... loading ...
چور جب آپس میں لڑنا شروع ہو جائیں تو چوری کا مال برآمد ہو ہی جاتا ہے تو کیا پاکستان کے برقی ذرائع ابلاغ (الیکٹرانک میڈیا) کی تاریخ میں ہونے والی سب سے بڑی ڈکیتی اور جعل سازی کرنے والے میڈیا اداروں کی باہمی لڑائی کے نتیجے میں اب چوری کا مال برآمد ہونے کو ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جو اب بیشتر اذہان میں کلبلا رہا ہے جونو گیارہ کے بعد پاکستان کے ابلاغی منظرنامے پرکُھمبیوں کی طرح ابھرنے والے ٹی وی چینلز کی تعداد، مقدار اور معیار پر انگشت بدنداں رہے ہیں۔
امریکی صدر بش کی نو گیارہ کے بعد امریکی کانگریس کے سامنے کی جانے وا لی تاریخی تقریر توآپ کو یاد ہی ہو گی جس میں ان کے دہن سے ’’کروسیڈ‘‘ کا لفظ پھسلا تھا۔ ہم اس لفظ ’’کروسیڈ‘‘ (عیسائی جہاد ) میں ہی پھنس کر رہ گئے حالاں کہ موصوف نے اس تقریر میں یہ بھی فرمایا تھا کہ ’’ہمیں یہ سمجھ نہیں آتی کہ اتنے کھرب ہا ڈالر مسلم معاشروں پر خرچ کرنے کے باوجود ان معاشروں میں ہم اپنے لئے قبولیت کیوں پیدا نہیں کر سکے؟ یہ پتہ چلانے کی ضرورت ہے کہ مسلم معاشروں میں ہمارے خلاف نفرت کیوں موجود ہے؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان معاشروں کو براہِ راست بتائیں کہ امریکہ نے ان کے لئے کیا کچھ کیا ہے۔ اس کے لئے مسلم معاشروں میں نجی میڈیا کی سرپرستی اور مدد فراہم کرنے کے لئے ایک بلین ارب ڈالر کا ریوالونگ فنڈ قائم کیا جا رہا ہے‘‘۔ ریوالونگ فنڈ کا مطلب تھا کہ جیسے ہی پہلا ارب ڈالر ختم ہو گا اس میں نیا ارب ڈالر ڈال دیا جائے گااور پھر پوری مسلم دنیا میں ٹی وی چینلز کھمبیوں کے طرح اُگے ۔بس الجزیرہ سے لے کر پاکستان میں آنے والے ہر ٹی چینل تک، سب کو یاد کیجیے ، سوچیے اور سر دھنیے۔
ایکسپریس ٹی وی کے مالک جناب سلطان لاکھانی کی طرف سے اس وقت اپنے اخبار اور ٹی وی پر ایک ہی گردان جاری ہے کہ انھیں ’’میڈیا لاجک‘‘ نامی ادارے کے مالک جناب سلمان دانش کی جانب سے بلیک میلنگ کا سامنا ہے۔کیونکہ ایکسپریس گروپ جنابِ دانش کو پینتالیس کروڑ روپے کی رقم ناجائز طور پرادا کرنے سے انکاری ہیں۔ جناب سلمان دانش اس بات سے انکاری ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے ادارے کے ملازمین کو رشوت دے کر ایکسپریس نے جعلی ریٹنگ حاصل کیں جس کے نتیجے میں ایکسپریس نے اربوں روپے کا ناجائز فائدہ اٹھایا۔ اب ہو سکتا ہے کہ دانش صاحب نے انہی اربوں روپوں میں سے اپنا حصہ بھی مانگ لیا ہو جو ایکپریس نے جعلی ریٹنگ سے کمائے تھے۔
