... loading ...
ایک ننھا سا قطرۂ زہر رگوں میں پھیل کر روح کو جسم سے باہر دھکیلنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔زہر صدیوں سے قتل کے لئے استعمال ہونے والا سب سے خطرناک ، زور آور ، اور قابلِ اعتبار ہتھیار ہے۔ گو زہر کتنا ہی جان لیوا کیوں نہ ہو میرا ماننا ہے کہ زہر سے بھی خطرناک زہریلی سوچ ہوتی ہے۔زہر کا ہتھیار کے طور پر استعمال 4500 قبل از مسیح سے لے کر پھیلتا ہی چلا گیا۔زہر بہت سے مقاصد کے لئے استعمال ہوتا چلا آیا ہے مگر سب سے زیادہ یہ صرف دشمن کے خاتمے کے لئے، بغض اور انتقام لینے کے لئے استعمال ہوا۔رومن دورِ حکومت میں یہ قتلِ عام کے لئے عا م استعمال ہوتا تھا۔مطلب ایک بوند زہر اور کام تمام ۔
331 قبل از مسیح میں زہر دینا بہت مقبول اور شاہانہ طرزِ قتل تھا۔من پسند کھانوں میں زہر کی ملاوٹ سے دشمن کو مٹی میں ملا دینا عام بات تھی۔ ان دنوں کھانوں کی میز پر، مشروبات میں ، من پسند پھلوں میں اور میٹھے میں زہر ملا کر پیش کرنا عام تھا۔عظیم شہنشاہوں نے زہر کو من چاہا ہتھیار سمجھ کر استعمال کیا۔اس سلسلے میں Arsenic (ایک زہریلا سفید سفوف) کی اعلیٰ قسم بنانے میں عرب سب سے برتری لے گئے۔انہوں نے اس زہریلے سفید سفوف کی ایک ایسی قسم ایجاد کی جو بے رنگ ، بے بو، ایک دم شفاف تھی جسے Detect کرنا مشکل بلکہ ناممکن تھااور اسی لئے اس شفاف اُجلے سفوف نے بہت کام دکھایا۔اب یہ سفوف ایشیاء میں بھی پایا جاتا ہے۔سُقراط جیسا فلسفی ہو، Oilve Thomas جیسا ادا کار ، یا پھر چندر گپت موریہ کی ملکہ ،Durdhara کوئی بھی ایک بوند زہر کی بھینٹ چڑھنے سے بچ نہ سکا۔ایڈولف ہٹلر جو کہ میرا پسندیدہ ماضی کا کردار بھی ہے نے سائنائٹ اور گن سے بیک وقت خود کو پکڑے جانے سے پہلے ختم کر لیااور اس کے پہلو میں ایواہٹلر بھی پائی گئی جس نے سائنائٹ کیپسول کھا کر خود کشی کر لی تھی۔ کسی حد تک یہ ٹھیک بھی تھااتنے زور آور شخص کی جان کوئی کم نسل لے، اس سے بہتر تو ایک بوند زہر تھا۔ ایوا ہٹلر کی سب سے قریبی اور پیاری چیز انتقام کا نشانابننے سے اور ہٹلر کی ذلت کا باعث بننے سے بچ گئی اور ایک بوند زہر کی نذر ہو گئی۔
تاریخ ایک بوند زہر کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ جب زہر کے استعمال اور خطرات بڑھتے چلے گئے تو اس کی روک تھام کے لئے اقدامات کی اشد ضرورت محسوس ہوئی۔یہ واضح تھا کہ اس سلسلہ میں کوئی ٹھوس اقدام اُٹھانا ضروری ہے۔ 63-114 (قبل از مسیح) میں Mithridates Vi جو Pontus ( قدیم یونانی ریاست شمالی اناطولیہ) کا بادشاہ تھا کو مسلسل زہر دیئے جانے کا خطرہ لاحق تھا ۔ اس خطرے کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی بجائے اس ذہین بادشاہ نے تدبیر کی اور زہر کے توڑ کے لئے ادویات حاصل کرنے اور بنانے کے لئے کوشاں رہا۔ بآلاخر اس نے اس وقت کی درجنوں ہربل جڑی بوٹیوں کی تھوڑی تھوڑی مقدار پر مشتمل ایک زہر کے اثر کو زائل کرنے والا فارمولا حاصل کر لیا۔ اس زہر کے تریاق کو بادشاہ نے Mithridatium کا نام دیا۔ اس تریاق کو خفیہ رکھا گیا جب تک Pompey The Great اس کی سلطنت پر قابض نہ ہوگیا اور اسے دوبارہ روم میں شامل کر دیا۔پومپی سے شکست کھانے کے بعد Antidote نسخے اور تمام کے تمام نوٹس روم کے قبضے میں آگئے او ر لاطینی زبان میں ترجمہ کئے گئے ۔ Pliny the elder نے (جو کہ روم کا عظیم مصنف اور قدرتی فلاسفر تھا ) سات ہزار قسم کے زہر متعارف کر ائے ۔ ایک جگہ وہ لکھتا ہے کہ ’’ ایک بطخ کا خون Pontus کی ریاست میں ملا ،جو زہریلی خوراک پر پلی تھی اور اس بطخ کا خون بعد میں Mithridatium کی تیاری میں استعمال ہوا کیونکہ اس بطخ کو زہریلی خوراک کھلائی گئی اور اسے کچھ نقصان نہ ہو ‘‘ ۔ ایک بوند زہر کے اثر نے کتنوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا اور کتنوں کو تخت و تاج بخش دیا۔ پس سب سے بڑابادشاہ گر( کنگ میکر)تو ایک بوند زہر رہا۔
قدیم بادشاہ اردشیر سوئم شاہ فارس سلطنتِ Achaemenid کے گیارھویں سلطان کی زندگی ایک بوند زہر کے گرد گھومتی ہے ۔ اردشیر کی تاج پوشی فروری338 قبل از مسیح میں ہوئی ۔اس قدیم بادشاہ کو فارس کا عظیم بادشاہ، مصر کا فرعون، شاہان شاہ ، بادشاہوں کا بادشاہ ، صدیوں کا بادشاہ ، اس زمین کا بادشاہ اور آقائے جہاں کے شاہی خطابات حاصل تھے ۔اردشیر سوئم 26 ؍اگست سے 25 ستمبر؍358 قبل از مسیح ستاسی سال کی عمر میں اس جہان میں اپنا بے جان جسم چھوڑ کر فقط اپنی روح کو لئے پر اسرار عالم ارواح کی طرف کوچ کر گیا۔ مصر کے اکتیسویں شاہی خاندان کا پہلا فرعون بھی اردشیر سوئم بنا ۔ اردشیر سوئم اردشیر دوئم کا بیٹا تھا اور تخت تک پہنچنے سے پہلے ایک ریاست کا صوبیدار اور اپنے باپ کی فوج کا کمانڈر بھی تھا۔ اردشیر سوئم اپنے ایک بھائی کی شہادت ، دوسرے کی خود کشی ، تیسرے کے قتل اور اپنے چھیاسی سالہ باپ کی وفات کے بعد تخت نشین ہوا۔ تخت نشین ہونے کے بعد اردشیر نے Bagoas کی (جو ایک عیار اور شاطر خواجہ سرا تھا اور جس کے ذمے اُمورِ حرم کو سنبھالنا تھا) مدد سے تمام شاہی خاندان کو قتل کر دیا تا کہ اس کی تخت پر گرفت مضبوط رہے۔ Bagoas اس خدمت کے عوض اردشیر سوئم کا وزیر بن گیا۔ 343 (ق م ) میں اردشیر سوئم مصر کے فرعون NectneboII کو شکست دے کر خود مصر کا فرعون بنا۔ Bagoas خواجہ سرا ایک کمزور صنف مگر مضبوط اور زہریلے اعصاب کا مالک تھا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تخت کے پیچھے تمام نظام ِ حکومت و طاقت کو ایک مُخَنَّث کنٹرول کر رہا تھا۔
