... loading ...
کئی سالوں تک اپنے کسی قیدی کو سزائے موت نہ دینے کے بعد پاکستان صرف 9 مہینوں میں دنیا میں سب سے زیادہ افراد کو سزائے موت دینے والے ملکوں میں شامل ہوگیا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے بعد سے اب تک بجائے عسکریت پسندوں کے پھانسی کا یہ پھندا زیادہ تر عام مجرموں کی گردن پر کسا گیا ہے۔ دسمبر سے لے کر اب پھانسی کے تختے پر جھول جانے والے226 میں سے صرف 10 قیدی ہی ایسے تھے، جو دہشت گرد حملوں کے مجرم قرار پائے تھے۔ اس وقت حکومت پاکستان پھانسی کی سزاؤں کے معاملے پر مزید کوئی بات نہیں کررہی کیونکہ اسے عوامی حمایت بھی حاصل ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ ایک ایسے ملک میں سزائے موت کس طرح جرائم کو روکنے میں کارگر ہوسکتی ہے، جہاں خودکش حملے عسکریت پسندوں کا سب سے عام حربہ ہو۔ معروف تجزیہ کار پروفیسر حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ جو اپنے مقصد کے لیے جان دینے پر آمادہ ہو، اس کو سزائے موت سے ڈرایا نہیں جا سکتا۔
پاکستان نے 2008ء میں سابق صدر پرویز مشرف کے عہد میں سزائے موت پر عملدرآمد روک دیا تھا، جس کی وجہ انسانی حقوق کی انجمنوں کا بڑھتا ہوا دباؤ تھا۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق اُس وقت پاکستان میں سزائے موت کے 7 ہزار قیدی تھی، جن میں سے 36 کو اُس سال پھانسی دی جا چکی تھی۔ اس سے ایک سال پہلے یعنی 2007ء میں 134، 2006ء میں 85، 2005ء میں 52 اور 2004ء میں 21 افراد کو تختہ دار پر لٹکایا گیا تھا۔ یہاں تک کہ بعد میں سزائے موت کے تمام قیدیوں کی سزا عمر قید میں تبدیل کرنے کی تجویز بھی سامنے آئی لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہوا۔
پھر امن و امان کے لحاظ سے ملک کو بدترین حالات کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے باوجود سزائے موت پر عملدرآمد نہیں ہوا یہاں تک کہ 16 دسمبر کو آرمی پبلک اسکول پر حملہ ہوا، جس نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ 150 افراد کی جانیں گئیں، جن میں سے زیادہ تر بچے تھے۔ عوامی غم و غصے کی لہر کے بعد حکومت نے سزائے موت پر غیر اعلانیہ پابندی ختم کردی اور آئندہ چند ہی دنوں بعد ہائی جیکنگ، فوجیوں پر حملوں اور دیگر جرائم میں ملوث کم از کم 21 افراد کو پھانسی دے دی گئی۔ یہاں تک کہ مارچ کے مہینے میں یہ پابندی مکمل طور پر ختم ہوتی نظر آئی اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق اب تک 226 افراد موت کے گھاٹ اتارے جا چکے ہیں۔ یوں پاکستان چین، ایران اور عراق کے بعد سب سے زیادہ سزائے موت دینے والا ملک بن گیا ہے، یہاں تک کہ سعودی عرب کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
واضح رہے کہ قیام پاکستان کے وقت صرف غداری اور قتل کی سزا موت تھی، لیکن اب 27 جرائم ایسے ہیں جن پر وطن عزیز میں سزائے موت دی جا سکتی ہے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ’ ہیومن رائٹس واچ ‘نے اپنی سالانہ رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ کشمیری قیدیوں کو دوران حراست بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے جو انسانی حقوق کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ تنظیم کی ویب سائٹ پر جاری کی گئی ورلڈ رپورٹ 2016 میں انسانی حقوق کی عالمی تن...