... loading ...
ہم وہ دن پیچھے چھوڑ آئے جو دراصل ہمارے ساتھ چمٹ چکا ہے۔ ہماری تاریخ وتہذیب کے لئے سب سے بڑا امتحان بن چکا ہے۔ اور قومی حیات سے لے کر ہمارے شرعی شب وروز پر مکمل حاوی ہو چکاہے۔یہ مسلم ذہن کے ملی شعور کی سب سے بڑی امتحان گاہ کا خطرناک ترین دن ہے۔
امریکا میں نوگیارہ سے قبل جاپان کی طرف سے ۷؍ دسمبر ۱۹۴۱ء کو پرل ہاربر پر ایک حملہ ہوا تھا۔ تب امریکی صدر فرینکلن روز ویلٹ تھا۔ مگر تقریباً چھ دہائیوں کے بعد جب امریکی تجارتی سرگرمیوں کے مرکز ورلڈ ٹریڈ ٹاؤر اور دفاعی مرکز پینٹاگون کو نشانہ بنایا گیا تو امریکا میں صدارتی منصب پر بش فائز تھا۔ ان دونوں حملوں کے درمیان میں امریکا ایک تبدیل شدہ ملک تھا۔ امریکا ایک سرکش ریاست میں تبدیل ہو چکا تھا۔ دنیا میں اپنے ’عالمی فرمان‘‘ (ورلڈ آرڈر) کے لئے اس کا جوش وخروش ’’سیکولر‘‘ تصور سے آگے بڑھ کر مذہبی روپ دھار چکاتھا۔اگرچہ دنیا میں کہیں پر بھی یہ تصور پہلے بھی وجود نہیں رکھتا تھا، مگر امریکا نے اپنے تہذیبی تجربے اور بناؤٹ میں اِسے اعلیٰ درجے کی مہارت سے ایک مغالطے میں منظم کررکھا تھا۔ جسے دانشوروں کی حمایت سے فروغ دیا جاتا تھا۔اُس کے اہداف دوست دشمن کے تعین میں انسانی مقاصد سے باہر ہو کر کاملاً تہذیبی نوعیت کے ہو چکے تھے۔ اور وہ ایک ایسے ملک کے طور پر اپنی فرماں روائی کا خواہاں تھا جس کے بیرون میں’’ انسانی حقوق‘‘ کا نام نہاد زرق برق کاغذ لپٹا ہوا تھا مگر اس کے پیچھے نوقدامت پسندوں کی تاریک خیالی اور کٹر عیسائی روایات پر مبنی مذہبی رومانویت اُبل رہی تھی۔ مگر مسلم اذہان اس پورے منظرنامے کے سامنے کی حقیقتوں کو دیکھنے کی بصارت اور سمجھنے کی بصیرت کھوچکے تھے۔
نوگیارہ کا واقعہ کیا ہے؟ یہ آج تک ایک راز ہے۔ خود مغرب میں اس پر متعدد سوالات اُٹھائے گئے ہیں ، مگر اس حوالے سے جائز سوالات اُٹھانے والے تمام دانشوروں کوگوشۂ گمنامی میں دھکیل دیا گیا۔ پروفیسر کیون بیرٹ (Kevin Barrett) بھی اُن میں سے ایک ہیں۔جو نوگیارہ کے المناک واقعے کے بارے میں امریکی دعوے کے علیٰ الرغم رائے رکھتے تھے۔ اُن کے دلائل اس قدر مضبوط تھے کہ اُنہیں امریکی جامعات میں پڑھانے سے روک دیا گیا۔یہاں تک کہ آزادیٔ اظہارکے علمبردار اس ملک نے اُنہیں ذرائع ابلاغ کے مرکزی دھارے سے بھی نوچ پھینکا۔ کہاں ہے متبادل رائے کا دعویٔ آزادی، جس کی بنیاد پر جمہوریت کی تقدیس کے گیت گائے جاتے ہیں؟ڈاکٹر کیون بیرٹ اس کے خلاف ایک زندہ مثال بن کرخود امریکا کے اندر کھڑے ہیں۔ اُنہیں ایک ویب سائٹ کاسہارا لینا پڑا ۔ اُن کی کتابیں اس ضمن میں پوری دنیا میں پڑھی جارہی ہیں۔ وہی Truth Jihad: My Epic Struggle Against the 9/11 Big Lie کی کتاب کے مصنف ہیں۔ اُن کی ایک اور کتاب Questioning the War on Terror کو بھی خاصی پزیرائی مل چکی ہے۔