تاریخ میں بے شمار شواہد ملتے ہیں کہ Bagoas خواجہ سرا اُس وقت کا امیر ترین شخص بن گیا۔ اردشیر سوئم کے دورِ حکومت کے آخری سالوں میں فلپ دوئم کی طاقت یونان میں بڑھ رہی تھی۔ اُس نے یونانی لوگوں کو اردشیر سوئم کے خلاف بغاوت پر اُکسانا شروع کیا۔ اس کی ان کاوشوں کی وجہ سے Perinthus کے شہر نے مزاحمت کی ۔ اردشیر سوئم نے اپنے آخری سالوں میں اپنا ایک نیا محل تعمیر کیا اور اپنا مقبرہ بھی بنایا۔اردشیر سوئم اب بیگوس کے ہاتھوں سے نکلتا جا رہا تھا کیونکہ وہ اپنا دماغ اور تجربہ استعمال کرنے لگا تھا ساتھ ہی دربار کی اہم شخصیات ’’بیگوس ‘‘ کے خلاف تھیں ۔وہ ارد شیر سوئم کو ’’بیگوس ‘‘ کے خلاف مشورے فراہم کرتی رہتی تھیں۔ اس لئے وہ ’’بیگوس ‘‘ کے خلاف ہو گیا۔ بیگوس نے صورتحال کو جلد بھانپ لیا اور اردشیر سوئم کو زہر دے کر ختم کر دیا۔ اردشیر چہارم اردشیر سوئم کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا اُس کا بادشاہ بننا قطعی ممکن نہ تھا۔ مگر غیر متوقع طور پر اُسے تخت نشینی کے لیئے اُبھارا گیا اور یہ کام خواجہ سرا بیگوس کا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اردشیر چہارم کو کٹھ پتلی بادشاہ کے طور پر استعمال کر نا آسان ہوگا۔
اردشیر چہارم نے تمام شاہی خاندان کو بیگوس کی مدد سے قتل کر دیا اور تخت نشین ہو گیا۔ اردشیر چہارم جلد بیگوس کا مخالف ہو گیا ۔ اور شاہی دربار کے اہم لوگوں کے مشورے سے بیگوس کو زہر دینے کا منصوبہ بنایا مگر بیگوس ہر بار کی طرح زیادہ متحرک نکلا۔ اور اردشیر چہارم Arses کو پہلے زہر دینے میں کامیاب ہوگیا۔ پھر بیگوس نے اردشیر چہارم کے ایک کزن کو اُبھارا ۔اور Darius iii کو تخت نشین کروادیا ۔ Darius III نے تخت نشین ہوتے ہی سب سے پہلے ’’ بیگوس ‘‘ سے جان چُھڑانے کی سوچی۔ وہ ’’ بیگوس ‘‘ کے اثر کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ تھا۔ اس مصری خواجہ سرا بیگوس نے حالات کو بھانپتے ہوئے DariusIII کو بھی زہر دینے کا منصوبہ بنایا مگر اس بار Darius III سبقت لے گیا ۔ اور بیگوس کو ایک بوند زہر کے آگے ہار ماننا پڑی ۔ تاریخ نے یہ تو ثابت کر دیا کہ زہر دشمن کے خاتمے کے لئے کافی ہوتاہے۔اس لئے احتیاط لازم ہے۔ کیا پتہ ایک بوند زہر کس کے حلق میں اُترنے کی منتظر ہو ؟
بھارت میں عالمی وبا کورونا وائرس کے خوف سے ایک خاندان کے تین افراد نے زہر پی لیا جس کے نتیجے میں ماں اور بیٹے کی موت ہوگئی۔ میڈیارپورٹس کے مطابق پڑوسی ملک بھارت کی ریاست تامل ناڈو میں لکشمی نامی خاتون کے شوہر کی دسمبر میں موت واقع ہوگئی تھی، ابھی وہ اور ان کا خاندان اسی صدمے میں ...
نازی جرمنی کے حکمران ایڈولف ہٹلر کا ایک مجسمہ نیو یارک کے ایک نیلام گھر میں 17.2 ملین ڈالرز میں فروخت ہوگیا۔ یہ موم اور گوند سے بنے اس مجسمے کی توقعات سے کہیں زیادہ قیمت ہے۔ یہ مجسمہ ماریزیو کیٹلان نے بنایا تھا۔ اس سے قبل ان کے کسی بھی مجسمے کی زیادہ سے زیادہ قیمت 7.9 ملین ڈالرز ...
