... loading ...
پانچ برس قبل راقم کو سوڈان کے مطالعاتی دورے کا اتفاق ہوا تھاجس میں میری سب سے زیادہ دلچسپی کا مرکز نوبیہ تہذیب کے آثار اور سوڈان کے حریت پسند لیڈر مہدی سوڈانی کی تحریک کا مرکز’’ام درمان‘‘ اور ان کے درویشوں کے زیر استعمال جہادی سامان اور ہتھیار تھے۔ام درمان دارالحکومت خرطوم سے مشرق کی جانب اٹھارہ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔راقم غالبا اس خطے کا آخری صحافی ہے جس نے متحدہ سوڈان کی سرزمین پر قدم رکھا تھا کیونکہ چند ماہ بعد ہی جنوبی سوڈان کی علیحدگی کا عمل شروع ہوچکا تھا۔سوڈانی وزارت اطلاعات کا آفیسر شمس الدین مجھے دریائے نیل کے کنارے اس علاقے میں لے آیا تھا جہاں پر مہدی سوڈانی کے دور کے کچے مورچے تاحال موجود تھے۔ ان کے سامنے کی کچی دیواروں میں بہت سے سوراخ تھے جہاں سے مجاہدین اپنی قدیم بندوقوں سے نشانہ لیتے اور برطانوی استعمار کے خلاف جہاد کرتے تھے۔ شمس الدین نے دلچسپ انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ سوڈان کے لوگ ان مورچوں کو ’’وزارت دفاع‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ان کی پشت پر دریائے نیل اور سامنے انگریز استعمار اپنے تمام تر جدید عسکری سازوسامان کے ساتھ موجود ہوتا تھا۔ مجاہدین کی بے سروسامانی کا جوعالم تھا اس کے متعلق سوچ کر ہی روح کانپ جاتی ہے لیکن تاریخ نے جو نتائج مرتب کئے وہ آج سب کے سامنے ہیں۔اس دورے کے دوران جب خرطوم سے شمال مغرب کی جانب واقع شورش زدہ علاقے ’’دارفور‘‘ جانے کا اتفاق ہوا تو حالات نے مزید آنکھیں کھول دیں ۔خرطوم سوڈان کے وسط میں واقع ہے جبکہ دارفور جانے کے لئے وہاں سے تین گھنٹے کی فلائٹ درکار ہوتی ہے۔ اس سے اس ملک کی جغرافیائی وسعت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔مسلم دنیا کا یہ سب سے بڑا جغرافیائی ملک استعماری قطع برید کی نذر ہوگیا اور عرب ممالک خاموش تماشائی بنے رہے۔ اس وقت بھی ہم نے لکھا تھا کہ سوڈان کی اس استعماری تقسیم کی سب سے زیادہ قیمت عرب ممالک کو ہی ادا کرنا پڑے گی اور اس بات کوسال نہیں بلکہ چند مہینوں بعد ہی سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔
عالم عرب میں اٹھنے والے عوامی ردعمل کا جو طوفان آج سامنے آیا ہے اس نے سب کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے ۔ان معاملات نے کئی قسم کے سوالوں کو جنم دیا ہے کہ شمالی افریقاکے اہم ترین ملکوں میں قیادت کی تبدیلی کا اتنا بڑا ’’انقلاب‘‘ کیسے رونما ہوا ؟ کون اس کے پیچھے ہے؟ اس عوامی انقلاب کی رہنمائی کون کرتا رہا؟ ان ظالم اور جابر حکمرانوں کے سامنے سر نہ اٹھانے والے عوام اچانک اس قدر بے باک کیسے ہوگئے؟ کس نے انہیں ہتھیار بند کردیا؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات انتہائی ضروری ہیں۔ ہمیں اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ نائن الیون کے بعد سے بین الاقوامی سطح پر جو بڑی تبدیلی سامنے آرہی ہیں وہ انتہائی منصوبہ بندی کے ساتھ اپنے وقت پر جگہ بنا تی جارہی ہیں۔ افغانستان پر حملہ اور پاکستان میں نہ ختم ہونے والی دہشت گردی کا جال بچھانا اس منصوبہ بندی کا ہی حصہ تھا کیونکہ افغانستان کے ساتھ ہی پاکستان کے جوہری اثاثوں کو ٹھکانے لگانا امریکہ اور یورپ کا اولین ہدف تھا۔ اس کے بعد عراق کو تباہ کرکے وہاں ایسی حکومت کا قیام عمل میں لانا مقصود تھا جو عالمی صہیونیت کے آئندہ منصوبوں میں اس کی معاون ہوثابت ہوسکے اور فی الواقع ایسا ہی ہوا ہے ۔ امریکہ اور یورپ کو اس بات کی پوری طرح خبر تھی کہ مقبوضہ فلسطین اور عراق کے حالات کی وجہ سے عالم عرب میں حکمرانوں کے خلاف لاواپک رہا ہے۔ جبکہ عرب ریاستوں میں ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف امریکی جنگ کے دوران جو تقاضے ان عرب حکمرانوں نے امریکی دباؤ پر پورے کئے انہوں نے جلتی پر تیل ڈال دیا۔