مگر پاکستانی دانشوروں کو اس کی کوئی خبر نہیں۔ ڈاکٹر کیون بیرٹ اپنی ان کتابوں ، ویب سائٹ اور ریڈیو پروگرام کے ذریعے امریکا کا اصل کردار بے نقاب کرتے ہیں جو نوگیارہ کے واقعے کے پیچھے نہایت بہیمانہ طور پر مسلمانوں کے خلاف بروئے کار آچکا ہے۔ مگر پاکستانی دانشوروں نے یہاں اس سوال کو کم وبیش جہالت کے ہم معنی بنا دیا ہے۔ اس نوع کے سوال اُٹھانے والوں کو یہ نہیں کہا جاتا کہ وہ حقائق سے بے خبر ہیں، بلکہ یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ وہ دراصل جاہل ہیں۔ کسی موقف پر اسی نوع کے نتیجے کی تکرار بجائے خود کوئی عالمانہ شان نہیں رکھتی بلکہ یہ ایک خاص نوع کاڈھنڈورا پیٹنے( پروپیگنڈے) کا علم الکلام ہوتا ہے۔ ایسی زبان اور الفاظ کے متعلق ماہرینِ لسانیات و ابلاغیات نہایت چشم کشا تحقیقی کام کر چکے ہیں۔ مگر ان عاقلوں اور بالغ نظر چھچھورے دانشوروں کی آزادیٔ رائے کو بھونکنے دینا چاہیے۔
نوگیارہ کے ساتھ ایک اور وابستہ’’ اتفاق‘‘ کو بھی یہاں پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔ امریکی ریاست فلاڈیلفیا سے نوقدامت پسند عیسائیوں کا ایک رسالہ The Philadelphia Trumpet نکلتا ہے۔ یہ ماہانہ رسالہ فلاڈلفیا کے’’ چرچ آف گاڈ‘‘ کے زیرِ اہتمام شائع ہوتا ہے اوراِسے تین لاکھ سے زائد تعداد میں مفت تقسیم کیا جاتا ہے ۔رسالے کے نہایت تنگ نظر اور کٹّر ایوانجلیکن عیسائی ایڈیٹر جیرالڈ فلوری (Gerald Flurry) نوگیارہ سے ایک ماہ پہلے یعنی اگست ۲۰۰۱ء میں اپنی ایک تحریر میں یہ لکھتے ہیں کہ
’’بہت سے لوگوں(مراد عیسائی دنیا) کے خیال میں صلیبی جنگیں ہمیشہ کے لئے ماضی کا حصہ بن چکیں ، مگر وہ سب (عیسائی) غلط سوچ رہے ہیں۔ایک حتمی صلیبی جنگ کی تیاریاں ہو چکی ہیں اور یہ اب تک کی سب سے خونریز جنگ ہو گی۔‘‘
یہ اہم ترین تحریر دراصل اُس تناظر کو مکمل کرتی ہے جو ڈاکٹر کیون بیرٹ کی کتابوں سے بنتا ہے۔ اب نوگیارہ کے بعد امریکی صدر بش کے الفاظ اور اُن کی سرگرمیوں کے مذہبی پہلوؤں پر ایک نگاہ ڈال لیجیے تو بات مکمل ہو جاتی ہے کہ نوگیارہ کے پورے تناظر میں کون سی نئی دنیا تشکیل دینے کا موقع اور ماحول بنایا گیا۔ بش نے سب سے پہلے امریکی حملے کو ’’کروسیڈ‘‘ کہا۔ بعد ازاں مسلم دنیا کے حکمرانوں کی بڑھتی مصیبتوں سے بچنے کے لئے اس کا نام ’’آپریشن لامتناہی انصاف‘‘ رکھا گیا۔ یہ اصطلاح بھی ایک خاص طرح کی عصبیت سے عبارت ہے مگر اِس کی تفصیلات اور چھان پھٹک کا یہاں موقع نہیں۔ بش نے ایک سے زائد مرتبہ یہ تاثر دیا کہ وہ یہ جنگ براہِ راست خدا کے حکم پر لڑ رہے ہیں۔امریکی صدر نے اُن دنوں جب چینی صدر سے ملاقات کی تو واشگاف الفاظ میں کہا کہ ’’میں عیسائی ہوں۔‘‘
امریکی صدر نے اس جنگ کو تصورات کی سطح پر ایک عیسائی عقیدے سے عبارت جنگ کے طور پر برتا۔ یہاں تک کہ وہ افغانستان پر حملے سے پہلے جس اہم ترین آدمی سے اس کی نظریاتی جہت کو اُستوار کرنے کے لئے ملا وہ کوئی اور نہیں برنارڈ لیوس (Bernard Lewis) نامی مشہور مستشرق تھا۔ جو مسلمانوں کے خلاف مغرب کا سب سے بڑا نظریاتی اور تہذیبی مورچہ سنبھال کر بیٹھا ہوا ہے۔ برنارڈ لیوس تقریباً ایک سو سے زائد کتابوں کا مصنف ہے اور اُسی کی کتاب
What Went Wrong؟ کو اس پورے تناظر کو سمجھنے کے لئے کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ یہ مسلمانوں کے خلاف تہذیبی اور مذہبی جنگ کا اصل سپہ سالار ہے۔ بآلفاظِ دیگر یہ امریکی صدر بش کی مسلمانوں کے خلاف شروع کی گئی جنگ سے زیادہ خطرناک جنگ لڑ رہا ہے۔ یہاں صرف اتنا ہی عرض کرنا ہے کہ ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ کی سب سے پہلے اصطلاح اِسی نے استعمال کی تھی۔ جسے لے کر ہنٹنگٹن نے اپنی کتاب ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ کا خاکہ بُنا۔ مسلمانوں کے لئے یہ بات صرف نفسیاتی طور پر ہی قابلِ تسکین ہے کہ افغانستان میں امریکا اپنا کوئی ہدف حاصل نہیں کر سکا۔مگر اُس نے یہ جنگ پورے عالمِ اسلام پر ایک اور انداز میں مسلط کر دی ہے ۔ جس کے تمام نتائج اب تک اُس کے حق میں جارہے ہیں۔ اس تہذیبی جنگ کی ہمہ جہت لہروں کو کسی اور وقت کے لئے اُٹھا رکھتے ہیں۔ یہاں بس اتنا عرض کرنا ہے کہ نوگیارہ کا دن ہم پیچھے کبھی نہیں چھوڑپائیں گے۔ یہ ہمارے ساتھ چمٹ چکا ہے اور ہماری تاریخ وتہذیب کے لئے سب سے بڑا امتحان بن چکا ہے۔
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملوں کو 21 برس بیت گئے، 11 ستمبر 2001 کا سورج امریکی عوام کیلئے قیامت بن کر طلوع ہوا، ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں طیارے ٹکرانے سے تقریبا 3000 افراد لقمہ اجل بنے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق گیارہ ستمبر 2001 کو امریکہ کے چار مسافر طیارے فضا میں بلند ہوتے ہی ہائی ج...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
وزیرِاعظم پاکستان کی سابق اہلیہ اور برطانوی فلمساز جمائما گولڈ اسمتھ افغانستان کے آدھے اثاثے امریکا میں رکھنے کے امریکی فیصلے پر برہم ہوگئیں۔ حال ہی میں امریکی حکومت کی جانب سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ امریکا افغانستان کے افغان مرکزی بینک میں منجمد کْل 7 بلین ڈالر کے اثاثوں میں سے آدھ...
وزیراعظم عمران خان نے کہاہے کہ کشمیر کا مسئلہ ہر فورم پراجاگر کریں گے،بھارت نے حملے کی کوشش کی تو پاکستان فروری 2019 جیسا جواب دے گا، بی جے پی کی حکومت بھارت اورخطے کیلئے خطرناک ہے مجھے خدشہ ہے بی جے پی حکومت کی موجودگی میں پاک بھارت ایٹمی جنگ نہ چھڑجائے، نائن الیون میں کوئی افغا...