ٹی وی ریٹنگ کیا ہے؟ ریٹنگ سے مراد یہ ہے کہ ایک وقت میں پورے ملک میں کسی بھی ٹی وی کو کتنے افراد دیکھ رہے ہیں؟ اس کا مبینہ طریقہ کار یہ ہے کہ پورے پاکستان میں سے چند مختلف اور منتخب گھروں میں لگائے گئے ٹی وی چینلز پر ایک آلہ نصب کیا جاتا ہے جسے پیپلز میٹر کہا جاتا ہے اور جو یہ حساب کتاب رکھتا ہے کہ صاحب ِ خانہ اور ان کے پورے خاندان نے پورے دن کے دوران کب اور کون سا ٹی وی دیکھا۔ یہ آلہ ہر ہر لمحے کی خبر ایک مرکزی نظام کو دیتا ہے جو ہر چوبیس گھنٹے میں ہرچینل کے بارے میں ریٹنگ جاری کرتا ہے کہ کون سا ٹی وی کتنا دیکھا گیاہے۔ اسی بنیاد پر اشتہار دینے والے ادارے کسی بھی ٹی وی کو اشتہار دیتے اور ان اشتہارات کے نرخ طے کرتے ہیں۔
اس میں سب سے پہلی غلطی اُس وقت پکڑی گئی ، جب الطاف بھائی یا ان کی پارٹی کے افراد ٹی وی پر آ کر کوئی بات یا تقریر کرتے اور جو ٹی وی اس کو دکھاتے ان کی ریٹنگ آسمان سے باتیں کرنے لگتیں۔ اب حیرت کی بات یہ تھی کہ پاکستانیوں کی حسِ لطیف اس قدر بھی نہیں بگڑی تھی کہ الطاف بھائی کی تقاریر پر لوگ جوق در جوق ٹوٹ پڑیں اور اگر لسانی عصبیت اور گروہی تعصب میں ایسا تھا بھی تو دس کروڑ آبادی سے زائد کے صوبہ پنجاب میں الطاف بھائی کے اس قدر چاہنے والے کہاں سے پیدا ہو گئے؟
تحقیق سے پتہ چلا کہ شہرِکراچی میں لگائے گئے پیپلز میٹر جن گھروں میں لگائے گئے تھے، یا تو وہ متحدہ کے عہدیداروں کے تھے یا پھر ان کی ’’دسترس ‘‘ میں تھے۔ مزے کی بات یہ تھی کہ ابتدا میں ان پیپلز میٹر کا اسّی فی صدصرف کراچی میں ہی لگایا گیا تھا۔ اس کا میڈیا لاجک کی انتظامیہ کے پاس یہ جواز تھا کہ ملک کی سب سے بڑی شہری آبادی کے مرکز میں پائے جانے والے رحجانات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جب اس پر تنقید بڑھی تو پھر پورے پاکستان کے بائیس شہروں میں پیپلز میٹر لگانے کا فیصلہ کیا گیا لیکن آج تک یہ بات کسی کو معلوم نہ ہو سکی کہ کس شہر میں کتنے پیپلز میٹر ہیں ؟ یقینناً یہ اس ادارے کا فرض بھی تھا اور حق بھی کہ وہ کسی کو پتہ نہ چلنے دے کہ یہ میٹر کہاں کہاں لگے ہوئے ہیں۔ لیکن ان کی تعداد کے بارے میں جس مبالغے سے کام لیا جاتا رہا اس کا بھانڈاخود میڈیا لاجک کی ایک سابق ملازمہ نے ایکسپریس ٹی وی پر آ کر کچھ یوں پھوڑ ا کہ لاہور اور اسلام آباد میں کسی طور پر تین تین سو سے زائد میٹر نہیں لگے ہوئے۔ جبکہ میڈیا لاجک پورے ملک کے ان بائیس شہروں میں ہزاروں میٹر لگانے کا دعویدار رہا ہے۔
ریٹنگ ناظرین کے بارے میں ایک تحقیقاتی رپورٹ ہوا کرتی ہے ،اور دنیا بھر میں تحقیق کا بنیادی اصول یہ ہے کہ اس کے نتائج دینے سے پہلے محقق اپنی تحقیق کے طریقہ کار کے بارے میں تفصیلی طور پر واضح کرے۔ جدید طریقہ ہائے ریسرچ کے ایک طالب علم کے طور پر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر کسی ریسرچ کی بنیاد کے بارے میں محقق یہ نہ بتا سکے کہ اس تحقیق کے لئے اس نے کون سا طریقہ تحقیق اپنایا ہے ، تو ایسی ریسرچ کو اٹھا کر تاریخ کے نہیں بلکہ لائبریری کے کوڑے دان میں پھینک دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ترقی پسند جاہلوں کے علاوہ ڈارون کی تحقیق کو کوئی بھی محقق ایک ثقہ تحقیق ماننے کو تیار نہیں۔ کیوں کہ موصوف اپنی زندگی میں کبھی اپنی تحقیق کا طریقہ کار واضح نہیں کر پائے۔
