... loading ...
چلیے، آغاز اپنی غلطی سے کرتے ہیں اور اس یقین کے ساتھ کہ آئندہ بھی کریں گے۔ پچھلے شمارے میں سرزد ہونے والے سہو کی نشاندہی روات سے ایک ذہین شخص ذہین احمد نے کی ہے۔ روات اسلام آباد کے قریب ایک چھوٹا سا قصبہ تھا، ممکن ہے اب بڑا شہر ہوگیا ہو، اسلام آباد کی قربت کا فائدہ ضرور ہوا ہوگا۔
پچھلے شمارے میں ہم نے ’’بانگ دہل‘‘ استاد دامن کے دامن میں ڈال دی تھی۔ یہ معرکتہ الآرا مجموعہ استاد امام دین گجراتی کا ہے جن کا ایک شعر یہ ہے:
مٹر پکنے پر اکڑنا اور وہ بھی کوٹھے پر چڑھ کر، استاد ہی کو زیب دیتا تھا۔ ذہین احمد کے متوجہ کرنے سے استاد امام دین کی مقبولیت کا بھی اندازہ ہوا۔ ہم ان سمیت استاد کے تمام چاہنے والوں سے معذرت خواہ ہیں۔ ذہین احمد نے اس پر بھی متوجہ کیا ہے کہ شمس الرحمن فاروقی ابھی زندہ ہیں۔ یہی اطلاع حمید شاہد صاحب نے بھی اسلام آباد سے دی ہے کہ ’’وہ سلامت ہیں، الحمدﷲ‘‘۔ اﷲ ان کی عمر میں برکت دے۔ اس طرح ہم اپنے ہی برخوردار کے اس اعتراض سے بچ گئے کہ جو انتقال کرگیا ہو اُس پر اعتراض اس لیے مناسب نہیں کہ وہ جواب نہیں دے سکتا۔
ایک غلطی جو تمام اخبارات میں نظر آتی ہے، وہ ہے ’’بیرون ممالک‘‘۔ یہ بالکل مہمل ہے۔ اگر ہمارے صحافی بھائی الفاظ استعمال کرتے ہوئے ان کے معانی پر بھی غور کرلیا کریں تو بہت سی غلطیوں سے بچ نکلیں گے۔ بیرون کا مطلب ہے باہر۔ یہ اندرون کی ضد ہے…… اور یہ ضد وہ نہیں جو بچوں، خواتین اور حکمرانوں کی مشہور ہے۔ اس ضمن میں ایک شعر بھی سن یا پڑھ لیجیے
مرے نشیمن کے چار تنکے بھی اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہیں
کئی بار برق گر چکی ہے، کئی بار خود جلا چکا ہوں
لگتا ہے یہ شعر پاکستان کی معیشت کے حوالے سے کہا گیا ہے۔
بہرحال، بیرون ممالک کا مطلب ہوا ’’ممالک کے باہر‘‘…… جب کہ مقصد ہوتا ہے ’’بیرونی ممالک‘‘۔ اگر پاکستان سے کوئی چیز برآمد ہو رہی ہے تو وہ دوسرے ممالک کو بھیجی جارہی ہے۔ چنانچہ یا تو بیرونی ممالک لکھا جائے یا بیرون ملک۔
ایک اور قاری نے لکھا ہے کہ اطراف و جوانب کی جگہ اطراف و اکناف بھی پڑھا ہے۔ بالکل درست پڑھا ہے۔ اکناف بھی عربی ہے اور کنف کی جمع ہے۔ اس کا مطلب بھی ’’جانب، طرف، سمت، کنارہ، ساحل اور پرندے کا بازو ہے۔ اب مرضی ہے کہ اطراف وجوانب کہیں یا اطراف و اکناف۔ لیکن ہم پھر کہیں گے کہ دونوں اطراف بالکل غلط ہے۔ گزشتہ دنوں ایک تقریب میں شعبہ صحافت کے ایک پی ایچ ڈی استاد اور بہت اچھے کالم نگار نے صدرِ مملکت سے مذاکرات کے حوالے سے کسی کی بات دوہرائی کہ ’’میز کے دونوں اطراف طالبان ہیں۔‘‘ اُن کے منہ سے دونوں اطراف سن کر اچھا نہیں لگا، مگر کیا کہیں ہم خود غلطیاں کرتے رہتے ہیں۔ مثلاً آج تک عشر عشیر ہی بولا (دونوں عینوں پر زبر) معلوم ہوا کہ صحیح لفظ عشر عشیر ہے، یعنی پہلی عین پر پیش ہے اور اس کا مطلب ہے دسویں حصہ کا دسواں (1/100)۔
