وجود

... loading ...

وجود

جانور

بدھ 09 ستمبر 2015 جانور

human-evolution

خبر دار! آپ کسی کو کافر نہیں کہہ سکتے مگر جانور کہہ سکتے ہیں۔ کیا یہ کوئی اتفاق ہے کہ وزیر داخلہ جس وقت قوم کو یہ باور کرارہے تھے کہ نفرت انگیز تقاریر اور کسی کو کافر قرار دینے پراب حکومت کارروائی کرے گی ٹھیک اُسی وقت وفاقی وزیر الطاف حسین کا خطاب سننے والوں کو’’ جانور ‘‘کہہ رہے تھے۔نفرت اور کیا ہوتی ہے؟کسی کو کافر قرار دینے سے جو نتائج برآمد ہوتے ہیں کیا جانور قرار دینے سے نہیں ہوتے؟ یہ لیجئے ! حکومت کا امتحان شروع ہو گیا ۔ اب وہ وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ کے خلا ف کیا کارروائی کرتی ہے؟

زبان انسان کے اندرون کا ایک اشتہار ہوتی ہے۔ کسی نے کہا تھا کہ جب تک بات منہ میں بند رہتی ہے تب تک اُس کے مالک آپ ہیں مگر یہ منہ سے نکل جائے تو پھر وہ آپ کی مالک بن جاتی ہے۔ اِسی لئے حکیم لقمان نے نصیحت کی کہ ’’جب خلقت کے پاس آؤ تو زبان کی نگہداشت کرو۔‘‘جنرل(ر) عبدالقادر بلوچ کی گفتگو حیران کن ہیں۔ داغستان کا نامور ادیب لکھتا ہے کہ ’’بچہ دوسال میں بولنا سیکھ جاتا ہے مگر انسان ساٹھ سال کے بعد کہیں یہ جان پاتا ہے کہ زبان کیسے بند رکھی جائے۔‘‘ ریٹائرد جنرل ۱۶؍جون ۱۹۴۲ء کو پیدا ہوئے تھے۔ اس حساب سے اب وہ تہتّر برس کے ہوتے ہیں۔ مگر ابھی تک وہ نہیں جان پائے کہ زبان کیسے بند رکھی جائے۔ کیا کوئی تصور کر سکتا ہے کہ جس معاشرے میں ہم آزادیٔ رائے کو ایک خاص سماجی فضا میں پروان چڑھتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہاں اس نو ع کے کلمات سننے کو ملیں گے۔ اس طرح خود الطاف حسین کی گفتگو کے خلاف حکومت اور فوج اپنے مقدمے کا دفاع کیسے کر پائے گی؟

وفاقی وزیر کی گفتگو کے بعد ڈارون کی کتابیں ازسرنو جھاڑنی پڑ جاتی ہے تاکہ اُن کے الفاظ سے پیدا ہونے والے ردِ عمل پر قابو پایا جاسکے۔ ڈارون کی ایک کتاب ’’اصلِ انواع ‘‘ ۱۸۵۹ء میں سامنے آئی جس میں موصوف نے یہ اندازا لگایا کہ اُن کے بزرگ توانسان نہیں جانور ہیں۔ ابھی حضرتِ انسان اس جھٹکے کو برداشت نہ کر پایا تھا کہ اُنہوں نے جانوروں کا شجرہ تک تخلیق کرلیا۔ اُن کی کتاب ’’دی ڈیسنٹ آف مین‘‘انسان کے اسی اُترائی سلسلۂ نسب کی داستان ہے۔ موصوف نے یہ شجرۂ انسانی۱۸۷۱ء میں کاڑھا تھا۔اُنہوں نے سائنسی توجیحات کی خوب گوٹا کناری کی مگر انسان اپنے شرف سے کبھی دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہوا۔ زبانوں کے محقّقین کے لئے یہ ایک موضوع ہے کہ انسانوں نے کب جانور کہنے پر بُرا منانا شروع کیا؟ اُنہیں کب یہ لفظ ایک گالی لگنے لگا؟ کہیں اس کے ڈانڈے ڈارون کی ’’جانوری تحقیق ‘‘ سے تو نہیں جاملتے۔ سُراغ کچھ بھی لگے اور ہاتھ جو بھی آئے، جنرل(ر) ریٹائرڈ عبدالقادر بلوچ نے ایسی بات کہی ہے کہ اگر میٹھے سمندر میں اِسے تھوکا جائے تو وہ کھارا نہیں زہریلا ہو جائے۔ یہ کیسی زبان ہے جو سیاست دانوں نے شعار کررکھی ہے۔ اور یہی وہ انگڑ کھنگڑ ہیں جن کی اَنگش بَنگش پر انحصار کرکے یہ قوم سیاسی و تمدنی بالادستی کا خواب دیکھتی ہے۔ ریاست کے تعلق داروں میں اپنے ناقابل تقسیم حقِ اقتدار کا ڈھنڈورا پیٹتی ہے۔

ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا ، تحریک انصاف نے مسلم لیگ نون اور اس کی قیادت کو حقارت کے الفاظ کا ہدف بنا لیا تھا۔وہ اُنہیں اوئے، ابے اورتبے سے مخاطب کرتے تھے۔ تب چوہدری نثار سے لے کر اسحاق ڈار تک اور خواجہ سعد رفیق سے لے کر خواجہ آصف تک اُن سے شائستگی کاتقا ضا کرتے پھرتے تھے۔ انتخابی نتائج پر عدالتی کمیشن کے فیصلے نے اُن کی اُکھڑی ہوئی سانسوں کو قدرے بحال کیا تو وزیراعظم میاں نوازشریف نے قوم کے سامنے اپنی چہرہ دکھائی کی ۔یاد کیجیے ! تب میاں صاحب اپنے خطاب میں عمران خان کی اُس ملامت آمیز زبان وبیان کا شکوہ کئے بغیر نہ رہ سکے تھے۔ اب لگتا ہے کہ یہ لوگ اِسی سلوک کے مستحق تھے۔ یہ ایک دوسرے کے مقابل مگر ایک جیسے لوگ ہیں۔یہ اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ جب بھی نون لیگ کی حکومت آتی ہے یہ سیاسی اور معاشرتی سطح پر عجیب طرح کے روّیوں کو جنم دینے کا موجب بنتی ہے۔ تاریخ میں جانے کی گنجائش نہیں ، مگر ان کا تصورِ حکومت چند سڑکوں کی تعمیر اور معاشرتی وسیاسی تارپود کی تخریب سے آگے کبھی بڑھ نہیں سکا۔ افسوس انہوں نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔

کراچی میں جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ کے اس لفظ نے ایک ایسی قیامت برپا کردی ہے جسے کسی صور پھونکے جانے جیسے شور کی ضرورت ہی نہیں۔ اس طرح کے متعصبانہ الفاظ کراچی کو دائروں کامسافر بنا دیتا ہے۔ بے نظیر بھٹو اب اپنی قبر میں سوتی ہے ، کبھی اردو بولنے والوں کو اُنہوں نے پارلیمنٹ میں ’’بزدل چوہے‘‘ کہاتھا۔ پیپلز پارٹی آج بھی کراچی میں اس کا بُھگتان دیتی ہے۔ اُردو بولنے والے پیپلز پارٹی کے ایک رہنما نے تب تاسف سے اس خاکسار کو کہاتھا کہ ایم کیو ایم کا فائدہ تو ناپا جاسکتا ہے مگر ہمیں پہنچنے والا نقصان ناقابلِ اندازا ہے۔ ایم کیوایم کا وہ مشہورِ زمانہ ورقہ (پمفلٹ) یادداشتوں میں اُجاگر کیجئے جس میں وہ شناخت (؟)کے بحران میں خود کو پڑنے والی گالیوں کا ذکر کرتے ہیں ۔وہ ’’مکڑ‘‘کا لفظ تب دائرۂ تحریر میں لائے تھے جو اہلِ کراچی کے عمومی تجربے میں تھا۔ جب اہلِ کراچی اپنا ہاتھ چھڑانے کے دور میں داخل ہوتے ہیں تو عبدالقادر بلوچ ایسا کوئی کردار اچانک طلوع ہوتا ہے اور سہمے لوگوں کو مزید ڈراوا دے کر اُنہیں ایم کیوایم کی طرف ہانکا لگاجاتا ہے۔ حلقہ ۲۴۶ کی انتخابی مہم میں تحریکِ انصاف کے رہنماؤں نے اگر متعصبانہ زبان اختیار نہ کی ہوتی تو نتائج میں ہار جیت کا تناسب اس قدر رسواکن نہ ہوتا۔ عمران خان سمیت دیگر رہنماؤں کے بعض الفاظ ایسے تھے جس نے ایم کیوایم کے لئے تعصب کو پھر بیدار کردیاتھا۔ پتا نہیں کیوں ایم کیوایم ایسے لوگوں کے خلاف احتجاج کرتی ہے اُنہیں شکریے کے خطو ط نہیں لکھتی۔ مقتدر حلقوں کویہ بات ابھی تک سمجھ میں نہیں آئی کہ اردو بولنے والے جب ردِ عمل کی کسی لہر کو سر اُٹھاتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ایم کیوایم سے واپس جُڑ جاتے ہیں یہ اُن کا اضطراری انتخاب ہے ، اختیاری نہیں۔ اگر عبدالقادر بلوچ جانور کا لفظ استعمال کرتے ہوئے ذرا سی انسانی عقل سے کام لیتے تو وہ خاموشی کی فضیلت کو سمجھ لیتے اور چُپ رہتے۔


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

رفیق اور فریق کون کہاں؟ وجود - منگل 23 اگست 2022

پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...

رفیق اور فریق کون کہاں؟

الطاف حسین دہشت گردی پر اُکسانے کے الزام سے بری وجود - بدھ 16 فروری 2022

بانی متحدہ الطاف حسین دہشت گردی پر اُکسانے کے الزام سے بری ہوگئے۔ برطانوی عدالت میں بانی متحدہ پر دہشت گردی پر اکسانے کا جرم ثابت نہ ہوسکا۔ نجی ٹی وی کے مطابق بانی متحدہ کو دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کے حوالے سے دو الزامات کا سامنا تھا، دونوں الزامات 22 اگست 2016 کو کی جانے والی ...

الطاف حسین دہشت گردی پر اُکسانے کے الزام سے بری

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں وجود - پیر 14 فروری 2022

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں

برطانیہ، بانی ایم کیوایم کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کیس کی سماعت مکمل وجود - اتوار 13 فروری 2022

کنگ اپون تھیم کراؤن کورٹ میں دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرنے سے متعلق اشتعال انگیز تقاریر کیس میں بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کے خلاف دلائل مکمل کر لیے گئے، عدالت فیصلہ کرے گی کہ الطاف حسین کو سزا سنائی جائے گی یا الزامات سے بری کردیا جائے گا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق بانی ایم کیو ایم...

برطانیہ، بانی ایم کیوایم کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کیس کی سماعت مکمل

خطابت روح کا آئینہ ہے !
(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)
وجود - پیر 30 ستمبر 2019

کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...

خطابت روح کا آئینہ ہے ! <br>(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر