وجود

... loading ...

وجود

پاکستان دنیا کے بڑے ’جلادوں‘ میں سے ایک

جمعرات 10 ستمبر 2015 پاکستان دنیا کے بڑے ’جلادوں‘ میں سے ایک

death-sentence

کئی سالوں تک اپنے کسی قیدی کو سزائے موت نہ دینے کے بعد پاکستان صرف 9 مہینوں میں دنیا میں سب سے زیادہ افراد کو سزائے موت دینے والے ملکوں میں شامل ہوگیا ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے بعد سے اب تک بجائے عسکریت پسندوں کے پھانسی کا یہ پھندا زیادہ تر عام مجرموں کی گردن پر کسا گیا ہے۔ دسمبر سے لے کر اب پھانسی کے تختے پر جھول جانے والے226 میں سے صرف 10 قیدی ہی ایسے تھے، جو دہشت گرد حملوں کے مجرم قرار پائے تھے۔ اس وقت حکومت پاکستان پھانسی کی سزاؤں کے معاملے پر مزید کوئی بات نہیں کررہی کیونکہ اسے عوامی حمایت بھی حاصل ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ ایک ایسے ملک میں سزائے موت کس طرح جرائم کو روکنے میں کارگر ہوسکتی ہے، جہاں خودکش حملے عسکریت پسندوں کا سب سے عام حربہ ہو۔ معروف تجزیہ کار پروفیسر حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ جو اپنے مقصد کے لیے جان دینے پر آمادہ ہو، اس کو سزائے موت سے ڈرایا نہیں جا سکتا۔

پاکستان نے 2008ء میں سابق صدر پرویز مشرف کے عہد میں سزائے موت پر عملدرآمد روک دیا تھا، جس کی وجہ انسانی حقوق کی انجمنوں کا بڑھتا ہوا دباؤ تھا۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق اُس وقت پاکستان میں سزائے موت کے 7 ہزار قیدی تھی، جن میں سے 36 کو اُس سال پھانسی دی جا چکی تھی۔ اس سے ایک سال پہلے یعنی 2007ء میں 134، 2006ء میں 85، 2005ء میں 52 اور 2004ء میں 21 افراد کو تختہ دار پر لٹکایا گیا تھا۔ یہاں تک کہ بعد میں سزائے موت کے تمام قیدیوں کی سزا عمر قید میں تبدیل کرنے کی تجویز بھی سامنے آئی لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہوا۔

پھر امن و امان کے لحاظ سے ملک کو بدترین حالات کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے باوجود سزائے موت پر عملدرآمد نہیں ہوا یہاں تک کہ 16 دسمبر کو آرمی پبلک اسکول پر حملہ ہوا، جس نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ 150 افراد کی جانیں گئیں، جن میں سے زیادہ تر بچے تھے۔ عوامی غم و غصے کی لہر کے بعد حکومت نے سزائے موت پر غیر اعلانیہ پابندی ختم کردی اور آئندہ چند ہی دنوں بعد ہائی جیکنگ، فوجیوں پر حملوں اور دیگر جرائم میں ملوث کم از کم 21 افراد کو پھانسی دے دی گئی۔ یہاں تک کہ مارچ کے مہینے میں یہ پابندی مکمل طور پر ختم ہوتی نظر آئی اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق اب تک 226 افراد موت کے گھاٹ اتارے جا چکے ہیں۔ یوں پاکستان چین، ایران اور عراق کے بعد سب سے زیادہ سزائے موت دینے والا ملک بن گیا ہے، یہاں تک کہ سعودی عرب کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

واضح رہے کہ قیام پاکستان کے وقت صرف غداری اور قتل کی سزا موت تھی، لیکن اب 27 جرائم ایسے ہیں جن پر وطن عزیز میں سزائے موت دی جا سکتی ہے۔


متعلقہ خبریں


بھارتی فوج’’تشدد‘‘ کو کشمیری قیدیوں کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کررہی ہے !!! شیخ امین - اتوار 31 جنوری 2016

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ’ ہیومن رائٹس واچ ‘نے اپنی سالانہ رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ کشمیری قیدیوں کو دوران حراست بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے جو انسانی حقوق کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ تنظیم کی ویب سائٹ پر جاری کی گئی ورلڈ رپورٹ 2016 میں انسانی حقوق کی عالمی تن...

بھارتی فوج’’تشدد‘‘ کو کشمیری قیدیوں کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کررہی ہے !!!

مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر