوہے تھے جنہوں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں کبھی بھی کسی ایسے امتحان کی زحمت گوارا نہیں کی تھی۔ ان میں سے این ٹی ایس تو ایک ایسی جعل سازی تھی کہ ہر سال این ٹی ایس کے نام پر اربوں روپے اپنی جیب میں ڈالنے والے ادارے کے سربراہ کے اپنے پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی سرقہ شدہ ثابت ہو گیا لیکن کسی کے کان پر جوں کیوں رینگتی کہ اس تمام نظام کے خالق جناب ڈاکٹر عطاء الرحمن صاحب کے اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے پر سرقہ بازی کے بہت سے سوال کھڑے ہیں جو آج تک قائم ہیں۔ جعلی ڈگریوں کے حامل جعل سازوں نے مل کر عوام سے جو جعل سازی کی اس سے نجات ملنا مشکل نظر آ رہی ہے۔
اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جناب خادمِ اعلیٰ برسراقتدار آتے ہی مشرف صاحب کے دور کی ان لعنتوں سے عوام کو نجات دلوا تے۔ لیکن جس طرح خادمِ اعلیٰ نے مشرف دور کی دیگر لعنتوں کو گلے لگایا اور اپنی کابینہ میں جگہ دی ویسے ہی انہوں نے اس جعل سازی کو بھی جاری رکھا۔ خادمِ اعلیٰ بڑے بڑے نعرے لگانے کے ماہر ہیں۔ ایک دن نعرہ لگا دیا کہ ’’اگر انٹری ٹیسٹ ختم نہ کیا تو میرا نام نہیں‘‘۔ ماشاء اﷲ یہ نعرہ لگائے تیسرا سال ہے انٹری ٹیسٹ بھی جاری ہے اور خادمِ اعلیٰ کا نام بھی وہی کا وہی ہے۔ ہم اس الزام کو ماننے کے لئے قطعاً تیار نہیں کہ ٹیوشن اکیڈمی مافیا کوئی ’’بریف۔۔‘‘ لے کر آپ کے ’’پسرِ بزرگ ‘‘ کے پاس پہنچ گیا ہوگا کہ اربوں روپے کی ’صنعت‘ کی بندش کا اعلان ان پر بجلی بن کر گرا تھا۔ لیکن ہم کم عقلوں کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ اس اعلان پر عمل درآمد کیوں نہ ہو سکا؟ ضرور اس میں بھی خادم اعلیٰ کی کوئی نہ کوئی حکمت ہو گی۔
اسی طرح گزشتہ پانچ سال سے زائد عرصے سے ’’اسکول ریگولیٹری اتھارٹی ‘‘کا بل پنجاب اسمبلی میں اٹکا ہوا ہے لیکن نامعلوم وجوہات کی بناء پر اس قانون کومنظوری کے لئے پیش نہیں کیا جا سکا۔ حیرت ہے کہ اس قدر تُرت پھُرت خادمِ اعلیٰ کو اس اہم قانون سازی کے لئے فرصت نہیں؟ جب کہ ان کے وزیر تعلیم لوگوں کو دئیے گئے قرض واپس لینے کے نام پر ان سے چیک پکڑتے ہوئے پائے جا رہے ہیں اور ان کی گڈگورننس کو چار چاند لگا رہے ہیں۔
یہ تمام باتیں ہمیں ان والدین کو دیکھ کر یاد آئی ہیں جن کے لئے اپنے بچوں کی فیسیں ادا کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ اب مسئلہ یہ درپیش ہے کہ اپنی سفید پوشی کا بھرم برقرار رکھیں یا پھرا سکولوں کی فیسیں ادا کریں اور وہ ہاتھوں میں پلے کارڈ پکڑ کر سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ ویسے یہ قوم بہت ہی نا شکری ہے۔ ان کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو گلی محلے میں مختلف تنگ و تاریک گھروں میں کھُلنے والے مبلغ پانچ سو روپے ماہانہ فیس والے ا سکول میں داخل کروائیں اور مستحق ِ زکوٰۃ کا جھوٹا سرٹیفیکیٹ جمع کروا کر ’پنجاب ایجوکیشن فاونڈیشن ‘ کے ذریعے ان کو مفت تعلیم دلوائیں۔ لگتا ہے یہ سفید پوش منافق عمران خان کے ایجنٹ بن گئے ہیں، اس لئے جناب خادمِ اعلیٰ صاحب ! ہم اس بات کے منتظر ہیں کہ کب آپ کی فرض شناس پولیس ان کو مزہ چکھاتی ہے اور سڑکوں پر گھسیٹتی ہے۔ ویسے خادمِ اعلیٰ صاحب ! آپ کے اور رانا ثناء اﷲ صاحب کے زیرِ نگرانی قصور میں ا سکول کے بچوں اور بچیوں کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے، ایسی صورت میں بچوں کو ’بُری صحبت کے بُرے انجام‘ سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ ان کو اسکول بھیجنے کا گناہ سرے سے کیا ہی نہ جائے۔ اس لئے ہماری گذارش ہے کہ پہلی فرصت میں لبرٹی چوک میں بینر اور پوسٹر اٹھا کر کھڑے ان والدین کی ٹھکائی کا اہتمام فرمائیں تاکہ مشرف صاحب کے دلی سکون اور روحانی تسکین کا بندوبست ہو سکے۔
جنرل (ر) پرویز مشرف کی موت محض تعزیت کا موضوع نہیں، یہ تاریخ کا موضوع ہے۔ تاریخ بے رحمی سے حقائق کو چھانتی اور شخصیات کے ظاہر وباطن کو الگ کرتی ہے۔ تعزیت کے لیے الفاظ درد میں ڈوبے اور آنسوؤں سے بھیگے ہوتے ہیں۔ مگر تاریخ کے الفاظ مروت یا لحاظ کی چھتری تلے نہیں ہوتے۔ یہ بے باک و سف...
اسلام آباد ہائیکورٹ نے لاپتہ افراد کے کیس میں وفاقی حکومت کو پرویزمشرف سے لیکر آج تک تمام وزرائے اعظم کونوٹس جاری کرنے کا حکم دے دیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 15 صفحات کا حکم نامہ جاری کیا ہے جس میں آئینی خلاف ورزیوں پر اٹارنی جنرل کو دلائل کیلئے آخری موقع...
کوئی تین سال پہلے کی بات ہے کہ ہمارے ایک ہم عصر صحافی جو صحافت کرتے کرتے ایک دم غائب ہو گئے تھے، کچھ سالوں کے بعد ملے تو پتا چلا کہ وہ کابل میں ایک امریکی اخبار کے بیورو میں پائے جاتے ہیں اور ہر ماہ کسی افغان وار لارڈ کی طرح ڈالروں سے جیبیں بھرتے ہیں۔ پختون پس منظر کے باعث ان کو ...
جناب عمران خان نے رائیونڈ اور جاتی امراء چوک پر ایک اور جلسہ کرلیا۔ جلسے کی کامیابی یا ناکامی کا معیار ہر دو فریقین کے نزدیک دیگر ہے، لیکن یہ بات طے ہے کہ کوئی ربع صدی تک سیاسی جلسوں کے جائزوں کے بعد خاکسار کا خیال ہے کہ بیس ہزار وہ جادوئی ہندسہ ہے جس کو پار کر جانے کے بعد کوئی ب...
میاں محمد نواز شریف کا سخت سے سخت ناقد بھی اس بات کا معترف ہورہا ہے کہ انہوں نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک بھرپور اور پاکستان جیسے اہم اسلامی ملک کے شایانِ شان تقریر کی۔ پاک بھارت شملہ معاہدے کے بعد کشمیر پر یہ پہلی سفارتی ’’جارحیت‘‘ ہے جس کا اعزاز بھی ایک منتخب جمہوری ح...
ایران میں جب شاہ ایران کے خلاف عوامی انقلاب نے سر اٹھایا اور اسے ایران سے فرار ہونا پڑاتواس وقت تہران میں موجود سوویت یونین کے سفارتخانے میں اعلی سفارتکار کے کور میں تعینات روسی انٹیلی جنس ایجنسی کے اسٹیشن ماسٹر جنرل شبارچین کو اچانک ماسکو بلایا گیا۔ کے جی بی کے سابق سربراہ یوری ...
سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو عدالت نے اشتہاری قرار دے کر اُن کی جائیداد ضبط کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سیشن کورٹ نے لال مسجدمقدمے میں سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو اشتہاری قرار دیتے ہوئے ملزم کی جائیداد ضبط کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کے علاوہ عدالت نے پرویز...
ہمارا دفترگزشتہ ایک دہائی سے گلبرگ ، لاہور میں ہی واقع ہے۔ ادارہ بدلتا رہتا ہے لیکن علاقہ نہیں بدلتا۔ مشرف دور کی بات ہے ایک دن گھر کو واپسی کرتے ہوئے اُس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب کے گھر والی سڑک سے گزر کر نہر کے کنارے والی سڑک پر مڑے تو نہر کے کنارے بنی حفاظتی دیوار پر لکھا تھا ’...
دو دن قبل ہی چین سے افغانستان کو چلنے والی پہلی مال گاڑی تاجکستان اور ازبکستان کے راستوں سے ہوتی ہوئی افغان صوبہ مزار شریف کے سرحدی گاؤں حیراتان کی خشک بندرگاہ پرپہنچی ہے ۔ یہ مال گاڑی کوئی پندرہ روز قبل چین سے روانہ ہوئی تھی۔ دونوں ممالک اس کو ایک اہم تاریخی سنگِ میل قرار دے رہ...
میاں محمد نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان نوے کی دہائی میں سیاسی محاذ آرائی زوروں پر تھی تو بی بی کے خلاف مقتدر حلقوں کی طرف سے ایک خانہ ساز بدعنوانی یا کرپشن کا ’بیانیہ ‘ نہ صرف اوصول کیا گیا بلکہ اس کو حسبِ توفیق آگے بھی پھیلایا ، وہ بیانیہ تھا کہ ’’بے نظیر ،زرداری اور ان ...
صدیوں پرانی بات ہے جب پاکستان کے جنم سے بہت پہلے اسی سرزمین پر ایک ’’عرب نوجوان لڑکی‘‘کی گرفتاری نے ’’ظالم حجاج بن یوسف‘‘کو اس قدر بے چین کردیا تھاکہ اس نے اپنی فوجوں کو محمد بن قاسمؒ کی اطاعت میں اس بات پر سختی سے پابند کردیا تھا کہ’’میری بیٹی‘‘کو ہر حال میں جیل سے نجات دلا کر ر...
سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف گزشتہ دنوں علاج کے بہانے پاکستان سے چلے گیے۔ مسلم لیگ نون نے اس معاملے میں جو موقف اختیار کیا اور جو اقدامات اُٹھائے اُس پر انہیں ملک بھر میں آڑے ہاتھوں لیا جارہا ہے۔ یہ مسئلہ پیر کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھی حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان ایک م...