... loading ...
طویل انتظار،ٹھنڈ اور بے وقت کی کوفت نے مجھے بری طرح جھنجلا دیا۔
میلوں دور تک پھیلی لائنیں،ٹریفک کا شور،گاڑیوں کے ہارن ،لوگوں کا چیخنا چلّانا،نوجوانوں کا جذبات سے بے قابو ہو نا،دھمکی آمیز لہجے،غصے بھری تکراریں۔۔۔یہ سب آج کا ہی قصہ نہ تھا۔ اگر چہ یہ اتوار کا دن تھا اور اس روز لوگ باگ دیر تک سو کر اٹھنے کے عادی ہیں۔اوراس وقت جبکہ صبح کے سات بج رہے ہیں۔بلا کی سردی ہے۔ہاتھ ٹھٹھر رہے ہیں۔جسم کانپ رہے ہیں۔حدِ نظر لائنیں لگی ہیں۔ہر ایک کی کوشش ہے کہ اس کا پہیہ چلتا رہے۔آخر کار ایک بس آتی ہوئی دکھائی دی۔اور میں ذرا سی تگ و دو کے بعد خود کے لئے جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئی۔مجھے کھڑکی کے قریب نشست ملی تھی۔
اوائل سرما کی ایک شام جب سرکار کی جانب سے دنیائے ادب (پاک)کے سب سے بڑے اعزاز۔ایوارڈ کے لئے نامزدگی کا اطلاع نامہ ملا، تو میری حالت دیدنی تھی۔اطلاع نامہ ملتے ہی میں نے کچھ ضروری سامان اور کپڑوں کے دو چار جوڑے بیگ میں ٹھونسے اور نکل کھڑی ہوئی۔
نشست پہ آتے ہی میں نے ایک لمبا سانس لیا۔اردگرد نظر دوڑائی۔انسان تو کم نظر آئے،پوٹلیاں اور گٹھڑیاں زیادہ دکھائی دیں۔میری ہم نشیں نے اپنی پوٹلی کو نشست تلے گھسیٹ کر گزرنے کی جگہ بنالی۔
’’کہاں جا رہی ہو؟‘‘
’’میاں کی طرف جا رہی ہو؟‘‘
’’سسرال جا رہی ہو گی؟‘‘
بے چاری ہم سفر نے گٹھڑی اور گود کے بچے کی طرف سے غیر مطمئن ہو کر بھی کئی سوال ایک ہی بار میں پوچھ ڈالے۔میں چکرا گئی۔
’’نہیں۔۔تو۔۔میں تو۔۔۔لاہور جا رہی ہوں‘‘۔میں نے مختصراًمعاملہ سمیٹنا چاہا۔
’’میاں ساتھ نہیں آئے؟‘‘ان کا تجسس اپنی جگہ قائم تھا۔
’’میری شادی نہیں ہوئی‘‘۔
’’ہائیں!وہ متحیر ہو کر اس زور سے اُچھلیں کہ گود کا بچہ گرتے گرتے بچا۔
اب میں آپ کوان کاغذوں میں کس طرح بتاؤں کہ انھوں نے کس قدر مہربانی اوررحم بھری نظروں سے مجھے دیکھا ۔میں گھبرا گئی کہ وہ مجھے گلے سے لگا کہ رو ہی نہ پڑیں۔میں ان کی توجہ بٹانے کے لئے سوتے بچے سے چھیڑ چھاڑ کرنے لگی۔
یہ جب کی بات ہے جب بی اے کے ایڈمیشن ہو رہے تھے۔سب کلیریکل آفس میں جمع تھے۔حسین صاحب فارم پُرکرا رہے تھے۔’’نام،رول نمبر،آئی ڈی کارڈ نمبر۔۔۔سنگل،میرڈ؟‘‘۔’’سنگل،میرڈ؟‘‘،’’سنگل،میرڈ‘‘۔لڑکیوں نے منہ پہ ہاتھ رکھ لئے اور ہنسی روکنے کی کوشش کرنے لگیں۔ایک طرار سی لڑکی بولی’’میرڈ ہونے کے لئے ہی تو اماں ابا نے کالج بھیجا ہے‘‘۔