حقیقت میں عالم عرب کا یہ بے رہنما انقلاب اس لئے برپا ہوا تاکہ ’’بڑے کھیل‘‘ کے لئے ’’عظیم تراسرائیل‘‘ کی راہ ہموار کی جاے۔ یہ بڑا کھیل کیا ہے؟ اگر ہم اپنے حافظے پر تھوڑا سا زور دیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ دوسری جنگ عظیم سے پہلے برطانیا، عالمی ریاست دوسرے لفظوں میں سپر پاور ہوا کرتی تھی ۔ یہی معیار اس کی کرنسی پونڈ کو حاصل تھا۔ اس عالمی ریاست کے ذریعے خلافت اسلامیہ کو ختم کیا گیا، دنیا بھر سے یہودی مقبوضہ فلسطین میں لاکر آباد کئے گئے اور اقوام متحدہ کا ادارہ تشکیل دے کر سب سے پہلے اس ناجائز ریاست کے قیام کو قانونی شکل دی گئی۔ اب برطانیہ کا کام ختم ہوچکا تھا اور اس سے آگے کی ذمہ داریاں امریکہ کوپوری کرنا تھیں ۔ یوں عالمی حکمران ریاست کا اسٹیٹس لندن سے واشنگٹن منتقل ہوا۔ پونڈ کی جگہ ڈالر عالمی کرنسی کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ یوں تقریباً نصف صدی تک امریکا اور اس کی کرنسی ڈالر کو عالمی سطح پر استعمال کرکے دنیا کو ورلڈ آرڈر کے دجالی نظام کے تحت کرنے کی کوشش کی گئی۔ اب امریکاسے عالمی حکمرانی کا اسٹیٹس اسرائیل منتقل کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ لیکن پہلے کی طرح اس بڑے واقعے کے لئے بھی ایک بڑی اور خونریز جنگ درکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شمالی افریقا اور دیگر عرب ممالک میں تبدیلیوں کی صورت میں دنیا کو یہ تاثر دینا مقصود تھا کہ عالم عرب پرمسلمان انتہا پسند حکومت میں آرہے ہیں جو اسرائیل کے وجود کے لئے بڑا خطرہ بن سکتے ہیں۔کیا ایسا ہی پروپیگنڈا چند برس قبل اس وقت نہیں کیا گیا تھا، جب اسلام آباد میں موجود مقامی امریکی طوطے مسلسل اس بات کی رٹ لگا رہے تھے کہ طالبان مارگلہ کے پہاڑیوں تک آن پہنچے ہیں ۔
بہرحال شمالی افریقا میں تو شاید اب ایک مرتبہ پھر عظیم مجاہدین عمر المختار ، مہدی سوڈانی، عثمان دقنہ اور عبدالحمید بن بادیس کی تاریخ دہرائی جائے ۔ پاکستان ان حالات سے الگ نہیں رہ سکے گایہاں دہشت گردی اور کرپشن کے خلاف آپریشن جتنی جلد ممکن ہوسکے اسے مکمل کرلینا چاہئے کیونکہ اس برس کے آخر تک دنیا جانے کیا سے کیا ہوجائے گی۔۔۔
سوڈان کے برطرف وزیراعظم عبداللہ حمدوک کی بحالی کا امکان پیدا ہوگیا ہے ۔ غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق سوڈان کی فوج نے مجبور ہو کر سیاسی جماعتوں سے ایک معاہدہ کر لیا ہے جس کے تحت وزیراعظم عبداللہ حمدوک کو بحال کیا جائے گا۔معاہدے کے تحت اکتوبر 25 کو ہونے والی فوجی بغاوت کے دوران اور...
افریقی ملک سوڈان میں جمہوریت نواز مظاہرین نے فوجی بغاوت کی مخالفت کا سلسلہ بدستور جاری رکھا ہوا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق ان افراد نے ہفتہ اور اتوار کی درمیانی رات دارالحکومت خرطوم کی سڑکوں اور گلیوں میں رکاوٹیں کھڑی کر دیں۔ فوج کی بغاوت کے خلاف عوامی مظاہروں کو سکیورٹی ایکشن سے خت...