اسی طرح طُول عُمرہ کا تلفظ ہم اپنے طور پر ایسے ہی کرتے رہے جیسے آپ لکھا ہوا دیکھ رہے ہیں اور ممکن ہے خود بھی اسی طرح بولتے ہوں۔ معلوم ہوا کہ یہ طُوّلَ عُمرہٗ ہے یعنی عمر دراز ہو۔ اس پر ایک استاد نے یہ تجویز دی ہے کہ بھئی اگر عربی تلفظ نہیں آتا تو اردو میں دعا دے دیا کرو۔ صحیح تلفظ مزید واضح کریں ’’طُ وّ لَ عُم رُہٗ‘‘۔
ہماری ایک بہن نے ڈاکٹر امجد ثاقب کے مضمون کے حوالے سے ایک جملے کی طرف توجہ دلائی ہے ’’زندگی آمیز اور زندگی آموز ادب۔‘‘ اورکہاہے کہ ہوسکتا ہے بہت سوں کو اس کا مطلب معلوم نہ ہو۔ اس کی وضاحت کردیں۔ اسکول میں امتحانی پرچے میں ایک سوال ہوتا تھا’’خط کشیدہ الفاظ کی تشریح کریں۔‘‘ مذکورہ فرمائش بھی کچھ اسی قسم کی ہے۔ ہماری رائے یہ ہے کہ بعض لوگ رعب ڈالنے کے لیے اس قسم کی تراکیب اور مترادفات استعمال کرتے ہیں۔ ہم خود بھی ایسا کرتے ہیں۔ جہاں تک مذکورہ جملے کا تعلق ہے تو ’’آمینر‘‘ فارسی آمیختن سے ہے۔ ملنے ملانے والا مثلاً کم آمیز‘ اسی سے ایک لفظ آمیزہ بنایاگیا ہے جو لغوی اعتبار سے تو غلط ہے لیکن اب غلط العام ہوگیا ہے اور عام استعمال میں ہے مطلب مرکب‘ محلول‘ مکسچر وغیرہ۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے بھی اپنے جملے میں آمیز اور آموز کا آمیزہ پیش کیا ہے۔ زندگی آمیز ادب کا مطلب ہے جس سے زندگی ملے۔ اور آموز فارسی لاحقہ ہے۔ یعنی کسی لفظ کے آخر میں آکر اسے معنیٰ دیتا ہے۔ اس کا مصدرآموختن ہے۔ آموز کسی اسم کے بعد آکر اسے اسم فاعل بنادیتاہے۔ مطلب ہے سیکھنے‘ سکھانے والا۔ سبق آموز کی ترکیب بہت عام ہے۔ اسی سے آموزش ہے یعنی پڑھائی‘ سکھائی وغیرہ۔ فارسی میں آموزش گاہ مکتب ‘ مدرسہ‘ درس گاہ کو کہتے ہیں اور آموز گار استاد‘ مدرس وغیرہ کو۔ چنانچہ زندگی آموز ادب کا مطلب یہ نکلا کہ وہ ادب جو زندگی کے رموز بھی سکھائے۔ یعنی ایسا ادب جو زندگی بخش بھی ہو اور اس سے زندگی برتنے‘ سیکھنے کا موقع بھی ملے۔ مگر اب ایسا ادب کہاں ہے؟
چلتے چلتے ایک عمومی اخباری غلطی کی طرف توجہ۔ اسامی اور ائمہ ان دونوں میں الف پر مد نہیں آتا یعنی یہ آسامی اورآئمہ نہیں ہیں۔ آسامی آسام کا رہنے والا ہوسکتا ہے لیکن موٹی اسامی نہیں۔ ائمہ امام کی جمع ہے۔ہم بار بار توجہ دلاچکے ہیں کہ ’’بربریت‘‘ کا استعمال کم از کم مسلمانوں کو زیب نہیں دیتا۔ مجاہد اعظم طارق بن زیاد‘ جن سے کشتیاں جلا دینے والا مشہور واقعہ منسوب ہے وہ خود بھی بربر تھے اور اسپین میں پورے یورپ کی متحدہ افواج کو شکست دینے میں ان کے ساتھ بربر قبیلے کے مجاہدین تھے۔ اہل یورپ نے ا س شرمناک شکست کے بعد مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے بربرازم BARBARISM کی اصطلاح گھڑلی اور پروپیگنڈا کیا کہ یہ بربرمسلمان انتہائی ظالم اور وحشی ہیں۔ ان کا مقصد تو یورپ بھر میں مسلمانوں کے خلا ف نفرت پھیلا کر اپنی قوم کو مجتمع کرنا تھا مگر ہم نے بھی سوچے سمجھے بغیر ’’بربریت‘‘ کہنا شروع کردیا۔ یورپ کے ملک سربیا کے سربوں نے جس طرح بوسنیاکے مسلمانوں کا قتل عام کیا ہے اس کے پیش نظر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسلمان بربریت کی جگہ ’’سربیت‘‘ کی ترکیب استعمال کرتے مگر ’’زبردست کا ٹھینگا سر پر۔‘‘ تہذیب و ثقافت ہی نہیں زبان بھی ان اقوام سے مغلوب ہوجاتی ہے جو دنیا میں غالب ہوں۔ جب اہل عرب غالب تھے تو عربی کے بے شمار الفاظ انگریزی‘ فرانسیسی اور ہسپانوی زبان میں داخل ہوگئے اور اب بھی ہیں۔ ہماری درخواست ہے کہ اپنے ہیروز اور مجاہدین کو بدنام کرنے کے لیے بربریت کا لفظ استعمال نہ کیا جائے‘ سربیت پسند نہیں چنگیزیت کہہ لیں امریکیت کہنے میں تو شاید تامل ہو۔
پنجاب میں زراعت کے تعلق سے ایک اصطلاح نظر سے گزری جو ہمارے لیے نئی ہے اور ممکن ہے بہت سے لوگوں کے لیے بھی نئی ہو۔ یہ ہے ’’برداشت‘‘ کا استعمال۔ ویسے تو عوام ہی بہت کچھ برداشت کررہے ہیں اور صورتِ حال پر برداشتہ خاطر (بیزار، اداس، آزردہ) بھی ہیں۔ لیکن ایوب زرعی تحقیقاتی ادارے، فیصل ...
فارسی کی ایک مثل ہے ’’خودرا فضیحت دیگراں را نصیحت‘‘۔ یعنی خود تو غلط کام کرنا، دوسروں کو نصیحت کرنا۔ فضیحت کا مطلب رسوائی، ذلت، بدنامی بھی ہے۔ یہ محاورہ یوں یاد آیا کہ کچھ قارئین غلطیوں کی نشاندہی کرکے یہی مثل سنا دیتے ہیں۔ اب ہم کیا کریں کہ اپنے جن صحافی ساتھیوں کی زبان درست کرن...
ایک ہفت روزہ کے سرورق پر سرخی ہے ’’پیپلزپارٹی تتّر بتّر ہوسکتی ہے‘‘۔ یعنی دونوں جگہ ’ت‘ پر تشدید ہے۔ پڑھ کر خوشگوار حیرت ہوئی، کیونکہ عموماً لوگ بغیر تشدید کے تتربتر کردیتے ہیں جب کہ تشدید کے ساتھ ہی صحیح ہے۔ فرہنگ آصفیہ، فیروزاللغات وغیرہ میں بھی اسی طرح ہے، اور اردو کی کلاسیکی ...
گزشتہ تحریر میں ہم نے ’دارو‘ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’یاد رہے دارو گیر میں بھی دارو موجود ہے لیکن یہ ایک الگ لفظ ہے۔ دارو گیر کا دارو سے کیا تعلق ہے، یہ ماہرین ہی بتاسکتے ہیں‘‘۔ یہ معاملہ ازراہِ تفنن ہم نے ماہرین پر چھوڑ دیا تھا۔ چنانچہ سب سے پہلے تو جسارت کے پروف ریڈر گزجن...