لیکن اس سے بڑھ کر ایک اور انکشاف بھی ہمارا منتظر ہے۔ جناب سلمان دانش صاحب نے مختلف اینکرز حضرات کے ساتھ بلیک ملینگ اور سودے بازی کر نے کے مجرمانہ کام میں ملوث رہے ہیں۔اُنہوں نے اُن اینکرزکی ریٹنگ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے اور اگلے اداروں میں کروڑوں میں تنخواہوں پر جانے کی راہ ہموار کرنے کے عوض کتنا اور کیا کیا کچھ لاہور کے جم خانہ میں بیٹھ کر وصول کیا ، اس سودے بازی کے دلال اور گواہ دونوں ہمارے پاس موجود ہیں اور بوقت ضرورت ان کو حلف دے کر سب کچھ اُگلوایا بھی جا سکتا ہے۔ بس اتنا جان لیجیے ! کچھ مرد نما خواتین اینکرز اور کچھ خواتین نما مرد اینکرز ، پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض اور میڈیا لاجک والے ایک دوسرے کے ساتھ آنکھ مچولی کاہی نہیں چولی کے پیچھے کیا ہے ؟ کا کھیل بھی کھیلتے آیے ہیں۔ یہ سب ٹی وی کی دنیا پر بس سلمان دانش کی وجہ سے ہی اب تک مسلط رہ پائے ہیں۔
یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ سلمان دانش صاحب پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما جناب عمران خان صاحب سے قرابت دار ی بھی رکھتے ہیں۔ یہ بات ہمارے علم میں آنے سے پہلے ہمیں ایک سوال پریشان کیے رکھتا تھا کہ ستر لاکھ ووٹ لینے والے عمران خان کی ٹی وی ریٹنگ ایک کروڑ چالیس لاکھ ووٹر لینے والے میاں نواز شریف سے دگنی تگنی کیسے ہو جاتی ہے؟ عمرا ن خان تو ایک طرف ان کی پارٹی کا دوسرے اور تیسرے درجے کا رہنمابھی جو مرضی ہو بولے ، اس کی ریٹنگ شہباز شریف اور نواز شریف یا کسی بھی قومی سطح کے رہنما سے زیادہ کیسے ہو جاتی ہیں؟ لیکن اگر سلمان دانش صاحب جیمخانہ کلب میں بنائے گئے اینکرز سے چند مفادات کے لئے ان کی ریٹنگ کو چار چاند لگا سکتے ہیں توپھر اپنے قرابت داروں کے لئے پورے پاکستان کی میڈیا انڈسٹری کو’’ ماموں ‘‘کیوں نہیں بنا سکتے؟
ا ب آئیے ! موجودہ قضیے کی بنیاد کی طرف!
جناب سلطان لاکھانی نے اس ریٹنگ کو اپنے قابو میں کرنے کے لئے ’’ڈی جی میڈیا ‘‘کے نام سے ایک اور ادارہ کھڑا کیا ہے ۔جس میں اپنے ایک ملازم جناب نعیم الدین کو حصے دار اور سربراہ کے طور پر متعارف کروایاہے ۔ لاکھانی صاحب نے اس ادارے کے لئے ابتدائی طور پر تین ارب روپے کا سرمایہ فراہم کیا تاہم وہ سامنے نہیں آئے۔ اس ادارے کو دانش صاحب نے تمام تر پیشہ ورانہ اخلاقیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان تمام گھروں اور ان کے مالکان اور سربراہان کی فہرست فراہم کی جہاں پیپلز میٹر لگے ہوئے تھے۔ لہٰذا نعیم الدین صاحب نے پورے پاکستان کے ان بیس شہروں میں جہاں پیپلز میٹر نصب تھے ۔وہاں انہوں نے ایسے تمام گھروں کے مالکان تک رسائی حاصل کی۔ اور ان میں سے جو راضی ہوا ،اس کو پانچ سے پندرہ ہزار روپے کا ماہانہ لگایا کہ ہر وقت اپنے گھر میں ایکسپریس ٹی وی ہی دیکھا کریں ۔ ان میں سے کئی لوگ تو وعدے کے اس قدر پکے نکلے کہ وہ سوتے وقت بھی ایکسپریس ہی لگا کر سو جایا کرتے۔ بس یہیں پر غلطی ہو گئی۔ لہٰذا دیکھتے ہی دیکھتے ایکسپریس کے تمام چینل میڈیا لاجک کی ریٹنگ کے مطابق پورے پاکستان کے سب سے زیادہ دیکھے جانے والے ٹی وی چینلز بن گئے۔ لیکن دوسرے میڈیا مالکان جب یہ دیکھتے کہ ایکسپریس کی ریٹنگ پورے چوبیس گھنٹوں میں کسی ایک لمحے بھی کم نہیں ہوتی ،تو وہ بھی سوال اٹھاتے کہ کیا ان گھروں میں لوگ سوتے نہیں ہیں؟ اس پرجناب سلمان دانش صاحب کے پاس کوئی جواب نہ ہوتا۔
جناب سلمان دانش صاحب سے ذاتی طور پر خود میرے کوئی تین ٹاکرے مختلف سیمینارز اور کانفرنسوں میں ہوئے اور ان تینوں ٹاکروں میں یہ سیمینار چھوڑ کر بھاگ جاتے۔ کیونکہ ان کے پاس ہمارے اُٹھائے گئے کسی بھی سوال کا کوئی جواب نہیں ہوتا تھا۔ ویسے بھی ان کا مکروہ دھنداچل رہا تھا۔ سگریٹ فروش، تعلیم فروش ، گھی فروش، وطن فروش ، تمام قسم کے میڈیا مالکان ان کی بنائی اور گھمائی ہوئی ٹوپیاں خوشی خوشی پہنتے رہے، اور عمران خان کا یہ بھانجا سب کو ماموں بناتا رہا۔ یہ گندادھنداجاری رہتا اگر دوسرے میڈیا مالکان اس ریٹنگ کے بارے میں شوروغوغا بلند نہ کرتے۔ آخر کار اس کھلی بد دیانتی کی براہِ راست ذمہ داری سے بچنے کے لئے موصوف نے اپنے کچھ ملازمین پر الزام لگا دیا کہ انہوں نے ڈی جی میڈیا کو اس حساس معلومات تک رسائی دی ہے اور انہوں نے اشک شوئی کے لئے ان ملازمین کو نوکری سے نکال کر ان کے خلاف ایک مقدمہ بھی درج کروا دیا لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ان ملازمین سے تحقیق کرنے کے لئے عمران خان نیازی کے بھانجے نے جس پولیس والے کو ڈھونڈا، وہ بھی ایک نیازی ہی تھا، سمجھ تو آپ گئے ہی ہوں گے۔
اس دوران میں جیو گروپ کی فوج کے ساتھ لڑائی ہو گئی ۔ اس سے قبل جیو جناب عمران خان صاحب کے زیرِ عتاب بھی رہ چکا تھا۔ ادھر ہمارے اداروں نے بڑی سرعت کے ساتھ اپنے زیر انتظام رہائشی علاقوں میں جیو کا داخلہ بند کر دیا، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس صورت میں میڈیا لاجک کے مطابق سب سے زیادہ دیکھا جانے والا ایکسپریس ٹی وی پاکستان کا نمبر ایک چینل بن جاتا لیکن ایسا نہ ہو سکا اور یہ اعزاز جیو کی غیر موجودگی میں سماء کے حصے میں آ گیا۔ جعل سازی تو بہرحال جعل سازی ہی ہوتی ہے ناں!
