وجود

... loading ...

وجود

تعلیم اور جعل سازی

هفته 19 ستمبر 2015 تعلیم اور جعل سازی

pakistan-education

مملکتِ خداداد پاکستان میں وارد ہونے والے ہرمارشل لاء نے جہاں اس معاشرے کے اخلاقی و معاشرتی خدو خال کو مسخ کیا وہاں ہر آمریت جاتے ہوئے اس معاشرے کے معاشی و اقتصادی پہلووں کو بھی کچھ یوں نیست و نابود کر گئی کہ ملکی حالات اس کے بعد آنے والی کسی بھی حکومت کے قابو میں نہیں آئے اور بعد میں آنے والی حکومت حالات کی انہی ستم ظریفیوں سے نبرد آزما ہوتی کہ ایک نیا مارشل لاء اینٹ کے ساتھ جمہوریت کا دروازہ کھٹکھٹانے آ پہنچتا۔

فیلڈ مارشل ایوب خان نے ہماری ملکی تاریخ کے پہلے دس سالوں میں بننے والی صنعتی و اقتصادی بنیادوں کے اوپر اپنا کھیل جما کر ایسا ڈرامہ کیا کہ ان کے گوئبلز نے اس قوم کو باور کرا دیا کہ فیلڈ مارشل کے دور میں صنعت و حرفت نے بہت زیادہ ترقی کی حالانکہ یہ تو انڈین سول سروس کے اُن محب وطن پاکستانی افسروں کی دن رات محنت کا نتیجہ تھا ، جنہوں نے اپنی آنکھوں سے اس ملک کو بنتے دیکھا تھا اور انہیں اس کی بنیادوں میں بہنے والے خون کا کچھ اندازہ تھا۔ اس لئے انہوں نے ملک میں ترقی کی مضبوط بنیاد رکھی جس پر کہ آج تک ملک میں صنعت کاری اور صنعت سازی ہوتی چلی آ رہی ہے۔ لیکن چوں کہ جناب فیلڈ مارشل نے ان بابوؤں کو افسر شاہی بنا دیا تھا اور ان کا واحد کام حکومتِ وقت کی خوشنودی اور چاپلوسی ہی ٹھہرا دیا گیا تھا ۔اس لئے آج تک بات اس سے آگے نہ بڑھ سکی۔

فیلڈ مارشل جنرل ایوب صاحب کے دور میں سینما مالکان کو عروج حاصل ہوا، کیوں کہ کسی بھی سینما کے مالک کو اس کی ’اوقات ‘ صرف ایک بارہویں گریڈ کا ایک افسر یاد کرا دیا کرتا تھا۔اور ویسے بھی سینما مالک کو روزانہ سول ڈیفنس سے لے کر مقامی پولیس تک کم از کم بتیس محکموں کو بھگتانا پڑتا تھا اور اگر ان میں سے کسی ایک بھی محکمے کے افسر کے مزاج بدلتے تو سینما کے مالک کی سانس خشک ہو جاتی۔ اس لئے سینما مالکان کو نکیل ڈالے رکھنا آسان تھا۔

آج بھی ایک کروڑ آبادی والے شہرِ لاہور میں سرکاری ا سکولوں کی تعداد اُتنی ہی ہے جتنی اُس وقت تھی جب اس شہر کی آبادی چالیس لاکھ تھی

ان کے بعد جنرل آغا محمد یحییٰ خان صاحب کو تو شاید اداکارہ ترانہ کو ’قومی ترانہ‘ بنانے سے ہی فرصت نہ ملی جب کہ مرحوم ضیاء الحق کے دور میں ٹرانسپورٹ مالکان کا عروج کچھ یوں ہوا کہ نیو خان اور کوہستان ٹرانسپورٹ کے مالکان اسمبلیوں میں آبیٹھے۔ سرکاری بس اڈوں سے باہر پرائیویٹ بس اور ویگن اڈوں کا ظہور اور عروج بھی اسی دور میں ہوا ۔جن سے اربوں روپوں کا بھتہ وصول کیا جاتا تھا ۔ ویسے بھی کسی ٹرانسپورٹ کمپنی کے مالک کو اس کی اوقات یاد دلانے کے لئے ایک ٹریفک کانسٹیبل ہی کافی ہوا کرتا تھا۔

مشرف صاحب نے اسی طرح اس ملک کوا سکول مافیا دیا۔ اگر آپ کو یاد ہو تو کمانڈو جنرل مشرف کے وزیرِ خارجہ، وزیرتعلیم، وزیرِ اطلاعات وغیرہ سب کے سب اسکول مالکان تھے ۔مشرف صاحب نے مقامی طور پر جن کے کندھے پر ہاتھ رکھا ان میں سے بیشتر بھی کسی نہ کسی حد تک تعلیم فروشی سے ہی وابستہ تھے۔ انہوں نے نہ صرف ان سکولوں کے لئے کوئی ریگولیٹری ادارہ نہیں بننے دیا بلکہ اس بات کا بھی اہتمام کیا کہ نئے تعلیمی ادارے یا تو کھولے ہی نہ جائیں یا پھر اتنے کم کہ وہ بڑھتی آبادی کی تعلیمی ضروریات کے مقابلے میں بہت کم ہوں تا کہ نجی اسکول مالکان کو من مانی کرنے اور کھل کھیلنے کا موقع مل سکے۔ اگر صرف پنجاب کے سب سے بڑے شہر لاہور کا ہی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ نج کاری کے نام پرا سکول مقامی این جی اوز کو دے کر، معیارِ تعلیم میں بہتری کے نام پر عوام کی ان اداروں تک رسائی کو تو مشکل بنایا گیا لیکن آج بھی اس ایک کروڑ آبادی والے شہر میں سرکاری ا سکولوں کی تعداد و ہی ہے جتنی اُس وقت تھی جب اس شہر کی آبادی چالیس لاکھ تھی۔

کمانڈو جنرل مشرف نے تعلیمی نظام کو بے وقعت کرنے کے لئے نہ صرف کیمبرج کے امتحانی نظام کی سرکاری سرپرستی کی بلکہ غیر ملکی ناشر ان کو کتابیں چھاپنے کے اجازت نامے بھی مرحمت فرما دئیے اور ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ درسی کتب اس قدر مہنگی ہوئیں کہ سفید پوش والدین جب بچوں کی کتابیں خریدنے جاتے تو ان کے ماتھے پر پسینے آنے لگتا۔ دوسری طرف انہوں نے پیشہ ورانہ اداروں میں داخلوں کے لئے انٹری ٹیسٹ کا نظام متعارف کروایا جس کا سیدھا سا مطلب یہ تھا کہ ہمارے تعلیمی نظام کے بنیادی ستون ، یعنی سیکنڈری بورڈ زجو امتحانات لے رہے تھے وہ اس قابل نہیں تھے کہ ان کے نتائج پر اعتماد کیا جا سکے۔ لہٰذا انٹری ٹیسٹ کی تیاری کروانے کے نام پر ایک پورا اکیڈمی مافیا وجود میں آ گیا ۔ انتہائی محتاط اندازے کے مطابق انٹری ٹیسٹ کی تیاری کروانے والے ادارے صرف شہرِ لاہور میں تیس ارب سے زائد رقم ٹیوشن فیس کی صورت میں والدین سے اینٹھ رہے ہیں۔

انتہائی محتاط اندازے کے مطابق انٹری ٹیسٹ کی تیاری کرانے والے ادارے صرف شہرِ لاہور میں تیس ارب سے زائد رقم ٹیوشن فیس کی صورت میں والدین سے اینٹھ رہے ہیں

یہ کیسا نظام ہے کہ بچہ میڈیکل کالج میں داخلے سے پہلے بھی ایک اضافی امتحان دے اور جب وہ پانچ سال پڑھ کر ڈاکٹر بن جائے تو پھر اپنی پیشہ ورانہ تنظیم پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کا رکن یعنی باقاعدہ ڈاکٹر بننے کے لئے پھر ایک امتحان دے۔ یہی حال انجینئرنگ کے شعبے میں جانے والوں کا ہے۔ کیا دنیا کے کسی بھی مہذب ملک میں ایسا ہوتا ہے؟ مزے کی بات یہ ہے نیشنل ٹیسٹنگ سروس سے لے کر انٹری ٹیسٹ لینے والے سارے وہی شاہ دولے کے چوہے تھے جنہوں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں کبھی بھی کسی ایسے امتحان کی زحمت گوارا نہیں کی تھی۔ ان میں سے این ٹی ایس تو ایک ایسی جعل سازی تھی کہ ہر سال این ٹی ایس کے نام پر اربوں روپے اپنی جیب میں ڈالنے والے ادارے کے سربراہ کے اپنے پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی سرقہ شدہ ثابت ہو گیا لیکن کسی کے کان پر جوں کیوں رینگتی کہ اس تمام نظام کے خالق جناب ڈاکٹر عطاء الرحمن صاحب کے اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے پر سرقہ بازی کے بہت سے سوال کھڑے ہیں جو آج تک قائم ہیں۔ جعلی ڈگریوں کے حامل جعل سازوں نے مل کر عوام سے جو جعل سازی کی اس سے نجات ملنا مشکل نظر آ رہی ہے۔

اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جناب خادمِ اعلیٰ برسراقتدار آتے ہی مشرف صاحب کے دور کی ان لعنتوں سے عوام کو نجات دلوا تے۔ لیکن جس طرح خادمِ اعلیٰ نے مشرف دور کی دیگر لعنتوں کو گلے لگایا اور اپنی کابینہ میں جگہ دی ویسے ہی انہوں نے اس جعل سازی کو بھی جاری رکھا۔ خادمِ اعلیٰ بڑے بڑے نعرے لگانے کے ماہر ہیں۔ ایک دن نعرہ لگا دیا کہ ’’اگر انٹری ٹیسٹ ختم نہ کیا تو میرا نام نہیں‘‘۔ ماشاء اﷲ یہ نعرہ لگائے تیسرا سال ہے انٹری ٹیسٹ بھی جاری ہے اور خادمِ اعلیٰ کا نام بھی وہی کا وہی ہے۔ ہم اس الزام کو ماننے کے لئے قطعاً تیار نہیں کہ ٹیوشن اکیڈمی مافیا کوئی ’’بریف۔۔‘‘ لے کر آپ کے ’’پسرِ بزرگ ‘‘ کے پاس پہنچ گیا ہوگا کہ اربوں روپے کی ’صنعت‘ کی بندش کا اعلان ان پر بجلی بن کر گرا تھا۔ لیکن ہم کم عقلوں کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ اس اعلان پر عمل درآمد کیوں نہ ہو سکا؟ ضرور اس میں بھی خادم اعلیٰ کی کوئی نہ کوئی حکمت ہو گی۔

اسی طرح گزشتہ پانچ سال سے زائد عرصے سے ’’اسکول ریگولیٹری اتھارٹی ‘‘کا بل پنجاب اسمبلی میں اٹکا ہوا ہے لیکن نامعلوم وجوہات کی بناء پر اس قانون کومنظوری کے لئے پیش نہیں کیا جا سکا۔ حیرت ہے کہ اس قدر تُرت پھُرت خادمِ اعلیٰ کو اس اہم قانون سازی کے لئے فرصت نہیں؟ جب کہ ان کے وزیر تعلیم لوگوں کو دئیے گئے قرض واپس لینے کے نام پر ان سے چیک پکڑتے ہوئے پائے جا رہے ہیں اور ان کی گڈگورننس کو چار چاند لگا رہے ہیں۔

یہ تمام باتیں ہمیں ان والدین کو دیکھ کر یاد آئی ہیں جن کے لئے اپنے بچوں کی فیسیں ادا کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ اب مسئلہ یہ درپیش ہے کہ اپنی سفید پوشی کا بھرم برقرار رکھیں یا پھرا سکولوں کی فیسیں ادا کریں اور وہ ہاتھوں میں پلے کارڈ پکڑ کر سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ ویسے یہ قوم بہت ہی نا شکری ہے۔ ان کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو گلی محلے میں مختلف تنگ و تاریک گھروں میں کھُلنے والے مبلغ پانچ سو روپے ماہانہ فیس والے ا سکول میں داخل کروائیں اور مستحق ِ زکوٰۃ کا جھوٹا سرٹیفیکیٹ جمع کروا کر ’پنجاب ایجوکیشن فاونڈیشن ‘ کے ذریعے ان کو مفت تعلیم دلوائیں۔ لگتا ہے یہ سفید پوش منافق عمران خان کے ایجنٹ بن گئے ہیں، اس لئے جناب خادمِ اعلیٰ صاحب ! ہم اس بات کے منتظر ہیں کہ کب آپ کی فرض شناس پولیس ان کو مزہ چکھاتی ہے اور سڑکوں پر گھسیٹتی ہے۔ ویسے خادمِ اعلیٰ صاحب ! آپ کے اور رانا ثناء اﷲ صاحب کے زیرِ نگرانی قصور میں ا سکول کے بچوں اور بچیوں کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے، ایسی صورت میں بچوں کو ’بُری صحبت کے بُرے انجام‘ سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ ان کو اسکول بھیجنے کا گناہ سرے سے کیا ہی نہ جائے۔ اس لئے ہماری گذارش ہے کہ پہلی فرصت میں لبرٹی چوک میں بینر اور پوسٹر اٹھا کر کھڑے ان والدین کی ٹھکائی کا اہتمام فرمائیں تاکہ مشرف صاحب کے دلی سکون اور روحانی تسکین کا بندوبست ہو سکے۔


متعلقہ خبریں


دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو وجود - پیر 06 فروری 2023

جنرل (ر) پرویز مشرف کی موت محض تعزیت کا موضوع نہیں، یہ تاریخ کا موضوع ہے۔ تاریخ بے رحمی سے حقائق کو چھانتی اور شخصیات کے ظاہر وباطن کو الگ کرتی ہے۔ تعزیت کے لیے الفاظ درد میں ڈوبے اور آنسوؤں سے بھیگے ہوتے ہیں۔ مگر تاریخ کے الفاظ مروت یا لحاظ کی چھتری تلے نہیں ہوتے۔ یہ بے باک و سف...

دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو

لاپتہ افراد کیس، عدالت کا مشرف سے لے کر آج تک کے تمام وزرائے اعظم کونوٹس جاری کرنے کا حکم وجود - پیر 30 مئی 2022

اسلام آباد ہائیکورٹ نے لاپتہ افراد کے کیس میں وفاقی حکومت کو پرویزمشرف سے لیکر آج تک تمام وزرائے اعظم کونوٹس جاری کرنے کا حکم دے دیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 15 صفحات کا حکم نامہ جاری کیا ہے جس میں آئینی خلاف ورزیوں پر اٹارنی جنرل کو دلائل کیلئے آخری موقع...

لاپتہ افراد کیس، عدالت کا مشرف سے لے کر آج تک کے تمام وزرائے اعظم کونوٹس جاری کرنے کا حکم

بھارتی جنگی بیانیے کا جواب رضوان رضی - بدھ 05 اکتوبر 2016

کوئی تین سال پہلے کی بات ہے کہ ہمارے ایک ہم عصر صحافی جو صحافت کرتے کرتے ایک دم غائب ہو گئے تھے، کچھ سالوں کے بعد ملے تو پتا چلا کہ وہ کابل میں ایک امریکی اخبار کے بیورو میں پائے جاتے ہیں اور ہر ماہ کسی افغان وار لارڈ کی طرح ڈالروں سے جیبیں بھرتے ہیں۔ پختون پس منظر کے باعث ان کو ...

بھارتی جنگی بیانیے کا جواب

انتخابی وٹا اور چند اشارے رضوان رضی - منگل 04 اکتوبر 2016

جناب عمران خان نے رائیونڈ اور جاتی امراء چوک پر ایک اور جلسہ کرلیا۔ جلسے کی کامیابی یا ناکامی کا معیار ہر دو فریقین کے نزدیک دیگر ہے، لیکن یہ بات طے ہے کہ کوئی ربع صدی تک سیاسی جلسوں کے جائزوں کے بعد خاکسار کا خیال ہے کہ بیس ہزار وہ جادوئی ہندسہ ہے جس کو پار کر جانے کے بعد کوئی ب...

انتخابی وٹا اور چند اشارے

نواز شریف کی تقریر: کھسیانی بلی کا کھمبا رضوان رضی - اتوار 25 ستمبر 2016

میاں محمد نواز شریف کا سخت سے سخت ناقد بھی اس بات کا معترف ہورہا ہے کہ انہوں نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک بھرپور اور پاکستان جیسے اہم اسلامی ملک کے شایانِ شان تقریر کی۔ پاک بھارت شملہ معاہدے کے بعد کشمیر پر یہ پہلی سفارتی ’’جارحیت‘‘ ہے جس کا اعزاز بھی ایک منتخب جمہوری ح...

نواز شریف کی تقریر: کھسیانی بلی کا کھمبا

لیڈراور کباڑیا محمد انیس الرحمٰن - هفته 24 ستمبر 2016

ایران میں جب شاہ ایران کے خلاف عوامی انقلاب نے سر اٹھایا اور اسے ایران سے فرار ہونا پڑاتواس وقت تہران میں موجود سوویت یونین کے سفارتخانے میں اعلی سفارتکار کے کور میں تعینات روسی انٹیلی جنس ایجنسی کے اسٹیشن ماسٹر جنرل شبارچین کو اچانک ماسکو بلایا گیا۔ کے جی بی کے سابق سربراہ یوری ...