سوڈان میں جسٹس نعمات عبداللہ محمد خیر کو چیف جسٹس اور تاج السر علی الحبر کو ملک کا اٹارنی جنرل مقرر کیا گیا ہے ۔نعمات خیر سوڈان کی نئی تاریخ میں چیف جسٹس کے منصب پر فائز ہونے والی پہلی خاتون ہیں۔عمر البشیر کی حکومت کے خلاف انقلابی تحریک کو سپورٹ کرنے والی خواتین میں جسٹس نعمات بھ...
سولہ ستمبر 1977ء کی ایک سرد رات اسرائیلی جنرل موشے دایان پیرس کے جارج ڈیگال ائر پورٹ پر اترتا ہے، وہ تل ابیب سے پہلے برسلز اور وہاں سے پیرس آتا ہے جہاں پر وہ اپنا روایتی حلیہ بالوں کی نقلی وگ اور نقلی مونچھوں کے ساتھ تبدیل کرکے گہرے رنگ کی عینک لگاکر اگلی منزل کی جانب روانہ ہوتا ...
عالم عرب میں جب ’’عرب بہار‘‘ کے نام سے عالمی صہیونی استعماریت نے نیا سیاسی کھیل شروع کیا تو اسی وقت بہت سی چیزیں عیاں ہوگئی تھیں کہ اس کھیل کو شروع کرنے کا مقصد کیا ہے اور کیوں اسے شروع کیا گیا ہے۔جس وقت تیونس سے اٹھنے والی تبدیلی کی ہوا نے شمالی افریقہ کے ساتھ ساتھ مشرق وسطی کا ...
ایران میں جب شاہ ایران کے خلاف عوامی انقلاب نے سر اٹھایا اور اسے ایران سے فرار ہونا پڑاتواس وقت تہران میں موجود سوویت یونین کے سفارتخانے میں اعلی سفارتکار کے کور میں تعینات روسی انٹیلی جنس ایجنسی کے اسٹیشن ماسٹر جنرل شبارچین کو اچانک ماسکو بلایا گیا۔ کے جی بی کے سابق سربراہ یوری ...
جن دنوں امریکامیں نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا تھا اس وقت مسلم دنیا میں کوئی ادارہ یا شخصیت ایسی نہ تھی جو اس واقعے کے دور رس عواقب پر حقیقت پسندانہ تجزیہ کرکے اسلامی دنیا کو آنے والی خطرات سے آگاہ کرسکتی۔مغرب کے صہیونی میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ نے منفی پروپیگنڈے کی وہ دھول ا...
دنیا کی معلوم تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ قدرت نے جب کبھی کسی قوم پر احتساب کی تلوار لٹکائی تو اس کی معیشت کو تباہ کردیا گیا۔قران کریم نے بھی چند مثالوں کے ذریعے عالم انسانیت کو اس طریقہ احتساب سے خبردار کیا ہے جس میں سب سے واضح مثال یمن کے ’’سد مارب‘‘ کی تباہی ہے۔ ...
ترکی کے صدر طیب اردگان نے گزشتہ دنوں امریکی سینٹرل کمانڈ کے چیف جنرل جوزف ووٹیل پر ناکام بغاوت میں ملوث افراد کی معاونت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا کو اپنی اوقات میں رہنا چاہئے۔ اس سے پہلے جنرل جوزف نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ترکی میں بغاوت میں ملوث سینکڑوں ترک...
گزشتہ دنوں مسجد نبوی شریف کی پارکنگ میں خودکش دھماکے نے پوری اسلامی د نیا کو بنیادوں سے ہلا کر رکھا دیا اور شام اور عراق میں پھیلی ہوئی جنگی صورتحال پہلی مرتبہ ان مقدس مقامات تک دراز ہوتی محسوس ہوئی۔ جس نے اسلامی دنیا کو غم غصے کی کیفیت سے دوچار کررکھا ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ ...
امریکی سینیٹر جان مکین کی اسلام آباد آمد سے ایک روز قبل وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا بھارتی جوہری اور روایتی ہتھیاروں کی تیاری کے حوالے سے بیان خاصا معنی خیز ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ سب کچھ اس وقت ہوا ہے جب امریکی سینیٹر جان مکین ’’ڈو مور‘‘ کی لمبی لسٹ ساتھ لائے جو یقینی بات...
گزشتہ دنوں جب امریکہ کی جانب سے ایک تیسرے درجے کا پانچ رکنی وفد اسلام آباد آیا تھا تو ہم یہ سمجھے کہ شاید امریکہ کو نوشکی میں کی جانے والی واردات پر اظہار افسوس کا خیال آگیا ہے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ وفد جن افراد پر مشتمل تھا ان کی حیثیت بااختیار وفد سے زیادہ ایک ’’ڈاکیے‘‘ کی...