اُدھر جناب نعیم الدین صاحب نے جو ڈی جی میڈیا کی سربراہی کے ساتھ ساتھ ایکسپریس گروپ کے ڈسٹری بیوشن( یعنی اسکے چینلز کو مقامی کیبلز پر چلوانے کے ذمہ دار ملازم بھی تھے) کے طور پر ایک بھاری تنخواہ بھی اینٹھا کرتے تھے، ان کو بول ٹی وی نے اپنے ہاں ملازمت کی پیش کش کر دی اور وہ اپنے ساتھ اپنے تمام مکر و فریب کی پٹاری لے کر بول سدھار گئے۔ بول ٹی وی بوجوہ ابھی تک نہیں آ سکا، اس دوران اس ملک کے سب سے بڑے ’’جوہری‘‘ کی نظر اس ہیرے پر پڑ گئی اور یوں میر شکیل الرحمن صاحب ان کو منہ بولے داموں پر اپنے ہاں لے آئے اور’’ کچے دھاگے سے چلیں آئیں گے سرکار بندھے ‘‘کے مصداق جناب سلمان دانش بھی جا کر جیو کی گود میں بیٹھ گئے۔ اور اب ہو رہی ہے ایکسپریس گروپ پرایسی چاند ماری کہ اﷲ تیری یاری۔
ایکسپریس گروپ کے اندرونی ذرائع کی اطلاعات کے مطابق جناب نعیم الدین صاحب بول جانے کے بعد نہ صرف ڈی جی میڈیا کی ذمہ داریاں نبھاتے رہے بلکہ ان کو ایکسپریس گروپ کے پے رول سے بھی نہیں ہٹایا گیا اور ان کو ادارے کی طرف سے دی جانے والی وہ تمام مراعات جاری رہیں جو ان کو وہاں پر فرائض کی انجام دہی کے دوران حاصل تھیں اور شائد یہ ابھی تک جاری ہیں۔ ان اطلاعات کو ماننے کو دل نہیں چاہتا کیونکہ میر شکیل الرحمن کبھی بھی مشکوک وفاداری کے حامل گھوڑوں کی پشت پر ہاتھ نہیں رکھتے۔ پورے قضیے کی بس یہی ایک کڑی ہے جس کا پتہ نہیں چلتا۔
یہی اسباب ہیں کہ پاکستان میں جدید سائنسی طریقہ کار کی ماتحتی میں شروع کئے جانے والے تمام ٹی وی چینلز اس لئے ناکامی سے دوچار ہوتے رہے کہ ان کو جانچنے کے معیارات میں کجی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور جو ان چینلز کے لئے ایمپائر بنے ہوئے تھے وہ کسی اور طرف دیکھ کر انگلی کھڑی کر رہے تھے۔ اب جعل سازی کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں پھوٹ چکی ہے۔ اب آپ ایسے تمام اینکرز پر نظر رکھیں جو سلمان دانش صاحب کی حمایت میں اپنے اپنے گلے پھاڑیں گے۔ یہ بھی وہی دھوکے باز ہوں گے جو سلمان دانش کی جعل سازی سے کسی نہ کسی سطح پر مستفید ہوتے رہے ہیں یا ہو رہے ہیں۔
کوئی تین سال پہلے کی بات ہے کہ ہمارے ایک ہم عصر صحافی جو صحافت کرتے کرتے ایک دم غائب ہو گئے تھے، کچھ سالوں کے بعد ملے تو پتا چلا کہ وہ کابل میں ایک امریکی اخبار کے بیورو میں پائے جاتے ہیں اور ہر ماہ کسی افغان وار لارڈ کی طرح ڈالروں سے جیبیں بھرتے ہیں۔ پختون پس منظر کے باعث ان کو ...
جناب عمران خان نے رائیونڈ اور جاتی امراء چوک پر ایک اور جلسہ کرلیا۔ جلسے کی کامیابی یا ناکامی کا معیار ہر دو فریقین کے نزدیک دیگر ہے، لیکن یہ بات طے ہے کہ کوئی ربع صدی تک سیاسی جلسوں کے جائزوں کے بعد خاکسار کا خیال ہے کہ بیس ہزار وہ جادوئی ہندسہ ہے جس کو پار کر جانے کے بعد کوئی ب...
میاں محمد نواز شریف کا سخت سے سخت ناقد بھی اس بات کا معترف ہورہا ہے کہ انہوں نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک بھرپور اور پاکستان جیسے اہم اسلامی ملک کے شایانِ شان تقریر کی۔ پاک بھارت شملہ معاہدے کے بعد کشمیر پر یہ پہلی سفارتی ’’جارحیت‘‘ ہے جس کا اعزاز بھی ایک منتخب جمہوری ح...
ہمارا دفترگزشتہ ایک دہائی سے گلبرگ ، لاہور میں ہی واقع ہے۔ ادارہ بدلتا رہتا ہے لیکن علاقہ نہیں بدلتا۔ مشرف دور کی بات ہے ایک دن گھر کو واپسی کرتے ہوئے اُس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب کے گھر والی سڑک سے گزر کر نہر کے کنارے والی سڑک پر مڑے تو نہر کے کنارے بنی حفاظتی دیوار پر لکھا تھا ’...