اچانک بس جھٹکے سے رُکی۔انسانوں کی ایک اورموج اندر آئی۔میری ہم سفر جا چکی تھیں۔
’’کہاں جا رہی ہو؟‘‘نئی آنے والی نے پوچھا
’’لاہور‘‘
’’کہاں سے آرہی ہو؟‘‘
’’میاں والی سے‘‘ ایک بار پھر سوالوں کی زد میں آچکی تھی۔
’’میکے جا رہی ہو یا سسرال؟‘‘
میں چپ رہی اور مظلوم سی صورت بنا لی۔وہ سمجھ گئیں’’اچھے لڑکے اب کہاں ملتے ہیں؟‘‘وہ میرے مستقبل سے ناامید ہو کر بولیں۔’’تم نے کب شادی کی؟‘‘میں نے موضوع بدلنے کے لئے بہت بے تکلفی سے پوچھا’’ہمارے ماں باپ نے ہماری شادی کی،ہم خود کیوں کرتے‘‘وہ برا مان گئیں۔کھڑکی رو ہو کے میں خود ہی ہنس پڑی۔’’اے!پھر کب کرو گی شادی؟‘‘۔پھر وہی مرغے کی ایک ٹانگ۔۔۔شادی ی ی ی۔
کیوں کریں شادی!!!ناس پٹے میاں والی کے میاں لوگ کا۔۔۔مرکھنے،اکڑے ہوئے،جلالی،ناک پر مکھی نہ بیٹھنے دیں اور ایک دم نکھٹو، بے کار پھرتے ہیں۔۔۔بری طرح تلملا اٹھی۔جی جل گیا۔
سفر جاری تھا۔منظر،سوچیں،خیالات سب پیچھے رہ گئے تھے۔سفر جاری تھا۔۔۔
۲۱ ویں سرکار ایوارڈ کی شام نامزدگان کے چہروں پہ اضطراب جھلک رہا تھا۔وہ بار بار پہلو بدل رہے تھے اور دائیں بائیں بیٹھنے والوں سے مخاطب ہو کر اپنی اس کیفیت پر قابو پانے کی کوشش کر رہے تھے۔پہلی بار نامزد ہونے والوں کی حالت دیدنی تھی۔موقع ہی ایسا تھا۔اس عظیم الشان تقریب کی تیاریاں کئی ماہ سے جاری تھیں۔میں نے ہال کا جائزہ لیا۔میرے پہلو میں ایک عمر رسیدہ ادیبہ موجود تھیں۔’’کیا تمہارے میاں بھی ساتھ آئے ہیں؟‘‘عمر رسیدہ ادیبہ بولیں حالانکہ وہ اپنی سیٹ پر ابھی ٹھیک سے جمی بھی نہ تھیں۔بُری طرح سٹپٹا گئی۔کاش چائے پانی کی طرح شوہر بھی بکا کرتے تو میں سفر کے لئے ایک آدھ مناسب قسم کا میاں ضرور خرید لیتی۔اس کے بعد اُنھوں نے کئی سوالات کئے۔’’ہاں‘‘،’’ہوں‘‘ بے دلی سے جواب دیتی رہی۔اس پر وہ کچھ مکدر ہو گئیں اور منہ پھیر کر دوسری ادیبہ سے گفتگو کرنے لگیں۔دوردراز سے ادیب اس تقریب میں شرکت کرنے کے لئے آئے تھے۔رات گئے یہ تقریب اپنے اختتام کو پہنچی۔
واپسی کا سفر درپیش ہوا۔چلتی بس۔۔کھڑکی اور میں۔۔۔سخت زمیں اور دور آسماں۔بس ایک جھٹکے سے رکی۔زائد سامان نکلوا کر رسید بنوانے لگی’’آپ کا نام۔میاں کا نام؟‘‘۔۔۔گدھا۔۔۔میں نے دانت پیس لئے۔