لیڈراور کباڑیا

لال مسجد مقدمے میں جنرل (ر) مشرف اشتہاری قرار وجود - اتوار 18 ستمبر 2016

سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو عدالت نے اشتہاری قرار دے کر اُن کی جائیداد ضبط کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سیشن کورٹ نے لال مسجدمقدمے میں سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو اشتہاری قرار دیتے ہوئے ملزم کی جائیداد ضبط کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کے علاوہ عدالت نے پرویز...

لال مسجد مقدمے میں جنرل (ر) مشرف اشتہاری قرار

قربانی سے تکلیف کن کو ہے؟ رضوان رضی - جمعه 16 ستمبر 2016

ہمارا دفترگزشتہ ایک دہائی سے گلبرگ ، لاہور میں ہی واقع ہے۔ ادارہ بدلتا رہتا ہے لیکن علاقہ نہیں بدلتا۔ مشرف دور کی بات ہے ایک دن گھر کو واپسی کرتے ہوئے اُس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب کے گھر والی سڑک سے گزر کر نہر کے کنارے والی سڑک پر مڑے تو نہر کے کنارے بنی حفاظتی دیوار پر لکھا تھا ’...

قربانی سے تکلیف کن کو ہے؟

علاقائی تجارتی رابطے اور ہم ! رضوان رضی - هفته 10 ستمبر 2016

دو دن قبل ہی چین سے افغانستان کو چلنے والی پہلی مال گاڑی تاجکستان اور ازبکستان کے راستوں سے ہوتی ہوئی افغان صوبہ مزار شریف کے سرحدی گاؤں حیراتان کی خشک بندرگاہ پرپہنچی ہے ۔ یہ مال گاڑی کوئی پندرہ روز قبل چین سے روانہ ہوئی تھی۔ دونوں ممالک اس کو ایک اہم تاریخی سنگِ میل قرار دے رہ...

علاقائی تجارتی رابطے اور ہم !

سیاسی اشرافیہ اور کرپشن رضوان رضی - اتوار 04 ستمبر 2016

میاں محمد نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان نوے کی دہائی میں سیاسی محاذ آرائی زوروں پر تھی تو بی بی کے خلاف مقتدر حلقوں کی طرف سے ایک خانہ ساز بدعنوانی یا کرپشن کا ’بیانیہ ‘ نہ صرف اوصول کیا گیا بلکہ اس کو حسبِ توفیق آگے بھی پھیلایا ، وہ بیانیہ تھا کہ ’’بے نظیر ،زرداری اور ان ...

سیاسی اشرافیہ اور کرپشن

عافیہ صدیقی کا معاملہ پاکستانی تاریخ کا سیاہ باب ! الطاف ندوی کشمیری - جمعه 01 اپریل 2016

صدیوں پرانی بات ہے جب پاکستان کے جنم سے بہت پہلے اسی سرزمین پر ایک ’’عرب نوجوان لڑکی‘‘کی گرفتاری نے ’’ظالم حجاج بن یوسف‘‘کو اس قدر بے چین کردیا تھاکہ اس نے اپنی فوجوں کو محمد بن قاسمؒ کی اطاعت میں اس بات پر سختی سے پابند کردیا تھا کہ’’میری بیٹی‘‘کو ہر حال میں جیل سے نجات دلا کر ر...

عافیہ صدیقی کا معاملہ پاکستانی تاریخ کا سیاہ باب !

مشرف کی رخصتی پرحکومتی وضاحتیں غیر موثر، پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس سیاسی اکھاڑے میں تبدیل وجود - منگل 22 مارچ 2016

سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف گزشتہ دنوں علاج کے بہانے پاکستان سے چلے گیے۔ مسلم لیگ نون نے اس معاملے میں جو موقف اختیار کیا اور جو اقدامات اُٹھائے اُس پر انہیں ملک بھر میں آڑے ہاتھوں لیا جارہا ہے۔ یہ مسئلہ پیر کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھی حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان ایک م...

مشرف کی رخصتی پرحکومتی وضاحتیں غیر موثر، پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس سیاسی اکھاڑے میں تبدیل

مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر