... loading ...
وجود کا تصورِ صحافت قارئین کے لئے اجنبی نہیں۔ ہمارے لئے صحافت ایک راستے کے طور پر جانا پہچانا پیشہ ہے۔ خود صحافت کے لئے بھی ہم کوئی انجان راہی نہیں۔ وجود تاریخ اور صحافت کے درمیان فرق کر تا ہے۔ اور ایسے جادۂ صحافت کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے جو عرصۂ موجود کی گواہی ، لمحۂ موجود میں نہیں دیتا۔ صحافت آج کی گواہی آج ہی دینے کا نام ہے۔ وہ گواہی جو خطرات ٹلنے اور وقت گزرنے کے بعد دی جائے، اُس کے لئے صحافت نہیں کوئی اور پیشہ مناسب ہے۔ یہ جذبات کا نہیں جذبے کا معاملہ ہے۔جس کی بنیاد بلوہ نہیں نظریہ ہے۔
ہم نہایت کرب کے ساتھ محسوس کرتے ہیں کہ نظریئے کی سطح پر پاکستان کے قومی ، ملی اور مذہبی بیانئے کو دانستہ طور پر توڑ پھوڑ دیا گیا ہے۔ ایک نظری منچ پر پاکستان کا وجود مکمل تحلیل کرنے کے منصوبے تیز رفتاری سے جاری ہیں۔ یہ نظریاتی باڑھ اگر ختم کر دی گئی تو پھر پاکستان کے جغرافیائی جواز پر سوالات اُٹھنے لگیں گے۔ یہ کام نہایت پُرکاری سے جاری ہے ۔ کبھی یہ مباحث بدبو دار کتابوں میں بھرے ہوتے تھے اور اُسے نہایت حقارت سے مسترد کر دیا جاتا تھا۔ مگر اب یہ قومی ذرائع ابلاغ کے مرکزی دھارے کا حصہ بن چکے ہیں اور اِ س طرح پیش کئے جارہے ہیں کہ یہ قومی دانائی کے مترادف لگیں۔ تصورات کی سطح پر یہ بحث اب تحریک ِ پاکستان جیسے جوش وخروش کی متقاضی ہے۔ صاف لگتا ہے کہ تحریکِ پاکستان ابھی جاری ہے ۔ پاکستان کے قومی ، ملی اور مذہبی بیانئے کی حفاظت اب پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت ایسا کام بن چکاہے۔ مگر اس کی موافق نظریاتی قوتوں کا حال زیادہ شرمناک ہے۔ وہ روحِ عصر سے ناآشنا ہیں اور نئے تالوں کو پُرانی چابیوں سے کھولنے پر مُصر ہیں۔ اُن کے اندازِ بیان پر خطابت کے جذباتی سائے پڑ چکے ہیں۔ اور وہ بدلے ہوئے عہد کی زبان اور اندازِ بیان سے ناآشنا ہی نہیں بلکہ نئے دورکی ابلاغی بصیرت سے بھی مکمل محروم ہیں۔اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہ اپنے موقف کے لئے درکار قوتِ استدلال کو بھی بہت تیزی سے تحلیل کرتے جارہے ہیں۔ اگر چہ اُن کی وجدانی بصیرت اُنہیں صحیح و غلط کا ایک خودکار احساس مہیا کرتی ہے مگر وہ اس کے ابلاغ کی قابلِ قبول منہج سے مکمل محروم ہیں۔ اِسے نئے عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ کب ممکن ہوگا؟ دراصل پچھلی چار پانچ دہائیوں سے ہمارا قومی و ملی شعور، کامل سیاسی تناظر کا قیدی بن چکا ہے۔ہم سیاست کے منہ سے بھونکنے اور سیاست کے دماغ سے سوچنے لگے ہیں۔اس سیاسی حیوانگی کا دورہ ،دراصل مغرب کے ترقی یافتہ ممالک کی وجہ سے پڑا تھا۔ مگر وہ قومیں اپنے علمی تصور کی دوا سے شفا پاچکی ہیں، ہم ابھی تک بیمار ہیں۔ ایک ٹھوس علمی تصور سے سیرابی کے بغیر نرا سیاسی تناظر قومی زندگی کو نہایت اوچھی ، اُتھلی اور چِھچھلائی حالت میں رکھتا ہے۔ ہماری قومی زندگی اس کی شکار ہوچکی ہے۔بدقسمتی سے ہم یہ جانتے ہی نہیں کہ جس سیاسی شعور کا ہم روز ڈنکا بجاتے ہیں، وہ ہمارا وصف نہیں عیب ہے۔اسی عیب کا نتیجہ قومی ذرائع ابلاغ کی اس درجہ فراوانی کی شکل میں نکلا ہے۔ لوگ اخبار پڑھنے اور ٹیلی ویژن کے جگمگاتے پردے پر خبروں کی زندہ (لائیو)اور تیز رفتار جھلکیاں دیکھ کر حالات سے آگاہی کے زعمِ باطل میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ ذرائع ابلاغ سرمایہ پرست نظام ہائے حکومت کے سب سے جادو اثر منتر ہیں۔ جن کی بناؤٹ میں یہ مکارانہ انتظام میکانیکی طو رپر رکھا گیا ہے کہ یہ خبروں کی اصل سمت سے ناظر اور قاری کو محروم رکھتا ہے۔ یہ قیدیوں کو زنجیر کی تبدیلی سے رہائی کی نوید دینے کا جھوٹا آلہ ہے۔ہم کیسے بے خبر اور پست ذہن لوگ ہیں جو تبدیلی کے لئے بھی اب ذرائع ابلاغ پر انحصار کرنے لگے ہیں جو کسی بھی حقیقی تبدیلی کے بعد اپنی موجودہ حالت میں اس طرح اپنا وجود برقرار ہی نہیں رکھ سکتے۔دراصل ایک حقیقی تبدیلی میں ذرائع ابلاغ کی جوہری تبدیلی کا عمل بھی شامل ہوگا۔کسی کواس پر حیرت کیوں نہیں ہوتی کہ ذرائع ابلاغ کے مالکان دنیا بھر میں نہیں ، پاکستان میں بھی اُسی طرح کے بدعنوان لوگ کیوں ہیں جس طرح کے دیگر سیاست دان یا تاجر وغیر ہ ہیں۔ذرائع ابلاغ کے مالکان دراصل سرمایہ دارانہ نظام کی موجودہ بناؤٹ کے اصل تعلق دار (اسٹیک ہولڈر ) ہیں۔
ذرائع ابلاغ نے خود کے متعلق ضرورت سے کچھ زیادہ ہی رومان پال لیا ہے۔ ریاست کے چوتھے ستون سے لے کر آزادیٔ اظہار کے بنیادی دعوے تک اس میں بہت سے خلاء ہیں۔ مگر یہ موضوعِ بحث ہی نہیں بنتے۔ دراصل پاکستانی معاشرے میں کوئی کسی کو ’’چیلنج‘‘ کرنے کے قابل نہیں رہ گیا۔ اور یہ اس لئے ہے کیونکہ ہر ادارہ کہیں نہ کہیں ماضی کا ایسا بوجھ رکھتا ہے جو اُسے اخلاقی طور پر دوسروں کے لئے واجب سوال بھی اُٹھانے سے روکتا ہے۔ بس اِسی باعث ہر ادارہ اپنے لئے گنجائشیں پیدا کرتا چلا جاتا ہے۔ حکمرانی کی بدترین مثالوں نے ریاستی ادارو ں کو تقریباً پگھلا دیا ہے اور وہ فشاری گروہوں کے سخت دباؤ میں رہتے ہیں۔ اس کا سبب اُن کا وہی اخلاقی جواز ہے جو اُن کی بداعمالیوں کی وجہ سے معدوم ہو چکا ہے۔ ہم اس تصور میں خود کو بھی تولنا ٹٹولنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک اذیت ناک سفر ہے جس میں اُنگلیاں بھی ہم اُٹھا رہے ہیں اور جن کی جانب اُنگلیاں اُٹھیں گی وہ بھی بآلاخر ہم ہی ہیں۔ لیکن یہ اب ایک ناگزیر عمل بن چکا ہے کیونکہ پاکستانی صحافت اپنے مثالی کردار سے دورہی نہیں ہو گئی۔ بلکہ اب کسی جامے میں بھی نہیں رہی۔
ہم اِ ن تصورات کے ساتھ اپنے شعورِ صحافت میں ایک فریق ہیں۔ مگر سیاست کی آلائشوں سے پاک ایک ایسے کردار کے متمنی ہیں جو حزب ِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے بجائے ایک حزب ِ اعتدال کا ترجمان ہو ۔ جس میں حمایت ومخالفت کا محرک شخصیات یا اُن سے وابستہ مفادات نہیں بلکہ ہماری تائید وتردید کی بنیاد موقف کی اصَابَت پر ہے۔اس معرکے میں آپ کی حمایت کے بغیر ہم مورچہ زن نہیں رہ سکیں گے۔ اپنے نقد سے نوازیں اور ہماری رہنمائی کریں ۔
روسی صدر ویلادی میر پوٹن نے کہا ہے کہ آزادی اظہار رائے اور فنکارانہ آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ پیغمبر اسلام ۖ سمیت دیگر مذہبی شخصیات کی گستاخی کا لائسنس مل گیا ہے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق روسی صدر ویلادیمیر پوٹن نے سالانہ پریس کانفرنس کے موقع پر مذہبی آزادی میں رکاوٹ کے بغیر فنکاران...
ورلڈ ایسوسی ایشن آف نیوز پبلشرز، انٹرنیشنل پبلشرز ایسوسی ایشن اور انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس نے پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ میڈیا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی بل کا منصوبہ واپس لے، کیوں کہ اس بل سے تمام میڈیا پر ریاستی کنٹرول کا خدشہ ہے۔ میڈیارپورٹس کے مطابق ایک مشترکہ بیان میں ...
چند ہفتے قبل ایک سیاسی پارٹی کے رہنما نے اپنی تقریر میں پاکستان کو ”ناسور“ اور عالمی دہشت گردی کا ”مرکز“ قرار دیا جس پر بجا طور پر سخت ردعمل سامنے آیا، اور قومی سطح پر شدید سیاسی سرگرمی بھی وقتی طور پر دیکھنے میں آئی۔ یہ امر حیرت انگیز ہے کہ ہمارے ہاں انفرادی، سماجی اور قومی سطح ...
کشمیر کی گتھی کو سمجھنے اور سلجھانے میں ناکام حکومتِ ہندوستان کے منفی اثرات اکثر شعبہ ہائے زندگی پر مرتب ہو رہے ہیں ۔اس ناکامی میں جو کردار بھارت بھر کے الیکٹرانک میڈیا کا ہے وہ المناک بھی ہے اور شرمناک بھی ۔یہ ذرائع ابلاغ نہیں بلکہ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ کا روپ دینے والی وہ م...
اس وقت مسلم دنیا جن حالات میں ہے، وہ معلوم ہیں اور روزمرہ مشاہدے اور تجربے میں ہیں۔ واقعاتی سطح پر حالات کے بارے میں ایک عمومی اور غیررسمی اتفاق پایا جاتا ہے کہ بہت خراب ہیں، اور یہ امکان بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ مزید خرابی کی طرف جا رہے ہیں۔ لیکن اس بارے میں آرا بہت زیادہ مختلف ہ...
ایران میں سینکڑوں صحافیوں کو ایک نامعلوم ایس ایم ایس پیغام آیا ہے جس میں انہیں بیرون ملک "دشمن" تنظیموں کے ساتھ رابطے ختم کرنے کی تنبیہہ کی گئي ہے۔ ایرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق 700 صحافیوں اور عوامی شخصیات کو یہ پیغام موصول ہوا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ "بیرون ملک مقیم دشمن عنا...
سعودی عرب نے امریکی حکومت پر سخت جوابی وار کیا ہے جس میں امریکا پر نائن الیون حملوں کی خود منصوبہ بندی کرنے کا الزام لگایا گیا ہے تاکہ وہ مشرق وسطیٰ میں "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کا جواز پیش کرسکے۔ سعودی ذرائع ابلاغ نے کا یہ ردعمل امریکی سینیٹ کی جانب سے نائن الیون حملوں میں مر...
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے گزشتہ دنوں پاناما پیپرز کے پس منظر میں ذرائع ابلاغ کو نشانہ تنقید بناتے ہوئے کہا کہ ذرائع ابلاغ "چوں چوں" کررہے ہیں۔ نوازشریف کی جب بھی حکومت آئی ہے ، وہ اُس وقت کے ذرائع ابلاغ کو قابو کرنے کے لیے خصوصی طریقے بھی اختیار کرتے رہے ہیں۔ نواز شریف کی حال...
ناقص خبریں اور متعصبانہ رویہ، ذرائع ابلاغ پر عوام کا اعتماد دنیا بھر میں بری طرح مجروح ہو رہا ہے۔ یہاں تک کہ سوشل میڈیا پر شکوک میں بھی اضافہ کیا ہے۔ اس وقت صرف 6 فیصد امریکی ہیں جو میڈیا پر کافی اعتماد رکھتے ہیں۔ لیکن یہ اعتماد بھی درستگی، توازن اور شفافیت کے عام صحافتی اصولوں ک...
بہترین تنخواہ اور معاشرے میں اعلیٰ مقام، بس آجکل دوڑ اِسی کی ہے۔ یہ ملازمتیں آپ کو ایک کامیاب اور بہتر زندگی تو دے سکتی ہیں لیکن یہ آپ کو تنہا کردیں گی۔ اگر آپ تنہائی پسند ہیں، تو یہ 10 ملازمتیں آپ کا بہترین انتخاب ہوسکتی ہیں۔ کھلاڑی کھلاڑی اپنے دن کا بیشتر وقت جم یا کھیل ک...
امریکی ریاست ورجینیا میں مقامی ٹیلی ویژن سے وابستہ دو صحافیوں کو فائرنک کرکے اُس وقت ہلاک کردیا گیا جب وہ براہِ راست پروگرام کر رہے تھے۔ہلاک شدگان میں 27؍ سالہ کیمرہ مین ایڈم وارڈ اور 24؍ سالہ رپورٹر ایلیسن پارکر شامل ہیں۔دونوں کی منگنی ہو چکی تھی۔ مقامی اسٹیشن منیجر جیفری مارکس ...