علامہ طاہر اشرفی علماء کے سرخیل ہیں۔ انہوں نے غالباً عربی بھی پڑھی ہوگی، ورنہ اردو تو ضرور پڑھی ہوگی۔ اب اگر اتنے کلّے‘ ٹھلے کے اور جسیم عالم بھی ملک کو ’’مولک‘‘ کہیں تو تھوڑی سی حیرت تو ہوگی۔ اگر پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اﷲ علم کو ’’ایلم‘‘کہیں تو یہ اُن کو زیب دیتا ہے بلکہ ا...
جناب پرویز رشید وفاقی وزیر اطلاعات ہیں اور اس لحاظ سے تمام صحافیوں کے سرخیل ہیں۔ ان کا فرمانا ہمارے لیے سند ہے۔ لاہور کا معرکہ جیتنے پر وہ فرما رہے تھے کہ فلاں کی تو ضمانت تک ضَبَطْ (بروزن قلق‘ شفق‘ نفخ وغیرہ یعنی ضَ۔بَط) ہوگئی۔ اب جو مثالیں ہم نے دی ہیں نجانے ان کا تلفظ وہ کیا ک...
ہمارے وفاقی وزیر چودھری نثار تو ذمہ داری کو ذمہ واری کہتے رہیں گے، انہیں ان کی ذمہ واری پر چھوڑتے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب جناب شہبازشریف شمسی توانائی کی کارکردگی پر وضاحت پیش کرتے ہوئے ’’اوسط‘‘ کو بروزن دوست‘ گوشت وغیرہ کہتے رہے اور بار بار کہتے رہے۔ لیکن یہ تو حکمران طبقہ ہے۔ اسے ز...
آئیے، آج ایک بچے کے خط سے آغاز کرتے ہیں جو غالباً بچوں کے رسالے ’ساتھی‘ کا قاری ہے۔ برخوردار نے لکھا ہے کہ ’’انکل‘ آپ ہمیں تو سمجھاتے ہیں کہ ’’لالچ‘‘ مونث نہیں مذکر ہے، لیکن سنڈے میگزین (6 تا 12 ستمبر) میں ایک بڑے قلمکار نے صفحہ 6 پر اپنے مضمون میں کم از کم چھ بار لالچ کو مونث لک...
عدالتِ عظمیٰ کے حکم پر آئین کے مطابق قومی زبان اردو کو اس کا جائز مقام دینے کی کوششیں شروع ہوگئی ہیں۔ 1973ء کے آئین میں اردو کو سرکاری زبان بنانے کے لیے غالباً 10 سال کی مدت طے ہوئی تھی۔ ایسے کئی دس سال گزر گئے۔ لیکن اب عدالت نے نہ صرف حکم جاری کیا ہے بلکہ نئے منصفِ اعلیٰ نے اپنا...
محترم عمران خان نیا پاکستان بنانے یا اسی کو نیا کرنے کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایک نیا محاورہ بھی عنایت کردیا ہے۔10 اگست کو ہری پور میں خطاب کرتے ہوئے سانحہ قصور کے حوالے سے انہوں نے پُرجوش انداز میں کہا ’’میرا سر شرم سے ڈوب گیا‘‘۔ انہوں نے دو محاوروں کو ی...
عزیزم آفتاب اقبال معروف شاعر ظفر اقبال کے ’’اقبال زادے‘‘ ہیں۔ اردو سے محبت اپنے والد سے ورثے میں پائی ہے۔ ایک ٹی وی چینل پر پروگرام کرتے ہیں۔ پروگرام کی نوعیت تو کچھ اور ہے تاہم درمیان میں آفتاب اقبال اردو کے حوالے سے چونکا دینے والے انکشافات بھی کر جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نے ...
صوبہ خیبرپختون خوا کے شہر کرک سے ایک اخبار ’’دستک‘‘ کے نام سے شائع ہوتا ہے۔ زبان کے حوالے سے یہ سلسلہ وہاں بھی شائع ہورہا ہے، جس کا فائدہ یہ ہے کہ پشتو بولنے والے اُن بھائیوں سے بھی رابطہ ہورہا ہے جو اردو میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اردو کو قومی سطح پر تو اب تک رائج نہیں کیا گیا لیکن ا...