دو دن قبل ہی چین سے افغانستان کو چلنے والی پہلی مال گاڑی تاجکستان اور ازبکستان کے راستوں سے ہوتی ہوئی افغان صوبہ مزار شریف کے سرحدی گاؤں حیراتان کی خشک بندرگاہ پرپہنچی ہے ۔ یہ مال گاڑی کوئی پندرہ روز قبل چین سے روانہ ہوئی تھی۔ دونوں ممالک اس کو ایک اہم تاریخی سنگِ میل قرار دے رہ...
میاں محمد نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان نوے کی دہائی میں سیاسی محاذ آرائی زوروں پر تھی تو بی بی کے خلاف مقتدر حلقوں کی طرف سے ایک خانہ ساز بدعنوانی یا کرپشن کا ’بیانیہ ‘ نہ صرف اوصول کیا گیا بلکہ اس کو حسبِ توفیق آگے بھی پھیلایا ، وہ بیانیہ تھا کہ ’’بے نظیر ،زرداری اور ان ...
سندھ اسمبلی کے بعد خیبر پختونخوا اسمبلی نے بھی بول میڈیا گروپ کے حق میں متفقہ قرارداد منظور کرلی۔ بدھ کے روز ڈپٹی اسپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی ڈاکٹر مہر تاج روغانی کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں صوبائی اسمبلی نے بول میڈیا گروپ کو غیر قانونی ہتھکنڈوں اور متنازع طریقوں سے جبراً بن...
پاکستان کو صحافیوں کے لیے ہمیشہ دنیا کے خطرناک ترین ملکوں میں ایک سے سمجھا جاتا ہے لیکن ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس حقیقت کے باوجود جب معاملہ سیاسی معاملات کی کوریج کا ہو تو جتنی آزادی پاکستانی میڈیا کو حاصل ہے، اتنی ایشیا میں بہت کم ممالک کے پاس ہے۔ عالمی ادارے "رپو...
سندھ ریونیو بورڈ کی انتظامیہ کی صریح غفلت کی وجہ سے صوبائی خزانے کو تقریباً ایک ارب روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ اس نے ایگزیکٹ سے 'سیلز ٹیکس آن سروسز' وصول نہیں کیا۔ مگر یہ کہانی کا صرف ایک رخ ہے، اصل کہانی اس سے کہیں زیادہ پُرپیچ ہے اور یہ ایگزیکٹ سے کہیں زیادہ سندھ...
سابق آمر صدر ایوب کے دور میں پشاور میں بڈابیر کے ہوائی اڈے پر سرخ دائرہ لگانے سے لے کر گزشتہ دنوں اسلام آباد میں لاہور، کراچی گیس پائپ لائن بچھانے کے منصوبے پر ہونے والے دستخط تک، پاکستان او ر روس کے دو طرفہ تعلقات بہت سے نشیب و فراز کا شکار رہے ہیں۔ پاکستان بننے کے فوراً بعد پنڈ...
ہمارے حجاج کرام اﷲ کے گھر سے واپس لوٹ رہے ہیں۔ ان کے پاس سانحہ منیٰ و جمرات کے سانحے کے بارے میں سنانے کے لئے بہت سی داستانیں ہیں۔ لیکن ہم نے اپنے الیکٹرانک میڈیا کی مدد سے حج کے دوران پیش آنے والے واقعات پر ان کی سنے بغیر پہلے ہی اپنی رائے نہ صرف قائم کر لی ہے بلکہ اس کی تبلیغ ب...
اﷲ تعالیٰ نے ہمیں اپنے بنے بنائے دوستوں سے تعلقات خراب کرنے کی جس اعلیٰ صلاحیت سے نوازا ہے۔ اس کے بعد ہمیں وہ ’’بھلی لوگ ‘‘ جنتی معلوم ہوتی ہے ،جو گزشتہ دو دہائیوں سے ہمیں برداشت کرتی چلی آ رہی ہے۔ اس لئے آئندہ سطور اگر کچھ بزرگ دوستوں کو گراں گزریں تو ان سے پیشگی معذرت۔اس یقین د...