کچھ سال قبل محکمہ جنگلات کے ایک دفترمیں کباڑ (Un Serviceable articls ) کونیلام کیا گیا۔ تو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی پورٹریٹ اور بوسیدہ قومی پرچم کو بھی ایک ایک روپے کے عوض فروخت کر دیا گیا تھا۔اخبارات میں خبر کی اشاعت پر ڈویژنل فارسٹ آفیسر نے بڑے غرور کے ساتھ کہا...
اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے بیان پر جرمنی نے انتہائی سخت ردعمل کا مظاہرہ کیا ہے اور کہا ہے کہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ ہولوکاسٹ جیسے سانحے کی ذمہ داری جرمنی پر عائد ہوتی ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے گزشتہ روز ایک بیان میں کہا تھا کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران مفتی اعظم فل...
سپنس سے متعلقہ تحریں مجھے اپنے سحر سے نکلنے نہیں دیتیں۔ خاص کر مرڈر مسٹری کی دلدادہ ہوں۔مطالعہ کا شوق ورثے میں ملا ۔ دس سال کی عمر میں میری ایگتھا کرسٹی کی تحریروں سے اس کے ناول ’’مرڈر از ایزی‘‘ کے ذریعے سے شناسائی ہوئی۔یہ جادوئی اثر تحریروں کی خالق ناول نگارہ سے میری اولین مگر ا...
موسمی پھل اور سوغات کے تحائف ایک دوسرے کو بھجوانا ایک قدیم روایت ہے۔ ماضی قریب میں بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اﷲ خان اپنے ذاتی باغات سے آموں کی پیٹیاں تحائف کی صورت میں سیاستدانوں اور صحافیوں کا بھجوایا کرتے تھے۔ ا س قسم کی مختلف روایات آج بھی جاری ہیں۔ بیورکریسی کے اعلیٰ افسران...
قصے کہانیاں، ماضی کے واقعات بیان کرنا انسانی فطرت کا حصہ رہا ہے۔آج سے ہزاروں سال پہلے جب انسان گھنے جنگلوں اورغاروں میں رہتا تھا تو اس وقت بھی وہ کہانیوں اور قصوں کا دلدادہ تھا۔اس دور میں انسان کی تفریح کا واحد ذریعہ کہانیاں ہی تھیں۔انسان کا داستان گوئی سے تعلق ہمیشہ سے ہی رہا ہ...
بات پرانی ہے مگر اچانک یاد آگئی۔ امریکی صحافی ڈینس برِیو (Dennis Breo) کو ایک بڑی دلچسپ کتاب تالیف کرنے کا اعزاز حاصل ہے ، انکی کتاب کا نام ہے ’’ایکسٹرا آرڈی نری کیئر‘‘یعنی غیر معمولی احتیاط۔ یہ کتاب درحقیقت ایسے ڈاکٹرز کے مشاہدوں پر مبنی ہے جو مشہور شخصیات کے معالج رہے ۔ ڈاکٹ...
آسیب ایک خوبصورت لفظ ، بھیانک اثر کے ساتھ اپنے اندر پر اسراریت کا انبا ر سمیٹے ہوئے ہمارے ذہن پر اثر اندازہوتا ہے۔کبھی آسیب خوابوں میں آکر ہمیں پریشان کرتے ہیں۔ اورکبھی کبھی حقیقت کو بھیانک بنا دیتے ہیں۔ یکسانیت موت سے مماثلت رکھتی ہے۔ اور مجھے اس سے نفرت ہے۔اسی لئے ہر جگہ تبد...
ہمیں یہ سب کچھ کمرۂ جماعت میں تاریخ پڑھنے یا ٹیلی وژن کے جھرونکے سے ماضی میں جھانک کر ہی پتہ چلا ہے۔ اپنی آنکھوں سے ہم نے ان میں سے کچھ بھی نہیں دیکھا۔ ان تصاویر سے ہمیں ایک مختلف عہد کے چند واقعات کے بارے میں مختصر اور دلچسپ زاویے سے دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ مثلاً چاند پر پہنچنے ...